جنوں کی راہ سے جس دن گزارا جاؤں گا
میں نیک لوگوں کی صف میں پکارا جاؤں گا
میں حق پرست ہوں سچ بولنے کا عادی ہوں
مجھے خبر ہے کہ اک روز مارا جاؤں گا
مجھے یقین ہے ترکِ تعلقات کے بعد
ترے ہی نام سے جگ میں پکارا جاؤں گا
میں ڈوب جاؤں گا پہلے تو بیچ دریا میں
پھر اک کنارے کے اوپر ابھارا جاؤں گا
وہ جس نے مڑ کے نہیں دیکھا مجھ کو آتے ہوئے
میں اس کے شہر میں کیسے دوبارہ جاؤں گا
اے فیضیؔ کوئی سہارا نہ ہوگا پل بھر کا
جہان بھر سے میں یوں بے سہارا جؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔