اب یہاں سے قصے کی بنیاد یوں ہے کہ ہند میں گنگا کنارے ایک شہر، نام اس کا مانک پور اور راجا وہاں کا چندر سین تھا اور جتنے ذات بھائی اس کے برابر کے تھے، سب اس کے حکم میں رہا کرتے۔ ایک دن راجا اپنی سلطنت کے تخت پر بیٹھا تھا اور بیٹے اُس کے بے ادبوں کی طرح سامھنے کھڑے تھے۔ ایک شخص یہ بد وضعی ان کی دیکھ کر کہنے لگا: جس کو علم نہیں وہ اندھا ہے، اگرچہ آنکھوں سے دیکھتا ہے؛ لیکن علم وہ چیز ہے کہ جس کی قوت سے مشکلیں حل ہوتی ہیں اور غنی وہ ہے جس کو علم کی دولت ہو کیوں کہ نہ اسے کوئی چور لیوے، نہ اس پر کوئی دعوی کر سکے اور نہ یہ کسی پر معلوم ہو کہ وہ رہتی ہے کہاں، بلکہ جتنی خرچ کیجیے اتنی بڑھے، کسی طرح سے کم نہ ہو۔
اور علم جواہر بے بہا اور مردوں کی زیب و زینت اور سفر حضر کا رفیق ہے۔ جس میں یہ ہو، وہ بزرگوں اور بادشاہوں کی مجلس میں بیٹھنے پاوے۔ اور سب ہنروں میں سے دو خوب ہیں: ایک علم، دوسرا فن سپہ گری۔ لیکن دونوں میں سے علم کو اچھا کہا ہے، کس واسطے جو علم لڑکا پڑھے تو سب کوئی دعا دیں، اگر بوڑھا پڑھے تو دل و جان سے سنیں، جب اس کے معنوں کو وہ سمجھاوے تو اسے دل میں جگہ دیں؛ برخلاف اس کے اگر بوڑھا تلوار چلاوے تو لوگ اس پر ٹھٹھے ماریں اور یہ کہیں دیکھو بڑھاپے میں عقل ماری گئی، دیوانہ ہو گیا۔ پس علم سیکھنے میں ہرگز کاہلی نہ کرو اور یہ خاطر میں مت لاؤ کہ اس زندگی کے واسطے اتنی محنت کیا ضرور ہے؟ سنو! اگر علم حاصل کرو گے تو خدا کی بندگی اور دین دنیا کی دولت بہ خوبی ہاتھ آوے گی اور یہ بھی خیال غفلت سے دل میں کبھی نہ لاؤ کہ ابھی ہم جوان ہیں، خدا کی بندگی کو بہتیرے دن پڑے ہیں، خاطر جمع سے کریں گے، بالفعل کام دنیا کے کریں۔ بلکہ یہ جانو کہ موت سر کی چوٹی پکڑ کے ہمیشہ خدا کے حکم کی منتظر رہتی ہے۔ جب حکم ہوا ترت گلا گھونٹ لے جاتی ہے، ایک دم فرصت نہیں دیتی۔ اے یارو! اپنے لڑکوں کو لڑکائی میں علم سکھاؤ تو ان کے دل میں وہ نقش کالحجر ہووے۔ جیسا کچے برتن پر نقش کیجیے تو وہ بعد پکنے کے کبھی دور نہیں ہوتا ہے۔
جب راجا نے یہ سب حقیقت سنی تو غم گین ہو کر سر نیچے کر لیا۔ پھر کہنے لگا: “افسوس! میرے لڑکوں میں چار چیزیں جمع ہوئی ہیں: جوانی، مال، غرور، بے ہنری۔ جو ایک چیز ان چاروں میں سے کسی میں ہو تو اسے خانہ خراب تین تیرہ کرتی ہے اور جس لڑکے کو علم نہ ہو یا علم پر عمل نہ کرے تو اس سے بیل بھلا کہ جو بوجھ اٹھاتا ہے اور بہت اس سے کام نکلتا ہے۔ یہ یاد رکھو، جب کسی مجلس میں یہ ذکر نکلے کہ اس ملک میں نیک کون اور بد کون ہے؟ اس میں جس کا نام نیکی سے لیا جاوے، وہی فرزند خلف کہلاوے اور جس شخص کا نام بدی سے لیویں تو اس کے ماں باپ بانجھ لاولد کہلاویں۔ اور کہہ گئے ہیں کہ جس پر خدا مہربان ہو اسے چھ چیزیں میسر ہوتی ہیں: پہلی ان میں سے روز بہ روز علم کی زیادتی، دوسری تندرستی، تیسری عورت نیک بخت، وفادار، شیریں زبان، چوتھی سخاوت اور خدا ترسی، پانچویں بڑی عمر اور نیک بختی، چھٹی یہ کہ ہنر جو ناداری میں کام آوے”۔
پھر اس مجلس میں سے دوسرا شخص بولا: ‘‘اے راجا! چار چیزیں لڑکا ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں نکلتا: پہلی بڑی عمر یا چھوٹی، دوسری نیک بختی یا بد بختی، تیسری دولت یا فقیری، چوتھی ہنر یا بے ہنری۔ خدا نے تمھارے بیٹوں کو علم نصیب کیا ہے، ہنر مند ہوں گے۔ جو اندیشہ کہ خونِ دل کو تمھارے پانی کرتا ہے، ایسی دارو کیوں نہیں کھاتے جو اسے وہ دور کرے اور تمھیں ہمیشہ آرام رہے؟”
راجا نے پوچھا: ‘‘وہ کون سی دوائی ہے؟” کہا: ‘‘وہ قول خدا کا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ میں جو چاہتا ہوں، سو کرتا ہوں اور جس چیز کو کیا چاہتا ہوں، وہیں ہوتی ہے”۔ راجا بولا: ‘‘سن یار! یہ سچ ہے جو تو نے کہا لیکن باری تعالی نے آدمی کو ہاتھ، پاؤں، ہوش، گوش، عقل، شعور سب کچھ دیا۔ لازم ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ بندگی میں خدا کی تغافل نہ کرے، کیوں کہ آدمیوں کے کام کا درست کرنے والا وہی ہے۔ جو کوئی علم کے واسطے محنت کرتا ہے خدا اس کی مشقت کو ضائع نہیں ہونے دیتا، جیسا کہ مٹی کمہار کے یہاں خود بہ خود برتن نہیں بنتی جب لگ کہ وہ اس میں پانی دے کر نہ سانے۔ اور چاک پر رکھ کے اپنے ہاتھ سے نہ بناوے، بھلا تب لگ باسن کیوں کر بنے؟” یہ دیکھ کر پھر راجا نے کہا: ‘‘اے بھائیو! تم میں کوئی ایسا دانا عقل مند ہے جو میرے لڑکوں کو علم و ہنر سکھاوے اور کُراہ چھڑا کر سیدھی راہ پر لگاوے کیوں کہ یہ مثل مشہور ہے جو درخت صندل کے پیڑ کے پاس رہے تو وہ بھی خاصیت چندن کی پکڑتا ہے۔
پیڑ صندل کا جو ہوتا ہے کسی جاگہ کھڑا
تو بہت اشجار کو ہوتا ہے اس سے فائدا
ویسے ہی اگر نادان، دانا کی صحبت میں رہے تو وہ بھی عقل مند ہوتا ہے”۔
ایک برہمن بشن سرما نام (جو اسی مجلس میں بیٹھا تھا) کہنے لگا: ‘‘اے مہاراج! میں تمھارے لڑکوں کو جہالت کے بھنور سے نکال کر علم کی کشتی میں سوار کر سکتا ہوں کیوں کہ اگر کوئی پنچھی کے پیچھے محنت کرے تو وہ بولنے لگتا ہے۔ یے تو راجا کے بیٹے ہیں۔ جو خدا چاہے تو تمھارے فرزندوں کو چھ مہینے کے عرصے میں قابل کروں گا۔” اس بات سے راجا بہت خوش ہوا اور یہ بات کہی: ‘‘اگر کیڑے پھولوں میں رہیں تو پھولوں کے سبب بزرگوں کے سروں پر چڑھتے ہیں؛ ایسے ہی جو میرے بیٹے تمھاری خدمت میں رہیں گے، حشو کم عقلی کا (جو ان کے سینے میں جمع ہوا ہے) سو دور ہو کر علم کے جواہر سے پُر ہوگا”۔ جب اس طرح برہمن کی تعریف کی اور اپنے لڑکوں کو اسے سپرد کیا، برہمن نے راجا کے ہر ایک بیٹے کا ہاتھ پکڑ اپنے گھر میں لا بٹھایا اور نصیحت کرنے لگا: ‘‘سنو اے راجا کے بیٹو! عقل مندوں کا وقت پڑھنے لکھنے اور علم کے سیکھنے میں گذرتا ہے، موجب خوشی ان کی یہی ہے۔ اور نادانوں کے دن رات بے ہودہ گوئی اور غفلت کی نیند یا پاس پڑوس کے ساتھ قضیے جھگڑے میں کٹتے ہیں، اسی میں وے خوش ہیں۔ لیکن میں تمھاری خوشی اور فائدے کے واسطے کئی ایک باتیں بہ طور تمثیل کے کوے اور کچھوے، ہرن اور چوہے کی (جو وے چاروں آپس میں یار جانی تھے) کیوں کہ ان کے سننے سے آدمی کی عقل بڑھے اور فہم زیادہ ہو”۔ تب لڑکے بولے: ‘‘کہو مہاراج! ہم سب دل و جان سے سنیں گے”۔