اردو زبان کے مصنفین کی بنگلہ سے قربت کوئی دو صدیوں پر محیط ہے اسی طرح بنگلہ کے کئی نامور شعرا اردو زبان سے رغبت رکھتے تھے اور صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں ۔مثال کے طور پر راجہ اپو رب بہادر کرشن کنور (1815-1867)کی مثنویوں کی دھوم بنگال کی ادبی فضا میں ایک عرصے تک طاری رہی جس پر ڈاکٹر ابوبکر جیلانی نے مفصل کام کیا ہے۔ سرت چندر کی بیشتر کہانیوں اور ناولوں کے تراجم اور انکی اشاعت1920-22 کے درمیان لاہور سے ہوئی جس کی کاپیاں مغربی بنگال اردو اکادمی کی لائبریری میں موجود ہیں۔ اسی طرح نیاز فتح پوری نے ٹیگور کے گیتا نجلی کاترجمہ 1914میں کیا۔ اردو میں گیتا نجلی کے کئی تراجم شائع ہوئے ۔ انور جلال پوری نے 2014ء میں گیتانجلی کا منظوم ترجمہ پیش کیا گویا ایک صدی سے ٹیگور اردو کے ادبا اور شعرا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ نیاز فتح پوری نے گیتانجلی کے مقدمہ میںلکھا ہے کہ اس سے زیادہ کسی ملک کی بدمذاقی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جوہر قابل سے بے خبر ہو۔ ترجمہ کسی نہ کسی طرح اپنے جوہر قابل کو متعارف کرانے کا ذریعہ بھی ہے اور دیگر زبانوں کی ادبی تخلیقات سے آگاہی حاصل کرنے کا وسیلہ بھی۔ مغربی بنگال کے مصنفین نے اس سمت ہمیشہ پیش قدمی کی ہے ۔ آزادی کے بعد کچھ عرصے تک یہ سلسلہ تعطل کا شکار رہا لیکن رضا مظہری نے گیتا نجلی کا دوبارہ ترجمہ کرکے اس مطلع ابر آلود میں چراغ روشن کردیا۔ اردو گیتانجلی کے جتنے تراجم شائع ہوئے ہیں اس باضابطہ تحقیق کی ضرورت ہے کوئی طالب علم ایم فل کا مقالہ بھی لکھ کر سند امتیاز بھی حاصل کرسکتا ہے اور اپنے ادبی فریضہ سے عہدہ بر آ ہوسکتا ہے ۔ اردو میں ترجمہ نگاری کی یہ روایت مستحکم ہے مغربی بنگال میں بھی یہ ذمہ داری نئی نسل کے اکثر تخلیق کاروں نے اٹھا رکھی ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اقبال کرشن نے پتھیر پانچالی جیسے ضخیم ناول کا اردو ترجمہ کیا جسے ساہتیہ اکادمی نے نہایت اہتما م سے شائع کیا ہے، ۔عین رشید اور شکتی چٹو پادھیائے نے غالب کو بنگلہ میں منتقل کرکے بنگلہ زبان میں اسے دوبارہ متعارف کرنے کی سبیل پیش کردی ۔بنگال میں اردو کی موجود ہ ادبی نسل نہایت فعال ہے ان میں ایک نام عظیم انصاری کا ہے۔
بنگلہ ادب سے عظیم انصاری کا شغف کئی دہائیوں پر محیط ہے اپنی طالب علمی کے زمانے سے انھیں یہ ذوق و شوق پیدا ہوگیا تھا جس کا ذکر انھوں نے اپنے پیش لفظ میں کیا ہے۔ عظیم انصاری کا تعلق شمالی ۲۴ پرگنہ کے جگتدل سے ہے جہاں ایک سے ایک نابغۂ روزگار پیدا ہوئے اور علم و ادب کی شمع روشن کررکھی ہے نسل در نسل یہ سلسلہ دراز ہے اور یہاں کے ادیب و شاعر تواتر کے ساتھ ادبی کام کئے جارہے ہیں۔ عظیم انصاری اچھے شاعر ہیں ۔ زبان و بیان پر گرفت اور بنگلہ زبان سے واقفیت نے ان کے کام کی قدر وقیمت بڑھادی ہے ۔
’’ دو گھنٹے کی محبت ‘‘ بنگلہ کہانیوں کے تراجم کا مجموعہ ہے جس میں بنگلہ کے منتخب اور مشہور کہانی کاروں کے افسانوں کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ جن کہانی کاروں کے افسانے کا انتخاب کیا گیا ہے ان میںبن پھول( اصل نام بولائی چند مکھوپادھیائے( کے گیارہ افسانے، سنجیب چٹو پادھیائے اور سمریش باسو کے تین، سنیل گنگو پادھیائے کے دو، مہاشویتا دیوی، سنیل دتہ، اجے وکاش وسواس، رام ناتھ رائے اور سید مصطفے سراج کے ایک ایک افسانے شامل ہیں۔ ترجمے کی زبان دلکش ،رواں دواں اور شستہ ہے کہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ مترجم کی دسترس سے ترسیل کا دامن چھوٹ گیا ہے۔ ترجمے کی اصل خوبی دونوں زبانوں سے واقفیت کی بنا پر متن میں پیدا ہونے والی مانوسیت ہے ۔ عظیم انصاری اس مرحلے سے کامیاب گزرے ہیں۔ اس کتاب میں عظیم انصاری نے بنگلہ کہانی کاروں کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے نیز ’’ ترجمہ نگاری اور مختصر بنگلہ افسانوں کے اردو تراجم ‘‘ کے عنوان سے تٖفصیلی مضمون لکھ کر بنگال کے ہم عصر مترجم تخلیق کاروں کے نام اور کام سے متعارف کرانے کی پرخلوص کوشش کی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی نگال میں دیگر مترجمین کی بنگلہ کہانیوں سے متعارف کرنے کی روایت کو اس کتاب کی اشاعت سے تقویت حاصل ہوگی میں عظیم انصاری کو ’’ دو گھنٹے کی محبت‘‘ کی اشاعت پر پرخلوص مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلہ کو جاری رکھیں گے نیز قارئین اس کتاب کا گرم جوشی سے خیر مقدم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔