جو بَس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے
تری چاہت میں مَر جانا ضروری ہو گیا ہے
ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر
نہیں جانا تھا‘ پر جانا ضروری ہو گیا ہے
ستارا جب مِرا گردش سے باہر آرہا ہے
تو پھر دل کا ٹھہر جانا ضروری ہو گیا ہے
درختوں پر پرندے لَوٹ آنا چاہتے ہیں
خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے
اندھیرا اِس قدر گہرا گیا ہے دل کے اندر
کوئی سورج اُبھر جانا ضروری ہو گیا ہے
بہت مشکل ہوا اندر کے ریزوں کو چھپانا
سو اب اپنا بکھر جانا ضروری ہو گیا ہے
تجھے میں اپنے ہر دُکھ سے بچانا چاہتا ہوں
ترے دل سے اُتر جانا ضروری ہو گیا ہے
نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اِس دل پہ حیدرؔ
پُرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔