نذرِ میرا جی
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
(میرا جی)
بدلا ،بدلا ہے ہر منظر،گلی محلہ بھول گیا
یاد رہا وہ لیکن اس کا چہرہ مہرہ بھول گیا
بنا بنا کے بادل ،سورج اُڑا رہا ہے پانی کو
ساگر تک جانے کا رستہ ،بہتا دریا بھول گیا
جنگل سے محفوظ قفس تھا لیکن اسی حفاظت میں
کھلی فضا کا ایک پرندہ،پروں سے اُڑنا بھول گیا
آدم زاد فرشتہ بن کر چمکا دور ستارے سا
مگر زمیں پر بہن کی چوڑی،ماں کا چشمہ بھول گیا
تنہا تنہا بھٹک رہا ہے بیگانوں کی بستی میں
شاید اپنے ساتھ وہ اپنے شہر کو لانا بھول گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔