بگ بینگ دھماکے کے مدتوں بعد زمین کے گرم جوہڑوں اورتالابوں سے زندگی کے آغاز کے بعد کئی اقسام کے جاندار زندگی کا ثبوت مہیا کرنے کے لیے رینگ رہے تھے۔ کروڑ ہا سال گزرنے کے بعد جب انسان نما بندروں کی نسل کے چار بڑے گروہوںاورانگ، اوتان، چمپانزی اور گوریلانے ارتقائی عمل کا آغاز کیا تو مدتوں بعد انسان نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اشاروں کنایوں کو الفاظ کا روپ دینے کا آغاز کیا توسب سے پہلے جو لفظ دریافت ہوا۔ اس لفظ کو ایجاد تصور کرنا ان چار بڑے گرہوں کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ ایجاد اور دریافت کا فرق بہت جلد مٹ گیا۔ چہار گروہوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا۔ دنیا کا پہلا لفظ ہماری ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ دریافت ہے۔ یہ لفظ ہر جاندار کے شعوری محسوسات میں موجود تھا۔ وہ لفظ ’’محبت‘‘تھا۔ ان چہار گروہوں کی ترقی یافتہ شکل بعد میں انسان کہلائے جانے لگے۔
بگ بینگ کے بعد انسانوں نے جس چیز کو زندگی کے لیے لازم قرار دیا تھا۔ وہ یہ لفظ نہیں سچا جذبہ تھا۔ اس لفظ’’محبت‘‘کی کشش اپنے حقیقی وجود ’’محبت‘‘ سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد اگلے دور کا آغاز ہوا جب الفاظ کو ’’رسم الخط‘‘ کی شکل میں متعارف کروایا گیا۔ اس وقت پہلے لفظ ’’محبت‘‘ کو پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر لکھ کر اس کی کشش، اس لفظ کی تقدیس کو راہ گزرتے لوگ جھک کر تعظیم سے سلام پیش کرتے تھے۔ یہ چوتھے دور کے آغاز کا حصہ ہے جب میں ایک سمجھدار انسان، آدھی رات سوتے میں بڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اور اس نے چلّاچلّا کر یہ لفظ بلند آواز میں بولا:
محبت،محبت،محبت،محبت،محبت.......اس کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔
اس کے بعد اس نے پانی کے چند گھونٹ حلق سے نیچے اُتارے اور اس لفظ کے سرور میں ایک بار پھر نیند کی آغوش میں اُتر گیا۔ علی الصبح اس نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر اپنا عصا، ایک سیاہ پتھر پر اس زور سے مارا کہ وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹا، سیاہ پتھر کی درز سے دھاری دھار شکل میں پانی ابلنے لگا۔ جنگل میں بسنے والے عام انسانوں نے جو ’’ستّر‘‘ کے نام سے واقف بھی نہ تھے۔ جن میں مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے سبھی شامل تھے۔ وہ برہنہ حالت میں اس پہاڑی کے اوپر چڑھ گئے اور ا س بڑے پتھر کے گرد طواف کرنے لگ گئے۔ اس پتھر پر اس شخص نے لفظ ’’محبت‘‘ کنندہ کیا۔
چوتھے اور اس عظیم دور کو آپ حق، سچ کا دنیا کا پہلا دور کہہ سکتے ہیں۔ جس دور میں ان تمام مردووزن نے کامل محبت کے سحر میں ایک دوسرے کے وجود کو ’’محبت‘‘کے ساتھ دیکھتے ہوئے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے وجود کی تقدیس اور احترام کو ہمیشہ سے دیکھنے، سمجھنے اور ناپنے کا عہد کیا۔
ایک بجلی کی سی لہر سب کے اجسام سے ایسے گزری کہ جیسے تمام وجود کانپ اُٹھے انہوں نے یک زبان پکارا۔ محبت......محبت......محبت......
پھر وہ سبھی سر بسجود ہو گئے آج ان پر یہ لفظ انکشاف ہوچکا تھا۔ اور وہ یقین کامل کی گہرائیوں سے آشنا ہو چکے تھے۔ سب لوگ دنیا کے خالق کو ’’محبت‘‘کا نام دے کر احترام کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اُترے، انہوں نے تاقیامت اس خالق کائنات کی پرستش کا عہد کیا اور اپنی نسل کی نمو اور اس خالق کائنات سے آگہی رکھنے کے عہد کے ساتھ زمین پرپھیل گئے۔ دنیا کے کونے کونے میں مختلف خطوں میں زمین کی سیر کرتے ہوئے، ایک خالق کے پجاری اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ’’محبت‘‘ کے قدموں پر نچھاور کر دیتے تھے۔ مختلف خطوں میں پھیل جانے والے اور مختلف گرہوں نے اس پہلے لفظ کو مجسّم حیثیت میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے دنیا کے پہلے ’’دیوتا‘‘ کا نام ’’محبت‘‘ رکھا۔ گرو، اوتار، پیشوا، جنم، جنم سے محبت کو خالق کائنات اور دیوتا ماننے والوں کی ’’پرکھوں کی کہانیاں‘‘ انتہائی احترام کے ساتھ سناتے اور اس لفظ کو فقط لفظ نہیں بلکہ ایک روحانی وجود، غیرمرئی حقیقت اور کائنات کا مالک کل سمجھنے کا درس اپنے ماننے والوں کو دیا کرتے تھے۔
کروڑ ہا سال گزر جانے کے باوجود خالق کائنات کا نام’’محبت‘‘ہی تھا۔ انسانوں کی ایک بڑی آبادی زمین کے کونے کونے پر موسموں کے درد، دکھ، سہہ کر بھی نقل مکانی سے گریز برت رہی تھی۔
اس کی بڑی وجہ بھی اس لفظ ’’محبت‘‘ کی کشش کائنات کے زرّے زرّے میں پنہاں دکھائی دیتی تھی۔ دنیا کے پانچویں دور میں انسانی شعور ’’ستر ڈھانپنے‘‘ کی زحمت سے آشنا ہو چکا تھا۔ اسے اپنی مشکلوں میں اضافے کے لیے اپنے جسم کی زینت و زیبائش کے لیے مختلف اوزار ایجاد کرنے تھے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب عورتوں اور مردوں نے اپنے الجھے، لمبے بال اور ناخن کاٹنے کا آغازکیا تھا۔ ہر طرف سے چیخ و پکار اور زارو قطار رونے کی آوازوں نے زمین کی فضا سوگوار کر دی۔ ابھی چند انسانوں نے اپنے مقدس بالوں اور ہاتھ و پائوں کے مقدس ناخنوں کو اُتار کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بلند و بالا ٹیلوں پر چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں دفن کرنا شروع کر دیا تھا۔ دنیا کا یہ پانچواں دور لیکن توہم پرستی کا پہلا دور تھا۔
دنیا کے پانچویں دور تک دنیا کے خالق کو ’’محبت‘‘کے سوا کسی دوسرے نام سے لکھا یا پکارا نہیں جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ محبت جسے مقدس خالق کے نام پر اختلاف وجود میں آئے۔ لوگوں نے خالق کے نام یعنی ’’محبت‘‘ سے اختلاف کی بنیاد پر ایک متبادل نام ’’خدا‘‘ ایجاد کر لیا۔ لفظ خدا یا ’’گاڈ‘‘ معروف ہوتا چلا گیا اور محبت کو نئے لفظ سے جانچا اور پرکھا جانے لگا۔ لوگ کئی رنگ اور اقسام کے خدائوں کی پوجا کرنے میں مصروف ہو گئے اور دنیا کے پہلے خالق کے نام سے نا واقف ہوتے چلے گئے۔ محبت کو خالق ماننے والوں کی ایک نسل ’’انٹار کٹکا‘‘ سے ہوتے ہوئے مختلف انسانوں اور گرہوں سے اختلاط اور ملاپ کے نتیجے میں کئی قسم کی رنگ و نسل کے باشندوں میں پیوند ہو کر رہ گئی ہے۔ اس نسل کے انسان دنیا کے ہر خطے میں اور ہر علاقے کی برادری اور گروہوں میں موجود ہیں۔ ان کے آبائو و اجداد آج نئے ایجاد کردہ خدائوں کے پجاری بن چکے تھے۔ جبکہ ان دومختلف گرہوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے نئی نسل کے ایک نوجوان نے ایک غیر النسل دوشیزہ سے اُنسیت کا اظہار کیا۔
دوشیزہ محبت کے خالق کی پجاری تھی۔ جبکہ وہ نوجوان ’’دنیا ئے نو‘‘ کے’’خدا‘‘ کو ماننے والا تھا۔ اس نے عہد نوکے خدا کے تمام تر ضابطے اور اصول پشت ڈال کر ’’ہفتوں عشروں‘‘ محبت کا جواب محبت سے دیا۔ دوشیزہ ’’محبت‘‘ کی پُجاری اور اس پہلے دریافت شدہ خالق کو ماننے والی محبت پسند مذہبی تھی۔ اس کے مذہب میں اس خالق سے روگردانی ارتداد کہلاتاتھا۔ ہفتوں عشروں کے وعدے اور اقرار محسوسات کی ہلکی حرارت سے قدرے آگے، مجسم محسوسات کی لذّت سے بھی آشنائی پا چکے تھے۔ جہاں سے جدائی انسان کو اندھیری منزلوں میں دھکیل دیتی ہے۔
اس نے ایک روز دوشیزہ کو ازراہ مذاق کہااگر کسی رو ز ہم جدا ہو گئے،تو کیا کرو گی؟ آئندہ یہ کفر یہ جملے اپنی زبان پر نہ لانا۔
پھر بھی کیا کروں گی؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، میں اپنی جان دے دوں گی۔ دوشیزہ نے جواب دیا۔
’’جان دینا بہت تکلیف دہ امر ہے‘‘۔ اس سے بہتر ہو گا تم زندگی کا لطف اٹھائو۔ لڑ کے نے جواب دیا۔ زندگی اس در د کی ٹیس کو سہنے کی سکت نہیں رکھتی۔ دوشیزہ نے کہا۔
اس نے یہ الفاظ، روہانسی آواز میں ادا کئے، یاقوت جیسی خوبصورت سرخ آنکھوں سے نمکین پانی کی دو بوندیں اس کے گالوں پر رینگتی ہوئی ٹھوڈی کے دائیں بائیں پھیل گئیں۔
میں مذاق کر رہا تھا۔ لڑکے نے جواب دیا۔
وہ اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتے ہوئے جدا ہو جاتی ہے۔ چند برسوں تک خدا کے ماننے والوں کی برادری نے محبت کو خالق ماننے والوں کی دوشیزہ سے رشتہ جوڑنے سے انکار کر تے رہے۔ جب کوئی سبیل نہ بنی، تو ایک شام محبت کے مقدس نام کے طواف کے لیے دونوں لوگوں کی نظروں سے اوجھل اپنے قول و قرار کے اعادہ کے لیے ایک ندی کنارے پل کے اس پار بے بسی کے قصوّں سے دل کو بہلانے لگے۔ دوشیزہ کہنے لگی۔ تم میری بات یاد رکھنا۔ آج کے خدا کے پجاری مشرک ہیں۔ یہ اپنے ہی ایجاد کردہ خدا کے منکر ہیں۔ لیکن کائنات کے پہلے اور سچے خالق’’محبت‘‘ جسے دنیا کے جاندار روز ازل سے پوجتے آرہے ہیں۔ وہ اپنے خالق سے شرک کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
محبت خدا ہے، محبت انسان ہے، محبت کل کائنات ہے۔! انسان پانی اور غذا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے، محبت کو مانے بغیر نہیں۔ اس شرک سے بہتر ہوگا۔ ہم اپنی جان دے دیں!
لڑکے نے اُسے کلائی سے پکڑتے ہوئے کہا، ’’بے وقوفی کی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
دوشیزہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور بولی یاد رکھنا۔ میں خالق ازل کے ساتھ شرک کا تصورّ بھی نہیں کر سکتی۔
محبت کا درد، اس کے جسم میں شدت کی ٹیس بن کر اُبھرا۔ ’’کیا تم مجھے چھوڑ دو گے؟‘‘
ہر گز نہیں! لڑکے نے بے بسی سے جواب دیا۔
پھر!
پھر۔ مجبوری اور بے بسی آڑے ہے!
محبت تو میری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ مگر تم یقین نہیں کر رہی، یقین جانو! جو بھی شخص دنیا کے ازلی خالق کی معرفت پا لیتا ہے وہ آج کی دنیا میں گھٹن محسوس کرتا ہے۔ میں تمہارے خالق پر ایمان لایا۔ صرف ’’محبت‘‘ پر، اس ازلی خالق پر، کئی خدائوں کے ماننے والے ازلی خالق کے منکر ہیں۔ درد کی ٹیس بڑھ رہی تھی۔ دوشیزہ نے پل کے دائیں بائیں بے بسی اور اُداسی کے عالم میں گھومتے ہوئے اپنے محبوب لڑکے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے دوشیزہ کی توحید پرستی کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کیا۔ درد کی ایک لہر لڑکے کے سینے سے شعلے کی طرز اس کے پورے بدن میں پھیل چکی تھی۔
دو الگ الگ خاندانوں اور خدائوں کے ماننے والے کبھی ایک نہیں ہو سکتے! یک زبان ہو کر یہ جملہ دونوں نے ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈال کر ادا کیا۔
پل پر کھڑے ہو کر دونوں نے نیچے بہتے پانی کا نظارہ کیا، پانی کا بہائو شدید تھا، گدلے پانی کی سطح پر جوتے، کاغذ، خس وخاشاک اور لکڑی کے تختے تیرتے جا رہے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ایسے کہ وہ ایک دوسرے سے اپنے اپنے خدائوں کا منکر ہونے کا کہہ رہے ہوں!
دوشیزہ نے نفی میں سر ہلایا اور بولی۔ محبت کادرد، محبت کا دکھ، میں محسوس کر رہی ہوں میرے اندر ازل کا خالق، رگ و جاں کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ بولی!میں اس قبیل سے ہوں، جنہوں نے پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر محبت کا لفظ لکھ کر اس کے تقدس کو جھک جھک کر سلام پیش کیا تھا۔ میرے قبیل کے لوگ جان دے سکتے ہیں اپنے ازلی خالق کے ساتھ روگردانی نہیں کر سکتے۔
آخری لمحے، دونوں بغل گیر ہوئے اس نے اپنے محبوب کے لبوں کا بوسہ لیا اور پانی میں کود گئی۔ اضطراب اور بے بسی کے عالم میں دل میں بڑھتے محبت کے در د کی ٹیس میں شدت آئی۔ شاید میرے قبیل نے اپنا مذہب بدل لیاتھا۔ یہ سوچتے ہوئے لڑکے نے ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے درد کا آخری طواف کیا اور پانی میں کود گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔