"چلو اے جانِ جاں،اب ایسا کرتے ہیں"
کرونا وہ رقیبِ جاں طلب ہے
جو بے آواز چلتے چلتے روئیِ زندگی کی
آخری تہہ میں اتر کر مارتا ہے
سو، اے میرے محبت ذاد
میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے
کام کرنے ، باتیںکرنے کے لئے
اک ہاتھ کی دوری کو ہم دونوں اگر قائم رکھیں گے
تو محبت بھی ہمارا ساتھ دے گی
یہ دوری بھی عجب دوری ہے
جو پہلے زمانوں میں بڑی اچھی لگا کرتی تھی
اُس میں بھی محبت کیطرح کی اک کشش ہوتی تھی
اور ہم ، ہم اُس دوری پہ رہ کر بھی
ہمیشہ ساتھ رہتے تھے
مگر وہ دن ؍وہ دوری اور محبت کا زمانہ اور تھا
یہ اور ہے
اُن دوریوں میں ایک لذت اور محبت اور صداقت تھی
مگر جسموں کی ان سرگوشیوں میںاب
محبت کی ہوس ہی رہ گئی ہے
نہ جانے ہے بھی ۔۔۔یا ۔۔۔چھوڑو
چلو اے جانِ جاں
ہم اس محبت کو صداقت اور عداوت بھی دکھاتے ہیں
چلو۔۔۔۔بس اک نظر کے فاصلے پر رہ کے اب
ہم اس رقیبِ جاں طلب کی جان لیتے ہیں
نظر کا فاصلہ میلوں کا ہو کر بھی پلک بھر کا ہی ہوتا ہے
سواے جانِ وفا یہ دھیان رکھنا ہے
نہ مجھ کو چھو کے تجھ تک اور نہ تجھ کو چھو کے مجھ تک
یہ کرونا آسکے
یہ ترسے؍۔۔۔ہمارا خون پینے کے لیے ترسے
اس قدر ترسے ؍کہ میری اور تمھاری
دوری کے صحرا میں جل بُھن کے یہ مرجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔