نقل دو قاز اور کچھوے اور مچھوے کی
سرخاب نے کہا: ‘‘جالندھر کے دیس میں پد نام ایک ندی ہے۔ دو قاز وہاں برسوں سے رہتے تھے اور ایک کچھوا بھی اُسی ندی میں رہتا تھا اور اُس سے قازوں سے بڑی دوستی تھی۔ چاند نام ایک مچھوا اُس کے کنارے یوں کہتا چلا جاتا تھا کہ کل اس میں جال ڈال کے سب مچھلیاں پکڑوں گا۔ مچھوے کی بات کچھوا اور دونوں قاز سن کر بہت ڈرے اور آپس میں صلاح کرنے لگے کہ اب کیا کیا چاہیے کہ اُس کے ہاتھوں سے کسی طرح جی بچے۔ قاز بولے کہ آج دن بھر دیکھ لو کہ ماہی گیر سچ بول گیا ہے کہ جھوٹ۔ کچھوا بولا: ‘‘سنو یارو! اپنے کہے پر اگر وہ کل یہاں آن پہنچا، تم تو پرند ہو، اُڑ جاؤ گے اور میں اپنے میں اتنی طاقت نہیں دیکھتا جو اُس کے ہاتھوں سے بچوں۔ جیسا کہ بنیے کی جورو نے اپنے تئیں اور غلام کو مکر سے بچایا”۔قازوں نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟
نقل ایک کچھوے اور بنیائن اور غلام کی
کچھوا بولا کہ ایک کچھوے کو کوئی شکاری پکڑے لیے جاتا تھا۔ کسی بنیے کے لڑکے نے اپنے کھیلنے کے لیے اُسے مول لے لیا۔ دن کو اُس کے ساتھ کھیلا کرتا اور رات کو اُس کی ماں اُسے پانی کے گھڑے میں بند کر دیتی۔ اسی طرح جب کئی دن گذرے، ایک روز کیا ہوا کہ بنیے کی عورت شہوت کی ماتی اپنے غلام کا منہ چومنے لگی۔ اتفاقاً بنیا اُس روز بے وقت دکان سے اپنے گھر میں آ نکلا اور نظر بنیے کی بنیائن پر جا پڑی۔ وہ سمجھی کہ میرا بھید اب اس پر کھل گیا۔ جلدی سے خاوند کے پاس دوڑی آئی اور غصے سے کہنے لگی کہ اس موے غلام نے چھ ماشے کافور جو گھر میں رکھا ہوا تھا، سو چرا کر سب کھا لیا۔ اس کے منہ سے بُو آتی ہے۔ غلام رو کر کہنے لگا کہ مہاراج! اگر میں نے کھایا ہو تو مہا پاپی ہوں، پر یہ رنڈی جھوٹھ موٹھ مجھے دوکھ لگاتی ہے۔ جس گھر میں ایسی جھوٹھی استری ہو اُس میں کوئی غریب کیوں کر رہنے پائے گا؛ تب بنیے نے بھی غلام کا منہ سونگھا، پر اُس کی بُو باس نہ پائی۔ تب جھنجھلا کر عورت سے کہنے لگا کہ تو نے سارا کافور اپنے پِتا کے گھر بھجوا دیا اور غلام کو طوفان لگایا۔ وہ یہ سنتے ہی چڑچڑا اٹھی۔ وہ گھڑا کہ جس میں کچھوا تھا، دریا کی طرف سر پر رکھ کر لے چلی۔ اس میں مہاجن دل میں سوچا کہ تیہے کے مارے ندی میں ڈوبنے نہ چلی ہو۔ اُس کے پیچھے یہ بھی لپکا۔ ندی کے کنارے تک پہنچتے پہنچتے جا لیا اور اس کے ہاتھ پاؤں پڑ کر منانے لگا کہ مجھ سے چوک ہوئی، جانے دے اور اُسے کھینچ کر گھر کی طرف لانے لگا۔ وہ غصے سے ہاتھ جھٹک کر اپنے تئیں چھڑانے لگی۔ اُس کھینچا کھینچی میں سر پر سے گھڑا گر کر پھوٹ گیا اور کچھوا پانی میں چھوٹ گیا۔
یارو! اگر آج اتنی یاری کرو کہ مجھے یہاں سے کسی اور ندی میں لے پہنچاؤ تو میں بچتا ہوں۔ قازوں نے کہا: ‘‘تیرا جانا خشکی میں اچھا نہیں”۔ کچھوا بولا: ‘‘اگر تم مجھ کو نہ لے جاؤ گے تو میں اپنے پاؤں سے جاؤں گا”۔ یہ سن کر قاز فکر مند ہوئے اور کہا: ‘‘تمھاری حالت اُس بگلے کی سی ہوگی”۔ کچھوے نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟”
نقل ایک سانپ اور بگلے کی
قاز بولے کہ بھاگ رتی ندی کے کنارے پر ایک درخت تھا اور اُس کے نیچے کسی جانور کا ایک بل تھا۔ اُس میں ایک سانپ رہتا تھا۔ ہر روز سوراخ سے نکل کر وہاں پھرا کرتا، جو کچھ کھانے کی چیز پاتا سو کھا لیتا، اُس درخت کے رہنے والوں کو اذیت نہ دیتا۔ اس میں ایک بگلے نے اُس پر گھونسلا بنا کر بچے دیے۔ یہ اُسے اندیشہ ہوا کہ کسی دن یہ سانپ ہمارےبچوں کو کھا جائے گا۔ ایسی تدبیر کیا چاہیے، کسی طرح یہ مارا جاوے اور بچے ہمارے محفوظ رہیں۔ ایک بگلا جو اُن میں بوڑھا بڑا تھا، سو بولا کہ یارو! ایک نیولا آج میں نے اسی درخت کے نیچے پھرتے دیکھا ہے۔ تم ایک کام کرو کہ ندی سے اپنے اپنے منہ میں ایک ایک مچھلی پکڑ لاؤ اور اس درخت کے تلے ڈال دو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ نیولا اُن کے کھانے کے لیے آوے گا اور سانپ بھی اپنے سوراخ سے نکلے گا۔ اُن دونوں کی آپس میں عداوت قلبی ہے۔ دونوں لڑیں گے، اغلب کہ سانپ نیولے کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔
بگلوں نے موافق اُس کی صلاح کے ندی سے مچھلیاں نکال کر درخت کے نیچے ڈال دیں اور آپ اُس کی ٹہنیوں پر چپکے ہو بیٹھ رہے؛ اس انتظار میں کہ اُن دونوں میں لڑائی ہو اور ہم تماشا دیکھیں کہ کون کس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے؟ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ نیولا کہیں سے آ نکلا اور مچھلیوں کو چن چن کر کھانے لگا۔ سانپ بھی مچھلیوں کی طمع سے نکلا پر نیولے کو دیکھ ایک جھاڑی تلے دبک رہا، اس ارادے سے کہ نیولا سرکے تو میں اُن میں سے لوں۔اتفاقاً نیولے کی نظر اُس پر جا پڑی اور وہیں جھپٹا۔ دونوں کی لڑائی ہونے لگی۔ آخرش نیولے نے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ پھر سر اٹھا کے جو اوپر دیکھا تو سفید بگلے چمکتے نظر آئے۔ جانا کہ اس درخت پر بھی مچھلیاں ہیں۔ اوپر چڑھ گیا۔ بگلے تو اُڑ گئے، گھونسلوں میں جو بچے تھے، اُنہیں چٹ کر گیا اور کھوندھے ان کے اُجاڑ دیے۔
قاز بولے: ‘‘اے یار! مرد وہ ہے کہ پہلے اپنے واسطے جگہ نئی ٹہرا لے، تب اپنے قدیم گھر کو چھوڑے۔ یہ بس باس تیرا سب جگہ سے بہتر ہے”۔ کچھوے نے جواب دیا: ‘‘دوستو! تم ہمیشہ اس راہ سے آتے جاتے ہو۔ کبھی مجھ سے کوئی خطا نہیں ہوئی۔ ناحق مجھ کو کیوں ڈراتے ہو”۔ قازوں نے بہت سا سمجھایا لیکن اُس نے اُن کی نصیحت نہ مانی۔ تب انھوں نے لاچار ہو کر کہا: ‘‘لے تو اب ایک کام کر۔ اس لکڑی کو بیچ سے منہ میں پکڑ، اگر تجھے کوئی گالی بھی دیوے تو ہرگز نہ بولیو”۔ اُس نے کہا: ‘‘گالی کیا، جو مجھے کوئی مارے گا، تو بھی دم نہ ماروں گا”۔ اس قول و قرار پر اُس لکڑی کے سرے دونوں قاز منہ سے پکڑ کر لے اڑے۔ جب ایک گاؤں کے برابر پہنچے، تب وہاں کے لوگ تماشا دیکھنے لگے۔ اُن میں سے ایک لڑکا بولا کہ اگر یہ کچھوا گرتا اور میرے ہاتھ آتا تو اسے بھون کھاتا۔ دوسرے نے کہا: ‘‘جو میں اسے پاؤں تو پکا کھاؤں”۔ کچھوے کو ان باتوں کی برداشت نہ ہوئی، نہایت خفگی سے بولا ‘‘خاک کھاؤ”۔ بولنے کے ساتھ ہی زمین پر آ رہا۔ لڑکوں نے دوڑ کر پکڑ لیا اور بہت فضیحت کیا۔
پھر سرخاب نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! جو کوئی اپنے رفیق کا کہا نہ سنے تو اس کے آگے ایسا ہی دن آتا ہے”۔ اسی بات چیت میں تھے جو کلنگ کے بھائی نے آکر سلام کیا اور کہا: ‘‘غلام نے آگے کہلا بھیجا تھا کہ قلعے کے اندر کوا ہدہد کا بھیجا ہوا ہے اور اُس نے اُس کو خلعت دیا ہے اور جو ملک لیا سو اُس کے لڑکوں کے نام مقرر کیا، لیکن کرگس وزیر اُس کا اس بات سے راضی نہ ہوا بلکہ اُس نے عرض کی کہ حضرت! یہ ملک کوے کو نہ دیا چاہیے کیوں کہ میں اُسے بے وفا جانتا ہوں۔ ہدہد نے جواب دیا: ‘‘جو نوکر نمک حلالی کرے، اُس کے حق میں مہربانی کرنی ضرور ہے کہ پھر دوسرے وقت خاوند کا کام دل و جان سے کرے”۔ کرکس نے کہا: ‘‘حضرت! کوا کم ذات بد آئین ہے، جو کوئی اس کے حق میں نیکی کرے گا، وہ دیکھے گا جو بوڑھے جوگی نے دیکھا”۔ ہدہد نے پوچھا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ کرگس نے کہا۔
نقل ایک جوگی اور چوہے کے بچے کی
یوں بیان کرتے ہیں کہ کنارے پر دریا سندھ کے ایک جوگی کا دِہرا تھا۔ ایک روز وہ اُس کے دروازے پر بیٹھا جپ کرتا تھا کہ ایک کوا چوہے کا بچہ اپنے جنگل میں لیے اُڑا جاتا تھا۔ قضا کار وہ اُس کے پنجوں سے کسی طرح چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ اُس نے اُسے از راہ شفقت زمین سے اُٹھایا اور موذی کے چنگل سے چھڑایا اور اُس کا جی بچایا اور ایسی اُلفت سے اُسے پالا پوسا کہ وہ بڑا ہوا۔ ایک روز اُس پر کہیی بلی جھپٹی۔ جوگی نے کسی طرح بہ ہزار خرابی اُس کے منہ بھی بچایا۔ پھر اپنے دل میں یہ ٹھانا کہ اس چوہے کو بلی بنایا چاہیے تاکہ اور بلیوں سے بچے۔ دعا کرتے ہی ترت چوہے سے بلی ہو گئی اور کتوں سے لگی ڈرنے؛ تب فقیر نے اُسے کتا بنایا۔ پھر اُس کے جی میں یوں آیا کہ اسے شیر بناؤں کہ ہر ایک درند کی گزند سے محفوظ رہے۔ آخر اُس کی دعا سے وہ شیر ہوا۔ دن کو وہ جنگل میں شکار کے لیے نکل جاتا، رات کو آکر جوگی کی چوکی دیا کرتا۔ جو لوگ اُس کے دیکھنے کے لیے آتے، سو آپس میں یوں چرچا کرتے کہ پہلے یہ چوہا تھا، فقیر کی دعا سے بلی ہوا، پھر کتا ہوا؛ تس پیچھے باگھ بنا۔ اُس نے یہ بات سن کر اپنے دل میں فکر کی کہ جیسا میں پہلے تھا، ویسا ہی یہ جوگی مجھے بنا ڈالے تو میں اس کا کیا کر سکوں گا۔ بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈالوں تو سب آفتوں سے نچنت رہوں۔ یہی خیال خاطر میں لا کر وہیں جوگی کو مار کر اس کا لہو پیا اور اپنے بدن پر بھی لگایا۔
پھر کرگس نے ہدہد سے کہا: ‘‘اگر یہ ملک تم کوّے کو دو گے تو تمھاری حالت جوگی کی سی ہوگی”۔ ہدہد نے اُسےجواب دیا: ''جو میں اس ملک کا لالچ کروں تو میرا احوال بھی اُس بگلے کا سا ہوگا”۔ کرگس نے پوچھا کہ حضرت وہ قصہ کیوں کر ہے؟
نقل ایک بوڑھے بگلے اور مچھلیوں کی
ہدہد کہنے لگا کہ ہندوستان میں ایک بڑی جھیل ہے، نام اُس کا گرمتی۔ لیکن گرمی کے ایام میں اس میں پانی کم رہتا ہے۔ ایک دن اُس کے کنارے پر ایک ایسا بوڑھا بگلا جو اتنی طاقت اُس میں نہ تھی کہ دوسری جھیل میں جا سکے، آیا اور ماتم زدوں کی طرح فریب سے صورت بنا کے سر بازو کے پروں میں ڈال بیٹھا۔ ایک کینکڑے نے اُسے اس طرح سے بیٹھا دیکھ کر پوچھا کہ آج میں تمھیں نہایت مغموم دیکھتا ہوں، اس کا کیا سبب ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے کل اپنے دوست سے یوں سنا ہے کہ کل اس جھیل کی ساری مچھلیاں جلیے مار لے جائیں گے۔ میں اس شش و پنج میں بیٹھا ہوں کہ میرا حال کیا ہوگا، کیوں کہ اس جھیل کی مچھلیوں پر میری روزی موقوف ہے۔ اُن کے مارے جانے پر مجھے غذا کہاں سے ملے گی اور میں اپنی باقی عمر کیوں کر کاٹوں گا۔ کینکڑے نے یہ سن کر اُن مچھلیوں کو جا خبر کی۔ وے سنتے ہی گھبرا کے سب کی سب رونے لگیں اور اُسی کے ہاتھ یہ پیغام بگلے کو کہلا بھیجا کہ شکاریوں کے ہاتھ سے ہمارے بچنے کی کیا تدیبر ہے؟ بگلا بولا کہ میری دانست میں نیک صلاح یہ ہے کہ تم ایک ایک مچھلی کو مجھے لا کر سپرد کرو۔ میں اُسے اپنی چونچ میں لے کر دوسری جھیل میں (جو یہاں سے کوس دو ایک پر ہوگی اور پانی بھی اُس میں ہے) چھوڑ چھوڑ آؤں گا۔ اُس نے اُس کی صلاح کے موافق کیا۔ جتنی مچھلیاں اُس میں تھیں، ایک ایک کر کے سب کی سب اُسے پہنچائیں۔ وہ اُنہیں ایک ایک کر اس حکمت سے کسو گوشے میں لے جاتا اور کھا آتا۔ کینکڑا اکیلا رہ گیا، تب اُس نے بگلے سے کہا: ‘‘آپ نے بڑی محنت اور کام ثواب کا کیا، اس کا اجر خدا سے پاؤ گے”۔ پھر بگلے نے کہا: ‘‘اب میرا جی یہ چاہتا ہے کہ جہاں میں نے سب مچھلیوں کو پہنچایا ہے، وہاں تم کو بھی لے پہنچاؤں، تب میری خاطر جمع ہو”۔ وہ بولا کہ آب کو تصدیع ہوگی۔ میں اپنے پاؤں جاؤں گا کیوں کہ میرے پاؤں میں آہستے آہستے کوس آدھ کوس چلنے کی طاقت ہے۔ یہ بولا: ‘‘یار! میں جانتا ہوں کہ پاؤں چلنے سے تمھیں تکلیف ہوگی اور تمھاری اذیت میرے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ تم میری پیٹھ پر چڑھ بیٹھو تو میں تم کو اس بلاے ناگہانی سے بچاؤں”۔
آخرش وہ بعد اُس رد و بدل کے راضی ہوا، تب اُس نے پیٹھ پر بٹھا کر وہاں لا اُتارا جہاں مچھلیوں کو کھایا کرتا تھا۔ کینکڑے نے جو دیکھا کہ سواے خشکی وہاں پانی کا نام و نشان نہیں مگر مچھلیوں کے سروں کی ہڈیاں پڑی ہوئیں وہاں دکھائی دیں۔ دل میں ڈر کر بگلے سے کہا کہ تو نے سب مچھلیاں یہاں لا کر کھائیں ہیں۔ اب کیا مجھے بھی کھایا چاہتا ہے؟ اُس بات کے ساتھ ہی اُچھل کر بگلے کا سر اپنے منہ میں پکڑ لیا۔ اُس نے بہتیرا زور کیا کہ اپنا سر اُس کے منہ سے چھڑاوے، پر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ وہیں مر کے رہ گیا۔
پھر کرگس نے ہدہد سے عرض کی کہ میں یہ مصلحت نہیں دیتا کہ آپ ملک کوّے کو دیں۔ اُس نے کہا: ‘‘اگر کوّے کے قبضے میں یہ ملک ہوگا تو مال و متاع کی کچھ کمی اور غلّے کا بھی قحط نہ ہوگا اور میں اپنے ملک میں فراغت سے عیش و عشرت کروں گا”۔ کرگس نے جواب دیا کہ پیر و مرشد! ایسے خیال اور اس اندیشے سے آپ کی حالت اُس نعل بند کی سی ہوگی۔
ہدہد نہ پوچھا کہ اُس کی داستان کیوں کر ہے؟ کرگس کہنے لگا۔
نقل شادی نام ایک بنیے اور دلوالی نعل بند کی
یوں کہتے ہیں کہ شادی نام ایک بنیے نے بازار سے گھڑا بھر کڑوا تیل خریدا اور وہاں کھڑا ہو پکارنے لگا کہ جو کوئی محنتی اسے میری دکان تک پہنچاوے تو ایک ٹکا اُسے مزدوری دوں گا۔ دلوالی نام ایک نعل بند وہاں کھڑا تھا؛ وہ گھڑا اپنے سر پر اٹھا کر اُس کی دکان کی طرف لے چلا اور چلتے ہوئے یہ دل میں منصوبہ کرنے لگا کہ اُس ٹکے کی مرغی لوں گا، وہ بیس انڈے دے گی، پھر بائیس دن کے بعد بیس بچے نکالے گی۔ جب وے بڑے ہوں گے، ان کو بیچ کر بکری خریدوں گا۔ اُس کے کچ بچ سے گائے، پھر اُس سے گھوڑی، گھوڑی سے اونٹنی، پھر ہتنی مول لوں گا۔ جب اُس سوداگری سے بہت دولت ہاتھ آئے، تب چار بیاہ کروں گا؛ ہر ایک جورو سے چار چار بیٹے تولد ہوں گے۔ جب وے جوان ہو کر شہزادوں کی طرح تازی گھوڑوں پر سوار ہو کر شکار کا ارادہ کریں گے تو میں اُن کے جلو میں چلوں گا تاکہ اور لوگ اُن کی تعظیم و تکریم کریں۔ اس بے ہودہ خیال میں گھڑے کا دھیان جاتا رہا؛ وہ سر سے زمین پر گر کر پھوٹ گیا اور سارا تیل بہہ گیا۔ تب بنیے نے اُس کے سر کے بال پکڑ کر ایسا لتیایا کہ اُسے وہ مار عمر بھر نہ بھولے گی۔ مثل ہے کہ غریب آدمی سے کیا ہو سکے۔
تب ہدہد بولا کہ اگر میں ملک کی طمع کروں اور اُسے نہ دوں تو مجھے بھی ویسا ہی فائدہ ہوگا جیسا کہ اُس نعل بند کو ہوا۔ پھر اُس نے کرگس سے پوچھا: ‘‘بھلا اب کیا کیا چاہیے؟” اُس نے کہا: ‘‘خداوند! آپ ذرا کوّے کو بلا کر پوچھیں تو سہی کہ اُس نے قاز کے ساتھ کیا حرکت کی کہ اُس کے گھر میں ایک مدت تک رہا اور عین لڑائی کے وقت اُس کے قلعے میں آگ لگا دی؛ چنانچہ اسی واسطے اُس کی لڑائی بگڑ گئی اور ملک اُس کا تباہ ہو گیا”۔ تب ہدہد نے اُس کو بلا کر پوچھا کہ اے میگھ برن! تو نے قاز کے ساتھ ایسی زبوں حرکت کیوں کی؟ اُس نے تو کچھ تیرے ساتھ برائی نہیں کی تھی۔ دنیا میں نیکی کا بدلہ یہی ہے جو تُو نے اُس کے ساتھ کیا؟ کوّے نے جواب دیا کہ حضرت! غلام نے آپ کا نمک کھایا تھا، اس واسطے نمک حلالی کی۔ نہیں تو قاز کی خوبیوں میں کچھ شبہ نہیں۔ خدا ترس، عقل مند، عادل مثل نوشیرواں کے ہے اور کبھی اُس سے کسو کو ایذا نہیں پہنچی۔ اُس کے اوصاف سے میری زبان قاصر ہے کیوں کہ میری بات ہر ایک امر میں سنا کیا اور اپنے وزیر کی صلاح پر کام نہ کیا، جیسے کہ مرد ملتانی نے رندوں کے کہنے پر عمل کیا۔ ہدہد نے پوچھا کہ وہ کیوں کر ہے؟ کوّا بولا۔
نقل ایک ملتانی اور رندوں کی
یوں سنا ہے کہ ایک مرد ملتانی بازار سے بکری خرید کے اُس کی رسّی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنے گھر لیے آتا تھا۔ جب نزدیک گاؤں کے پہنچا، کئی ایک رند ایک جگہ کھڑے تھے۔ آپس میں صلاح کی کہ اُس آدمی سے کسی چھل بل سے بکری اُڑایا چاہیے۔ سب نے ایک دل اور ایک زبان ہو کر بندش باندھی اور تین چار جگہ جدا جدا راہ میں بیٹھے۔ اُن میں سے پہلے ایک نے اس سے ملاقات کی اور کہا کہ اے بھائی! یہ نجس کتا تو نے کہاں پایا؟ اُن نے جواب دیا کہ یہ کتا ہے کہ بکری؟ میں اسے بازار سے مول لیے آتا ہوں۔ لیکن دل میں کچھ شک پڑا۔ منہ پھیر کر بکری کی طرف دیکھا۔ معلوم کیا کہ بکری ہے۔ تب کاندھے پر رکھ لے چلا۔ تھوڑی دور بڑھا تھا کہ دوسرے سے ملاقات ہوئی۔ وہ بولا: ‘‘اے ملتانی! اس کو کاندھے پر رکھ کر لے جاتا ہے، اگر یہ مُوتے تو کپڑے تیرے ناپاک ہوں گے”۔ ملتانی نے اپنے دل میں سوچا کہ آگے ایک کتا کہہ چکا ہے، دوسرا بھی ناپاک کہتا ہے۔ کاندھے سے اُتار کر پھر ڈُریا لیا۔ تھوڑی دور آگے چلا تھا کہ ایک بوڑھا درخت کے نیچے سے بول اٹھا کہ اے مرد! تو دیوانہ ہے کہ آنکھوں کی جوت ہی گھٹ گئی ہے کہ کتا سا ناپاک جانور ہاتھ میں پکڑے لیے جاتا ہے۔ یے سب باتیں سن کر تب تو یقین ہوا کہ شاید کچھ عقل میں یا بینائی میں خلل ہوا ہے کہ کتے کو بکری جان کر مول لے جاتا ہوں۔ کچھ اندیشہ نہ کیا، بکری کی رسی ہاتھ سے چھوڑ دی اور آپ کپڑوں سمیت ندی میں جا کود پڑا۔ نہا دھو گھر کی راہ پکڑی اور بکری اُن رندوں نے لے جا کر شوق سے چٹ کی۔
ہدہد نے پھر کوّے سے کہا کہ تو نے قاز سے وہ حرکت بد کی کہ کسی نے کسو کے ساتھ ایسی کم کی ہوگی۔ کوّا بولا: ‘‘اے بادشاہ! عقل مند اپنے مطلب کے لیے دشمن کو وقت پر ملا لیتے ہیں۔ جب غرض اپنی حاصل ہو چکتی ہے تو اُس کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ مگر آپ نے قصہ مینڈک اور سانپ کا نہیں سنا”۔ ہدہد نے پوچھا: ‘‘وہ کس طرح ہے؟” کوّے نے کہا۔
نقل ایک سانپ اور مینڈکوں کے بادشاہ کی
ایک پرانا سانپ کہ اُس میں چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی تھی، ایک جھیل کے کنارے پر آہستے آہستے آ کر غمگین ہو بیٹھا۔ تب مینڈکوں کے بادشاہ نے پوچھا: ‘‘اے سانپ! تجھے کیا ہوا ہے جو اتنا دل گیر ہے؟” اُس نے جواب دیا کہ تجھے پرائی کیا پڑی، تو اپنی نبیڑ۔ مینڈک بولا: ‘‘اے سانپ! نا خوش کیوں ہوتا ہے۔ اگر کچھ تیری چیز پانی میں گری پڑی ہو تو کہہ۔ میں اپنے لشکر کو حکم کروں کہ بجنس اُس چیز کو ڈھونڈ لاوے”۔
اُس نے کہا: ‘‘اے مینڈک! اُس شہر میں ایک برہمن کا لڑکا بہت خوب صورت تھا۔ اُس کو میں نے کاٹا۔ باپ نے اُس کے درد سے کھانا پینا سب چھوڑ دیا۔ اُس کے بھائی نے اُس کو سمجھا بجھا کر کھلا پلا یوں اُسے نصیحت کی کہ بھائی! صبر کیجیے، سب کی یہی راہ ہے؛ چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
مت پوچھو رفتگاں کو کیدھر تھے اور کہاں تھیں
شاہان نام ور اور دلہنیں جو نوجواں تھیں
تب برہمن یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ اے دوستو! میں اس گاؤں میں نہ رہوں گا، کس واسطے کہ یہی ایک لڑکا میرا تھا سو خدا کی راہ میں گیا۔ اب مجھے بستی سے کیا کام؟ میں بن باسی ہوں گا۔ تب انھوں نے کہا: ‘‘اے بھائی! کوئی ڈاڑھی منڈانے اور جامہ پھاڑ کر جنگل میں جا رہنے سے سادھ نہیں ہوتا مگر جس کی کرنی اچھی ہو”۔
سو اے مینڈک! میں نے اسی وقت خواب دیکھا کہ ایک مرد بوڑھا نہایت بزرگ صورت مجھ سے یوں کہتا ہے کہ اے سانپ! تو نے اُس غریب لڑکے بمھنیٹے کو ناحق کاٹا؛ کل قیامت کو تیری پیٹھ پر مینڈک سوار ہوں گے اور اسی عذاب میں ہمیشہ خدا تجھے گرفتار رکھے گا۔ اگر اُس عذاب سے تو اپنا چھٹکارا چاہے تو کنارے جھیل کے جہاں مینڈک بہت سے ہوں، وہاں جا کر ان کے سردار کو اپنی گردن پر سوار کر کے لیے پھرا کر۔ مینڈک یہ بات سنتے ہی نہایت خوش ہو کر اپنے دل میں کہنے لگا کہ خدا نے مجھے مفت یہ گھوڑا دیا۔ شاید میرے طالعوں کی مدد سے ایسی سواری ملی۔ اُسی وقت سانپ کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھا اور کہا کہ فلانی جگہ میرا دشمن ہے۔ اگر تو تصدیع کر کے مجھے وہاں تک لے چلے تو میں اسے ماروں۔ سانپ نے یہ بات مانی؛ تب سب مینڈکوں کو اپنی جلو میں آگے رکھ لے چلا۔ جب اُس تالاب کو چھوڑ کر آگے بڑھے، سانپ نے جانا کہ اب یہ بھاگ کر اُس تالاب تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کسی بہانے سے اپنے تئیں زمین پر گرا دیا۔ مینڈکوں کے سردار نے پوچھا کہ تو کیوں گر پڑا۔ اُس نے کہا کہ تیری فوج کو دیکھ کر مجھے بھوک لگی ہے۔ وہ بولا کہ میرے لشکر سے دو چار مینڈکوں کو کھا لے۔ سانپ نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! لشکر کم ہونے سے تجھ کو برا لگے گا”۔ وہ بولا کہ تیرے کھانے سے میری فوج کم نہ ہوگی۔ سانپ ہر روز دو تین مینڈک کھانے لگا۔ تھوڑے دنوں میں سب کو نگل گیا، اکیلا بادشاہ رہا۔ سانپ نے پوچھا: ‘‘اے بادشاہ! آج میں کیا کھاؤں؟ مجھے بھوک لگی ہے”۔ مینڈک نے کہا: ‘‘اے سانپ! کسی تالاب یا جھیل کے کنارے چل کے اپنا پیٹ بھر لے”۔ تب اُس نے کہا: ‘‘تمھارے سارے لشکر نے میرے پیٹ میں چھاؤنی کی ہے۔ بادشاہ کا لشکر سے جدا رہنا خوب نہیں۔ جو اپنی فوج کے ساتھ آپ بھی اُس چھاؤنی میں داخل ہوں تو بہت بہتر ہے”۔ تب وہ اپنی موت سمجھ کر چپ ہو رہا۔ سانپ نے اپنے شہ سوار کو زمین پر پٹک کر کئی کوڑے دُم کے مارے اور کھا گیا، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
گردن بندگی نت خم ہے درِ فرمان پر
گوے سر اپنا فدا کیوں نہ کرے چوگان پر
کوا بولا: ‘‘اے ہدہد بادشاہ! جو کوئی دشمن کی بات پر فریب کھاتا ہے، اُس کے آگے ایسا ہی دن آتا ہے۔ اب آپ کو ملاپ کرنا قاز کے ساتھ ضرور ہے”۔ ہدہد نے کہا: ‘‘اے کوّے! اُس کے بھائی بند، نوکر چاکر لڑائی میں میرے ہاتھ سے بہت مارے گئے ہیں اور ملک اُس کا لے لیا ہے، میں غالب ہوا ہوں۔ اب اُس کو چاہیے کہ اپنے گلے میں پٹکا ڈال کر میرے پاس آوے اور میری اطاعت اختیار کرے؛ تب البتہ ادھر سے بھی اُس کے حق میں مہربانی ہوگی”۔
انھیں باتوں میں تھے کہ ایک جاسوس پہنچ کر آداب بجا لایا اور عرض کی کہ پیر مرشد! غافل کیا بیٹھے ہیں۔ مہابل کلنگ منہ بولا بھائی سرخاب کا جو وزیر ہے قاز بادشاہ کا، بہت فوج لے کر آپ کے ملک پر چڑھا چلا آتا ہے۔ اگر وہ لشکر کبھو یہاں آیا تو تمھارے دیس کو ویران اور رعیت کو تباہ کرے گا۔اس میں ہدہد نے وزیر سے کہا کہ میں سو کوس کی دوڑ ماروں گا اور اپنے ملک کو پشت پر دے کر اُس کی ولایت کو تہ و بالا کروں گا۔ کرگس نے ہنس کر کہا: ‘‘زہے تدبیر اے بادشاہ! مردوں کو جو کام کرنا منظور ہوتا ہے، پہلے اسے کر کے تب زبان سے نکالتے ہیں۔ اور ایک بارگی حریفوں سے الجھ پڑنا مصلحت سے دور ہے۔ اگر آپ لڑائی کے ارادے طرف کلنگ کی متوجہ ہوویں اور قاز لشکر کی پچھاڑی چڑھ دوڑے تو دو طرف کی لڑائی سے آپ عہدہ برا نہ ہو سکیں گے اور ویسی ندامت اٹھائیں گے جیسی اُس برہمن نے اٹھائی”۔ ہدہد نے پوچھا: ‘‘کیسی؟” کرگس بولا۔
نقل ایک برہمن اور نیولے کی
میں نے یوں سنا ہے کہ کسی برہمن نے ایک نیولا پالا تھا۔ کیا ہوا کہ اُس کے گھر میں ایک دن پانچ سات کہیں سے مہمان آ گئے۔ اُس میں وہ باہمن اشنان کے لیے ندی پر گیا۔ برہمنی سخت حیران ہوئی کہ اگر لڑکے کی خبر لوں تو مہمانوں کی خدمت سے محروم رہوں اور وے بے دل ہوں گے، اور جو اُن کے پاس حاضر رہوں تو لڑکا اکیلا رہتا ہے۔ یہ فکر کر کے نیولے کو لڑکے کے پاس محافظت کے لیے چھوڑ کر مہمانوں کے کام کاج میں جا لگی۔ اُس کے جانے پر تھوڑی دیر کے پیچھے ایک سانپ اُس لڑکے کے پاس ڈسنے کو پہنچا۔ نیولے نے دیکھتے ہی جھپٹ کر سانپ کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور اُسی لہو بھرے منہ سے گھر سے باھر نکالا۔ برہمن نہائے ہوئے، بٹلوہی ہاتھ میں، انگوچھا کاندھے پر دھرے چلا آتا تھا۔ اُس کی نگاہ نیولے پر پڑی۔ اُس کا منہ لہو لہان دیکھ کر اُسے گمان ہوا کہ یہ نیولا میرے لڑکے کو مار کر اُس کا لہو پی کر آیا ہے۔ یہ خیال اپنے دل میں ٹھہرا کر اُسے مار ڈالا۔ گھر میں آن کر کیا دیکھتا ہے کہ لڑکا سہی سلامت ہے اور ایک سانپ اُس کے نزدیک موا ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا ہے۔ یہ حالت دیکھ کر اُس نے بہت افسوس کیا اور ایسا رویا کہ روتے روتے بیمار ہو گیا۔
پھر کرگس نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! بے اندیشے کام کرنے کا پھل آخر پشیمانی ہے”۔ ہدہد نے کہا: ‘‘اے وزیر! کسی کو بھیج دے کہ قاز سے صلح کر آوے”۔ وہ بولا کہ میرے سواے اور کسو کے جانے سے ہرگز ملاپ نہ ہوگا۔ ہدہد نے جواب دیا: ‘‘جو بہتر ہو سو کیا چاہیے”۔ وہ اُس کے حکم سے قاز کے پاس گیا اور ادب سے مجرا کرکے قدموں پر گر پڑا۔ قاز اُس سے بغل گیر ہوا اور چھاتی سے لگا لیا اور بہت سی خاطر داری کی۔ جب آپس میں باتیں ہونے لگیں، تب قاز نے کہا: ‘‘اے کرگس! خوب ہوا کہ تو آیا، نہیں تو لشکر مہابل کلنگ کا تیرے بادشاہ کے ملک میں پہنچ کے خراب کرتا اور میرا ملک اور قلعہ جو تمھارے ہاتھ آیا ہے، صرف اُس کوّے کی بد ذاتی اور حرام زدگی سے و اِلَا کیا دخل تھا۔ اُس مُفسد کے مکر و فریب سے میں نہایت رنجیدہ خاطر ہوں”۔ کرگس نے عرض کی کہ حضرت! جب تک زمین و آسمان کو قیام ہے، دشمن کی دوستی اور قول و فعل پر ہرگز اعتبار اور عمل نہ کیجیے۔ میں اپنے بادشاہ کو ہر طرح کا نشیب و فراز سمجھا کر صلح کے ڈھب پر لایا ہوں۔
قاز بادشاہ نے اُس کی اُس گفتگو سے بہت راضی اور خوش دل ہو کر اُسے بھاری خلعت دیا۔ کرگس نہایت خوش و خرم ہوا اور جو اُس کے دل میں اندیشہ اور دغدغہ تھا سو قاز کی مہربانی سے جاتا رہا اور کہا: ‘‘اے بادشاہ! جس نے مہمان کی حرمت کی، اُس نے گویا اپنے بزرگ کی خدمت کی”۔ قاز نے کہا: ‘‘اے کرگس! تو نے کچھ دریافت کیا کہ ہدہد نے کس لیے تجھ کو صلح کے واسطے بھیجا ہے؟” وہ یہ بات سن کر چپ رہا؛ تب اُس نے پھر کہا کہ میں یوں جانتا ہوں کہ تجھے مہابل کلنگ کی دہشت سے صلح کے لیے بھیجا ہے کیوں کہ لشکر اُس کا بہت ہے۔ یہ کہہ کر کرگس کو دوبارہ انعام دیا اور اُس کے ساتھ کئی اونٹ جواہر اور کپڑے کے اور کئی مخمل اور اطلس اور کم خواب اور زربفت کے، اور سو گھوڑے تازی اور ترکی ہدہد کے واسطے بہ طریق سوغات دے کر رخصت کیا۔
جب یہ اسباب کرگس اپنے ساتھ لے کر ہدہد کی خدمت میں جا گزرانا، ہدہد بہت خوش ہوا۔ کرگس نے التماس کیا کہ اے بادشاہ! اگر میں نہ جاتا تو سخت قباحت ہوتی۔ لشکر مہابل کلنگ کا تمھارے ملک کو لوٹ لاٹ خراب خستہ کر دیتا۔ بڑی خیر گذری کہ بہت جلد صلح ہو گئی؛ تمھاری فوج خشکی میں کم تھی اور مہابل کلنگ کا لشکر تری میں اس قدر تھا کہ ساری جھیلیں و تمام ندیاں اُن سے ایسی چھا رہی تھیں کہ ایک قطرہ پانی کا جھلکتا نظر نہیں آتا تھا اور لشکر قاز کا اُس کے علاوہ تھا۔ تب توتا بولا: ‘‘یہ بات جھوٹھ ہے۔ اگر حضرت سوار ہوتے تو فوج کی کثرت سے زمین یوں بھر جاتی جیسے کہ آسمان اندھیری رات میں تاروں سے چھا جاتا ہے۔ اُن کی فوجیں اُس لشکر کے مقابل ایسی ہیں جیسے آٹے میں لون”۔ ہدہد بولا: ‘‘اے نادان! لڑنے بھڑنے کا کیا فائدہ؛ خدا نے خیر کی کہ ہماری فتح ہوئی اور بعد اُس کے صلح خاطر خواہ ہوئی۔ قاز نے اطاعت کی، بالفعل نذرانہ ہمارے واسطے بھیجا اور آئندہ نعل بندی قبول کی”۔ غرض ہدہد اور قاز اپنے اپنے ملک کی سلطنت اور بادشاہت پر خاطر جمعی سے قائم ہوئے اور حکم رانی بخوبی کرنے لگے۔
یہ سب قصہ بشن سرما پنڈت نے راجا کے بیٹوں کو سنایا اور اسیس دی۔ تب راجا نے خوش ہو کر اسے بہت سا دان دچھنا اور خلعت و انعام دیا اور بڑی تعظیم و تکریم سے رخصت کیا۔
ختم شد