وادیٔ حیرت میں حیدرؔ دیکھ لو
سارے فرزانے ٹھکانے لگ گئے
جو کچھ جیلے کے ساتھ ہوگیاہے کاش ایسانہ ہواہوتا!
لیکن اس کی ساری ذمہ داری خود اس پر اور اس کے سخت دل مولوی باپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
۔۔۔۔مولوی عطاء الرحیم پہلے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔وہاں کی چھوٹی سی مسجد میں نمازیں پڑھاتے، گاؤں والوں کو خدا، رسول ؐ کی باتیں سناتے۔ گاؤں والوں کو ان کی باتیں سمجھ میں آتیںیا نہ آتیں لیکن سارے لوگ ان کی بہت عزت کرتے۔ حالات نے پلٹاکھایاتو وہ گاؤں سے شہر آگئے۔ یہاں ترقی کرتے کرتے وہ شہر کی جامع مسجد کے امام بن گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پہلے موٹرسائیکل، پھر کار اور آخرکار پجارو کے مالک بن گئے۔ اب اُن کا رعب دبدبہ بھی بہت ہوگیاتھا۔ہر شعبۂ حیات کے لوگ اُن کی خوشامدکرتے۔ ان کے آگے آنکھیں بچھاتے چلے جاتے۔ لوگوں کی خوشامد اور دولت کی ریل پیل نے انہیں وسیع المشرب اور راسخ العقیدہ عالم کی جگہ متعصّب اور کٹٹرپن کاشکار مولوی بنادیاتھا۔
اب مجھے احسااس ہورہاہے کہ جیلے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں شاید تھوڑاسا میرا بھی قصور ہے۔ میں نے ایک دفعہ اسے ایک مجذوب کا قصّہ سنایاتھا۔ مغلیہ دور میں جب ایک اہم مغل بادشاہ کی تیارکرائی ہوئی عالی شان مسجد میں پہلی نماز ہونے لگی تو ایک مجذوب بھی نماز کے مقتدیوں میں شامل ہوگیا۔ مغلوں کے مقرر کردہ امام نے نماز شروع کی تو اُس مجذوب نے بلند آواز میں کہا:جو کچھ امام کے دل میں ہے وہ میرے قدموں میں ہے۔ مغل بادشاہ ،ان کے سرکاری امام اور سارے درباریوں کو مجذوب کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ نماز کے بعد اس مجذوب کو ڈانٹاگیاتو اُس نے بڑی سادگی سے کہا میرے قدموںکے نیچے کی زمین کھود کر دیکھ لو، میں نے جو کچھ کہاہے، سچ کہاہے۔ بادشاہ کے حکم سے اسی وقت وہاں کھدائی کی گئی تو ایک تھیلی برآمد ہوئی جس میں سونے کی ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ سب لوگ اس واقعہ پر ابھی حیران ہی تھے کہ اس مجذوب نے کہا:
’’نماز شروع کرتے ہی امام نے سوچنا شروع کردیاتھاکہ شاہی مسجد کی پہلی نماز پڑھارہاہوں۔ ظلِ الہٰی بہ نفس نفیس حاضر ہیں۔کم سے کم سونے کی ایک ہزار اشرفیاں تو ضرور انعام میں عطا کریں گے ۔ اس لئے میں نے کہا تھاکہ جو کچھ امام کے دل میں ہے وہ میرے قدموں میں ہے۔‘‘
۔۔۔جب میںنے جیلے کویہ قصہ سنایاتھا،اس کی آنکھوں میں معصومانہ حیرت تھی۔ پھر وہ مجھ سے وقتاً فوقتاً صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے حالات پوچھتااورسنتا رہتا۔ پھر کہیں ایک دن اس نے اپنے باپ مولوی عطاالرحیم کے سامنے بھی چند قصے دہرائے تو مولوی عطاالرحیم بھڑک اٹھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھاکہ ان کا بیٹا اس حد تک ’’گمراہ‘‘ ہوچکا ہے۔ انہوں نے بڑی مہارت سے جیلے کو کنٹرول کیا۔ چنانچہ ایک مختصر سے وقفہ کے بعد میری جیلے سے ملاقات ہوئی تووہ اپنے مولوی باپ کے عطاکردہ علم کے باعث اپنی معصومیت اور حیرت کھوچکاتھا۔ اب وہ مجھے بتارہاتھاکہ یہ سب مجذوب فقیر ڈھونگی ہوتے ہیں۔ اولیاء کو مجذوبوں کے ساتھ نہیں ملاناچاہئے۔ پھر وہ مجھے تصوف کی تعریف اور اس کے بعض مراحل کی بابت بتانے لگاجو ظاہر ہے مولوی عطاالرحیم نے اپنے کچے پکے علم کی بنیاد پر اسے رٹادیاتھا۔ میں نے اسے توجہ دلائی کہ تصوف کے بارے میں جاننااور صوفیانہ تجربے سے گزرنادو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن میری بات اب جیلے کی نظر میں جچ نہیں رہی تھی۔ الٹا وہ مجھے یقین دلارہاتھاکہ مغلیہ دور کے امام سے الجھنے والا مجذوب دراصل ملحد تھا۔پورا کلمہ نہیں پڑھتاتھااسی لئے اسے قرآن و سنت کی روشنی میں قتل کرنے کا فیصلہ کیاگیاتھا۔ اب میں اسے کیابتاتاکہ اس مجذوب کی شہادت میں مذکورہ امام کی سازش شامل تھی جس نے اپنی سبکی کا بدلہ لینے کے لئے مذہبی عقائد کا ڈرامہ کیاتھا۔ بس اسے اتنی نصیحت کردی کہ وہ کسی بھی مسلک پر کار بند رہے لیکن کبھی کسی مجذوب فقیر سے نہ الجھے۔
٭٭
۔۔۔۔باباجمالی شاہ شہر کے درمیان میں واقع قبرستان میں ہی اکثر دیکھے جاتے تھے۔ کبھی کبھار شہر کی سڑکوں پر بھی اپنی دُھن میں جاتے نظر آجاتے تھے۔ کسی کی دعا کی درخواست قبول کرناان کے موڈ پر منحصر تھالیکن جس کی دعا کی درخواست قبول کرتے فوراً ’ہاں ‘یا ’نہ ‘میں جواب دے دیتے تھے۔ خود میں نے اپنے دسویں کے امتحان کے بعد ان سے کہاتھاکہ جمالی بابا دعاکریں میں دسویں میں پاس ہوجاؤں۔ انہوں نے اپنی آنکھیں موندلیں۔ ان کے بے آواز ہونٹ تھوڑی دیرکے لئے ہِلے، جیسے خدا سے دعاکررہے ہوں پھر انہوں نے آنکھیں کھول کر کہا:جابچہ۔ تو پاس ہوگیا۔ اسی لمحے مجھے خیال آگیاکہ فرسٹ ڈویژن بھی مانگ لوں۔ چنانچہ میں نے جمالی باباسے پھر فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونے کی دعا کے لئے بھی کہہ دیا۔ پہلے تو انہوں نے مجھے خشمگیں نظروں سے دیکھاپھر اُسی طرح بے آواز ہونٹ ہلانے لگے۔جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو ان میں مسکراہٹ تھی۔ کہنے لگے یہ دعا بھی پوری ہوئی۔ قدرت خدا کی میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوگیا۔تاہم کسی کی دعا کی درخواست سنناباباجمالی شاہ کی مرضی پر منحصر تھا۔ عموماً وہ بڑے لوگوں کی درخواست پر دھیان نہیں دیتے تھے۔
۔۔۔۔ایک بار علاقے میں بارشیں نہیں ہوئیں۔ فصلو ںکے نقصان اور قحط کا خطرہ پیداہوگیا۔ تب مولوی عطاء الرحیم نے ایک دن پہلے سارے شہر میں نماز استسقاء کے لئے اعلان کرایااور اگلے دن بڑی عیدگاہ میں نماز استسقاء پڑھائی، لیکن بے سود۔ لگ بھگ ایک ہفتے کے بعد بعض غریب غرباء باباجمالی شاہ کے پاس بارش کی دعا کرانے کے لئے گئے۔ باباجمالی شاہ نے اپنے معمول کے مطابق آنکھیں نہیں موندیں۔ مزاروں سے کھجور کی چند چھڑیاں اٹھائیں اور سڑک پر آگئے۔انہوں نے وہ چھڑیاں زورزور سے سڑک پر مارنا شروع کردیں۔سڑک پر دو تین بار چھڑی مارنے کے بعد ایک بار آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے اور پھر جیسے ڈانٹنے کے انداز میں کہتے:: ’’اوئے!مینہ برساتاہے یانہیں؟۔ میں کہتاہوں مینہ برساؤ‘‘
۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ ہربندے کی خداکے ساتھ تعلق کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ خدا تو اندر کے سارے بھید جانتاہے۔وہ کسی کی عاجزی میں بھی ریاکاری کی بُوپائے اور اسے دھتکاردے اور کسی کی بے ادبی جیسی بے تکلفی میں بھی محبت کی خوشبوپائے اور اس کے ناز اٹھالے۔ باباجمالی شاہ ساری چھڑیاں سڑک پر مارمارکرتوڑ چکے تو پھر قبرستان واپس چلے گئے لیکن سارے شہر نے دیکھاکہ گھنگھور گھٹائیں امڈی چلی آرہی تھیں۔پھر ایسی برسات ہوئی کہ قحط کے سارے خوف دُھل گئے۔
۔۔۔۔ویسے تو مولوی عطاء الرحیم اس واقعہ کے بعد سے ہی باباجمالی شاہ کے سخت خلاف ہوگئے تھے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بار مولوی صاحب کو رات کی تاریکی میں باباجمالی شاہ کے پاس جاتے دیکھاتھا۔ شاید مولوی صاحب نے انہیں دعا کی درخواست کی ہواور باباجمالی شاہ نے انہیں جواب ہی نہ دیا ہو۔ تھوڑے ہی دنوںکے بعد پتہ چلاکہ مولوی عطاء الرحیم کی رپورٹ پر باباجمالی شاہ کو پڑوسی ملک کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتارکرلیاگیاہے لیکن گرفتاری کے تیسرے ہی روز پتہ چلاکہ باباجمالی شاہ پرتشدد کرنے والا چھوٹا تھانے دارپاگل ہوگیاہے اور تھانے کے عملہ نے خوفزدہ ہوکر بابا جمالی شاہ کو چھوڑدیاہے۔ اس واقعہ کے بعد مولوی عطاء الرحیم کے غیض و غضب میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان کے اشارے پر ان کے بیٹے جیلے نے بہت سارے بچوں کو ٹافیوں کا لالچ دے کر وقتاً فوقتاً باباجمالی شاہ پر پتھراؤ کرنے اور انہیں پاگل پاگل کہنے کی ڈیوٹی پر لگادیا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے مجذوبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے لیکن وہ باباجمالی شاہ کو کوئی بہت بڑا چالباز اور مکار قرار دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھاکہ باباجمالی شاہ مسمریزم کا عمل جانتاہے اسی لئے تھا نے والو ںکو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوگیاہے۔
٭٭
۔۔۔۔۔آج بعد نماز عصر نوجوانوں کاایک گروہ ایک جنازہ اٹھائے ہوئے باباجمالی شاہ کے پاس پہنچاتھا۔ یہ سارے لڑکے جیلے کے دوست یا واقف کارتھے۔ میّت کے طورپرجیلالیٹاہوا تھا۔ ان کا پروگرام تھا کہ پہلے باباجمالی سے کہیں گے کہ یہ ایک میّت ہے اس کا جنازہ پڑھادیں۔ جب باباجنازہ پڑھادیں گے تو پھر سب مل کر باباکا مذاق اڑائیں گے۔ اس پروگرام کا روحِ رواں جیلا تھا اسی لئے وہ خود میّت بنا پڑاتھا۔ لڑکوں نے ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ باباجمالی شاہ سے کہا کہ یہ ایک میّت ہے اس کی نماز جنازہ پڑھادیں۔ بابانے نماز جنازہ پڑھانی شروع کردی حالانکہ پیچھے کوئی صف بھی نہیں بنی تھی، نہ ہی کوئی اور نماز جنازہ میں شریک تھا، باباجمالی اکیلے ہی لگے ہوئے تھے، جب انہوں نے آخری سلام پھیراتو لڑکوں نے زور زور سے قہقہے لگانے شروع کردیئے اور کہنے لگے: باباجمالی!یہ تو مولانا عطاء الرحیم کابیٹا جیلا ہے اورزندہ ہے۔
تب باباجمالی شاہ نے بڑے جلالی انداز میں کہا:یہ جو کوئی بھی تھااب صرف قیامت کے دن ہی اٹھے گاکیونکہ اس کا جنازہ جمالی شاہ نے پڑھادیاہے۔
تمام حاضرین پرسکتہ طاری ہوگیا۔جیلا واقعی مرچکاتھا۔
٭٭
جو کچھ جیلے ساتھ ہوگیاہے کاش ایسانہ ہواہوتا!
لیکن اس کی ساری ذمہ داری خود اُس پر اُس کے سخت دل مولوی باپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔