پھر دوستوں کی جدائی کا احوال بشن سرما پنڈت راجا کے بیٹوں سے کہنے لگا کہ ایک باگھ اور بیل سے آپس میں دوستی تھی۔ گیدڑوں نے اپنی دانائی اور عقل کے زور سے اُن کے بیچ میں جدائی ڈال دی۔ راجا کے لڑکوں نے کہا ‘‘کیوں کر؟”
داستان بھاگ بھرتا بنیے اور سنجوگ اور نندوک بیل کی
پنڈت بولا کہ چندر پور نام ایک شہر تھا۔ اس میں ایک مال دار بنیا بھاگ بھرتا نام رہتا تھا۔ جب کسی بڑے دولت مند کو دیکھتا تو اپنے تئیں فقیر جان کر دل میں یہ بات ٹھہراتا کہ تجارت کو جایا چاہیے تاکہ مال زیادہ ہووے۔ جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ مجہول آدمی کے ہاتھ دولت نہیں لگتی اور دنیا ایسی جگہ ہے کہ اگر مال کمینے اور کم ذات کے پاس ہووے تو سب لوگ اس کی تعظیم کرتے ہیں۔
یہ سوچ کر دو بیل خرید لایا۔ ایک کا نام سنجوگ اور دوسرے کا نندوک رکھا۔ موتی، لعل، ہیرا، پنا اور کچھ زری باف خرجیوں میں بھر بیلوں پر لاد کر کشمیر کی راہ لی۔ تخمیناً بیس اکیس منزل گیا ہوگا کہ سنجوگ کا ایک گڑھے میں پاؤں پڑتے ہی ایسی ضرب آئی کہ چلنے سے باز رہا؛ تب بنیا متفکر ہو کر کہنے لگا کہ یہ عبث کا دیوانہ پن ہے جو کوئی مال کے جمع کرنے کے واسطے کہیں جاوے۔ کیوں کہ جو کچھ خدا نے قسمت میں لکھا ہے، جہاں رہے مل رہتا ہے۔ پھر یہ فکر کرنے لگا کہ اس اسباب کو کس طرح لے جاوے۔ اسی تردد میں دو تین روز اُسی جنگل میں رہا۔
اتفاقاً ایک قافلہ سوداگروں کا مال بیچ کر بیلوں کو خالی لیے ہوئے وہاں آ نکلا۔ بنیا اُن تاجروں کو دیکھ کر اُن کے پاؤں پڑنے لگا اور اپنا احوال کہنے۔ سوداگروں نے اُس کی بے کسی پر رحم کھا کر ایک بیل حوالے کیا۔ اُس نے اُس لنگڑے بیل کو وہیں چھوڑا اور جو بیل قافلے سے لیا تھا، اُس پر خرجی لاد کر اپنی منزل مقصود کی راہ لی۔ اور سنجوگ دو تین مہینے تک ‘‘نہ آگے ناتھ نہ پیچھے پگھا”۔ ایسی گھاس اُس جنگل کی کہ کسی جانور نے آنکھوں نہ دیکھی ہوگی، چر چگ کر سنڈا بن گیا۔
حکایت سنجوگ اور پنگل نام شیر کی
ایک روز ندی کے کنارے وہ چرتا تھا کہ پنگل نام ایک شیر (جو اُس جنگل کی بادشاہت کرتا تھا) پانی پینے کے لیے آ نکلا۔ بیل اُس شیر کو دیکھ کر مارے مستی کے کھورو کرنے اور سینگوں سے زمین کھودنے لگا اور جیسا بادل گرجتا ہے، ویسا ہی ڈکارنے۔ شیر نے جو اُسے اس طرح دیکھا تو اُس کے ڈر کے مارے بھاگ کر اپنی آکھر میں جا گھسا اور جی میں کہنے لگا کہ آج خدا نے میری جان بچائی۔ کئی برس سے میں اس جنگل کی بادشاہت کرتا ہوں لیکن ایسی بلا اور ایسا مہیب جانور میں نے آج لگ نہیں دیکھا۔
حکایت دو گیدڑ دوتک و کرتک کی
اسی فکر میں تھا کہ دو گیدڑ دوتک و کرتک نام (جو شیر کے وزیر تھے اور اُس نے اُن کی کچھ تقصیر پا کر نکلوا دیا تھا) آس پاس اُس کے لگے رہتے تھے۔ شیر کے پانی نہ پینے کی کیفیت اور اُس کی سراسیمگی کو معلوم کر کے آپس میں کہنے لگے کہ آج کیا ہے کہ شیر نے پانی نہ پیا، پیاسا ہی جلد چلا آیا اور نہایت غمگین ہو رہا ہے۔ چل کر مجرا کیجیے اور سبب پریشانی کا پوچھیے کہ آپ متفکر کیوں ہیں؟ اس میں وہ خوش ہوگا؛ غالب ہے کہ سرفراز بھی کرے گا۔ کرتک نے کہا کہ بھائی! اُس نے ایک مدت ہوئی کہ ہم کو اپنی خدمت سے معزول کیا ہے، ہمیں کیا غرض جو اُس کے پاس جاویں، وہ جانے اُس کا کام۔ جس روز سے کہ ہم اس سے جدا ہوئے ہیں، خدا ہم کو بے غل و غش روزی پہنچاتا ہے۔ اُس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ سنو یار! جو خوب دیکھا تو بندگی خالق ہی کی خوب ہے، اَور کی اطاعت کرنی اچھی نہیں۔ اس واسطے بادشاہ کی نوکری کرنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا۔ اور جو شخص کسو کی حاجت روا نہ کر سکے تو اُس کی چاکری کرنی حماقت ہے کیوں کہ خسروِ دل ہمارا جسم کے ملک میں آپ بادشاہت کرتا ہو، اُس کو کیا ضرور ہے کہ غیر کا فرماں بردار ہو۔ اگر کسی نوع کی کچھ احتیاج رکھتا ہو تو مضائقہ نہیں۔ اے یار! نوکری میں کچھ اختیار اپنا باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ جاڑا، گرمی، برسات، بھوک، پیاس، زمین پر سونا، جنگل جنگل پھرنا، یہ سب اپنے پر اٹھانا ضرور پڑتا ہے۔ اگر ایسی محنت خدا کی بندگی میں کوئی کرے تو فرشتے سے بھی فوقیت لے جاوے۔ اور دوسرے کی تابع داری میں جینا مرنے سے بدتر ہے کیوں کہ جب کوئی کسی کا نوکر ہو اور وہ کہے کہ تو فلانے مکان کو جا، گو کہ ہر ایک منزل اُس کی دشوار پُر خطر ہو اور وہاں جاتے ہی مارا جاوے، تو بھی خواہ مخواہ جانا ہی پڑے۔
دوتک نے کہا: ‘‘اے بھائی! جب لگ کہ کوئی کسی کی خدمت نہیں کرتا، تب لگ بڑے مرتبے کو نہیں پہنچتا اور ہاتھی گھوڑے دولت دنیا نہیں پاتا، صاحب جاہ و حشم نہیں ہوتا۔ ہم نے ایک مدت تک اُس کا نمک کھایا ہے، ضرور ہے کہ ہم اُس کے پاس جاویں اور اُس کا احوال پوچھیں”۔ کرتک نے کہا کہ میں یہ صلاح نہیں دیتا کہ تو شیر کے پاس بے بلائے جاوے اور اس کے بے پوچھے کچھ بات کہے، کیوں کہ اب اُس کام کا عہدہ (کہ جس پر ہم تھے) اَوروں کے ہاتھ میں ہے۔ جو کوئی ہاتھ ڈالے تو اُس کی وہ حالت ہو جیسی بندر کی ہوئی۔ دوتک بولا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ہے؟ کرتک نے کہا۔
نقل ایک بڑھئی اور بندر کی
یوں کہتے ہیں کہ کسی ولایت میں مدن دھرم نام ایک جنگل ہے۔ اُس میں ایک بڑھئی لٹھا آرے سے چیرتا تھا۔ جب آرا اٹکنے لگتا تو دور کی پچر اکھیڑ کر نزدیک لا لگاتا۔ بڑھئی کی یہ حرکات کسی درخت پر بیٹھا ہوا بندر دیکھتا تھا۔ جو اتنے میں اس بڑھئی کو پیاس لگی، پانی پینے کو کسی تالاب پر گیا۔ بندر درخت سے اُتر کے اُس لکڑی پر آ بیٹھا اور جس طرح بڑھئی کو پچر اکھیڑتے دیکھا تھا، یہ بھی اکھیڑنے لگا؛ پچر اکھیڑی، وہیں اُس کے فوطے لٹھے کی درز میں پھنس کر پس گئے اور فی الفور وہ مر گیا کیوں کہ بندر کا کام نجاری نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جس کا کام اُسی کو چھاجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ جو غیر کے کام میں دخیل ہوگا تو ایسا ہی برا دن اُس کے آگے آوے گا۔ پھر کہا: ‘‘اے یار! ان دنوں میں شیر کے پاس بہت سے مصاحب ہیں۔ تیرے جانے سے وہ کب خوش ہوں گے بلکہ تیری فکر میں رہیں گے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! شیر ہمارا قدیم خاوند تھا اور ہم اُس کے خدمت گاروں میں تھے۔ پس ہم کو اور تم کو لازم ہے کہ اُس کے پاس ایسے وقت میں جاویں اور جو کچھ ہم سے ہو سکے اُس میں قصور نہ کریں”۔ تب کرتک بولا: ‘‘اے یار! جو کوئی اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں دخیل ہو تو ویسا ہی انعام وہ پاوے جیسا شام بھگت گدھے نے اپنے خاوند سے پایا”۔ دوتک بولا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟” کرتک نے کہا۔
نقل شام بھگت گدھے اور کنجو دھوبی کی
یوں سنا ہے کہ گنگا کے کنارے بنارس نامی کوئی شہر ہے۔ وہاں ایک نوجوان دھوبی کنجو نام بڑا دولت مند رہتا تھا۔ ایک شب وہ اپنی جورو کے ساتھ غافل سوتا تھا کہ اُس کے گھر میں چور آئے۔ شام بھگت گدھا آنگن میں بندھا تھا اور اُس کی بغل میں کنیست نامی کتا بیٹھا ہوا تھا۔ گدھے نے کہا: ‘‘اے کتے! گھر میں خاوند کے چور آئے ہیں، تو ذرا بھونک جو گھر کا مالک جاگے”۔ کتا بولا: ‘‘اے گدھے! میرے کام میں دخل مت کر۔ تو کیا جانے اس دھوبی کے گھر میں میری قدر کچھ نہیں۔ جب لگ کہ اس کا نقصان نہ ہوگا تب لگ میری قدر نہ جانے گا”۔ گدھے نے کہا: ‘‘اے کتے! جو کوئی اپنے صاحب کی بندگی میں قصور کرے تو وہ مطعون خلائق ہوتا ہے۔ کتا بولا: ‘‘او گدھے! اگر تو میرے عہدے میں ہاتھ ڈالے گا تو تجھ پر میرا صبر پڑے گا”۔
اس نے اُس کی بات نہ مانی اور جلدی سے اپنے ہاتھ پاؤں کے چھاند باندھ توڑ تاڑ جہاں دھوبی اپنی جورو کے ساتھ سوتا تھا، وہاں جا کر رینگنے لگا۔ وہ جو کچی نیند سے چونکا تو مارے غصے کے ایک سونٹا لے کر اُسے خوب سا پیٹ ڈالا۔ جو کتے کی بات نہ مانی تو اُس کے صبر میں گرفتار ہوا۔دوتک بولا: ‘‘اے کرتک! سچ ہے جو کوئی دوسرے کے کام میں دخل کرے تو اُس کی یہی سزا ہے۔ لیکن تو جانتا ہے کہ جب ہم شیر کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے، جو کچھ اُس کا جھوٹھا پاتے تھے، کھاتے تھے۔ اور بڑوں کے پاس رہنے سے کئی کام نکلتے ہیں؛ پہلے دوستوں کا بھلا ہوتا ہے، پھر دشمنوں کا بُرا اور جو اُس کے ساتھ رہتے ہیں، اُن کی پرورش بہ خوبی تمام ہوتی ہے”۔ کرتک نے کہا: ‘‘اے دوتک! برسوں سے یہ شیر ہم سے آزردہ ہے اور اُس نے در دولت سے نکال دیا ہے۔ مجھے تجھے اُس سے اب علاقہ نہیں۔ اگر بے بلاوے اُس کے تو جاوے گا اور بے پوچھے کچھ کہے گا تو وہ کب تیری سنے گا۔ مثل مشہور ہے: اُترا شحنہ مردک نام”۔ اُس نے کہا کہ تو نہیں جانتا، خاوند کبھی خفا ہوتے ہیں اور کبھی مہربانی کرتے ہیں۔ اس بات کو اپنے جی میں لا کر اس کو تنہا مت چھوڑ۔ سنو بھائی! نیکی حاصل کرنی بے رنج و محنت ممکن نہیں، جیسا کہ ایک بھاری پتھر نیچے سے اونچے پر لے جانا، اور بدی ایسی ہے کہ اس پتھر کو نیچے گرا دینا۔ اگرچہ شیر ہم سے آزردہ ہے لیکن اب وہ حادثے میں گرفتار ہے۔ اگر اس وقت ہم نہ جاویں تو اس کو کوئی برا نہ کہے گا بلکہ ہم کو لوگ حرام خور کہیں گے۔ تھوڑے کے واسطے بدنامی اٹھانا خوب نہیں۔ اگر تو کہے تو شیر کے پاس جاؤں؟”
کرتک بولا: ‘‘میں نے تیری بات مانی لیکن بادشاہ کے حضور میں جا کر پہلے کیا کہے گا؟” دوتک نے کہا: ‘‘یہ تمھیں معلوم ہے کہ وہ کس سے ڈرا ہے، اس لیے غم گین ہو کر بیٹھا ہے؛ جو احوال ہو سو اُس سے پوچھ لیجیے اور خلش اُس کے دل سے مٹا دیجیے”۔ کرتک نے کہا: ‘‘یہ اُس پر کیوں کر کھلے کہ تو اُس پر مطلع ہوا ہے اور تو نے کیوں کر جانا کہ اُس کے جی میں دھشت بیٹھی ہے؟” دوتک نے جواب دیا کہ ڈرا ہوا قرینے سے پہچانا جاتا ہے اور وہ عاقل نہیں ہے جو پوچھ کر معلوم کرے۔ تب کرتک نے کہا: ‘‘بھلا آدمی اُسے کہتے ہیں جو نیکی کرے لیکن منہ پر نہ لاوے اور خاوند کو خوش رکھے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی منہ لگاوے پر اپنی حد سے قدم آگے نہ بڑھاوے اور اپنے تئیں نت نیا نوکر جانتا رہے اور اُس کے حکم کو مانتا رہے”۔
پھر دو تک نے کہا کہ مجھے مناسب نہیں جو میں گیدڑوں میں بیٹھ رہوں، بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ اپنی خدمت کی قوت سے شیر کو اپنا کروں۔ کہتے ہیں خاوند کی مرضی کے تابع رہنا اور اپنی قدر کے موافق بات کرنا ہر ایک سے نہیں ہو سکتا، اور سب ہنروں سے میں واقف ہوں۔ کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! خدمت کرنی بہت مشکل ہے۔ جیسی چاہیے ویسی کسو سے ادا نہیں ہو سکتی”۔ دوتک بولا کہ نوکر پہلے اتنا دریافت کرے کہ جب خاوند کے سامھنے جاوے، وہ اُسے دیکھ کر خوش ہو کے کچھ بات کرے اور بیٹھنے کی پروانگی دے، تب معلوم کرے کہ مجھ پر مہربان ہوا۔ اگر اُس کے دیکھنے سے وہ تیوری چڑھا کر منہ پھراوے تو برعکس سمجھے اور یقیں جانے کہ اُس کے دل میں میری طرف سے کچھ کدورت ہے۔ اُس خاوند سے کچھ نہ بولے اور ٹل جاوے۔
کرتک نے کہا: ‘‘اگر بادشاہ تجھ کو کتنا ہی سرفراز کرے، چاہیے کہ بے پوچھے اور بے محل دم نہ مارے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘تو اپنے دل میں کچھ فکر مت کر کہ میں اپنے نقد سخن کو بے جا خرچ نہ کروں گا مگر دو جگہ: ایک تو جس وقت دشمن ایسی گھات میں ہو کہ آج کل میں دغا سے کام کو ابتر کرے اور دوسرے ایسے کام میں کہ جس سے نقصان خاوند کا ہوتا ہو۔ اور تو اسے دیکھنا کہ میں بغیر خیر خواہی کے ایک بات بھی بادشاہ سے ہرگز نہ کہوں گا۔ خدا چاہے تو تھوڑے دنوں میں اپنے ذہن کی رسائی سے وزیر کہلاؤں گا۔ اب مجھ پر مہربانی کیجیے اور خوشی سے رخصت دیجیے۔ پھر ایسا قابو نہ پاؤں گا، ہاتھ مل کر رہ جاؤں گا”۔
کرتک بولا کہ مجھے یہ معلوم ہوا کہ تو جائے بغیر نہ رہے گا۔ لے اب میں نے تجھے بہ خوشی رخصت کیا اور خداے کریم کو سونپا۔ تب دوتک یہاں سے رخصت ہو کر بادشاہ کے پاس گیا اور آداب بجا لایا۔ شاہ نے اُس پر بہت سی مہربانی و شفقت کر کے بیٹھنے کا حکم کیا اور کہا: ‘‘اے دوتک! ہم نے بہت دن پیچھے تجھ کو دیکھا، اتنے دنوں تو ہمارے پاس کیوں نہ آیا؟” بولا: ‘‘اپنی کم نصیبی سے۔ لیکن اب میرے طالعوں نے جو پھر یاوری کی تو میں حضور میں حاضر ہوا اور جہاں پناہ کی خدمت میں مشرف”۔ حضرت نے فرمایا: ‘‘خیر آئندہ ایسا نہ ہو”۔ تب وہ مؤدب ہو کر کہنے لگا کہ غلام کا کیا مقدور کہ خاوند کی خدمت سے ایک دم غیر حاضر رہے۔ شیر نے کہا: ‘‘اے دوتک! تو تو ہمارا قدیم رفیق ہے، سچ کہہ اتنے دنوں نہ آنے کا تیرے کیا سبب؟” اُس نے عرض کی ؎
میں ہوں کس لائق جو تیری دوستی کا دم بھروں
ہاں مگر ادنا ترے کوچے کے میں کُتوں میں ہوں
غلام اس واسطے حاضر نہ ہوا کہ مجھ بغیر جہاں پناہ کا کام کسی نوع سے بند نہیں”۔ شیر نے کہا: ‘‘اے نادان! مرد کو چاہیے کہ اپنے قدیم خاوند کی نمک حلالی میں قصور نہ کرے اور کبھی کبھی اُس کے یہاں حاضر ہوا کرے۔ اور جس کو خدا نے ہاتھ پاؤں اور دانائی، بینائی اور ہوش گوش دیا ہے، وہ کیوں کر کسی کے کام نہ آوے۔ سنا ہے اتنے دنوں جو تو ہم سے جدا رہا تو اس میں سراسر تیرا ہی نقصان ہوا۔ اب جو تو ہمارے حضورِ اعلیٰ میں حاضر ہوا ہے، تھوڑے دنوں میں اتنی دولت تیرے ہاتھ لگے گی کہ مستغنی ہو جائے گا”۔
بادشاہ کو جو اُس نے اپنے اوپر مہربان دیکھا تو عرض کی: ‘‘خداوند! اگرچہ بگلا درخت کے اوپر رہتا ہے اور قاز نیچے، لیکن وہ اوپر کے بیٹھنے سے افضل نہیں ہو سکتا۔ جہاں پناہ نے جو اَوروں کو وزارت کا عہدہ سپرد کیا ہے، کیا وے مجھ سے فہم و فراست میں زیادہ ہیں؟ بادشاہ کو چاہیے کہ بینا اور نیک نظر ہو، ہمیشہ ہنر مندوں کی جست و جو میں رہے کیوں کہ عقل مند بہت کم یاب ہیں اور نادانوں کی بیخ کنی میں۔ خداوند! اگرچہ حضور میں ہرن، پاڑھے، چِکارے بہت سے جمع ہیں لیکن بے وقوفوں سے بھلائی کی کیا توقع۔ یہ اسی کام کے ہیں کہ سر پر سینگ لیے پھریں اور ایسے کام جو دشمن نہ کرے، سو کریں ؎
دشمنِ جاں ہووے اگر ہوشیار
اس سے ہے بہتر جو ہو نادان یار
جہاں پناہ! یہ جو اَور اُمرا حضور میں حاضر ہیں، مجھے بہ نظر حقارت دیکھیں گے اور جناب عالی کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اس بے وقوف کم اصل گیدڑ کو سردار نہ کیا چاہیے اور جو کوئی ان اُمراؤں میں سے لائق ہو اُس پر مہربانی کر کے سرفراز کیجیے، جو ہر وقت خدمت میں حاضر رہے”۔
یہ کہہ کر کہنے لگا: ‘‘پیر مرشد! خاوندوں کو یہ لازم نہیں ہے جو ہر ایک کو منہ لگاویں اور ہر کُدام کی بات سنیں بلکہ یوں چاہیے جو جس لائق ہو اُس کی اتنی ہی قدر کریں اور ہمیشہ احوال پُرساں رہیں۔ اگر خاوند عقل مند اور قابل رفیق کو ذلیل کر کے احمق کو عزیز رکھے اور کسی مشکل کام کرنے کے واسطے اُس کو حکم کرے تو ایسا ہے جیسے کوئی سر کی پگڑی پاؤں پر لپیٹے اور پاؤں کی جوتی سر چڑھاوے۔ لوگ جوتی اور پگڑی پر نہیں ہنستے بلکہ اُسی پر ٹھٹھے مارتے ہیں اور کہتے کہ یہ شخص دیوانہ ہوا ہے۔پس بادشاہ کو چاہیے کہ عاقل اور ہنر مندوں کو دوست اور معزز رکھے تاکہ اچھے اچھے لوگ اُس کے یہاں جمع ہوں۔ اور جو بادشاہ اپنے یہاں سے اہل علم و ہنر کو خارج کرے تو یقین ہے کہ بادشاہت اُس کی قائم نہ رہے، کیوں کہ داناؤں کو نکال دینے سے فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے اور رعیت و پرجا خود بہ خود بھاگ جاتے ہیں، ملک اُجاڑ ہو جاتا ہے، سلطنت اُس کے قبضے میں نہیں رہتی ہے۔ یہ یاد رکھو کہ ملک کی آبادی عدل و انصاف سے ہے۔ اگر انصاف نہ ہو تو ملک ویران ہو جاوے۔ اور جب تک وزیر دانش مند اور بادشاہ نیک نیت نہ ہو، تب لگ ملک میں خلل ہی پیدا ہوتا ہے۔اے خداوند! اگر اچھی بات دانائی سے لڑکا کہے تو اُس کو بھی پلے باندھیے اور بوڑھا جو بُری بات نادانی سے کہے، ہرگز اُس پر کان نہ دھریے۔ جس میں عقل اور علم اور تحمل ہو، کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا، کیا بالا، وہی سب سے بہتر ہے”۔
پنگل نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگرچہ تو کئی مہینے دشمنوں کے ڈر سے میرے پاس نہ آیا، کچھ مضائقہ نہیں۔ تو بڑا نمک حلال ہے، اس لیے میں نے تجھے اپنا وزیر کیا”۔ دوتک نے عرض کی: ‘‘آپ کے اقبال سے ڈر تو کسو سے نہ تھا، مگر پیادہ پائی کے سبب سے حاضر نہ ہو سکا”۔ شیر بولا: ‘‘کیا گھوڑا چاہتا ہے؟” اُس نے التماس کیا کہ خداوند! اسی اندیشے سے آپ نے مجھ کو حضور سے دور کیا تھا۔ اُس نے مسکرا کر کہا: ‘‘یہ چالاکی تو نے کس سے سیکھی”۔ پھر بولا: ‘‘اب تیرے افلاس کے دن گئے اور فراغت کے آئے۔ سچ ہے کہ تجھ سا عقل مند میرے نوکروں میں کوئی نہیں۔ اب میں تجھ پر مہربان ہوں، جو تیرا مطلب ہو سو بلا وسواس حضور میں ظاہر کر”۔ وہ بولا کہ غلام کی عرض یہ ہے جو آپ اُس روز ندی پر پانی پینے گئے تھے بے پیے پھر آئے، اُس کا کیا سبب؟ اس نے کہا: ‘‘تو بڑا دانا اور نہایت عقل مند ہے، اس میں ایک بات تنہائی کے کہنے کی ہے کیوں کہ اگر اُسے ہمارے مصاحب سنیں تو بھاگ جاویں”۔ یہ کہہ کر اُسے خلوت میں لے جا کر کہنے لگا کہ اس جنگل میں ایک ایسا جانور آ کر رہا ہے جس کی مہیب آواز نے میرے دل کو اس قدر بے چین کیا ہے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں۔ اسی اندیشے سے میں اپنا گھر چھوڑا چاہتا ہوں۔ بلکہ تو نے بھی اُس کی آواز سنی ہوگی۔ اُس نے کہا: ‘‘خداوند! مجھے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ شاید کہیں آسمان ٹوٹا یا بادل گرجا”۔
پھر شیر بولا کہ تو اس میں کیا صلاح دیتا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ یہ صلاحِ وقت نہیں کہ یکایک اپنا تھر چھوڑ دیجیے یا لڑ بیٹھیے۔ اگرچہ وہ تمھارا دشمن ہے، پر اب ذرا دیکھو تو تمھارے ان نوکروں سے کیسی خدمت ہوتی ہے۔ نوکر اور جورو اور رفیق اُس کو کہتے ہیں جو وقت پڑے پر کام آویں اور وے اُسی سے پہچانے جاتے ہیں”۔ وہ بولا: ‘‘جو تو کہتا ہے درست۔ اب کچھ ایسی تدبیر کیا چاہیے کہ اُس کی آواز سے میرے دل میں جو دھڑکا پہنچا ہے، سو نکل جاوے”۔ اُس نے کہا: ‘‘جہاں پناہ! جب تک میری جان میں جان ہے، مطلق کسی نوع کا خطرہ اپنے دل میں نہ لائیے اور اگر حکم ہو تو کرتک جو میرا بھائی ہے، اُس کو بھی حضور میں حاضر کروں کہ آنا اُس کا بہتر ہے، کیوں کہ وہ بڑا عاقل و زور آور ہے۔ ایسے وقت میں ویسے نوکر کا بلانا مناسب ہے”۔ شیر نے کہا: ‘‘بہت اچھا”۔ اُسی وقت اکثر جانور اُس کے اشارے سے کرتک کے بلانے کو دوڑے اور بادشاہ کی خدمت میں اُس کو لا حاضر کیا۔
بادشاہ نے اُس وقت دوتک کو خلعت وزارت کا دے کر بہت سی مہربانی اور شفقت اُن دونوں کے حال پر فرمائی۔ تب کرتک نے دوتک سے کہا: ‘‘اے بھائی! یہ انعام اور خلعت جب حلال ہو کہ ہم بھی نمک حلالی کریں”۔ پھر دونوں بادشاہ کے حضور میں آداب بجا لائے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اب کیا کہتے ہو؟ اُنھوں نے عرض کی: ‘‘اگر جی کی امان پاویں اور حکم ہو تو جست و جو سے اُس کا احوال دریافت کریں کہ وہ ایسا کون ہے کہ جس نے خداوند کی سلطنت میں دخل کیا”۔ یہ بات سن کر شاہ نے اُن کو رخصت دی۔
جب وے کھوج کو نکلے تو راہ میں کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! جس سے شیر ڈرا ہے اور تو بھی اُس کی ہیبت کا مقّر ہے، اُس سے جواب و سوال اور برابری کیوں کر کرے گا؟ جو چیز کہ ممکن نہ ہو، اُس کا قبول کرنا خیالِ فاسد ہے”۔ دوتک نے کہا: ‘‘اے نادان! بادشاہ کے رو برو جو دانا ہیں تو وے دور اندیشی سے رائی کو پربت کر دکھاتے ہیں اور اپنی ڈاڑھی کی حُرمت رکھتے ہیں”۔ کرتک نے کہا کہ جو شاہوں کی نگاہ لطف سے نہال ہوتے ہیں، سو اُس کی چشم غضب سے خرابی بھی دیکھتے ہیں۔ چاہیے یوں کہ جتنا کوئی کر سکے اُتنا ہی قبول کرے۔ دوتک بولا کہ وہ ایسا ایک جانور ہے کہ گیدڑ کو بھی نہیں مار سکتا۔ تب وہ کہنے لگا کہ بھلا کتنے روز سے بادشاہ اسی فکر میں تھا۔ تو نے پہلے ہی کیوں نہ کہا۔ دوتک بولا کہ بھائی! اگر اس کو دہشت نہ ہوتی اور میں پہلے ہی کہہ دیتا تو مجھے وزیر کیوں کرتا اور تجھے کیوں بلاتا۔ حق تعالیٰ نے یہ حیوان اس جنگل میں ہمارے نصیبوں سے بھیجا ہے اور بعضے بزرگوں کی یہ خو ہے کہ بپت کے وقت خواہاں ہوتے ہیں اور نہیں تو بات بھی نہیں پوچھتے، اپنے ہی حال میں خوش رہتے ہیں۔ چنانچہ جب آدمی کو مچھر کاٹتے ہیں، تب وہ دھواں کرتا ہے تاکہ وہ اس کی کڑواہٹ سے جاتے رہیں۔ اس بات کو یقین جانو کہ بے غرض کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔
آخر وے دونوں بھائی سنجوگ کی طرف گئے۔ کرتک ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور سر اٹھا کر مونچھوں کو تاؤ دینے لگا اور دوتک سنجوگ کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے بیل! تجھ میں کیا تاب و طاقت اور تیری کیا بساط اور مجال۔ اگر اپنی خیریت چاہتا ہے تو میرے ساتھ کرتک کے پاس چل کہ وہ بادشاہ کا خاص ملازم ہے اور نہیں تو تجھے مار ڈالیں گے۔ اس ڈر سے وہ اُس کے ساتھ ہولیا اور کرتک کے نزدیک جا کر سلام کیا۔ وہ تیوری چڑھا کر کہنے لگا: ‘‘اے نادان! تو کون ہے جو اتنی دلیری کی کہ بدون حکم بادشاہ کے (کہ جس کا میں وزیر ہوں) اس جنگل میں آیا؟ ابھی حکم کروں تو تیری کھال کھینچی جاوے”۔ سنجوگ ڈرا اور تھرتھرا کر کہنے لگا کہ مجھ سے بڑی خطا ہوئی۔ جو تم سے ہو سکے تو میری تقصیر معاف کرواؤ۔ کرتک نے کن انکھیوں سے دوتک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کو میرے پاؤں پر ڈال دے۔ دوتک نے سنجوگ کا کان پکڑ کرتک کے پاؤں پر ڈالا۔ اُس نے کہا کہ اگر اپنی بھلائی چاہتا ہے تو میرے ساتھ بادشاہ کے حضور چل۔
بیل نے کہا: ‘‘اگر مجھ کو حضور میں لے چلتا ہے تو میری جان بخشی کروانا”۔ تب کرتک نے نہایت مہربانی سے اُس کی پیٹھ ٹھونک کر کہا کہ تو اپنے دل میں کچھ خطرہ نہ کر کیوں کہ کیسی ہی سخت ہوا چلے پر کسی گھاس کو نہیں گراتی مگر بڑے درختوں کو؛ اس واسطے کہ گھاس نے جو اپنے تئیں پائمال خلائق کا کیا ہے، اسی عاجزی و انکساری کی برکت اسے صحیح و سلامت رہتی ہے اور درخت اپنے تئیں بڑا جانتے ہیں، اسی سبب جڑ سے اکھڑ پڑتے ہیں۔ سن اے بیل! بادشاہوں کا بھی وہی خواص ہے۔ تو بھی جو اس غریبی سے میرے ساتھ بادشاہ کے روبرو جاوے گا تو نہایت سرفراز ہوگا۔جب بادشاہ کی ڈیوڑھی کے نزدیک پہنچے، تب اُس کو دروازے پر کھڑا کر کے وہ دونوں بھائی بادشاہ کے حضور گئے اور آداب بادشاہی بجا لائے۔ شاہ نے پوچھا کہ جس کام کے واسطے تم گئے تھے، کچھ اُسے دریافت کیا کہ نہیں؟ دوتک نے عرض کی کہ خداوند! جیسا آپ نے فرمایا تھا اُس زیادہ دیکھنے میں آیا، لیکن اُس کو ہم ایک تقریب اور فریب کی ڈوری سے باندھ لائے ہیں اور وہ قدم بوسی کی آرزو میں دروازے پر کھڑا ہے۔ شیر نہایت خوش ہو کر پھول بیٹھا اور کہا: ‘‘لے آؤ”۔ دونوں گیدڑ گئے اور ناتھ پکڑ کر اُسے حضور میں لے آئے اور مجرا کروایا۔ بادشاہ نے اُس کو مہربانی کا خلعت دیا اور اُس کے رہنے کے واسطے ایک جگہ مقرر کروا دی۔ وہ اُس میں رہنے لگا اور دوتک و کرتک کو روپے اشرفیوں کے توڑے کے توڑے بخشے اور خدمت خزانچی گری کی کرتک کو دی۔ اور دونوں کو پاس بٹھلا کر پوچھا کہ کہو اس کو کیوں کر لائے؟ دوتک نے عرض کی: ‘‘خداوند! میں نے اس کی ناک میں عقل کے نشتر سے سوراخ کیا اور نرم باتوں کی رسی سے ناتھ کر حضور میں پہنچایا۔ اور میں ہمیشہ جہاں پناہ کا کام جان و دل سے اس واسطے کرتا ہوں کہ خداوند روز بروز میرے حال پر مہربانی زیادہ فرماویں۔ اور اگر کوئی دشمن میری طرف سے پیر مرشد کے دل میں بدی ڈالے تو اغلب کہ غلام کی طرف سے خاطر مبارک میں گرد کدورت کی نہ بیٹھے اور شفقت میں تفاوت نہ آوے۔ جیسا کہ راج کنور اور بنیے کی دوستی میں ایک بڑھیا عورت نے ادنیٰ حرکت سے جدائی ڈالی۔ شیر نے پوچھا: ‘‘اُس کا قصہ کیوں کر تھا؟” دوتک نے کہا۔
نقل کرپا کنور اور دھنپت چوپڑ باز کی
میں نے یوں سنا ہے کہ دھولا گر ایک پہاڑ ہے۔ اُس کے نیچے ایک ندی بہتی ہے۔ پانی اُس کا صاف سفید کافور سے زیادہ خوش بو ہے۔ اُس کے کنارے پر ایک بوندی نام شہر بستا ہے۔ اُس شہر میں ایک راجا تھا کہ اُس کے باورچی خانے میں ہر روز سو من نمک خرچ ہوتا تھا؛ اس سے اور جنس کا اندازہ کیا چاہیے کہ کتنی کچھ خرچ ہوتی ہوگی۔ اُس کے ایک لڑکا تھا۔ نام اُس کا کرپا کنور۔ نہایت شفقت سے اّس کو کبھی اپنے پاس سے جدا نہ کرتا۔ جو حرکت اُس سے ہوتی اس کے نزدیک خوش آیند تھی اور اُس کا دل کسی بات سے آزردہ نہ کرتا۔
ایک دن اُس لڑکے نے اپنے خدمت گاروں سے پوچھا کہ کوئی اچھا چوپڑ باز اس شہر میں ہے؟ انھوں نے عرض کی کہ دھنپت نام ایک بنیے کا بیٹا خوب کھیلتا ہے۔ اگر حکم ہو تو اُس کو لاویں۔ کہا: ‘‘جلد لاؤ”۔ تب لوگوں نے بقال کی ڈیوڑھی پر جا کر دستک دی۔ وہ گھر میں سے نکلا اور کنور کے لوگوں کو اپنے دروازے پر دیکھ کر ڈرا اور پوچھا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟ انھوں نے کہا کہ تم ہرگز اپنے دل میں چنتا نہ کرو۔ راج کنور نے تم کو چوسر کھیلنے کو بلایا ہے۔ دھنپت جڑاؤ چوسر سونے روپے کی نردوں سمیت اور کچھ جواہر بیش قیمت اپنے ساتھ لے کر اُس کے پاس حاضر ہوا اور اُس کی خوب صورتی دیکھ کر بہت خوش ہوا اور سلام کر کے اُس جواہر میں سےکچھ اُس کو نذر گزرانا۔ اُس نے اُس کی نذر قبول کر کے چوسر بچھوا کھیلنا شروع کیا۔ بڑی دیر تک کھیلا کیے، پر برابر سرابر ہی رہے۔ جب وہ رخصت ہو کر جانے لگا، تب کنور نے ایک اشرفی اُس کو بہ طور انعام دے کر کہا کہ تو ہر روز ہمارے یہاں آیا کر۔ وہ ہمیشہ آتا اور چوسر کھیلا کرتا اور اشرفی روز اسی صورت سے لے جاتا۔
اسی طرح بہت سے دن گذرے۔ اُن دونوں میں یہاں تک اخلاص ہوا کہ کنور بھی اُس کے گھر جانے لگا۔ چنانچہ وہ دونوں آٹھ پہر ایک ساتھ ہی رہنے لگے۔ اور وہ ایسا کھیل میں غرق ہوا کہ کھانے پینے کی سُرت بھلا دی، بلکہ خبر گیری ملک و لشکر کی اور دیکھنا بھالنا ہاتھی گھوڑے مال خزانے کا ایک قلم دل سے اٹھا دیا۔ جب یہ اطوار اپنے لڑکے کے راجا نے دیکھے، تب اُس نے غم گین ہو کر دیوان سے یہ بات کہی کہ یہ لڑکا ملک کو برباد کر دے گا۔ کوئی ایسا شخص اس شہر میں ہے کہ اس میں اور اُس لڑکے میں جدائی ڈال دے؟ دیوان نے تدبیر تو بہت سی کی کہ اُن دونوں کی دوستی میں خلل پڑے پر کچھ پیش رفت نہ گئی۔
بعد دو تین برس کے ایک عورت مکارہ نے راجا کو آ کر سلام کیا اور کہا کہ اگر مہاراج کہیں تو میں اُن دونوں میں بات کہتے دشمنی ڈال دوں۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: ‘‘یہ کام مشکل ہے، سچ کہو کہ کتنے عرصے میں کتنی محنت اور کس قدر روپے خرچ کرنے سےہوسکے گا؟” بولی: ‘‘مہاراج! جو کوئی دوستی اور نیکی کیا چاہے تو وہ نہایت محنت و مشقت سے حاصل ہوتی ہے لیکن دوستوں میں دشمنی اور بدی ڈالنی بہت سہج ہے”۔ پھر اُس نے کہا کہ تو یہ کام کَے دن میں کرے گی؟ وہ بولی کہ ایک پَل میں۔ یہ بات سن کر دل میں متعجب ہوا اور ایک بیڑا دے کر بِدا کیا۔
یہ یہاں سے وہاں گئی جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے اور سامھنے اُن کے کھڑی ہو کر بنیے کے بیٹے کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا اور ہاتھ سے بلایا۔ وہ کنور کا منہ دیکھنے لگا۔ اُس نے کہا: ‘‘جاؤ دیکھو تو کیا کہتی ہے”۔ وہ اُس کے پاس آیا۔ کٹنی نے اُس کے کان کے پاس اپنا منہ لگا جھوٹھ موٹھ کُھسر پُھسر کر رستا پکڑا۔ وہ بے چارہ کنور کے نزدیک پھر آ بیٹھا۔ اُس نے پوچھا: ‘‘کہو بڑھیا تمھارے کان میں کیا کہہ گئی؟” بقال بچے نے قسم کھا کے کہا: ‘‘کچھ نہیں”۔
اسی رد و بدل میں دو چار گھڑی کا عرصہ گذرا۔ کنور نے کہا: ‘‘کیا برا وقت ہے، جو کوئی کسی کے حق میں بھلائی کرے تو گویا اپنے واسطے بُرائی۔ وہ عورت میرے رو برو تجھ سے کچھ کہہ گئی اور تو مکرتا ہے”۔ یہ کہہ کر اُس نے تیوری چڑھائی اور اُس سے علاحدہ ہو کر اپنے لوگوں سے کہا کہ اس بڑھیا کو پکڑ لاؤ۔ جو کچھ کہہ گئی ہے، اُسی سے معلوم ہوگا۔ اتنے میں وہ کٹنی پھر اُسی کے پاس آ بیٹھی۔ نوکر چاکر جو اُس کے دوڑے تو اُس مکارہ کو اُس کے پاس پکڑ لے گئے۔ کنور نے پوچھا: ‘‘بڑھیا! سچ کہہ تو کون ہے؟” اُس نے کہا: ‘‘میں اُسی کے باپ کی قدیم نوکر ہوں۔ اُس نے مجھے بھیجا تھا کہ تو دھنپت کو جا کے آہستے سے پوچھ کہ کنور کو تو نے کھلایا کہ نہیں؟” اُس نے کٹنی سے پوچھا: ‘‘وہ کیا چیز ہے؟” وہ بولی کہ میں نہیں جانتی، وہ شیرینی یا کچھ اور کھانے کی چیز ہوگی۔یہ سن کر اُسے تو رخصت کیا، آپ من میں سوچنے لگا کہ اگر اُس کے باپ نے کچھ اچھی چیز میرے کھانے کے واسطے کہی ہوتی تو دھنپت مجھ سے ہرگز نہ چھپاتا اور اتنی قسمیں نہ کھاتا۔ اب اس قرینے سے مجھے خوب معلوم ہوا کہ سواے زہر کے اور کوئی چیز کھلانے کو نہ کہی ہوگی۔ یہ گمان اپنے دل میں لا کر غصے ہوا۔ اپنے نفروں سے کہا کہ بقال بچے کو میدان میں لے جا کر جلد گردن مارو تاکہ ایسے بُرے کا پھر کبھی میں منہ نہ دیکھوں۔ تب اُنھوں نے اُس غریب کو وہاں لے جا کر نا حق ذبح کیا”۔
جہاں پناہ! ایسی ایسی باتوں سے مجھے کمال خطرہ ہے کہ مبادا کوئی میرا بد خواہ کچھ جھوٹھ موٹھ تہمت لگاوے تو میرا بھی حال اُسی کا سا ہووے۔ پیر مرشد! دانا وہ شخص ہے کہ دشمن کے کہنے سے اپنے دوست کی بُرائی نہ چاہے اور بد خواہ کو پہچانے اور اُس کے کہنے پر ہرگز عمل نہ کرے۔ شیر نے ہنس کر کہا ؎
خدا نے لکھا جس کا جو سِن و سال
ڈسے سانپ اُس میں نہ کھاوے ببر
نہ پانی کا خطرہ نہ آتش کا خوف
پھرے گونجتا بن میں جوں شیر نر
اے دوتک! تو اپنے دل میں ہرگز کسی چیز کا اندیشہ نہ کر، اپنے کام سے ہر وقت ہوشیار خبردار رہ۔
غرض جب دوتک اور کرتک نے بادشاہ کے یہاں سے خلعتِ سرفرازی اور جان کی امان پائی، رخصت ہو کر خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے اپنے گھر کو آئے۔ اسی طرح ایک مدت تک دونوں بھائی وزارت اور خزانچی گری کرتے رہے اور بادشاہ کی مہربانی اُن پر روز بہ روز زیادہ ہوتی رہی۔ سنجوگ رفتہ رفتہ اپنے درجے سے یہاں تک گرا کہ خدمت گاروں میں رہنے لگا۔ نہ بادشاہ اُس کو بُلائے، نہ یہ حضور میں مُجرے کو جانے پاوے، اس لیے نہایت مغموم رہا کرے۔
ایک دن پنڈ کرن بادشاہ کے بھائی نے چاہا کہ میں شکار کو جاؤں۔ اتفاقاً اُس روز سنجوگ کہیں پاس کھڑا تھا۔ یہ بات سنتے ہی رُو برُو بادشاہ کے عرض کی کہ اتنا شکار کل آیا تھا، کیا وہ سب خرچ ہو چکا۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اس کو دو تک اور کرتک جانے۔ اُس نے پھر التماس کیا کہ حضرت! اُس کو دریافت کیجیے کہ اس میں سے کچھ باقی ہے کہ نہیں۔ تب بادشاہ مسکرا کر کہنے لگا کہ کل پر کیا موقوف ہے، ہم ہر روز شکار لاتے ہیں۔ جو ہمارے دن رات کے ناشتے اور کھانے سے بچتا ہے، دوتک کرتک لے جاتے ہیں۔ کچھ آپ کھاتے ہیں، کچھ فقیروں کو کھلاتے ہیں۔ وہ بولا کہ خداوند! یہ بات خیر خواہی اور عقل سے بعید ہے کہ بدون حکم آپ کے لے جاویں اور بادشاہی خزانے میں کچھ پس انداز نہ کریں۔ پیر مرشد! نوکر ایسا چاہیے کہ خاصیت کوٹھی کی رکھے۔ وہ ایک ظرف ہے، کچی مٹی سے بناتے ہیں، اکثر اناج رکھنے کے لیے اُس میں ایک ہی بار بہت سا غلہ اوپر سے بھر کے بند کر دیتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا موکھے کی راہ سے موافق احتیاج کے نکال نکال خرچ کرتے ہیں۔ اور نوکر ایسا نہ چاہیے کہ جو کوئی اُسے اپنے گھر کا مختار کرے یا کچھ اسباب بہ طور امانت کے سونپے، وہ اسے غفلت سے برباد دیوے، یا کھوکھنڈا بیٹھے، یا سب کا سب کھا جاوے۔
خداوند! خزانے کو بادشاہ اپنی جان کے برابر سمجھتے ہیں کیوں کہ اگر خزانہ رہے تو لشکر بھی جمع ہو سکتا ہے؛ جو پیسا نہ ہو تو فوج نہ رہے اور فوج نہ ہو تو ملک ہاتھ سے نکل جاوے۔ اور یہ سخت عیب ہے کہ بادشاہ خزانے کی خبر نہ لے؛ کس واسطے کہ چار چیزیں خزانے کے حق میں زبوں ہیں: ایک تو تھوڑی آمد بہت خرچ، دوسرے غافل رہنا، تیسرے آپ سے جدا رکھنا، چوتھے لُوٹ کا مال خزانے میں داخل کرنا۔
یہ بات سن کر پنڈ کرن نے بادشاہ سے کہا کہ دوتک اور کرتک کو اپنے اپنے گھر کا بالفعل یہاں تک مختار کیا ہے کہ تمام خزانہ اور لشکر اُن کے قابو میں ہے۔ جو اسی طرح سے اُن کے ہاتھ میں رکھو گے تو یقین ہے ایک دن وے سر اٹھاویں گے اور مخالف بنیں گے۔ اس سے بہتر ہے کہ خزانہ ان کے ہاتھ سے نکال لیجیے اور سنجوگ کے حوالے کیجیے۔ صرف کام وزارت کا ان دونوں کے ذمے رہے۔ جیسا کہا ہے کہ تین شخص کو خزانے کا مختار نہ کیجیے: ایک تو اپنے کو، دوسرے سپاہی کو، تیسرے جو وقت پر اپنے کام آیا ہو۔ کیوں کہ اگر اپنے کو سونپیں گے تو اپنایت جان کر کھا جاوے گا اور کہے گا کہ میرا کیا کریں گے اور مجھ سے کیا لیں گے۔ اگر اس کو ستاویں تو تمام خلقت اپنے ہی تئیں برا کہے گی اور لوگ ہنسیں گے کہ واہ! اپنوں سے خوب سلوک کیا۔ اگر سپاہی کے حوالے ہو تو وہ اپنی تروار کے زور سے سب چٹ کر جاوے، ایک کانی کوڑی بھی گھس لگانے کو نہ دے، اگر مانگو تو لڑنے کو موجود ہو۔ تیسرے وہ جو وقت پر کام آیا ہو؛ جو اسے دیجیے تو وہ بھی ہضم کر بیٹھے، اس بات پر کہ جس کا مال ہے، وہ میرا احسان مند ہے۔ اگر اس سے لیا چاہیں تو ہر ایک سے کہے کہ میں نے اس سے فلانی جگہ یہ سلوک کیا اور وہ مجھ سے بے مروتی کرتا ہے۔
اے بادشاہ! سواے ان تین شخصوں کے خزانچی گری یا اور کام (کہ جس سے آقا کو فائدہ ہو) کسی کو سپرد کرے اوراس کو بھی خوب سا دریافت کرے اور دیکھے کہ بادشاہی خزانے میں سے خرچ کرتا ہے یا نہیں۔ اگر اپنے خرچ میں لاتا ہے تو اس کو بھی کام نہ دیجیے۔ اگر کام دیا ہے تو اسے معزول کیجیے تا کہ اوروں کو عبرت ہو۔
بادشاہ نے کہا کہ بھائی! جو تم کہتے ہو سو سچ ہے۔میں بھی جانتا ہوں دوتک و کرتک نے کچھ ہاتھ پاؤں پھیلائے ہیں اور کبھی کبھی عدول حکمی کرتے ہیں۔ پنڈ کرن بولا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ وزیر عقل مند اور مدبر چاہیے کہ اسباب و اجناس ہر طرح کی مہیا رکھے تو وہ وزارت کے قابل ہے۔ یہ بات میں آپ کی خیر خواہی سے مصلحتاً کہتا ہوں، اور داناکو ایک اشارہ بس ہے۔ چنانچہ میں نے آگے بھی عرض کی تھی خزانہ سنجوگ کے حوالے کیا چاہیے، کس واسطے کہ وہ گیدڑگوشت کے کھانے والے ہیں اور یہ بیل گھاس چرنے والا ہے۔ بادشاہ نے یہ بات قبول کی اور اسے خلعت بخشی گری کادیا اور خزانہ بھی حوالے کیا۔ جب دوتک اور کرتک نے اس مجلس کا رنگ اور بادشاہ کی اعتراضی کی گفتگو دو چار دن کے پیچھے کسی طرح معلوم کی، تب آپس میں کہنے لگے کہ دیکھو ہم نے اس بیل کو بادشاہ سے ملا دیا اور وہ ہمارے ہی اکھاڑنے کے درپے ہوا۔ اگر اسے ہم بادشاہ کے پاس یوں نہ لے جاتے تو اس کی نظروں کیوں گرتے اور یہ آفت ہم پر کیوں آتی۔ ہمارا کیا ہمارے ہی آگے آیا اور اس بات کو اب کسی سے کہہ بھی نہیں سکتے۔ کیا کیجیے جی ہی میں مسوس مسوس کر رہیے۔ مثل مشہور ہے ‘‘چور کی ماں کوٹھی میں سر ڈال کر روئے”۔
یہ روداد گندھرب، کنیت اور نندو نائی اور ساد کنوار کےقصے کی ہے کہ اپنے کیے سے ذلیل و خوار ہوئے۔ ویسا ہی ہم بھی نادم و پریشان ہوں گے۔ کرتک نے کہا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل گندھرب، کنیت اور نندو نائی اور ساد کنوار کی
یوں سنا ہے کہ کنچن پور نام ایک شہر ہے۔ اس میں راجا بیر بکرماجیت رہتا تھا۔ اس کے نائب نے اپنے لوگوں کوایک روز حکم کیا کہ نندو حجام کو مقتل میں لے جاؤ۔ گندھرب ساد کنوار اور حجام کے قصے سے واقف تھا، اس واسطے ان کے پیچھے تماشا دیکھنے کو ہو لیا۔ جب وہ لوگ قتل گاہ میں پہنچ کے اس حجام کی گردن مارنے لگے، تب گندہرب نے اس کا ہاتھ پکڑ اپنے پیچھے کر لیا اور کہنے لگا کہ یہ حجام واجب القتل نہیں ہے، کیوں کہ احوال اس کا اور قصہ ساد کنوار کا دونوں ایک ساں ہیں اور میں اس سے خوب واقف ہوں۔ نائب کے آدمیوں نے پوچھا کہ وہ کیوں کر؟ اور تو کون ہے اور کیا جانتا ہے؟ گندھرب نے کہا کہ میں بنارس کے راجا کا بیٹا ہوں جو سنگل دیپ کا حاکم تھا۔
ایک دن میں اپنے باغ کی بارہ دری میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک سوداگر بچہ کشتی سے اتر کر میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کچھ حقیقت دریا کے سفر کی بیان کر۔ اس نے کہا کہ میں نے جہاز پر ایک عجب تماشا دیکھا ہے۔ اگر میں تجھ سے کہوں، خدا جانے تو باور کرنے یا نہ کرے۔ میں نے کہا کہ تو کہہ، میں یقین کروں گا۔ سوداگر بچہ کہنے لگا کہ دریا میں پانی کے اوپر ایک صندل کا درخت ہے اور اس درخت کے نیچے ایک جڑاؤ پلنگ بچھا تھا اور اس پر ایک عورت خوب صورت بیٹھی تھی کہ یک بہ یک میرے کان میں آواز آئی کہ اس کا نام رتن منجری ہے۔ مجھ کو دیکھ کر جو ہنسی تو موتی سے دانتوں کی جھلک سے تمام دریا روشن ہو گیا۔ اس سے زیادہ اس کی تعریف کیا کیجیے۔ جس دن سے کہ میری آنکھ اس سے لگی ہے، اس دن سے ایک پل آنکھ نہیں لگتی اور وہی صورت میری آنکھوں میں آٹھ پہر پڑی پھرتی ہے اور دل میں ایسی گڑی ہے کہ میرے ہوش و حواس بالکل جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ فقیر ہو گیا ہوں پر اس کی یاد میں خوش رہتا ہوں اور کبھی اس کو نہیں بھولتا، بلکہ جس طرح دیکھا ہے وہی نظر آتی ہے۔جب میں نے سوداگر بچے کی زبانی یہ احوال اور تعریف اس کے دانتوں کی سنی، تب ایک حالت سکتے کی سی ہو گئی۔پھر بعد ایک پہر کے مجھ کو ہوش ہوا۔ اسی گھڑی اس کے دیکھنے کے اشتیاق میں جہاز پر سوار ہوا۔ جس جگہ سوداگر بچے نے اس کا پتا دیا تھا، ادھر ہی گیا۔ چند روز کے بعد وہاں جا پہنچا اور جتنی خوبیاں میں نے اس کی سنی تھیں، اس سے زیادہ دیکھیں اور یہ چاہا کہ اس کو میں اپنے گلے سے لگا لوں، ووں ہیں رتن منجری چارپائی سمیت پانی میں جاتی رہی۔ میں بھی اس کے پیچھے کود پڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شہر نہایت آباد ہے۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس کو گنگ بین کہتے ہیں۔ یہ سن کر میں کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سونے کا محل جڑاؤ جگمگا رہا ہے اور اس کے اوپر رتن منجری بناؤ کیے ہوئے بیٹھی ہے۔ میں اس کو دیکھتے ہی خدا کی درگاہ میں سجدہ کر کے خوش ہوا اور دل میں کہا کہ اللہ نے مجھ کو جیتے جی بہشت میں داخل کیا۔ اور اس نے جو مجھے دیکھا تو لونڈیوں کو بھیج کر بلوا لیا اور بہت سی تعظیم و تکریم سے اپنے پاس بٹھلا کر پوچھا کہ اے شخص! تو کون ہے اور کہاں سے آیا؟ اس بات کو سن کر میں نے کہا کہ میں سنگل دیپ کے راجا کا بیٹا ہوں اور مجھے گندھرب کہتے ہیں لیکن اب تیرا غلام ہوں۔ رتن منجری نے کہا کہ نہیں بلکہ میں تیری لونڈی ہوں اور تو میرا میاں ہے، بہ شرطیکہ تو ایک بات سے باز رہے اور اس کے سوا جو تیرا جی چاہے، سو کرے۔ میں نے کہا کہ کیا کہتی ہو، کہو۔ تمھارا کہنا بہ سر و چشم قبول کیا۔ جس چیز کو منع کروگی سو نہ کروں گا۔ رتن منجری نے کہا کہ یہ تصویر جو اس محل میں کھینچی ہوئی ہے، کبھی تو اسے ہاتھ نہ لگانا۔ میں نے کہا کہ ہاتھ لگانے کا تو کیا ذکر ہے بلکہ میں اس کے پاس بھی نہ جاؤں گا۔ یہ سن کر رتن منجری مجھ کو دل و جان سے پیار کرنے لگی۔
چند روز اس کے باعث سے میرے عیش و عشرت میں گذرے۔ ایک دن میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ ذرا اس تصویر کودیکھیے کہ وہ کیسی ہے۔ غرض اس کے پاس گیا تو ایک صورت عجیب و غریب دکھلائی دی۔ بے قرار ہو کر اس کی چھاتی پر ہاتھ ڈالا۔ جوں ہی میرا ہاتھ اس کی چھاتی تک پہنچا ووں ہی اس نے ایک لات ایسی ماری کہ میں کوہ قاف میں جا پڑا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ نہ وہ بستی ہے، نہ مکان، نہ رتن منجری۔
غرض اس خرابی سے میں پھرتے پھرتے تمھارے شہر میں آ نکلا ہوں۔ جب آفتاب غروب ہوا، تب میں ایک اہیر کے گھر میں اترا اور کچھ کھا پی کر سو رہا۔ پہر سوا پہر رات گئی ہوگی جو میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غیر شخص اہیرنی سے مشغول ہے کہ اتنے میں اہیر شراب کے نشے میں سرشار آ پہنچا۔ اس نے پاؤں کی آہٹ سے معلوم کیا کہ اہیر آیا،ووں ہی دبے پاؤں بھاگا۔ اہیر تاڑ گیا کہ کوئی اہیرنی کے پاس تھا۔ جاتے ہی اس کے جھونٹے پکڑ کر خوب ہی لتیایا اورسائبان کے کھنبھے سے کس کے باندھا اور آپ سو رہا۔ گھڑی ایک کے بعد کنیت چرنا نائن کٹنی آکر اہیرنی سے کہنےلگی کہ تیرا یار مادھو حلوائی کی دکان کے پچھواڑے کھڑا روتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وہ آج میرے پاس نہ آوے گی تو اپنے پیٹ میں چھری ماروں گا۔ گوالن بولی: ‘‘تو دیکھتی نہیں، میں کس حالت میں گرفتار ہوں۔ بھلا اُس کے پاس کیوں کر جاؤں۔ آج میرے خاوند نے مجھے مار کر اس ستون سے باندھا ہے، جو کھلی ہوتی تو سر کے زور جاتی”۔
نائن نے کہا: ‘‘میں تجھے کھول دوں؟” وہ بولی: ‘‘جو اس عرصے میں میرا شوہر جاگے اور کھنبھا خالی دیکھے تو خدا جانے اس سے زیادہ مجھے کیا اذیت دے”۔ اُس نے کہا: ‘‘خیر جو آج تو اُس کے پاس نہ جاوے گی تو کل اُسے جیتا نہ پاوے گی”۔ اہیرنی بولی: ‘‘جو تیری رضا مندی اسی میں ہے تو میں نے قبول کیا لیکن تو میرے بدل بندھی رہ اور جب لگ کہ میں وہاں سے نہ پھر آؤں، تب لگ ہرگز نہ بولنا”۔ نائن نے اُسے کھول دیا، اس کی جگہ اپنے تئیں بندھوا لیا، وہ اپنے یار کنے گئی۔جب دو چار گھڑی رات باقی رہی تب اہیر چونکا تو اُٹھ کر اُس کو کھنبھے سے کھول ساتھ سُلا کر کہا کہ میں نے تیری تقصیر معاف کی اور تو بھی قسم کھا کہ پھر ایسا بُرا کام نہ کروں گی۔ کئی بار اُس نے یہی بات کہی۔ یہ سُن کر دم کھا رہی۔ دل میں سمجھی کہ اگر بولوں گی تو یہ پہچان جائے گا۔ میں شہر میں بدنام ہو جاؤں گی۔ اسی ڈر سے اپنی آواز اُسے نہ سنائی۔ گوالے نے جب دیکھا کہ یہ سوگند نہیں کھاتی، تب جانا کہ اس کے دل میں حرام زدگی بھری ہوئی ہے، یہ اُس کام سے باز نہ رہے گی۔ خفا ہوکر پھر اُسے کھنبھے سے کس کے باندھا اور ناک اُس کی کاٹ لی، آپ چارپائی پر سو رہا۔گھڑی دو ایک میں اہیرنی اپنے یار کے پاس سے آئی اور آہستہ آہستہ نائن سے پوچھنے لگی: ‘‘کہو بی بی! میرے پیچھے تم پر کوئی حادثہ تو نہیں پہنچا؟” وہ بولی: ‘‘ کیا پوچھتی ہے۔ تیری خاطر میری ناک کٹ گئی”۔ اُسی وقت اُسے تو کھول دیا اور اپنے تئیں بندھوا لیا۔ یہ تو نکٹی ہو کر دل میں پچھتاتی ملولے کھاتی اپنے گھر چلی گئی۔ اُس کے پیچھے اہیر کی آنکھ کھلی اور پو بھی پھٹنے لگی۔ تب یہ کہنے لگا کہ اے نابکار! تو نے اپنی بدکاری سے توبہ نہ کی اور ناک کٹوائی۔ وہ بولی: ‘‘اگرچہ تو نے مجھ بے قصور پر زور و ظلم کیا لیکن تو دیکھ جو میں بھلے آدمی کی جنی اور نیک بخت ہوں تو رام جی کی دیا سے نکٹی نہ رہوں گی۔ میری ناک جیسی کی تیسی ہو جائے گی۔ اُس کی بات سنتے ہی وہ اُٹھا۔ ناک جوں کی توں دیکھ کر حیرت میں رہا۔ جی میں کہنے لگا کہ یہ عورت نیک زنوں سے ہے، جو اس کی ناک کٹی ہوئی پھر درست ہو گئی۔
یہ سمجھ کر پٹکا گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پر گر، منتیں کرنے لگا اور اپنی تقصیر معاف کروانے۔ اور بولا کہ میں نے ناحق تجھے دکھ دیا، یہ میری خطا معاف کر، پھر کبھی تیری اذیت کا روا دار نہ ہوں گا۔ یہ کہہ کر گندھرب نے کہا: ‘‘اے یار! میں اُس اہیرنی کے مکر سے تو حیران تھا ہی، پھر دل میں یہ خیال کیا کہ اس نائن کا اب تماشا دیکھیے کہ وہ اپنے خاوند سے کیا بہانہ کرے گی۔ غرض میں منہ اندھیرے اُس کے گھر کی دیوار کے کونے لگ کر کھڑا ہو رہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حجام باہر سے اپنے گھر میں آیا، آنگن میں کھڑا ہوکے اپنی عورت سے آئینہ مانگنے لگا۔ اُس نے پٹ کی اوٹ سے نہرنی ہاتھ بڑھا کر اُس کو پکڑا دی۔ اُس نے کہا: ‘‘میں آئینہ مانگتا ہوں، یہ لے اُسے لادے”۔ پھر اُسترہ لا دیا۔
اُس نے وہ اُس کے ہاتھ سے لے لیا اور خفا ہو کر کہا کہ کچھ تو دیوانی ہوئی ہے یا تو نے معجون کھائی ہے۔ میں آئینہ مانگتا ہوں تو کچھ کا کچھ لے آتی ہے۔ یہ کہہ کے پکار پکار کر کہنے لگا کہ میں ابھی اس اُسترے سے تیری ناک کاٹ ڈالتا ہوں۔ یہ بات اُس کے سب محلے والوں نے سنی۔ اُس نے وہ اُسترا باہر سے گھر میں پھینک دیا؛ ووں ہیں وہ رو رو کر کہنے لگی کہ ہے! ہے! اس اُسترے سے میری ناک کٹ گئی۔ اس آواز پر تمام محلے کے رہنے والے دوڑے اور آکر جو دیکھنے لگے تو سچ مچ اس کی ناک کٹی ہوئی دکھلائی دی اور وہ حجام بھی اس حالت کو دیکھ کر ششدر رہا۔ عذر خواہی کرکے کہنے لگا کہ بی بی! یہ مجھ سے بڑی تقصیر ہوئی ہے، اسے معاف کر۔اس بات کو سن کر نائب کے نوکروں نے کہا کہ اے گندھرب! تیرا اور اس نائی کا قصہ ہم نے سنا۔ اب ساد کنوار کی کہانی کا بیان کر۔
نقل ساد کنوار اور پنڈکی کسبی کی
اُس نے کہا کہ ساد کنوار بڑھئی بچہ تھا اور کڑوڑ روپے کا مال لے کر اپنے گھر سے تجارت کرنے کو نکلا اور چودہ برس تک سوداگری ہی کرتا رہا، اور کئی کڑوڑ روپے جمع کرکے اپنے گھر کو چلا۔ اتفاقاً راہ میں ایک شہر ملا کہ اُسے کام رُو کہتے ہیں۔ یہ وہاں گیا اور سنا کہ ایک عورت پنڈکی نام اس شہر میں ایسی حسین رہتی ہے کہ جس کی خوبصورتی کی تعریف بیان سے باہر اور کمر اُس کی ایسی پتلی کہ ویسی کسی عورت کی نہ ہوگی۔ ایک رات کی چوکی کے ہزار روپے لیتی ہے۔ یہ سُن کر نہایت بے قرار ہوا۔ دل میں کہنے لگا کہ اگر اس عورت کو میں نہ دیکھوں گا تو قیامت تک افسوس رہے گا۔ ہزار روپے اپنے ساتھ لے اُس کے یہاں گیا۔ تمام رات عیش و عشرت میں مشغول رہا۔ یہ ارادہ کیا کہ کئی شب اس کے پاس اور بھی رہیے۔ جب رات نے اپنا دامن سمیٹا اور سورج نے صبح کے گریبان سے منہ نکالا، تب ساد کنوار اپنے گھر آیا۔
اس طرح سے کئی رات آیا جایا کیا۔ اُس رنڈی کے گھر میں کاٹھ کا ایک جڑاؤ پُتلا طلسم کا بنا ہوا، نام اُس کا عجیب، پیشانی پر اُس کی ایک لعل بے بہا جڑا ہوا تھا کہ جس کی روشنی کے باعث چراغ کی حاجت نہ تھی۔ اُس کو دیکھ کر ساد کنوار کا دل للچایا اور اپنی خاطر میں یہ بات لایا کہ اس عورت نے میرے بہت سے روپے لیے ہیں۔ اُن کے عوض یہ جواہر بیش قیمت لیجیے اور یہاں سے چپکے چل دیجیے۔
اُس رنڈی نے جو اُس کے بشرے سے دریافت کیا کہ یہ اُس جواہر کو مفت اُڑایا چاہتا ہے؛ یہ سمجھ کر اُس کے پاس سے سرک گئی اور ایک پردے کی آڑ میں جا بیٹھی۔ اس نے جو اتنی فرصت پائی تو چارپائی سے اُٹھ کر ہاتھ دوڑایا کہ اُس گوہر شب چراغ کو اکھیڑ لے۔ جوں ہی اس کا ہاتھ اُس تک پہنچا ووں ہیں اُس پتلے نے اُس کا پنجہ پکڑ لیا۔ اُس نے بہتیرا چاہا کہ کسی تدبیر سے اپنا پنجہ چھڑا کر بھاگے لیکن اُس نے اور بھی ایسا گہکر پکڑا کہ یہ بے قابو ہو گیا۔ ندان جب چھڑا نہ سکا تو گھبرا کر چلانے لگا۔ تب اُس کی لونڈیوں نے یہ ماجرا دیکھ کر اپنی بی بی سے (جو پردے کو لگی اسی واسطے بیٹھی تھی) جا کہا: ‘‘لو نہ بی بی! تمھاری مراد بر آئی”۔
یہ خوش خبری سنتے ہی وہ وہاں سے دوڑی آئی۔ آ کر دیکھا کہ دام میں سونے کی چڑیا پھنسی ہے۔ ہنس کر کہنے لگی کہ اے ساد کنوار! میں جانتی تھی کہ تو کسی بڑے آدمی کا لڑکا ہے اور یہ نہ سمجھتی تھی کہ تو ایسا اُچکا دغا باز ہے۔ دیکھ ابھی کوتوال کو خبر کرتی ہوں۔ وہ تجھے لے جا کر کل سُولی دے گا۔ ایسے چور کی سزا یہی ہے۔ یہ سن کر بہت ڈرا اور اپنی کوتہ اندیشی پر ہزار لعنت و ملامت کی۔ پھر منت و التجا سے کہنے لگا کہ اے پنڈکی! کسی طرح تو مجھے کوتوال کی سولی سے بچالے۔ وہ بولی کہ ایک صورت سے تیری جان بخشی ہو سکتی ہے۔ اگر تو تمام مال و اسباب اپنا مجھ کو منگا دے اور پھر کبھی اُس کا دعویٰ مجھ سے نہ کرے۔ اور نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو۔ اُس نے دیکھا کہ سواے اس کے میرا چھٹکارا نہیں؛ تب اُس نے اپنے لوگوں کو بلوا کر کہا کہ میرا سب مال و متاع اس کے حوالے کرو، نہیں تو میں اس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہوں۔ اُنھوں نے تمام نقد و جنس جو کچھ تھا، اُس عورت کو لا دیا۔ تب اُس نے اُس کا ہاتھ چھڑا دیا تو وہ غریب راتوں رات بھاگ کر کسی طرف چلا گیا اور مَیں رفتہ رفتہ تمھارے ملک میں آ نکلا۔ یہ سب احوال راجا کے نوکروں نے سُن کر حجام کو چھوڑ دیا۔
یہ قصہ دوتک نے کرتک سے کہہ کر کہا کہ جیسے گندھرب اور ساد کنوار اور حجام نے عورتوں کے ہاتھ سے ذلت کھینچی، ویسی ہی ہم نے بھی اس بیل سے۔ اب کچھی ایسی تدبیر کیا چاہیے کہ جس ڈھب سے شیر اور بیل میں دوستی کروائی تھی، ویسی اُن دونوں میں دشمنی ڈلواؤں۔ کرتک نے کہا: ‘‘یہ امر نہایت مشکل ہے، کیا تو نے نہیں سنا کہ سیتا باوجود کہ رام کی جورو تھی، اُس سے کچھ نہ ہو سکا؟” دوتک نے پوچھا: ‘‘کیوں کر؟” اُس نے کہا۔
نقل سیتا، رام اور اُس کی بہن کی
اگرچہ وہ قصہ طول طویل ہے لیکن مختصر کرکے کہتا ہوں۔ سیتا، رام اور اُس کا بھائی لچھن ان تینوں نے بارہ برس تک ایک جنگل میں گزارن کی۔ جب لنکا میں راون نے یہ بات سنی تو اُس جنگل سے سیتا کو لے اُڑا لے گیا۔ رام پھر بڑی محنتوں سے اُس کو وہاں سے لایا۔ جتنی عزت اُس کی آگے تھی اُتنی ہی رہی، کچھ اُس کی آبرو میں بٹا نہ آیا اور اپنے دل کو اُس کی محبت سے ہرگز نہ پھیرا۔ اُس کی بہنیں (جو سیتا کو دیکھ نہیں سکتی تھیں) آپس میں صلاح کی، کچھ ایسی فکر کیا چاہیے کہ اُس کی محبت بھائی کے دل میں نہ رہے۔ ایک ان میں سے اُٹھ کر دوسری سے کہنے لگی کہ دیکھ ابھی میں تجھے اُس کا تماشا دکھلاتی ہوں۔ یہ کہہ کر بھائی کے گھر گئی۔ وہ اُس وقت چوپڑ کھیلتا تھا۔ یہ جاتے ہی بھاوج سے ٹھٹھا کرنے لگی اور ہنستے ہنستے اُس سے پوچھا کہ تجھے کچھ یاد ہے راون کی شکل کیسی تھی؟ سیتا بے چاری اُس کے مَکر چَکر سے واقف نہ تھی، سدھاوٹ سے بولی: ‘‘راون کے دس سر، بیس آنکھیں اور سو اُنگلیاں تھیں”۔ پھر وہ کہنے لگی کہ اُس کی تصویر ذرا تُو کھینچ تو میں دیکھوں وہ کیسا تھا۔اُس بد ذات کے کہنے سے یہ نیک بخت بے خوف و خطرے سفید مٹی سے زمین میں اُس کی صورت کا نقشہ کھینچنے لگی۔ اس میں وہ مکارہ بولی کہ جب تک تو کھینچے، میں اپنے لڑکے کو دودھ پلا آؤں۔ یہاں سے دوڑی ہوئی جہاں رام چوپڑ کھیلتا تھا، چلی گئی۔ جاتے ہی کہا: ‘‘ذرا اپنی جورو کا تماشا چل کر دیکھو”۔ یہ کہہ کر بھائی کا ہاتھ پکڑ لائی، جہاں سیتا وہ نقشہ کھینچ رہی تھی۔ کہا: ‘‘دیکھو جو اس نے اُسے نہیں دیکھا اور اُس سے نہیں ملی تو اُس کی تصویر کھینچ کر کیوں دیکھتی ہے؟” یہ دیکھ سن کر رام کو بہت غیرت آئی۔ خفا ہو کر کہنے لگا کہ سیتا! تجھے جان سے کیا ماروں تو عورت ہے اور رنڈی کا مارنا مرد ہوکر خوب نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ میرے گھر سے نکل جا۔
کرتک نے یہ داستان سنا کر کہا کہ عورت کی محبت میں رام نے دریا پر پل باندھ کر لنکا کو جلایا اور سونے کے کوٹ کو توڑا اور اُسے خاک سیاہ کیا اور راون کو مارا۔ لیکن اپنے گھر سے ایسی پارسا عورت کو ایک دم میں رنڈی کے بہکانے سے نکال دیا۔ دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! وہ کون سی بات ہے جو مکر و حیلے سے نہیں ہو سکتی۔ سیتا نیک بخت تھی، اپنے خاوند کی آبرو کے واسطے کچھ نہ بولی۔ اگر بدکار ہوتی تو جیسا کہ ایک مالن نے اپنے خصم کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اُس کے روبرو ایک یار کو نکال دیا اور دوسرے کو نہلا دُھلا، کھلا پِلا، اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور تک بستی سے باہر پہنچوا دیا، ویسا ہی وہ بھی کرتی۔ کرتک نے کہا کہ وہ نقل کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل ایک مالن اور اُس کے یاروں اور اُس کے خصم کی
دوارکا نگری میں ایک مالی کی رنڈی بدکار کوتوال اور اُس کے بیٹے سے رہتی تھی۔ ایک دن کو ایسا اتفاق ہوا کہ اُس کے لڑکے سے بُرے کام میں مشغول تھی کہ اتنے میں کوتوال دروازے پر آیا اور کواڑوں کو کھٹکھٹایا؛ تب اُس نے لڑکے کو جلدی سے کوٹھی میں چھپایا اور اُس کو دروازے پر سے اپنے پاس بُلایا اور فی الفور ہم بستر ہونے لگی۔
قضا کار ووں ہیں اُس کا خاوند بھی دروازے پر آن پہنچا۔ تب رنڈی نے کوتوال کو سکھایا کہ میں تو پٹ کھولنے جاتی ہوں، پر تم لٹھ کاندھے پر دھرے، بڑبڑاتے، غصہ کرتے باہر چلے جانا، میں پیچھے بات بنا لوں گی۔ اُس نے ویسا ہی کیا۔ تب مالی نے گھر میں آکر اُس سے پوچھا کہ آج ہمارے گھر میں رات کو کوتوال کیوں آیا تھا اور خفگی کس بات پر کرتا چلا گیا؟ مالن بولی کہ اُس کا بیٹا اُس سے آزردہ ہو کر میرے یہاں چھپا ہے اور وہ اُس کو ڈھونڈھتا ہوا آیا تھا۔ اُس نے جو اپنا بیٹا یہاں نہ پایا تو کچھ بکتا ہوا چلا گیا۔ یہ کہہ کر اُس نوجوان کو کوٹھی سے نکالا اور نہلا دھلا، کھلا پلا، اپنے خصم کو اُس کے ساتھ کرکے تھوڑی دور اُسے پہنچوا دیا اور رخصت کے وقت کہہ دیا کہ یہ گھر اپنا ہی سمجھو۔ جب تمھارا جی چاہے، تب آیا کیجو۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ کام پڑے پر جس کی عقل بحال رہے، وہی عاقل ہے۔ پھر کرتک نے کہا: ‘‘بھائی! اُن دونوں میں بڑی دوستی ہے، تم کیوں کر چھڑاؤ گے؟” دوتک بولا کہ یار! جو کام تدبیر سے ہوتا ہے سو زور سے نہیں ہوتا، جیسا کہ کوے نے سانپ کو جان سے کھوایا۔ سنجوگ کیا مال ہے کہ میں اُس کو اُس کے رُتبے سے گرا نہ سکوں گا۔ پھر کرتک نے پوچھا کہ وہ قصہ کیوں کر ہے؟ دوتک بولا۔
نقل ایک کوے اور سانپ کی
درخت پر ایک جوڑا کووں کا مدتوں سے رہتا تھا اور اُسی درخت کی جڑ کے کھنڈلے میں بڑا سا کالا سانپ رہا کرتا۔ کوے کی مادہ نے اپنے گھونسلے میں انڈے دیے اور کوا سینے لگا۔ بعد بیس بائیس روز کے بچے نکلے۔ جب مہینے ایک کے بچے ہوئے، تب وہ سانپ اپنی جگہ سے نکلا اور آستے آستے اُس درخت پر چڑھا۔ کوا تو اُس وقت وہاں نہ تھا، اُس کے بچوں کو کھوندے میں سے کھا لیا۔ ہر چند اُس کی مادہ ایک دوسری ٹہنی پر بیٹھی ہوئی بہتیرا کاں کاں کیا کی اور بہت واویلا کر رہی، پر کوئی اُس کی داد کو نہ پہنچا اور کچھ فائدہ اُس کی فریاد سے نہ ہوا۔ جب کوا باہر سے پھر آیا تو مادہ نے اُس سے بچوں کی مصیبت اور اپنے کلپنے کا احوال کہا۔ یہ اُس سانپ کا ظلم سن کر دو تین دن بچوں کے سوگ میں رہا اور بہت سا رویا دھویا کیا اور دانا پانی چھوڑا۔ تب اُس گرد نواح کے جتنے کوے تھے، اُس حادثے کی خبر سن کر سب آئے۔ اور اُسے، جو اپنے جگر گوشوں کے ماتم میں ماتمی لباس پہن کر بیٹھ رہا تھا، تسلی دی اور اُس کا ہاتھ منہ دُھلا، کھانا پینا کھلا پلا رخصت ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ تب مادہ نے نر سے کہا: ‘‘اب یہاں رہنا خوب نہیں۔ صلاح یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیجیے، کہیں دوسری جگہ آرام کی اچھی سی دیکھ کر جا رہیے، کیوں کہ حکما کہتے ہیں تین چیزوں سے انسان جلد مر جاتا ہے: ایک تو یہ کہ جس کی عورت بے گانے مرد پر فریفتہ ہو، دوسرے یہ کہ رہنا اُس گھر میں جہاں سانپ رہتا ہو، تیسرے یہ کہ دوستی کرنا احمق سے”۔
کوے نے کہا: ‘‘اے ناقص عقل! تو اتنی بے قرار نہ ہو، ٹُک صبر کر، دیکھ تو میں تیرے بچوں کا بدلہ کیوں کر لیتا ہوں”۔ وہ بولی: ‘‘تجھے میرے ساتھ اتنی جھوٹھی باتیں کرنی نہ چاہئیں۔ تیری عقل کی کیا رسائی جو اُس سے کچھ کام ہو سکے اور نادان میں ہزار طرح کی قوت ہو پر اُسے کچھ فائدہ نہیں ہوتا”۔ کوے نے اُس سے کہا: ‘‘تو نے نہیں سنا جو خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مارا”۔ وہ بولی: ‘‘یہ بھی تُو جھوٹھ کہتا ہے۔ بھلا خرگوش شیر کو کیوں کر مارسکتا ہے؟”کوے نے کہا۔
نقل ایک خرگوش اور شیر کی
منڈ کارن ایک جنگل ہے، وہاں اکثر اقسام طرح کے جانور رہتے تھے۔ اتفاقاً دردانت نام ایک شیر کسی پہاڑ سے نکل کر اُس جنگل میں آرہا۔ ہر روز بارہ جانور وہاں سے مارتا؛ ایک اُن میں سے کھاتا اور سب چھوڑ کر چلا جاتا۔ جب دو تین مہینے اسی طرح گذرے تو بہت سے جانور مارے گئے۔ جب یہ صورت وہاں کے جانوروں نے دیکھی تو سب جمع ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ اگر اسی طرح یہ شیر ہمیں مارا کرے گا تو کئی مہینے کے عرصے میں کوئی باقی نہ رہے گا، سب کو ٹھکانے لگا دے گا۔
آخر سب نے مل کر یہ صلاح کی کہ شیر کے پاس کسی شخص دانا کو بھیجا چاہیے کہ وہ جا کر یہ بات کہے کہ تمھارا پیٹ ایک جانور سے بھرتا ہے، پس اتنے جانوروں کا روز تم خون ناحق کیوں کرتے ہو؟ ایک جانور ہر روز ہم تمھارے کھانے کے لیے پہنچا دیا کریں گے۔ یہ بات تمھارے واسطے بہت اچھی ہے اور ہمارے بھی۔
جب آپس میں اُن کے یہ صلاح ٹھہری کہ ایک گیدڑ کو یہاں سے یہ پیغام دے کر اُس کے پاس بھیجیے۔ اس میں ایک خرگوش مجلس سے بول اُٹھا کہ یارو! یہ بات گیدڑ سے ہرگز درست نہ ہوگی بلکہ یہ وہاں جاکر ہمارے برخلاف کہے گا، کیوں کہ جب سے یہ شیر اس جنگل میں آیا ہے، تب سے ہمارے گھروں میں ماتم اور گیدڑوں کے شادی ہوئی ہے۔ وہ جھنجھلا کر بولا کہ اگر میری وکالت تجھ کو منظور نہیں اور فتنہ انگیز جانتا ہے تو تُو ہی جا اور اس معاملے کو بنا لا۔ تب خرگوش نے اس مہم کے واسطے کمر ہمت باندھی اور شیر کے نزدیک جاکر آداب بجا لایا۔ اُس نے دیکھ کر پوچھا: ‘‘تو کہاں سے آیا؟” اُس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ خداوند! اس جنگل کے تمام رہنے والے نے مجھے بہ طور ایلچی کے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ عرض کی ہے کہ خود بدولت کو بہت جانوروں کو مارنے اور اذیت دینے سے کیا حاصل؟ ہم سرکار میں یہ اقرار نامہ لکھ دیتے ہیں کہ ہمیشہ ایک جانور آپ کی خوراک کے واسطے بلا ناغہ پہنچا کرے گا، اس میں ہرگز کبھی خلاف نہ ہوگا۔ شیر نے قبول کیا۔ خرگوش وہاں سے رخصت ہوا، اپنے جنگل کو پھر آیا۔ جو گفتگو اُس کے اور اِس کے درمیان ہوئی تھی، سو جانوروں کو سب سنا دی۔ ہر روز ایک گلے سے جانور شیر کے یہاں پہنچا کرتا۔
جب نوبت خرگوش کی پہنچی، اُس نے اندیشہ کیا کہ اب کچھ ایسی تدبیر کروں کہ جس سے شیر کا لقمہ نہ ہوں۔ یہ خیال دل میں لاکر اپنے بچوں سے رخصت ہو، روتا ہوا شیر کی طرف چلا۔ تھوڑی دور جا کر راہ میں بیٹھا اور اپنے دل میں یہ فکر کرنے لگا کہ لوگ مجھے دانا اور عقل مند کہتے ہیں۔ اگر میری عقل اس وقت کچھ کام نہ آوے تو جاے تعجب اور محل افسوس کا ہے۔ وہاں سے اُٹھ کر یہ خیال کرتا ہوا ہولے ہولے نزدیک شیر کے گیا۔ وہ بھوک کی جھانجھ میں بیٹھا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی غرانے لگا کہ تو نے آج اتنی دیر کیوں لگائی؟ میرے ناشتے کا وقت ٹل گیا اور بھوک نے مجھے بے تاب کیا۔
خرگوش ڈرتے ڈرتے کہنے لگا کہ اگر امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ باگھ بولا: ‘‘جو کہنا ہو سو جلد کہہ لے”۔ خرگوش کہنے لگا کہ میں چلا آتا تھا، راہ میں ایک شیر ملا۔ اُس نے میرا پیچھا کیا، میں بھاگا اور پکار کے کہا کہ تو نہیں جانتا ہے کہ بادشاہ یہاں کا دردانت ہے؟ میں اُس کی خوراک ہوں، تو کون ہے کہ مجھے کھایا چاہتا ہے؟ بادشاہ سے نہیں ڈرتا اور اس کا خوف نہیں کرتا؟ تد وہ بولا کہ دردانت کیا چیز ہے اور اس کو اتنی طاقت کہاں کہ مجھ سے لڑے اور اب اس جنگل میں رہ سکے۔ تجھے میں نے اس واسطے چھوڑ دیا کہ تو جا کر اُسے خبر کرے۔ غریب پرور! میں نے آپ کو اطلاع کردی، آگے مختار ہیں۔ شیر اتنی بات سنتے ہی غصے سے جل گیا۔ کہنے لگا کہ تو مجھے اُس کا ٹھکانا بتلا دے۔ یہ آگے آگے شیر پیچھے پیچھے۔ جاتے جاتے ایک ایسے جنگل میں لے گیا کہ جس میں ایک بڑا کُوا تھا۔ اُس کنویں کے لب پر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ آپ کا دشمن اسی میں ہے۔ جیوں شیر نے کنویں کو جھانکا، تیوں اپنا عکس پانی میں دیکھا؛ جانا کہ وہ یہی ہے۔ غضب ناک ہو کر بھبکنے لگا اور ویسی آواز کنویں سے نکلنے لگی۔ شیر خفگی سے بول کر اُس کنویں میں کود پڑا اور پانی میں ڈوب کر مر گیا۔
پھر کوے نے کہا کہ اے مادہ! جس طرح اُس خرگوش نے اپنی عقل کے زور سے شیر کو مار کھپایا، اُسی طرح میں بھی اس سانپ کو ماروں گا۔ مادہ نے کہا: ‘‘اگر تجھ کو کچھ عقل ہے تو دیری نہ کر”۔ کوا بولا: ‘‘دانش مندوں نے یوں کہا ہے کہ جلدی میں کوئی کام اچھا نہیں ہوتا ہے ؎
جلدی نہ کر کہ کام ہے موقوف وقت پر
سارا انار تڑکے ہے وقت آئے ہے اگر
ان شاء اللہ تعالیٰ آج تو میں اپنے دل سے مصلحت کرتا ہوں کل اپنا کام کروں گا”۔ مادہ نے کہا: ‘‘اے کوے! جس کو جو کام کرنا ضرور ہوا اور اُس سے وہ ہو سکتا ہو اور وہ کہے کہ آج نہیں کل کروں گا، اُس سا دوسرا کوئی دنیا میں نادان نہیں۔ اس واسطے یہ مثل لائے ہیں: شب حاملہ فردا چہ زاید”۔ کوا یہ بات سن کر چیت گیا۔ وہ بولی: ‘‘مناسب یوں ہے کہ ابھی تو یہاں سے جا اور سانپ کے مارنے کی تدبیر کر کیوں کہ وہ ہمارا جانی دشمن ہے”۔
کوا جو اُڑا تو وہاں کے بادشاہ کے رنگ محل پر جا بیٹھا۔ اتفاقاً اُس وقت بادشاہ کی بیٹی غسل کرتی تھی اور اپنا نولکھا ہار موتیوں کا گلے سے اُتار کر کھونٹی پر لٹکا دیا تھا۔ کوا اُس ہار کو اپنی چونچ میں لے کر کوٹھے کی مُنڈیر پر جا بیٹھا۔ لونڈیوں نے غُل مچا کر کہا کہ شہزادی کا ہار کوا اٹھا لے گیا اور کوٹھے پر جا بیٹھا۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ نے لوگوں کو دوڑایا کہ خبردار! ہار جانے نہ پاوے۔ جب کوے نے دیکھا کہ ایک خلقت میرے گرد جمع ہوئی، تب وہ وہاں سے آہستے آہستے اڑتا ہوا اپنے گھونسلے کی طرف چلا۔ جتنے آدمی جمع ہوئے تھے، سو سب اُس کے پیچھے پیچھے ہاں ہاں کرتے دوڑے۔ وہ اُس درخت پر جا بیٹھا جس میں وہ سانپ تھا اور وہ لوگ بھی اُس کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ اور آدمیوں کے شور و غُل سے سانپ درخت پر چڑھ گیا اور کوے کے گھونسلے میں جا چھپا۔ تب کوے نے غنیمت جان کر وہ ہار سانپ کے گلے میں ڈالا اور آپ دوسرے درخت پر جا بیٹھا۔ دو چار آدمی وہ ہار اتارنے کو ان میں درخت پر چڑھ گئے۔ وہاں جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے اور وہ اُن کو دیکھ اپنا سر اُٹھا کر چاروں طرف پھنکاری مارنے لگا۔ وے لوگ اُس کے ڈر سے ہار نہ لے سکے اور نیچے اُتر آئے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ ہار سانپ کے گلے میں پڑا ہے۔ وہ غصے سے پھنکاری مار رہا ہے، ہمارا ہواؤ نہیں پڑتا جو اُس کے گلے سے اُتاریں۔ تب انھوں نے بڑھئی کو بلوایا اور وہ پیڑ جڑ سے کٹوایا۔ سانپ کو مار ہار بادشاہ کے پاس لے آئے۔
پھر دوتک نے کہا: ‘‘بھائی! کوے نے سانپ مارا اور خرگوش نے شیر۔ یہ بیل کیا چیز ہے جو میں اپنی عقل سے اُس کو نہ مار سکوں گا”۔ کرتک نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگر تجھ کو مارنے کی طاقت ہے تو جا اس کام میں غفلت نہ کر”۔
دوتک نے جب کرتک کی زبان پائی تو تنہا سنجوگ کو بُلا کر جھوٹھ موٹھ کہنے لگا کہ مجھے بادشاہ نے کہا ہے کہ تو سنجوگ کو جا کر کہہ دے کہ سرکار بادشاہی میں فوج کم ہے اور خزانہ بہت۔ تو لشکر رکھنے کی ایسی فکر کر کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سپاہ رکھی جاوے۔ سنجوگ نے اُس کی بات پر اعتماد کرکے دروازہ خزانے کا کھولا اور سپاہ رکھنے لگا۔
جب دوتک نے دیکھا کہ سنجوگ نے فوج رکھنے کے پیچھے سارا خزانہ بادشاہی صرف کیا، تب شیر کے پاس جاکر آداب بجا لایا اور اپنے پاے پر کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ جہاں پناہ! ان دنوں کچھ عجائب تماشا نظر آتا ہے، پر جناب عالی کے رُو برو عرض نہیں کر سکتا ہوں کیوں کہ بزرگوں نے کہا کہ جو کوئی بِن بلائے کسی کے گھر جاوے یا بِن پوچھے بات کہے تو اُس کے برابر کوئی احمق نہیں۔ لیکن میں ڈرتا ہوں کہ میرا وہ حال نہ ہو جو اُستاد سے شاگرد کا ہوا۔ شیر نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” دوتک کہنے لگا۔
نقل اُستاد اور شاگرد کی
میں نے یوں سنا ہے کہ لکھنوتی ایک بستی ہے۔ وہاں کسی معلم سے ایک لڑکا پڑھتا تھا اور میاں جی اُس کا افیمی۔ جب افیم اُتر جاتی اُسے نیند آتی اور اونگھنے لگتا۔ اگر اُس حالت میں کوئی اُسے کچھ کہتا یا شاگرد کوئی لفظ سبق کا پوچھتا تو خفا ہوکر شاگرد کو خوب مارتا اور کہتا کہ اے بے وقوف! اول مکتب میں ادب سیکھا چاہیے کہ جس کے باعث بہت سے کام نکلتے ہیں۔ غرض ہر روز شاگرد کو یہی تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر پھر کبھی بغیر پوچھے مجھ سے کوئی بات کی یا مجھے سوتے سے جگایا تو مارتے مارتے مار ڈالوں گا۔ شاگرد نے توبہ کی کہ پھر ہرگز ایسا کام نہ کروں گا۔
ایک دن رات کو چراغ اپنے سامھنے رکھ کر اُسی شاگرد کو پڑھا رہا تھا۔ اتنے میں اُسے پینک جو آئی تو شملہ اُس کا چراغ کی ٹیم پر جا پڑا اور پگڑی جلنے لگی۔ گرمی جو اُس کو پہنچی تو چونک کر شاگرد سے کہنے لگا کہ اے بد ذات! تو دیکھتا تھا کہ پگڑی میری جلتی تھی، مجھے کیوں نہ جگا دیا؟ یہ کہہ کر اُس کو بہت سا مارا۔ اُس نے رو رو کر کہا کہ آپ ہی نے مجھے منع کیا تھا، سونے کے وقت مجھے مت جگائیو اور بے پوچھے بزرگوں کی بات میں نہ بولیو کہ بے ادبی ہے۔ اس واسطے میں نے آپ کو نہ جگایا۔ آخوند جی نے کہ کہا کہ لاحول ولا قوۃ۔ میں نے اس بات کو منع نہیں کیا تھا کہ کسی کا نقصان اپنے سامھنے ہو، وہ اُسے خبر نہ کرے اور بیٹھا دیکھا کرے۔
پھر دوتک نے کہا کہ خداوند! میرا اور آپ کا قصہ اُس استاد اور شاگرد کا سا ہے۔ اگر کہوں تو بے ادبی، جو نہ کہوں تو سرکار کا نقصان ہے۔ بادشاہ نے فرمایا کہ میں نے تجھے اپنا وزیر اسی واسطے کیا جو تو دیکھو سو حضور میں ظاہر کرے۔ اگر تو نے کچھ دیکھا ہے تو کیوں نہیں کہتا؟ خصوص جس میں کہ سرکار کا فائدہ ہو، اسے چھپانا نہایت نامناسب ہے۔ تب اس نے عرض کی: ‘‘جو غلام حضور میں ظاہر کرے، اگر اسے باور کیجیے تو مفصل گوش گزار کرے”۔ شاہ نے اشارہ کیا کہ ہوں۔ دوتک بولا کہ خداوند! سنجوگ باغی ہوا ہے کیوں کہ جناب عالی کے بے حکم اوپر ہی اوپر فوج رکھتا ہے۔ اور وہ آپ بھی زور آور ہے؛ سواے اس کے سرکار کا خزانہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اس بات کے سنتے ہی بادشاہ آگ ہو گیا اور کئی جاسوس اسی وقت اس کا احوال دریافت کرنے کو مقرر کیے۔ انھوں نے دو چار دن کے بعد اس کا احوال موافقِ اظہار دوتک کے حضور میں ظاہر کیا۔ تب دوتک بولا کہ پیر مرشد! مقدمے کی صورت یوں ہے جو آپ نے سنی، غلام نے خلاف نہیں عرض کیا۔ اب آپ مختار ہیں۔ جیسا مناسب جانیے ویسا کیجیے۔ تب شیر نے دوتک سے کہا: ‘‘اگر میں اس کو مار ڈالوں تو ساری خلقت مجھے کہے گی کہ یہ کیسا بادشاہ ہے کہ جس کو بلا کر خلعت سرفرازی کا دیتا ہے، پھر اسے مار ڈالتا ہے۔ یہ بات میرے حق میں موجب بدنامی کا ہے”۔
دوتک نے عرض کی کہ خداوند! غلام کی عقل ناقص میں یوں آتا ہے کہ بالفعل اس کو خزانے کی خدمت سے تغیر کیجیے اور دوسرے کو اس کی جگہ بحال۔ اور اس کے کھانے کے لیے کچھ تھوڑا سا مقرر کر دیجیے کہ جس سے اس کے بدن کا زور کم ہو جاوے۔ بادشاہ نے دوتک کے کہنے سے فرمایا کہ سنجوگ سے کام چھین لیں اور راتب کم کر دیں۔ تب دوتک حضور سے رخصت ہوا اور بادشاہی دروازے پر آ کر دربان سے کہا کہ حضرت کا حکم یوں ہے کہ سنجوگ آج کی تاریخ سے بے حکم ہمارے حضور میں نہ آنے پاوے۔ یہ کہہ کر اپنے گھر گیا اور سنجوگ کو بلا کر کہا کہ بادشاہ نے تیرے حق میں یوں فرمایا ہے کہ بے ہمارے بلائے حضور میں وہ نہ آوے اور فوج کے رکھنے میں مشغول اور سرگرم رہے۔ جب بہت سی نگہ داشت کر چکے تب حضور میں آوے۔ وہ بیل بے وقوف اس وزیر دغا باز کی بات کو سچ جان کر خوشی خوشی سپاہ رکھنے لگا اور کئی روز حضور میں مجرے کو نہ گیا۔ تب دوتک نے قابو پا کر دربار میں کسی سے بادشاہ کو سنا کر پوچھا کہ سنجوگ کئی دن سے یہاں نہیں آیا، اس کا سبب کیا ہے؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ ووں ہیں بادشاہ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ وہ پانچ چار روز سے حضور میں حاضر نہیں ہوتا۔
دوتک نے کہا کہ بندے نے پہلے ہی جناب عالی میں عرض کی تھی کہ اس کے پاس دن بہ دن فوج جمع ہوتی ہے۔ یقین ہے کہ وہ آج کل آپ سے مقابلہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘اے دوتک! اگرچہ اس کی بد ذاتی جاسوسوں کی زبانی کچھ کچھ ہم سن چکے ہیں تاہم جس کو تو عقل مند جانے اس کو وہاں جلد بھیج دے کہ قرار واقعی اس کا احوال دریافت کر کے ہم کو خبر دے”۔ وہ ایک عقل مند چوہے کو جو اس کا یار جانی تھا، اپنے طور کی باتیں سکھا پڑھا روبرو بادشاہ کے لایا اور اسی کو اس مقدمے کی تحقیقات کے واسطے مقرر کروایا۔ جب یہ سنجوگ کے یہاں پہنچا، وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بہت سی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھایا، عطر و پان اس کے سامھنے رکھوائے اور پوچھا کہ تمھارا آنا یہاں کیوں کر ہوا؟ کہا: ‘‘دوتک وزیر نے مجھے تمھارے پاس اس واسطے بھیجا ہے کہ سواری بادشاہ کی عنقریب ہے؛ تم نے اب تک کچھ فوج رکھی ہے یا نہیں؟ اگر رکھی ہے تو بہت اچھا و اِلّا بادشاہ کو کیا جواب دو گے جب وہ پوچھے گا؟” سنجوگ بولا کہ میری طرف سے وزیر کی خدمت میں سلام عرض کر کے التماس کرنا کہ میں نے خداوند کے اقبال سے بڑی کٹیلی فوج جمع کی ہے۔ تھوڑے سے لوگ اور بھی رکھ لوں تو حضور میں حاضر ہوں۔
یہ کہہ کر کچھ اسے دے دلا بہ خوبی رخصت کیا۔ پھر وہ حضور میں حاضر ہوا اور آداب بجا لایا۔ تب حضرت نے پوچھا کہ میں نے جو تجھے وہاں بھیجا تھا سو تو نے کیا دیکھا؟ اس نے عرض کی: ‘‘پیر مرشد! میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ اس نے بہت لوگ رکھے ہیں اور اس کی بات چیت اور اوضاع اطوار سے اور اس کے بعضے ملازموں کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ آج کل خداوند کا سامھنا کرے۔ یہ سنتے ہی شیر آگ کا بگولا ہو کر دوڑا اور جھپٹ کے سنجوگ کی گردن توڑ ڈالی اور اس کا لہو پی گیا۔
بعد اس کے وفاداری اور خوبیاں اس کی جب یاد آئیں، بہت سا افسوس کیا اور کہنے لگا کہ میرا بڑا خیر خواہ نوکر تھا۔ میں نے اس کے مارنے میں عبث جلدی کی۔ بہتر یہ تھا کہ اس کا احوال بہ تامل دریافت کر کے جو مناسب جانتا سو کرتا۔
دوتک نے کہا: ‘‘خداوند! اب اس کے لیے پچتانا عبث ہے کیوں کہ یہ بات دنیا میں زبان زد ہے کہ نہ ٹوٹا شیشہ بنتا ہے، نہ مُوا آدمی پھر جیتا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر وہ تم سے مقابلہ کر بیٹھتا تو تمام عمر اس رسوائی کا داغ تمھارے دل سے نہ چھوٹتا۔ خوب ہوا جو دشمن زبردست مارا گیا۔ اور اگر وہ آپ کے ہاتھ سے بچ جاتا تو آخر بدلا اس کا کبھو نہ کبھو تم سے لیتا”۔ یہ سن کر بادشاہ اپنے دیوان خانے میں آ بیٹھا اور کھانا کھانے لگا۔ تب دوتک نے یہ شعر حضور میں پڑھا ؎
اگر تو سیج کو سو طرح سے لگاوے گا
یہ یاد رکھ تو کبھی اس سے پھل نہ پاوے گا
جب بشن سرما پنڈت نے دوسری کہانی سُرہد بھید کی (یعنی اچھی دوستی میں بگاڑ کرانا) تمام کی، تب راجا کے بیٹوں نے کہا کہ مہاراج! ہم نے یہ کتھا سنی؛ اب تیسری نقل بگرہ یعنی جنگ کی بیان کیجیے کہ اس کے سننے سے ہم مستفید ہوویں۔