’’وزیر آغا کی نظم نگاری‘‘ڈاکٹر محسن عباس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔اس سے پہلے انڈو پاک کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزیر آغا کے فن کی مختلف جہات کے حوالے سے متعدد تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔میر ی معلومات کے مطابق وزیر آغا پرپی ایچ ڈی کے تین مقالات جبکہ ایم اے اور ایم فل کے سات مقالات لکھے جا چکے ہیں۔اب پی ایچ ڈی کا چوتھا مقالہ ’’وزیر آغا کی نظم نگاری‘‘سامنے آیا ہے۔اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ پاکستان سے وزیر آغا پرپی ایچ ڈی کا پہلا مقالہ ہے۔یہ مقالہ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ کتابیات اور ضمیمہ الگ سے ہیں۔
پہلا باب’’جدیداردو نظم کا تناظراتی مطالعہ‘‘تین فصلوں پر مشتمل ہے۔اول:جدید اردو نظم۔بنیادی مباحث۔دوم:جدید اردو نظم کا آغاز و ارتقا۔سوم:معاصر نظم کا تناظر اور وزیر آغا۔آخر میں حوالہ جات و حواشی درج ہیں۔
دوسرا باب’’وزیر آغا کی نظموں کا فکری مطالعہ‘‘بھی تین فصلوں پر مشتمل ہے۔اول:وزیر آغا کی نظموں کا ارضی تناظر۔دوم:وزیر آغا کی نظموں کا ماورائی تناظر۔سوم:وزیر آغا کی نظموں کا امتزاجی تناظر۔آخر میں حوالہ جات و حواشی درج ہیں۔
تیسرا باب’’وزیر آغا کی طویل نظموں کا مطالعہ‘‘پانچ فصلوں پر مشتمل ہے۔اس حصہ میں وزیر آغا کی پانچ طویل نظموں کاالگ الگ فصل میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔یہ پانچ نظمیں اس ترتیب سے فصل وار پیش کی گئی ہیں۔۱۔’’آدھی صدی کے بعد‘‘۔۲۔’’ٹرمینس‘‘۔۳۔’’الاؤ‘‘۔۴۔’’اندر کے رونے کی آواز‘‘۔۵۔’’اک کتھا انوکھیــ‘‘۔آخر میں حوالہ جات و حواشی درج ہیں۔
چوتھا باب’’وزیر آغا کی نظموں کا فنی مطالعہ‘‘چار فصلوں پر مشتمل ہے۔اول:وزیر آغا کی نظموں کا ہئیتی جائزہ۔ دوم:وزیر آغا کی نظموں میں شاعرانہ امیجری۔سوم:وزیر آغا کی نظموں کا علامتی نظام۔چہارم:وزیر آغا کے اسلوب کے نمایاں خصائص۔اورآخر میں حوالہ جات و حواشی درج ہیں۔
پانچواں باب’’وزیر آغا کی نظموں کا اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ بھی چار فصلوں پر مشتمل ہے۔اول:وزیر آغا کی نظموں کا صوتیاتی نظام۔دوم:وزیر آغا کی نظموں کا لفظیاتی نظام۔سوم:وزیر آغا کی نظموں کا صرفیاتی و نحویاتی نظام۔چہارم:وزیر آغا کی نظموں کا معنیاتی نظام۔اور آخر میں حسبِ معمول حوالہ جات و حواشی درج ہیں۔
آخری باب’’مجموعی جائزہ،استخراج نتائج‘‘کے دو حصے ہیں۔۱۔مجموعی جائزہ۔۲۔استخراج نتائج
اس مقالہ کی کتابی صورت کا حرفِ آغازڈاکٹر انور سدید کا تحریر کردہ ہے۔انہوں نے ڈاکٹر محسن عباس کے مقالہ کے ایک اقتباس سے ان کے مطالعاتی انداز کی تحسین کی ہے۔بقول ڈاکٹر محسن عباس:
’’وزیر آغا نے اپنی نظموں کے ذریعے اِس کے دامن میں تازہ پھول ڈالنے اور اس کو موضوعاتی، ہئیتی،فنی، اسلوبی اور اسلوبیاتی اور داخلی اعتبار سے وسیع تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔۔اوروہ اپنے تمام معاصر نظم نگاروں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔‘‘۔۔۔۔۔آخری فیصلہ کن جملہ کی اہمیت اجاگر کرنے کے بعد ڈاکٹر انور سدیدآخر میںلکھتے ہیں۔
’’ڈاکٹر محسن عباس نے اپنے اول الذکرفیصلہ کن جملے کو اپنے کمالِ تنقید سے پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب غیر رسمی اور غیر روایتی تنقید کی ایک عمدہ مثال ہے اور وزیر آغا کی شاعری کی نئی جہات سے آشنا کر رہی ہے۔مجھے ڈاکٹر محسن عباس کے ادبی پیکر میں اردو تنقید کا قطبی ستارہ بننے کی پوری صلاحیت نظر آتی ہے۔میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے دیباچہ میں اس مقالہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’وزیر آغا کی نظم،جدید نظم کی اس روایت میں منفرد اور رجحان ساز ہے،جس کے علمبردار میرا جی اور مجید امجد ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میرا جی،مجید امجد اور وزیر آغاجدید اردو نظم کے اس دھارے کے تین ممتاز شعرا ہیں جو دھرتی،فطرت اور ثقافت کے نو بہ نومظاہر سے مرتب ہوا ہے۔‘‘
ڈاکٹر رشید امجد اس تحقیقی مقالہ کے سلسلہ میں ڈاکٹر محسن عباس کے نگران تھے،کتاب کے پس ورق پر درج ان کی رائے کے مطابق:
’’ان کا اسلوب وزیر آغا کے تنقیدی اسلوب کی طرح تخلیقی ذائقہ رکھتا ہے۔انھوں نے وزیر آغا کے تخلیقی مزاج کو سمجھ کراور اس کی تخلیقی سطح سے روشناس ہو کر یہ مقالہ لکھا ہے۔رواں دواں اسلوب کے ساتھ ساتھ تنقیدی وتحقیقی معیاراس کتاب کی وہ انفرادی خوبی ہے جس کی وجہ سے یہ نہ صرف وزیر آغا کے حوالے سے ایک اہم کام شمار ہو گی بلکہ اردو تنقید و تحقیق میں بھی اپنی انفرادیت قائم کرے گی‘‘
یونیورسٹیوں میں ادیبوں کے فن وشخصیت کے حوالے سے لکھے جانے والے مقالات کا کتابی صورت میں شائع کیا جانامستحسن عمل ہے۔اس سے معیاری مقالات سامنے آسکیں گے اور غیر معیاری مقالات لکھنے والوں اور لکھوانے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی۔سو یونیورسٹی مقالات کی ایسی اشاعت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس سے یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق اوراردو ادب دونوں کے معیارکو بہتر بنانے میں مددملے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔