موسم بہار کے آغاز کے ساتھ کرونا وبا نے بھی اپنے پر پھیلا لیے۔ اس وبا نے آتے ساتھ ہر طرف موت کا رقص جاری کردیا۔ سوشل ڈسٹنسنگ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ہر طرف مایوسی اور تنہائی کا راج تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔عادل ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا۔دفتر سے واپس اپنے فلیٹ آتا کچھ آرام کرتا اور پھر مسجد چلا جاتا۔شام کو دیر تک باہر رہتا رات کا کھانا کھا کر عشاء کی نماز پڑھ کر واپس فلیٹ آتا تاکہ کم سے کم تنہائی کا احسا س ہو۔ عادل کا تعلق مردان سے تھا جو کہنے کو ایک چھوٹا شہر ہے لیکن جوائنٹ فیملی سسٹم نے ان کو کبھی اپنے شہر سے باہر نکلنے کا موقعہ نہیں دیا تھا۔ بھرے گھر کا عادی عادل جب پہلی بار اسلام آباد آیا تو تنہائی سے اسکا واسطہ پہلی بار پڑا بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اس ماحول کا عادی بنایا کہ اتنے میں لاگ ڈاؤن کا حکم آگیا۔۔دفتر بند ہوگیا مساجد بھی بند تھے۔کاروبارِ زندگی معطل ہو گیا ۔
بائیس دنوں سے زیادہ ہوگئے تھے کہ عادل نے کسی انسان سے ملاقات نہیں کی تھی ۔زیادہ سے زیادہ گھر والوں سے فون پر بات کر لیتا تھا۔ تنہائی نے اس کو بہت پریشان کر رکھا تھاوہ کوشش کرتا ہے کہ خود کو مشغول رکھے تاکہ وہ اپنی تنہائی کا احساس کم کر سکے۔کووڈ 19 کے دوران، عادل کے لئے زندگی کی مشکلات اور بڑھ گئیں، کیونکہ معاشی صورتحال بہت خراب ہوگئی اور اس سے اس کے کئی دوست اور پیارے رشتے بھی دور چلے گئے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لئے ترس گیا۔
ایک دن، اس کو یہ خبر ملی کہ اس کے داجی اس دنیا سے چلے گئے۔اس نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا لیکن کوئی نہیں تھا جو اُس کے آنسو پونچتا ۔کافی دیر چیخ چیخ کر رونے اور دو تین دن نا کافی خوراک کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگر گیا۔ تین دن بعد اُس کے پڑوسی جو ایک دن پہلے گاؤں سے آیا تھا نے عادل کے ساتھی کے کہنے پر اُس کے گھر گیا اور دروازے پر کافی دستکیں دی،لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ریسکیو ون ون کو کال کر کے بلایا گیا۔ انہوں نے دروازہ توڑا اندر سے سڑی ہوئی بدبو نے ان کا ااستقبال کیا۔عادل کی لاش سے تعفن اُٹھ رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔