ایوری تھنگ از فیئر ان love وار اینڈ چکار۔ یہ قول اس شخص کا ہے جو علم وادب کے کئی محاذوں پر بیک وقت اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا رہا ہے۔ جو کالم نگار بھی تھا ، معلم ، محقق ، دانشو اور منتظم بھی۔ ہاں ہاں وہی اپنا پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد مغل۔ وہ ایم اے اردو ، ایم اے فارسی ، ایم اے پنجابی اور پی ایچ ڈی تھا۔ ایک با صلاحیت اور ہونہار شخص۔ ایک دلربا شاعر ، لاجواب دوست ، نفیس استاد اور کامیاب کالم نگار۔ حساس اور زود رنج۔ اس کا چہرہ اس کی کیفیات کو چھپا نہیں پاتا تھا۔ خوش ہوتا تو چہرہ قوسِ قزح لگتا۔ دکھی ہوتا تو چہرہ یوں ہو جاتا جیسے چھوئی موئی خطرے سے سمٹتی ہے۔ وہ سیگریٹ اور چائے کا رسیا تھا۔ دوستوں میں ہوتا تو گھنٹوں محفل جمی رہتی۔ بعض دفعہ سڑک کنارے گھنٹہ گھنٹہ بھر دوستوں سے گفتگو جاری رہتی۔ فطین اور انتھک ، پاک دل و پاکباز۔ نہ حسد نہ کینہ ، صاف گو لیکن ناقدری کا مارا ہوا۔ سول سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے پر پوسٹنگ ہوئی تو سیکرٹری سروسز جو ایک بد طینت شخص تھا ، نے کمرہ دینے میں لیت و لعل کیا۔ میں آگے بڑھ کر اسے اپنے کمرے میں لے آیا اور ٹیبل لگا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ جب میں باہر جاتا تو اصرار کرکے اپنی کرسی پر بٹھا جاتا اور یوں خوب گزرنے لگی۔ اس ناقدری کو دیکھتے ہوئے جناب خورشید احمد چودھری ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اسے وہاں سے نکال لائے اور میاں محمد بخش لائبریری میرپور کا ڈائریکٹر تعینات کردیا۔ اس تعیناتی سے وہ مطمئن تھا۔ مزاجوں کے تضاد کے باوجود وہ اور احمد عطااللہ ہمیشہ اکٹھے نظر آتے بلکہ گاڑھی چھنتی۔ احمد عطا دن بھر جو لطیفے سناتا وہ اگلے دن ڈاکٹر افتخار کسی نہ کسی انداز میں اپنے کالم کی زینت بنا دیتا۔ عطا میں یہ کمال ہے وہ موقع محل کی مناسبت سے ایک لطیفے کے کئی کئی ایڈیشن پیش کردیتا ہے لیکن لطیفہ پھیکا نہیں پڑتا۔
9 اپریل 2011 ع ، میں بورڈ آف ریونیو میں عطا کے پاس بیٹھا تھا کہ افتخار آیا ، کھڑے کھڑے سلام دعا کی۔ اسے دیکھ کر مجھے اس پر والہانہ پیار آیا اور میں نے بیٹھنے پر اصرار کیا۔ کہنے لگا سر سے مل کے آتا ہوں اور وہ سینیئر ممبر خورشید احمد چودھری صاحب سے ملنے چلاگیا۔ تھوڑی دیر بعد آیا اور دروازے سے ہی کہنے لگا ، کل بیٹھیں گے ، یہ کہہ کر چل دیا۔ اس دن غالباً میرپور سے آیا تھا۔ اس کے چہرے پر معصومیت اور بلا کا اطمینان تھا۔ آخری سالگرہ پر اس نے صرف مجھے ہی نہیں ، سبھی دوستوں کو ٹیکسٹ کیا کہ دعا کریں یہ سال اس کی شہادت کا سال ہو جائے۔ کیا خبر تھی ، کل کا پروگرام تو۔۔۔ پاؤں پسار کے سوئیں گے کنجِ مزار میں۔ ۔۔ کا تھا۔ دوسری شام افتخار کے چھوٹے بھائی اسد نے فون کیا کہ بھائی کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ میرے پائوں تلے سے تو زمین ہی نکل گئی۔ چودھری صاحب نے بلایا۔ بارش زوروں پر تھی۔ ہم افتخار کے گھر گئے۔ وہ واقعی منہ موڑ گیا تھا۔ ابھی اس کے جینے کے دن تھے۔ اتنی جلدی اس نے موت کے ہاتھ میں ہاتھ کیوں دے دیا !؟ یہ ایک معمہ ہے۔ اس کی موت میرے لئے ایک ایسا مرثیہ ہے جو ابھی تک شعر میں نہیں ڈھلا ہے۔ میں جب بھی اس کے یہ شعر پڑھتا ہوں میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات اتر آتی ہے ع
ہمارے دل میں کہیں درد ہے ، نہیں ہے ناں
ہمارا چہرہ بھلا زرد ہے ، نہیں ہے ناں
سنا ہے آدمی مر سکتا ہے ، بچھڑتے ہوئے
ہمارا ہاتھ چھوؤ سرد ہے ، نہیں ہے ناں
سنا ہے ہجر میں چہروں پہ دھول اڑتی ہے
ہمارے رخ پہ کہیں گرد ہے ، نہیں ہے ناں
کوئی دلوں کے معالج ، کوئی محمد بخش
تمام شہر میں کوئی مرد ہے ، نہیں ہے ناں
وہی ہے درد کا درماں بھی افتخار مغل
کہیں قریب وہ بے درد ہے، نہیں ہے ناں
اس کے کیرئر سے بھی کھلواڑ کیا گیا۔ وہ آزادکشمیر پبلک سروس کمیشن میں لیکچررز کے انتخاب اور ان کی موزونیت کی جانچ میں معاونت کے لئے ماہر مضمون کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتا رہا ہے لیکن اس وقت کے چیئرمین پبلک سروس کمیشن نے ڈاکٹر افتخار مغل کو اسسٹنٹ پروفیسر کی آسامی پر براہ راست ترقیابی کے لئے محض اس لئے ناموزوں قرار دے دیا کہ اس نے موصوف کے ذاتی مکان کے معاوضہ کا تخمینہ مروجہ قواعد اور مارکیٹ ریٹ کے مطابق تجویز کیا تھا جس پر جناب چیئر مین نا خوش تھے۔ اس طرح وہ شخص جو اپنے مضمون میں ڈبل گولڈ میڈلسٹ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل تھا اس کا کریئر ایک شخص کے خبثِ نفس کی بھینٹ ہو گیا۔لہو لہو کشمیر ، تخلیق ، انکشاف ، بھونچال اور محبت اس کے شعری مجموعے ہیں۔ انصاف کا سفر چیف جسٹس ریاض اختر چودھری کی سوانح ہے جبکہ رانگ نمبر اس کے کالموں کا غیر مطبوعہ مجموعہ ہے۔اس کی دوسری شادی ایک جذباتی حادثہ تھی۔ وہ پختہ کلام شاعر تھا۔ مصرعوں کی چولیں کسی ہوتی تھیں اور شعروں کے جوڑ کھڑکھڑاتے نہیں تھے۔ فطرت نے اسے شاعر پیدا کیا تھا۔ شعر ، فکروخیال کی ٹکسال میں ڈھل کے نکلتے تھے ، کھنکتے سکوں کی طرح ، موسیقی سے لبریز ع
اب کہاں شہر میں آئینہ تن تم جیسے
لے گئے باندھ کے سب روپ کے دھن تم جیسے
ہم میں شکتی ہے بچھڑ جانے کی ہم ہجر نصیب
چھوڑ آئے ہیں کئی لعلِ یمن تم جیسے
کون لکھے تیرے مصرعے پہ غزل تجھ سی فراز
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سخن تم جیسے
ڈاکٹر افتخار مغل نے زندگی کا بوجھ اتارنے سے پہلے کلفتوں اور رنجشوں کا بوجھ اتار پھینکا تھا۔ اس نے سب کو معاف کردیا۔ ان کو بھی جنہوں نے اقتدار کی رعونت میں اس کے حقوق غصب کیے تھے۔ وہ ہلکا پھلکا اور ہر آلائش سے پاک ہو کر اللہ کے حضور جا حاضر ہوا۔ اس کی آخری غزل ہی اس کا مرثیہ ہے۔ وہ اپنی لاش کا ماتم کرکے گیا ہے اور یہ غزل ہی اس کا کتبہ ہو گئی۔
وفائیں نیک تمنائیں ،احترام دعا
میری طرف سے زمانے تجھے سلام دعا
میں رفتنی ہوں مجھے مل گیا ہے اذنِ سفر
یہاں پہ اب کے نہیں میرا کوئی کام دعا
میرے خدا نے مجھے سرخرو کیا ہے سو اب
سبھی کو عام معافی سبھی کو عام دعا
مجھے غروب سے پہلے کہیں پہنچنا ہے
میرے عزیزو کہ اب ڈھل رہی ہے شام دعا
سبھی حریفوں حلیفوں کو افتخار مغل
ہمیشہ خیر سدا معذرت مدام دعا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔