ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتی ہوا میں بھی ایک گنگناہٹ تھی ، معطررقاص لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھ رہے تھے، وہ ذرا ایک طرف ہٹ کر کرسی کی ٹیک سے منہ ٹکائے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اسے خیال آیا ہر مرد کی حوّااس کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے ، پھر کہیں بچھڑ جاتی ہے اور ایک طویل عرصہ کاٹ کر دوبارہ اس سے آملتی ہے۔درویش کہاں سے چلا، مہینوں سالوں کی مسافتیں طے کر کے اس شہر میں وارد ہوا زندگی کی تگ و دو میں ہچکولے کھاتا شہر کی سڑکوں سے گزرا ۔ اس کی حو اجو اس کی پسلی سے پیدائش کے بعد اس شہر میں آباد تھی، لیکن وہ نہیں جانتا تھا، نہ پہچانتا تھا۔ سب کچھ ایک طے شدہ اندا ز میں ہوا ، پہلی رات اُس کا گھونگھٹ اٹھاتے ہوئے اس نے پوچھا۔۔۔ــ’’ معلوم نہیں میں تمہار ا آئیڈیل ہوں یا نہیں، لیکن تم میری آئیڈیل ضرور ہو‘‘
اس وقت تو وہ کچھ نہ بولی ۔ کئی دن بعداس نے سوال کا جواب دیا اور کہنے لگی ۔۔۔’’مشرقی لڑکیاں پہلی رات جس کے ساتھ بسر کرتی ہیں ، وہی ان کا آئیڈیل بن جاتا ہے ۔‘‘
اس نے کہا ۔۔۔۔ ’’نہیں یہ بات نہیں‘‘
’’پھر کیا ہے؟‘‘
’’دراصل ہر حوا اپنے مرد کی پسلی سے جنم لیتی ہے ، طویل بچھڑائو کے بعد جب وہ اپنے مرد کو ملتی ہے تو اپنی خوشبو پہچان لیتی ہے، اپنے بچھڑے آئیڈیل کو جا ن جاتی ہے ‘‘
وہ ہنسی۔۔۔’’میری اماں کہتی ہیں کہ جو ڑے اوپر بنتے ہیں یہاں تو صرف رسم ادا ہوتی ہے‘‘
یہ بات بیٹی کی شادی پر اسے پھر یاد آئی۔ بیٹی کسی دوسرے شہر میں ہوسٹل میں تھی، دو چار دنوں کے لیے آئی تھی اور وہ اس کے لیے کچھ خرید نے بازار نکلے تھے، دکاندار نے کہا کہ تیار ہونے میں ڈیڑھ دو گھنٹے لگیں گے۔ بیوی بولی۔ ’’چلو گھر ہی چلتے ہیں یہاں بازار میں کہاں رکیں گے۔‘‘
گھر کی طرف مڑے تو اسے خیال آیا ایک جاننے والے عرصہ سے بلا رہے تھے اور یہاں سے قریب بھی تھے ، کہنے لگا ’’ادھر نہ چلیں، ملاقات بھی ہو جائے گی اور وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘
سب کو تجویز پسند آئی ۔ وہاں ایک اور فیملی بھی آئی ہوئی تھی۔چائے پیتے باتیں شروع ہو گئیں۔ خاتونِ خانہ بولی۔ ’’ بھئی ان کے بیٹے کے لیے کوئی رشتہ بتائو ، بڑے اچھے لوگ ہیں‘‘
پھر جانے اسے کیا ہوا۔ بولی ۔۔ ’’ارے یہ جو بیٹی بیٹھی ہے ۔ باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
بیٹی کا تو جو حال ہوا ، وہ دونوں میاں بیوی ششدر رہ گئے۔ اس نے سوچا۔۔ کیسی نا معقول خاتون ہے، اس طرح بھی کوئی ایسی بات کرتاہے۔ شاید یہی کیفیت دوسرے مہمانوں کی بھی ہوئی ۔ الٹی سیدھی چائے پی کر انہوں نے جلدی کا بہانا کیا اور نکل آئے۔ راستے میں بیٹی کا موڈ تو خراب تھا ہی، اس کا اپنا غصہ دیکھنے والا تھا۔
بظاہر بات آئی گئی ہو گئی، لیکن چل پڑی۔۔ جس دن بیٹی کا نکاح تھا اس نے بیوی سے کہا ۔۔۔ ’’سمجھ نہیں آتا ، اس دن ہمیں کو ن وہاں لے گیا تھا۔‘‘
ایسے سوالوں کا جواب تو مرشد ہی دے سکتا تھا، لیکن مرشد کسی لمبی یا ترا پر نکلا ہو اتھا۔ اس رات سونے سے پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا ۔۔ ’’جو حوا جس مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے اس نے اسی کے پاس پہنچنا ہے۔‘‘
درویش نے پھر سفر آغاز کیا اور چلتے چلتے جنگل میں اس مقام پر پہنچا، جہاں مورنی مور کے گرد ناچتے ہوئے ایسی بے خود ہوئی تھی کہ اپنے پائوں کے بھدے پن کو بھی بھول گئی۔درویش نے سوچا یہ بے خود ہونا بھی کیا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے ۔ میں سے تُو اور تُو سے میں بن جاتا ہے ۔ لیکن حوا اپنے مرد کی پسلی سے جنم لے کر بھی میں ہی رہتی ہے ، ان میں سے کوئی کوئی ہی تُوکے مقام پر پہنچتی ہے۔ گویا ایک ہی وجود سے جنم لے کر بھی مَن وتوکا جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔ عظیم وجود میں سے ایک وجود اور اس وجود میں سے ایک حوا، نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ، جوا زل سے ابد تک جاری ہے۔
درویش خود ہی ہنس پڑا ’’یہ میں کس وسوسے میں پڑ گیا ہوں۔‘‘
’’اور وسوسہ ہونے کی نشانی ہے‘‘ کہیں قریب ہی سے مرشد کیآواز آئی۔
اس نے مڑ مڑ کر، دائیں بائیں ہر طرف دیکھا لیکن مرشددکھائی نہ دیا۔ ’’کیا میرے کان بج رہے ہیں ؟‘‘ اس نے سوچا، پھر کچھ دیر چپ رہ کر زور سے پکارا ۔۔ ’’ کیا تم ہو؟ ‘‘
’’ہاں میں ہوں‘‘ مرشد کی آوز آئی۔
اس نے پھر چاروں طرف دیکھا، لیکن مرشد نظر نہ آیا ، ’’شاید میں اسے آنکھوں سے تلاش کر رہا ہوں‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔۔ ۔ ’’اور وہ ایسی حالت میں ہے کہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہا۔‘‘
’’یہی سچ ہے ‘‘ مرشد کی سرگوشی سنائی دی اب اس نے پھر دیکھا، یہ دیکھنا آنکھوں سے نہیں تھا، اور اس نے دیکھا کہ مرشد مور بنا مزے سے بیٹھا جھوم رہا ہے اور مورنی اس کے گرد ناچ ناچ کر ایسی بے خود ہوئی ہے کہ اپنے پائوں کے بھدے پن کو بھی بھول بیٹھی ہے۔درویش ہنسا۔۔۔ ’’سچ ہے کہ ہر حوا اپنے مرد کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے ، بچھڑتی ہے لیکن کبھی نہ کبھی اپنی کھوئی ہوئی پسلی کو ڈھونڈ لیتی ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔