انگلینڈ میں مقیم ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی شعری کلیات
پوری دنیا میں عورت کی ذہنی صلاحیت کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا گیا۔ کیوںکہ یہ معاشرہ مرد کا بنایا ہوا ہے ۔ چناں چہ آج بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ دیکھا جائے تو خود مرد کے تشکیل کردہ فنونِ لطیفہ کے تمام شہکاروں میں عورت روح بن کر رہتی ہے لیکن عورت اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل پر خود کچھ تخلیق کرے ، یہ عمل گویا شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ سوچ عورت کے لئے ایک ایسا پھل رہی ہے کہ جسے کھا کر اسے اپنی گھریلو جنت سے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ شاعری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ شاعری میں بھی وہ موضوع تو بن سکتی ہے لیکن خود اس کا شاعری کرنا خواب و خیال میں نہیں لایا جا سکتا۔مگر تخلیق کا شعلہ کہاں تک چھپا رہ سکتا ہے۔ بہارستان ، حکیم فصیح کا وہ پہلا تذکرہ ہے جس میں ایک سو چوہتر(۱۷۴) شاعرات کا نمونہ کلام شامل ہے ۔ مگر یاد رہے کہ یہ سب شاعرات مذکر کے صیغے میں بات کرتی ہیں ۔ اس تمہید سے قطع نظر خوب صورت بات یہ ہے کہ پچھلی تقریباًچار دہائیوں سے شاعرات نے اس میدان میں آ کر ایسی دھومیں مچائی ہیں کہ اگلی پچھلی سب کسر نکل گئی ہے ۔ گویا عورت کو زبان مل گئی ہے ۔پہلی دفعہ عورت کی شاعری میں اس کی شخصیت ایک واضح انداز میں ظاہر ہوئی ۔ انتہائی ذہین اور منفرد سوچ رکھنے والی خواتین اپنی شاعری لے کروارد ہوئیں اور اپنی ذات کے دھارے کے اندر بند نہیں رہیں بلکہ اجتماعی شعور کے حوالے سے بات کی ۔ اس معاشرے کے منافقانہ رویے ، دوہرے معیار اور مجرمانہ مصلحت آمیزی پر کھل کر بات کی۔ ذاتی واردات نے عصری تقاضوں کے ساتھ مل کر ایک نیا رنگ اختیار کیا اور پھر اس پر لکھنے والی ایک عورت کو ، جو کسی کے دکھ کو ایسے محسوس کرتی ہے، ایسے سمجھتی ہے کہ جیسے زمین کے اوپر بسنے والی تمام مخلوق کو جانتی ہے ۔رضیہ اسماعیل بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ’’گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو‘‘کی شکل میں ان کے شعری مجموعے میں بھی ذاتی واردات پر اکتفا نہیں کیا گیابلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں پھیلی ہوئی ناآسودگی، بے انصافی ، محرومی اور مظلومیت ان کی شاعری کا موضوع ہیں۔ ان کے مجموعے میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی ہیں ۔ ان کی غزلیات کا تذکرہ پہلے کرتی ہوں ،وہ اس لئے کہ ان کی غزل سے بھی نظم کا تاثر ابھرتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اصلی میدان نظم ہے۔ جہاں تک ان کی غزل کا تعلق ہے ، اس میں ایک ایسی تازگی ہے جو بہت کم نئے لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ ان کی غزلوں کے کچھ شعر میں آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں۔
تِرے جواب کے وقفے طویل کتنے ہیں
گزرتے جاتے ہیں میرے سوال کے موسم
تجھ کو پا کر بھی یہ دل ڈھونڈتا رہتا ہے تجھے
تو مِرے پاس بھی یوں کھویا ہوا ہوتا ہے
انوکھا کام کرنا چاہتی ہوں
زمانے کو بدلنا چاہتی ہوں
اک لفظ بھی نظر نہیں آتا کتاب میں
یہ کیا لکھا ہو اہے محبت کے باب میں
بظاہر ان اشعار کے پڑھنے کے بعد گماں گزرتا ہے کہ وہ ایک رومانی شاعرہ ہوگی۔ اس کے اشعار ایسے ہی ہوں گے کہ جس طرح جوانی میں دوسرے شاعروں کے ہوتے ہیں۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بہرحال رضیہ کی غزل رومانیت سے جدیدیت کی طرف سفر کر رہی ہے اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔ اس کی نظم بھی اس خوبی سے مزین ہے۔ جو چیز اس کے شعری مجموعے میں پڑھنے والے کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ رضیہ اسماعیل کی نظموں کے موضوعات اور اس کا ٹریٹمنٹ ہے ۔ عورت کا دکھ محسوس کرنا تو کوئی غیرمعمولی نہیں لیکن انھیں اپنے پڑھنے والوں کے لئے ایک تیسری جہت (ڈائمینشن)کی صورت میں پیش کرنا واقعی ایک حیرت انگیز بات ہے ۔ اس کی نظموں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس قاری کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ رضیہ اسماعیل کے باطن کی عورت زندہ ہے اور کتنی زندہ ہے ۔ یہ بھی احساس جاگتا ہے کہ باوجود تمام دکھوں اور محرومیوں کے ، کہ جو قدرت نے اور کچھ اس معاشرے نے عورت کے لئے روا رکھے ہیں ، رضیہ اسماعیل کی شاعری امید کی روشنی سے جگمگا رہی ہے ۔یہ روشنی ایسی نہیں جو آنکھوں کو چکا چوند کر دے ، یہ تو بہت ہی دھیمی ، دل کو سکون بخشنے والی اور ذہن میں نئے خواب جگانے والی روشنی ہے ۔ یہ اس کی نظموں میں آپ کو بین السطور نظر آتی ہے اور پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ اتنا کچھ برداشت کرنے کے باوجود بھی رضیہ اسماعیل نے اپنے آپ کو Disillusioned نہیں ہونے دیا۔ ورنہ ’’تشنہ لب ‘‘ ، ’’بن بیاہی‘‘ ، ’’پتھر کے خواب‘‘ ، ’’ننگے پاؤں ‘‘ ، ’’بانجھ‘‘ ، ’’نئی زمین‘‘ اور ’’مجھے بولنا کیوں سکھایا‘‘ جیسی نظموں کو لکھنے کے بعد کسی بھی حسّاس انسان کا Disillusionedہو جانا کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی ۔ لیکن اس میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ ’’میں زندہ رہوں گی‘‘ جیسی نظم کہہ سکتی ہے۔ اس کی ایک نثری نظم ہے ’’خوش قسمت‘‘ ملاحظہ کیجئے۔
ہم خوش قسمت ہیں
ہمارے کتنے ہی نام ہیں
مجبور عورتیں ،محصور عورتیں
لاچار عورتیں، ریا کار عورتیں
گنہگار عورتیں، کم فہم عورتیں
کم نظر عورتیں ، بدگماں عورتیں
بے صبر عورتیں ، بد زباں عورتیں
ہم نا شکری؍ہم مسلی ہوئی
دھتکاری ہوئی
بیسوا!؍بے وفا ،بے نشاں
بے حیا ، بے اماں عورتیں
مگر؍ہمارا ایک ہی نام
کائنات کے سب ناموں پر بھاری ہے
’’ماں عورتیں‘‘…!
اسی ایک نظم سے آپ کو رضیہ کے سوچنے کے انداز اور زندگی کی طرف سے اس کا رویہ معلوم ہو جاتا ہے ۔ یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ بات کہنے کا سلیقہ بھی جانتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔