کتاب :رقصِ شرر ( خود نوشت)
مصنف: مَلِک زاد ہ منظور احمد
ضخامت:576? صفحات، قیمت:500 روپے پتہ: سیمانت نگر ، کنچن بِہاری مارگ ، لکھنو۔226022
ڈاکٹر مَلِک زادہ منظور احمد اُردو دُنیا میں ایک مشہور نام ہے وہ شاعر تو ہیں مگر اْن کے اس وصف پر ایک دوسرا وصف غالب ہے جسے مشاعرے کی نظامت کہتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے دُنیا جہان میں معروف ہیں بلکہ مقبول ہیں نیز یہ بھی کہہ دیا جائے تو ہر گز غلط نہیں کہ انہوں نے اس کام کو اپنے علم اور ذہانت سے ایک پُر وقار فن بنا دیا ہے۔ وہ اسی حوالے سے دْنیا بھر میں بلائے گئے اور عزّت ،محبوبیت بلکہ دولت نے بھی انکے قدم چومے۔
عمر کے76 ویں پائیدان پر قدم رنجہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا وہ بہت سارے صاحبِ بصارت نہیں دیکھ پاتے، اس میں ان(ملِک زادہ) کی بصارت ہی نہیں بصیرت کو بھی دخل ہے۔ بصارت اور بصیرت کے اس اتصال نے ان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پہنچنے کی کوشش میں لوگ عمر تمام پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کا مطلوب ہنوز اُن سے دور ہوتا ہے۔ کچھ خوش بخت ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس ان کی طلبیدہ خود پہنچ جاتی ہیں ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد انہیں خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔ ہمارے پیش نظر جو کتاب ہے وہ اسی شخص کی خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ اپنی شناخت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اس کتاب میں انہوں نے نہ صرف اپنی رودادِ حیات رقم کی ہے بلکہ دُنیا جہان کے نقش ونگار بھی اس میں جگمگا رہے ہیں اور وہ شخصیات بھی زندہ ہوگئی ہیں جو کسی زمانے میں مشہور بھی تھیں اور مقبول بھی مگر افسوس اور جائے عبرت ہے کہ آج اُن کے نام سے بھی اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ ان میں شاعر وادیب ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی ہیں۔
رقصِ شرر، کے پڑھنے والے کے ذہن پر تمام کمال و جمال کے ساتھ ملک زادہ منظور احمد کی پوری شخصیت کی چھوٹ پڑرہی ہے۔ اس میں درج بہت سارے واقعات تاریخ تو نہیں مگر تاریخ کی ترتیب میں معاون و ممدو ثابت ہونگے۔جس میں دور ِگزشتہ ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ عصر جدید کی روئیداد روزِ آئندہ کے قاری کو بھی مستفید کرے گی۔ یہ کتاب اُردو کے سوانحی شعبے میں ایک اضافہ ہے۔ اس کے اقتباسات وقتاً فوقتاً دُہرائے جائیں گے مگر اداء جعفری کی سوانحی سرگزشت’’ جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کی پذیرائی کی ایک تقریب میں جمیل الدین عالی نے ایک بات کہی تھی جو اِس کتاب کو پڑھتے وقت بار بار یاد آئی کہ ہمیں کسی کی سرگزشت ، سوانح یا کوئی کتاب پڑھتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس میں مصنف نے ادب کو کیا دِیا یا اس میں ادب کتنا ہے؟ اس نقطہ نگاہ سے اس کتاب پر جب نظر ڈالی جا ئے گی تو ان شا اللہ قاری قطعاً مایوس نہ ہوگا۔ رقصِ شرر میں زبان وبیان کی دلکشی بھی ہے اور معنی آفرینی بھی جو اِس دور کے اکثر لکھنے والوں میں کمیاب ہے۔
’’ شبِ زفاف‘‘ اور’’ تملق ‘‘وہ لفظ ہیں جنھیں اس کتاب میں پڑھ کر اسلافِ ادب یاد آ ئے اور بیساختہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کیلئے دعا کے کلمات زبان پر تھے کہ اللہ ان کو صحت کے ساتھ عمردراز دے۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر یہ بھی محسوس ہو اکہ کتاب کے مسودے پرڈاکٹر موصوف نظرِ ثانی نہیں کر سکے۔ مثلاً ’’دن بہ دن‘‘ اور ’’ واپس لوٹے‘‘ جیسے الفاظ اس میں کئی جگہ اپنی معنوی تکرار کے ساتھ ہمیں منہ چڑا رہے ہیں اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد واپس ہونے یا لوٹنے کے معنی یا دن بہ دن اور روز بہ روز میں صحیح غلط سے نابلد ہیں بلکہ یہ وہ سہو ہے جو ہمارے اکثر اہل قلم سے سرزد ہوتا رہتا ہے مگر غلطی تو غلطی ہے وہ کسی سے بھی ہو۔ اس کامطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ مبصر کسی کے علم کو چیلنج کر رہا ہے دراصل ہمارے ہاں بہت ساری غلطیاں یوں بھی رواج پاگئی ہیں کہ لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ’’کون ٹوکے !‘‘ مگر ہم جیسے لوگ چھوٹے سے چھوٹے لفظ کی حرمت کو بھی پامال نہیں دیکھنا چاہتے اگر یہ جرم ہے تو ہم اس کا اقبال کرتے ہیں اور اس شعر کے ساتھ رقصِ شرر کے تعارف کو تمام کرتے ہیں:
’’ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیے صاحب!
کہ اس مکان میں اِک عمر تک رہے گا کوئی ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔