جب ایوب خاور کا تیسرامجموعہ’’بہت کچھ کھوگیاہے‘‘شائع ہورہا تھا، انھی دنوں اُس نے ذکرکیا کہ اس کی اگلی کتاب ’’محبت کی کتاب‘‘ہوگی جو ساری کی ساری شعری پیرایے میں ہوگی، یعنی اس کا بیانیہ،منظر نامہ اور ہدایات سبھی کچھ شاعری میں ہوگا۔میں نے اس کی بات پراتنی توجہ نہ دی لیکن بعدمیں اس کامسودہ دیکھ کر ایک خوش گوار حیرت ہوئی۔
کتاب کے صفحات کو پہلی نظر میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس نے بہت سوچ سمجھ کر کتاب مرتب کی ہے، یعنی بیانیے، منظر نامے، مکالمات اور ہدایات کے لیے اُس نے الگ الگ رسم الخط اور پوائنٹس کا انتخاب کیا ہے اور صفحے پرمکالمات ،منظرنامے اورہدایات کے آغازکے لیے الگ الگ مقامات متعین کیے گئے ہیں ۔ گویامجموعی طور پر ایوب خاور نے اپنی شاعری کی طرح کتاب کے صفحات بھی منفرد بنا کر پیش کیے ہیں، کم ازکم میں نے کسی کتاب کی ایسی تزئین نہیں دیکھی۔
’’محبت کی کتاب ‘‘میں ایک سادہ سی محبت کی کہانی ہے جو ایک ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر شروع ہوتی ہے اور دوسرے ویلن ٹائن ڈے پر جاکرختم ہوجاتی ہے ۔سادہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ محبت ایک سادہ ساہی جذبہ ہے جس کے اِردگرد بُنے جانے والے حالات واقعات اسے پیچیدہ، آسان،مبہم، فانی یا غیر فانی بناتے ہیں۔
ایوب خاورکی تیسری کتاب کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے :
بصری میڈیم سے گہرا تعلق ہونے کے باعث اس کی امیجری انتہائی بصری ہے اور جزئیات سے لب ریز،یعنی اس کی شاعری میں زندگی اپنی پوری باریکی اور تفصیل سے نظر آتی ہے اور یہی اس کے شعری ہنر کا امتیاز ہے اور یہی خاص طور پر اس کی نظم کا وصف بھی۔ڈراما نگار ہونے کے باعث ایوب خاور کے ہاں اکثر مقامات پر ڈرامائی عناصر بھی اپنی مخصوص اور پوری توانائی کے ساتھ اظہارپاتے ہیں۔
یہ کتاب پڑھ کر لگا کہ ایوب خاورنے اپنے شاعر،ڈرامانگاراورہدایت کار کوبہت خوب صورتی سے یک جاکردیاہے ۔اب سے پہلے میں نے صرف ریڈیائی ڈرامے یعنی منظوم ڈرامے سنے ہیں جن کا رواج بھی کب کا ختم ہوچکا ہے۔ اُن منظوم ڈراموں میں بھی کہانی شعر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے مکالمات کے ذریعے بیان کی جاتی تھی۔مگر یہ ڈراما دیکھنے سے زیادہ پڑھنے کی چیز ہے۔ ایک دل چسپ پہلو اس کہانی کا یہ ہے کہ بنیادی انسانی کرداروں کے ساتھ ساتھ ایوب خاورنے منظر نامے میں موجود اردگرد کی اشیا بھی کہانی کے کرداروں میں ڈھال دی ہیں اور کہانی کے مرکزی کرداروں پر خاور کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی مرضی کرنے سے قاصر ہیں۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ کہانی کے حالات وواقعات کرداروں کے مرہونِ منّت ہوتے ہیں ، لکھنے والا ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔پیراندیلوکے ایک ڈرامے میں تو ’’چھ کرداراپنے مصنف کی تلاش میں‘‘نکل کھڑے ہوئے۔سوال یہ ہے کہ کیا کردارمصنف کی تخلیق نہیں۔مصنف تو خودمعاشرے سے کردار وضع کرتا ہے پھر پیراندیلوکی یہ تلاش گھٹیامفروضہ ہے جو سوائے مضحکہ خیزہونے کے اورکچھ نہیں۔ ایوب خاور نے ثابت کردیا ہے کہ کرداروں کی باگ ڈورمصنف کے اپنے ہاتھوں ہی میں رہتی ہے اور رہنی چاہیے جو کہانی اور کرداروں کو ایک مسٹری کی طرح کھولتا چلا جاتا ہے، اپنے طے شدہ راستوں اور حالات واقعات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایوب خاور نے ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ایک سفید پھول کو محبت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے مرکزی کرداروں کے خون سے سرخ کرتے ہوئے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک ایسا Commentکیا ہے جس کی طرف کسی اورشاعرکا دھیان شایدابھی تک نہیں گیا۔ایوب خاور نے ویلن ٹائن ڈے کی محبت بھری سرخی کو دہشت گردی کی خونی دَل دَل میں ڈھال کر دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بے امنی اور خونی انقلابات کے خلاف احتجاج کیا ہے اور میں اپنے آپ کو اس احتجاج میں شامل سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔