واہ ری قسمت ،تیرے بھی کیا کہنے! مَیں جو کہ دوسروں کی داستانیں لکھنے والا ہوں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری اپنی ایک کہانی خود بخود بن گئی۔ یہ مجھ سے ‘‘اُوپر کی کہانی’’ تھی، درمیانی نہیں، نیچے والی بھی نہیں کہ جہاں میں کھڑا تھا۔ یہ اوپر، درمیان اور نیچے…… بھلا کیا بات ہوئی؟ آپ نے سوچا، پھر سوچا اور پریشان سے ہو گئے۔ مَیں نے بھی سوچا تھا اور پریشان ہو گیا تھا۔ بات بہت مزے کی نہ تھی لیکن حقیقی ضرور تھی۔
ہماری ایک چھوٹی سی فیملی ہے۔ میرے والدین، میں خود اور دو چھوٹی بہنیں۔ وقت نے جیسے جیسے موقع دیا، دونوں بہنیں اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ اب گھر میں صرف تین فرد رہ گئے۔ اکثر والدہ اصرار کرتیں: ‘‘اب تُو سہرا باندھ لے، زیادہ دیر نہ لگا’’۔ والد بھی اُن کی تائید کرتے۔
جب کوئی بہن بھولے بھٹکے انداز میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گھر آتی تو مجھے یہی کہتی: ‘‘بھائی، کب تک اکیلے اکیلے رہو گے، کہو تو بھابی لے آؤں؟’’ دوسری آتی، اس کا بھی یہی انداز: ‘‘بھائی تم بس ہاں کرو، ایک جوان خوبصورت بھابی تمہارے قدموں میں، نہیں نہیں، میرا مطلب ہے، تمہارے برابر لا کر بٹھائے دیتی ہوں!’’
ایک روز میری والدہ کی ہم عمر ایک سہیلی جانے کہاں سے د و تین فوٹو اٹھا لائی اور مجھے کہا: ‘‘لے ناصر، ان میں سے کوئی ایک پسند کر۔ پھر شادی والے دن تم میرا ڈانس دیکھنا۔’’ میں ان سب باتوں کے جواب میں مسکرا دیتا اور کیا کرتا۔ بھائیں بھائیں کرتی جیب تھی اور دل بھی خالی، کوئی اس میں تصویر جاناں تھی ہی نہیں۔ کبھی پہلے ایک ہُوا کرتی تھی لیکن جب اچانک اسے کوئی امیر کبیر لڑکا بیاہ کر لے گیا تو میں نے اس خاص چہرے کی مسکراتی تصویر کو کھرچ ڈالا۔
اب حال کے زمانے کی بات کیا کروں۔ وہی ایک جیسے ٹھہرے ٹھہرے دن اور راتوں میں بستر بھی گرمائش سے خالی۔سو، ایک خاص طرح کی بے نیازی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اب وہی میری گائڈ تھی۔
ایک دن میں آفس سے گھر آیا تو جانے کیسے امّی کو بیٹھے بیٹھے تاؤ سا آ گیا۔
‘‘بات سُن رے لڑکے، پنڈی کے اسی رام پورے محلے میں ہمارے دور کے عزیز رہتے ہیں۔ ان کی مسز نے کئی بار مجھے اچھا رشتہ بتانے کا کہا ہے۔ تُو پرسوں یعنی اتوار والے دن میرے ساتھ ان کے ہاں چٖل۔’’
پیدل کا راستہ تھا۔ مقررہ وقت پر ہم دونوں ان صاحب کے گھر کی جانب چل پڑے۔ یہ میرا پہلا موقع تھا کہ میں رشتے کے لیے خود کو دکھانے اور منظور کرانے کسی گھرانے کی طرف جا رہا تھا۔ایک عجیب سی کیفیت لیے ہوئے، ایک طرف میرا دل بلیوں اچھل رہا تھا اور دوسری طرف میں گویا ہاتھوں میں خوشی کے دیپک بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
مطلوبہ گھر کے دروازے پر پہنچے تو صاحب خانہ اور ان کی بیگم نے ہمارا استقبال کیا۔ مجھے دیکھ کر محترمہ بولیں: ‘‘ارے ناصر تم، کافی بڑے ہو گئے ہو۔ تمہاری آنٹی رحمانہ کی شادی میں تمہیں چھوٹا سا دیکھا تھا۔’’ میں جواباً مسکرایا۔ ہم اندر جا بیٹھے۔ چائے آ گئی۔ اور اسی دوران صاحب خانہ نے میرا خاصا طویل انٹرویو لیا۔ بات میرے روزگار کی آئی تو انہوں نے پوچھا: ‘‘اچھا تو آپ نے کون سے اخبار میں کام کا بتایا تھا؟’’ جواب دیا ‘‘روزنامہ امنگ’’۔
‘‘ارے، یہ تو اچھا خاصا مشہور و مقبول اخبار ہے، کتنی تنخواہ ہے؟’’
‘‘تین سو روپے ماہانہ، اس کے علاوہ کچھ اوورٹائم بھی۔’’
‘‘بس؟ اور اوپر سے کتنے بن جاتے ہیں؟’’
‘‘انکل، حلال کی کھاتا ہوں، والد کی بھی مجھے یہی ہدایت ہے۔’’
انہوں نے بُرا سا منھ بنایا اور میز سے اُٹھ کر صوفے پر جا بیٹھے۔ ان کے ساتھ ہم بھی۔ میں نے غور سے دیکھا، ڈرائنگ روم کے دروازے کا پردہ مسلسل ہل رہا تھا۔ جانے اس کے پیچھے کون تھا یا تھی۔ شاید وہ ہستی لک چھپ کر میری شکل کی جھلک دیکھنا چاہتی ہو گی حالانکہ میری فیس ویلیو بھلا کیا تھی۔
‘‘بات یہ ہے ناصر صاحب!’’ محترم نے پھر سے بات کا سرا جوڑا۔ ‘‘میں نے ریلوے میں تیس / پینتیس سال بطور گارڈ سروس کی ہے، برٹش دور سے آغاز لیا تھا۔ آپ کی طرح تن خواہ کم تھی لیکن اوپر سے کافی پیسے بن جاتے تھے۔ یہاں تک روزانہ سبزیاں، پھل، فروٹ بھی مل جاتے تھے اور بغیر کہے، بن مانگے۔ سو، بات شخصیت کی بھی ہوتی ہے۔’’ ہم ماں بیٹا خاموش بیٹھے ان کا کہا سنا کیے۔
‘‘آپ کو ہم سوچ کر جواب دیں گے’’ ان کی اسی بات کے ساتھ ملاقات ختم، موصوف کا جواب کبھی نہ ملا۔
اسلام آباد میں رحمانہ خالہ کے ہاں سے بلاوے پر بلاوا آ رہا تھا۔ امّی جان بوجھ کر ان کے ہاں نہیں جا رہی تھیں کیونکہ وہ میری چھوٹی بہنوں کی شادیوں میں شریک نہیں ہوئی تھیں، چمکیلے سے بہانے بنا دیئے تھے لیکن اصل وجہ تھی ان کے گھرانے کا اونچا پن۔ لیکن ایک روز بالآخر ہم چلے گئے۔ اس مرتبہ والد صاحب بھی ساتھ تھے۔ ٹیکسی اپنی تھی۔ خالہ اور خالو نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔شاہانہ قسم کے ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھایا۔ ہیوی ٹی پیش کی گئی۔ خالہ نے چند منٹ کچھ ماضی اور حال کی باتیں کیں۔ پھر خالو نے اصل بات شروع کی۔ خدا جانے یہ کوئی انٹرویو تھا یا کسی مجرم سے پوچھ گچھ۔ سوال و جواب ہوتے رہے۔
‘‘تو پھر آج کل کون سے اخبار میں ہیں آپ، اور کس پوسٹ پر؟’’ میں نے جواب دے دیا۔
‘‘اتنے اچھے اخبار میں آپ کی تن خواہ تو معقول ہو گی؟’’
‘‘بس اﷲ کا شکر ہے’’۔
‘‘پھر بھی کوئی فگر تو بتائیے’’۔ تن خواہ کا فگر بتایا تو ان کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ آنکھوں کے زاویے بنے اور آنکھوں میں ہی کہیں گم ہو گئے۔ اس کے بعد وہی ‘‘اوپر سے کیا کچھ؟’’والا سوال۔
‘‘اوپر سے کچھ نہیں، وہی حق حلال کی روزی’’۔ خالو بیٹھے بیٹھے کچھ سمٹ گئے۔ بولتی بھی بند ہو گئی۔ فوراً خالہ اور خالو نے الگ جا کر مشورہ کیا، پھر واپس صوفے پر آ بیٹھے۔
‘‘سوری بہن، جتنی تن خواہ بتائی ہے اس میں تو ہماری بیٹی تنگ دست ہی رہے گی جبکہ مکان بھی آپ کا اپنا نہیں ہے۔’’
ہم تینوں واپسی کے لیے اٹھے۔ خالہ اور خالو ہمیں الوداع کہنے گیٹ تک آئے۔ ‘‘یہ ٹیکسی آپ کی ہے؟’’
‘‘جی ہاں’’۔ دونوں کا منھ پھر بن گیا۔ آنکھوں سے حقارت ٹپکنے لگی لیکن بولے کچھ نہیں کیونکہ منفی جواب تو وہ پہلے ہی دے چکے تھے۔
ان دو ناکامیوں اور ‘‘اوپر’’ کا بوجھ سر پر لیے میں چند دن خاموش خاموش رہا لیکن جلد ہی روٹین نے مجھے اپنی جانب پوری طرح کھینچ لیا۔ امیّ کو بھی چُپ سی لگی ہوئی تھی۔ایک روز بول پڑیں۔
‘‘بیٹا، چھوڑو یہ اخبار کی تین سو روپلی ماہانہ، اور کوئی اچھا کام کرو۔’’
‘‘جی بہتر ہے امّی جان۔’’
چند ماہ بعد لاہور سے بیک وقت دو شادیوں کے دعوتی کارڈ ملے۔ دونوں تقریبات کی تاریخیں آگے پیچھے تھیں۔ والدہ خوش ہو گئیں کہ چلو وہاں ہمارے بہت سے عزیز ہوں گے۔ ناصر کے لیے کوئی نہ کوئی لڑکی مل ہی جائے گی۔ پہلی شادی کرشن نگر میں تھی۔ سبھی مہمانوں کے ساتھ ہماری بھی خوب آؤ بھگت کی گئی۔جلد ہی اکثر مہمانوں کو پتہ چل گیا کہ پنڈی والا ناصر ابھی تک کنوارا ہے تو شادی کی تقریب کے بعد مجھے چند رشتہ داروں نے گھیر لیا۔
‘‘ کب کرو گے شادی، عمر تو یہی ہے’’ اس کے بعد وہی روایتی سوالات: ملازمت کیا ہے، دفتر کونسا ہے اور پھر ‘‘اصل’’ سوال تن خواہ والا۔ تن خواہ کا ہندسہ سن کر سبھی کے منہ لٹک گئے۔
‘‘ناصر میاں، تن خواہ تو جو ہے سو ہے ‘اُوپر’ سے کیا بن جاتا ہے؟’’
‘‘اوپر سے کچھ بھی نہیں، بس رزق حلال’’۔
‘‘یہ تو کچھ نہ ہوا’’۔ سبھی رشتہ دار اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے۔
دو دن کے بعد ہم دھرم پورہ میں تھے۔ یہاں بھی تقریباً وہی رشتہ دار مدعو تھے۔ فنکشن کے بعد مَیں ایک بار پھر ‘‘پکڑا’’ گیا۔ ‘‘ہاں بتاؤ، آپ نے شادی اب تک کیوں نہیں کی؟’’ وجوہات کئی تھیں، سب بتا دیں۔
‘‘نوکری تو آپ اچھے اخبار میں کرتے ہیں، تن خواہ بھی اچھی ہو گی؟’’
ہاتھ میں آنے والی تن خواہ بتا دی۔ ‘‘اوپر’’ سے کتنے بن جاتے ہیں؟
اوپر، اوپر، اوپر اسلام آباد سے راولپنڈی اور اب لاہور تک یہی ایک سوال۔ اس نے مجھے پاگل کر دیا۔ مَیں تو اچھا بھلا زمین پر ہوں، پھر ‘‘اوپر’’ کا کیا سوال؟ ہم اسی سوال کا بوجھ لیے پنڈی لوٹ گئے۔
چار دن بعد اتوار تھا۔ اسی روز امّی کی ایک پرانی واقف کار بیوہ خاتون ہمارے گھر آئی۔ ساتھ میں ایک دھان پان سی سانولے سلونے چہرے والی لڑکی بھی تھی۔ کچھ دیر خاتون اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی۔ پھر کہا۔ ‘‘باجی، مجھے جلد گھر جانا ہے’’۔ اس کے ساتھ ہی وہ اٹھی اور لڑکی کا ہاتھ امّی کے ہاتھ میں دے دیا۔
‘‘اوپر اﷲ ہے اور نیچے آپ’’ امیّ نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔‘‘میں بیوہ ہوں۔ لینے دینے کی بات کر ہی نہیں سکتی۔’’ وہ گیلی آنکھیں دوپٹے کے پلّو سے پونچھنے لگی۔
امیّ اب تک خاموش تھیں۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے رحم چھلک رہا تھا۔ آخر بولیں: ‘‘جو کچھ کرے گا لڑکا ہی کرے گا اور ظاہر ہے اپنی سوچ کے مطابق۔’’
‘‘میں نے اپنی درخواست دے دی ہے، اب جو آپ کا فیصلہ ہو’’۔ اس کی آنکھیں پھر گیلی ہو گئیں۔
مہمان خاتون کے واپس جانے سے قبل ماں کا بیٹا سر خم کر چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔