تمہیں خبر ہی نہیں ہم کہاں سے گزرے ہیں
تیری تلاش میں ہم دو جہاں سے گزرے ہیں
زمانہ یاد کرے گا اب ہمیں بھی برسوں
کچھ ایسی مثال ہم اس جہاں سے گزرے ہیں
وہ بھی جان لے گا عشق و جنون کیا ہے
وہ اس مقام تک تو پہنچے ہم جہاں سے گزرے ہیں
وہ اندھا دھند بھاگ رہا تھا-اُس کے قدموں میں بجلی کی سی تیزی تھی-دل خوشی سے بلیوں اُچھل رہا تھا-اُس کے ہر انگ میں سرشاری ہی سرشاری تھی-
آخر بتیس سال کے بعد اُسے پھر سے وہ مل رہا تھا جس کی تلاش میں وہ جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا تھا-ہر دن ہر پل اُس کا انتظار میں کٹا تھا-آج پھر سے اُسے زندگی کی نوید دکھائی دے رہی تھی-وہ پچھلے چند سالوں میں بہت کمزور ہو گیا تھا-چہرے اور جسم پر جھریاں پڑنا شروع ہو گئیں تھی-اُس کی پنڈلیاں اور بازو انتہائی کمزور ہو چکے تھے-وہ زندگی اور موت کے بیچ جھول رہا تھا-زندہ رہنے کی ہر اُمید دم توڑتی نظر آ رہی تھی مگر آج اچانک سے جب وہ خوشبو اُس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو جیسے زندگی کی نوید مل گئی ہو-وہ سینکڑوں میل دور سے بھی وہ خوشبو سونگھ سکتا تھا-
افریقہ کے ناجانے کتنے مربع کلومیٹر پر پھیلے اِس جنگل میں وہ اُس کی خوشبو پاکر پاگلوں کی طرح بنا کچھ سوچے سمجھے آنکھیں بند کیے ایک ہی سمت میں بھاگ رہا تھا-
بند آنکھوں سے راستہ دیکھنے میں بھی کوئی مشکل نہیں پیش آ رہی تھی کیونکہ وہ جنگل کے چپے چپے سے واقف تھا-اس جنگل سے اُس کا رشتہ بہت پرانا اور مضبوط تھا-
وہ یہیں پیدا ہوا تھا اور یہیں پلا بڑھا تھا-اس لیے وہ آنکھیں بند کر کے بھی سمت کا اندازہ لگا سکتا تھا-
اُس کے جسم میں طاقت نہ ہونے کے برابر تھی مگر جب موت کے منہ کی طرف جاتے انسان کے سامنے زندگی ہو اور اُسے پھر سے زندگی کی طرف پلٹنے کی اُمید دی جائے تو وہ ہر رکاوٹ پار کر کے بھی زندگی کی طرف بڑھ سکتا ہے-
اُس کو بھی زندگی کی اُمید مل رہی تھی-وہ پھر سے پہلے کی طرح طاقت ور اور جوان ہو سکتا تھا اگر اُسے زندگی کے جام کا ایک گھونٹ بھی مل جاتا-
وہ خوشبو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھی-اُس کے جسم میں پیاس مزید زور پکڑ رہی تھی-وہ جام اُس کی ضرورت تھا اور اُسے ہر حال میں وہ جام پینا تھا-
{___________}
وہ تینوں لڑکیاں اور دو لڑکے جیپ سے اُترے-سب نے اپنے اپنے بیگ اپنے ہاتھ میں لے لیے-اُن میں سے دو لڑکیوں کے نقوش بلکل ایک جیسے تھے-ایک کا رنگ ہلکا سا گندمی تھا جبکہ دوسری انتہائی گوری اور نازک تھی-
جبکہ دوسری لڑکی اور دونوں لڑکے انتہائی کالے اور موٹے نقوش کے مالک تھے-حلیے اور شکل سے وہ مقامی باشندے ہی لگتے تھے-
"گائز اب کس طرف جانا ہے؟ "- گندمی رنگت والی لڑکی جس کا نام نیناں تھا اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے انگلش میں بولی کیونکہ دونوں لڑکوں اور اُن کے جیسی لڑکی کو اردو یا پنجابی نہیں آتی تھی-وہ اپنی مادری زبان کے علاوہ انگلش ہی سمجھ اور بول سکتے تھے-
"یہاں سے دور ایک ندی ہے جہاں کا آئیریا کافی اچھا ہے-ہم لوگ وہاں اپنے رہنے کا بندوبست کر سکتے ہیں"-ایک لڑکا جسکا نام مارک تھا اُس نے انگلش میں ہی جواب دیا-
"آر یو شیور نہ کہ وہ جگہ سیف ہو گی؟"- گوری رنگت والی لڑکی مالا نے پوچھا-
"یس۔۔۔۔"-مارک نے ہی اُسکی بات کا جواب دیا اور سب کے آگے چلنے لگا-
مالا نے جیپ کی سیٹ سے اپنی پانی والی خالی بوتل اور کیمرہ اُٹھایا اور سب کے پیچھے چلنے لگی-
وہ ندی والی جگہ اچھی خاصی دور تھی-پہنچنے میں چالیس منٹ لگے-گھنے درختوں کی وجہ سے جیپ کا آگے جانا ممکن نہیں تھا اِس لیے اُن لوگوں نے جیپ وہیں چھوڑ دی-مارک نے وہاں آنے سے پہلے ہی اُس جگہ کے بارے میں تھوڑی بہت ریسرچ کر لی تھی اِس لیے وہ میپ کے حساب سے آگے بڑھ رہا تھا اور باقی سب اُسے فالو کر رہے تھے-
ندی کے کنارے پہنچ کر سب نے وہیں گھاس پر ہی ڈھیرا جما لیا-سب تھکے ہوئے تھے اِس لیے وہیں آرام کرنے بیٹھ گیے-مارک اور سیال نے کچھ دیر بعد اُٹھ کر وہاں خیمہ لگانا شروع کر دیا-مایا اُنکی ہیلپ کرنے لگی-نیناں ندی کے کنارے جا بیٹھی اور پانی میں پاؤں رکھ لیے-ٹھنڈا پانی اُسے راحت پہنچانے لگا-جبکہ مالا وہیں گھاس پر ہی لیٹ گئی-اُس کے سر میں ہلکا ہلکا درد شروع ہو چکا تھا اور اُسے آرام کی اشد ضرورت تھی-
صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا تو اب اُسے بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی-میاں جی نے راستے کے لیے دو برگر دیے بھی تھے لیکن اُس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا-یہاں تک آتے آتے وہ باسی ہو چکے تھے تو نیناں نے جیپ سے اُترنے سے پہلے ہی وہ پھینک دیے تھے-اب بھوک سے اُس کا برا حال تھا-
اُسے شاید یہ سفر بہت مہنگا پڑنے والا تھا-سب لوگ اپنے کام میں بزی تھے اور وہ اکیلی لیٹی سوچوں میں گم تھی-اُس نے زندگی میں کب سوچا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ افریقہ کے اِس بڑے سے جنگل میں کھلے آسمان تلے بھوکی پیاسی لیٹی ہو گی-
وہ تو کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں نکلی تھی اور آج ایک انجانے ملک میں اتنے بڑے اور خطرناک جنگل میں وہ موجود تھی-
اُس کا تعلق پاکستان کے شہر میانوالی سے تھا-پیدا ہوتے ہی ماں اور باپ دونوں کا سایا سر سے اُٹھ گیا تو پھر دادا جان جنہیں وہ میاں جی کہتی تھی اُنہوں نے اُسے ماں اور باپ دونوں بن کر پالا-میاں جی کے علاوہ نیناں ہی اُس کی دوست اور بہن سب کچھ تھی-
میاں جی آرمی سے ریٹائرڈ تھے-اُن کے ایک بہت پرانے دوست جو افریقہ میں رہائش پزیر تھے اُنہوں نے میاں جی کو وہاں آنے کی دعوت دی تو وہ انکار نہ کر سکے-ویسے تو میاں جی آرمی کے دور میں بھی ایک دفعہ افریقہ آچکے تھے مگر مالا کا یہ پہلا سفر تھا جس میں نیناں بھی اُس کے ساتھ تھی-دونوں یہاں آنے کے لیے بہت خوش تھیں-پچھلے دو ہفتوں میں وہاں کے لوگوں سے مل کر اور اردگرد کا علاقہ گھوم کر دونوں اتنی پُرجوش تھیں کہ جنگل میں پکنک منانے کا فیصلہ کر لیا-بچپن ہی سے مالا کو جنگل اور پہاڑ بہت پسند تھے تو اُس نے ضد کر کے میاں جی سے تین دن کی پرمیشن لے ہی لی-میاں جی بہت پریشان تھے مگر جب اُنکے دوست نے اپنے تینوں بچوں کو بھی ساتھ بھیجنے کا کہا تو میاں جی نے دل پر پتھر رکھ کر اجازت دے دی اور جس کے نتیجے میں آج وہ یہاں تھی-
سب باتیں سوچتے ہوئے ناجانے کب اُس کی آنکھ لگی اور وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی-اُس نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور ایک آدمی اُس کے سامنے کھڑا ہے-اُس آدمی کا چہرہ اُسے نظر نہیں آرہا لیکن وہ اُس کی آنکھیں دیکھ سکتی ہے-اُس کی آنکھوں کا رنگ گہرا نیلا ہے-وہ آدمی اُس کے نزدیک آتا ہے مگر وہ اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی-وہ اُس کی آنکھوں میں یک ٹک دیکھتی جا رہی ہے-تبھی اچانک وہ اُس پر جھکتا ہے-مالا کو اپنی شاہ رگ پر شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے-وہ آدمی اپنے نوکیلے دانت اُس کی گردن میں گاڑھ دیتا ہے-وہ زور زور سے چلانےلگتی ہے-
"مالا آر یو اوکے۔۔۔۔؟"- تبھی اُسے اپنے بہت قریب ہی نیناں کی آواز سنائی دیتی ہے اور اُسی وقت اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے-نیناں اُس پر جھکی پریشانی سے اُس کو پکار رہی رہی ہے-مالا ڈر کر فورا اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے-اُس کا پورا جسم پسینے میں شرابور ہوتا ہے-
"تم ٹھیک تو ہو نہ۔۔۔۔چلا کیوں رہی تھی؟ "- نیناں اُس کی حالت دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو جاتی ہے-
"ہاں میں ٹھیک ہوں"- اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا-
"چلو اٹھو اور فریش ہو جاؤ پھر کھانا کھاتے ہیں-مایا کھانا گرم کر رہی ہے"- نیناں نے اُس سے دور ہوتے ہوئے کہا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا-
نیناں کے جانے کے بعد وہ پھر سے خواب کے بارے میں سوچنے لگتی ہے-یہ کیسا عجیب و غریب خواب تھا اور وہ آدمی کون تھا اور اُس نے اُس کے گلے پر کاٹا کیوں تھا؟ -
{____________}
رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی-وہ پانچوں خیمے کے باہر آگ جلائے بیٹھے ہوئے تھے-ویسے تو دن میں موسم نارمل ہی رہا تھا مگر رات ہوتے ہی ٹھنڈ اُتر آئی تھی-آسمان پر چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ڈھیر سارے ستاروں میں چمک رہا تھا-
کچھ دیر پہلے ہی سب نے کھانا کھایا تھا اور اب باتوں میں مگن تھے-مایا ہینڈ فری لگائے میوزک سن رہی تھی-کچھ فاصلے پر بیٹھے مارک اور سیال اپس میں کسی مسئلے پر اپنی مقامی زبان میں بحث کر رہے تھے جس کا ایک لفظ بھی نیناں اور مالا کے پلے نہیں پڑ رہا تھا-کبھی کبھی مایا بھی اُن کے ساتھ گفتگو میں شریک ہو جاتی جبکہ وہ دونوں کبھی ایک دوسرے کی طرف دیکھتیں اور کبھی اُن تینوں کو جو اُن کو یکسر فراموش کر چکے تھے-
وہ اُن سے ذیادہ بات کر بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ اُن لوگوں کی انگلش بہت کمزور تھی اس لیے وہ بمشکل ضروری باتیں ہی کرتے تھے اور ذیادہ وقت اپس میں ہی باتیں کرتے رہتے-مایا البتہ اچھی خاصی انگلش بول لیتی تھی لیکن وہ بہت موڈی تھی اس لیے کسی سے بھی ذیادہ بات نہیں کرتی تھی-
"چلو چل کر سوتے ہیں اِن کے پاس تو ہم سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے"- نیناں نے غصے سے کہا تو مالا بھی منہ بنانے لگی-کیا کچھ سوچا تھا کہ جنگل میں یہ کریں گے وہ کریں گے مگر یہاں آکر سب ارمانوں پر اوس پڑ چکی تھی-
"لیکن یار اتنی جلدی نیند کیسے آئے گی۔۔۔۔"- وہ ایک نظر سامنے بیٹھے تین نمونوں کو دیکھتے ہوئے بولے جو ابھی تک اپنی گفتگو میں مصروف تھے یعنی کے ڈھٹائی کی حد تھی-
"قسم سے اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا نہ کہ ان فرنگیوں نے یہاں آکر ہمیں ایسے اگنور کرنا ہے تو میں کبھی یہاں آنے کے لیے تیار نہ ہوتی"- نیناں نے اونچی آواز چلاتے ہوئے میں کہا تو سب اُس کی طرف دیکھنے لگے-
مالا نے اُسے بے ساختہ کہنی ماری اور ٹوکتے ہوئے بولی-
"آہستہ بول اُنہوں نے سن لیا ہے"-
وہ اُن تینوں کے حیران پریشان چہرے دیکھ کر کچھ شرمندہ سی ہو گئی تھی-
"ارے تو سُن لیں ان حبشیوں کو کونسا کچھ سمجھ آنا ہے ۔۔۔۔دیکھو زرا کیسے منہ پھاڑے ہمیں دیکھ رہے ہیں"- نیناں نے اب کی بار اپنی آواز مزید اونچی کی تاکہ وہ اچھے سے سن لیں-مالا نے اپنا سر پیٹ لیا-
"واٹ ہیپنڈ۔۔۔؟"- سیال نے اُن کو ایسے بولتے دیکھ کر پوچھا-
"تمہارا سر ہوا ہے کالے فرنگی۔۔۔۔"- نیناں منہ پھٹ تو شروع سے ہی تھی مگر اِس وقت تو وہ حد کر رہی تھی-مالا نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اُن تینوں کو اردو نہیں آتی تھی ورنہ اتنی بے عزتی پر وہ اُن دونوں کو یقیناً اُسی جنگل میں بھون کر کھا جاتے-
سیال نے نیناں کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ تو لگا لیا کہ وہ غصے میں ہے مگر وجہ سمجھنا اُس کے لیے ناممکن تھا اور نیناں اسی بات کا فائدہ اُٹھا رہی تھی-
"یار مالا چل ان فرنگیوں کو اردو میں گالیاں دیتے ہیں"- اس کا شیطانی دماغ الگ ہی منصوبے بناتا تھا-
مالا نے اُس کی بکواس پر اُس کو گھورا اور بولی-
"پاگل ہو گئی ہے۔۔۔"-
"ارے اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے ان کو تھوڑا کچھ سمجھ آئے گا۔۔۔۔بیچارے سسپنس میں ہی مر جائیں گے کہ ہم کیا بول رہے ہیں"- وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولی-
ایک دم سے ماحول انٹرسٹنگ ہونے لگا تھا-
"یار پر یہ تو غلط ہے نہ۔۔۔۔اگر اُن کو ہماری زبان سمجھ میں نہیں آتی تو اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم ان کو ایسے تنگ کریں"- مالا شش و پنج میں مبتلا تھی-لیکن سچ تو یہ تھا کہ ان تینوں کے ہونق چہرے دیکھ کر اُس کو بھی ہنسی آ رہی تھی-
"ارے کوئی غلط نہیں ہے-ہم تو بس تھوڑا سا فن کریں گے اور شام سے اتنا بور ہوئے ہیں تو اُس کے بعد اتنا فن تو بنتا ہے نہ۔۔۔اور کیا پتہ یہ لوگ بھی ہماری چغلیاں کر رہے ہوں"- وہ پُرجوش ہو کر بولی تو مالا کی ہنسی چھوٹ گئی-
"پاگل وہ ہماری چغلیاں کیوں کریں گے"-
"ارے تم نہیں جانتی یہ فرنگی بہت میسنے ہوتے ہیں"- نیناں بول تو ایسے رہی تھی جیسے وہ بچپن سے ہی فرنگیوں کے ساتھ رہتی تھی-
مالا اب اُس کی باتوں ہر ہنس رہی تھی اور کچھ دیر بعد جنگل کی خاموش فضاؤں میں ان دونوں کے قہقے گونج رہے تھے-دوسری طرف وہ تینوں اپنی باتیں چھوڑ کر اُن کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہے تھے-
بیچارے کنفیوز ہو کر رہ گیے تھے کہ آخر وہ دونوں پاگل کس پر اتنے قہقے لگا رہی تھیں-
وہ رات جو کچھ دیر پہلے ڈراؤنی اور بورنگ لگ رہی تھی اب ایک دم سے بہت دلچسپ ہو گئی تھی-وہ دونوں اپنی باتوں میں اتنا مگن ہو چکی تھیں کہ یہ تک فراموش کر گئیں تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہیں-
کافی دیر بعد جب نیناں کی باتوں کی پٹاری بند ہوئی تو تیزی سے بیتتی رات کی طرف دیہان گیا اور احساس ہوا کہ اب سونا چاہیے-
"اوکے گائز گڈ نائیٹ۔۔۔۔"- نیناں نے اُٹھتے ہوئے خاص اونچی آواز میں اُن تینوں کو سنانے کے لیے کہا اور وہ بیچارے ابھی تک اتنے صدمے میں تھے کہ جواب بھی نہ دے سکے-
"یار کتنا مزہ آیا نہ آج۔۔۔"-
نیناں نے ہنستے ہوئے سرگوشی میں کہا تو مالا بھی ہنس پڑی-
وہ دونوں اُن کو وہیں بت بنا چھوڑ کر خیمے میں آگئیں-
کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں بھی اندر آگیے-خیمہ کافی بڑا تھا-ایک طرف سیال اور مارک کا بستر تھا اور ایک طرف تینوں لڑکیوں کے بستر لگے ہوئے تھے-
اب کمرے میں اُن دونوں کے خراٹے گونج رہے تھے اور اس نئی مصیبت وہ تینوں ایک دفعہ پھر بے بسی کی مورتیں بنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کیونکہ اور کوئی چارہ جو نہیں تھا-
رات کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا-ہر طرف ہولناک سناٹے کا راج تھا-کبھی کبھی دور کہیں سے جنگلی جانوروں کی آوازیں ماحول کو مزید خوفناک بنا دیتیں-وہ سب گہری نیند میں سو رہے تھے-
تبھی اچانک مالا کی آنکھ کھلی-اُس نے خواب میں پھر وہی سب دیکھا تھا جو آج دوپہر کو دیکھا تھا-کوئی آدمی اُس کے گلے میں اپنے نوکیلے دانت گاڑھ کر اُس کا خون پی رہا تھا-اس سے پہلے کہ وہ اُس کا چہرہ دیکھ پاتی اُس کی آنکھ کھل گئی-یہ سب اتنا خوفناک تھا کہ اتنی سردی میں بھی پسینے چھوٹنے لگے-اُس نے خیمے میں چاروں طرف دیکھا-سب لوگ کمبل اوڑھے سو رہے تھے-
ایک دن میں دو دفعہ ایک جیسا خواب آخر کیوں آ رہا تھا؟-وہ اتنی ڈر گئی تھی کہ سانس لینا بھی دشوار لگ رہا تھا-پہلے تو جی میں آیا کہ نیناں کو اُٹھا کر سب بتائے مگر پھر اُس کی نیند کے خیال سے یہ ارادہ ترک کر دیا-کافی دیر وہ اُسی پوزیشن میں بیٹھی رہی-جب کچھ ڈر کم ہوا تو پیاس کا احساس ہوا-پانی کی تلاش میں دیکھا تو خیمے کے دروازے کے پاس دو پانی سے بھری بوتلیں نظر آئیں تو تسلی ہوئی-
وہ ہمت کر کہ اُٹھی اور جا کر بوتل کو منہ لگا لیا-تین چار گھونٹ پینے کے بعد دل کی دھڑکن جو زوروں سے چل رہی تھی کچھ بحال ہوئی-اُس نے بوتل کا ڈھکن بند کر کے بوتل واپس رکھ دی-
بستر پر جانے سے پہلے ناجانے دل میں کیا خیال آیا کہ خیمے کا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا اور شاید یہی سب سے بڑی غلطی تھی-
باہر چاند کی روشنی میں سب منظر واضح نظر آرہے تھے-تبھی اچانک اُس نے دیکھا کوئی اُسے اشارے سے اپنے پاس بلا رہا تھا-اُس آدمی کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ اُس طرف جھاڑیوں کی وجہ سے تھوڑا اندھیرا تھا مگر وہ صاف دیکھ سکتی تھی کہ کوئی اُسے بلا رہا تھا-اُس آدمی کی آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں-مالا کے پیروں تلے سے زمین کسکنے لگی-پورے جسم میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی-لہو نالیوں میں جیسے منجمد ہو گیا-دل کے دھڑکنے کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ اُسے لگا جیسے ابھی پسلیاں چیر کر باہر آجائے گا-خواب میں جو کچھ دیکھا تھا تو کیا وہ سچ ہونے والا تھا-یہ خیال ہی اُس کی روح کھینچنے کے لیے کافی تھا-اُس نے ایک سیکنڈ سے پہلے پردہ گرایا اور بھاگتی ہوئی اپنے بستر پر آ گئی-کمبل سر سے لے کہ پیروں تک اوڑھ لیا-زندگی میں پہلی بار اُسے رات کی تاریکی سے خوف آرہا تھا-اُس کو کبھی اندھیرے سے اتنا ڈر نہیں لگا تھا جتنا آج لگ رہا تھا-آخر وہ کون تھا؟ اور اُسے کیوں بلا رہا تھا؟ -
ایسے ہزاروں سوال اژدھوں کی طرح منہ کھلے کھڑے اُسے نگلنے کو تیار تھے-
باقی کی پوری رات اُس کی آنکھوں میں کٹی-آج کی رات اُس کی زندگی کی سب سے لمبی اور خوفناک رات تھی-صبح جب باہر روشنی پھیلنے لگی تو نیند کی دیوی اُس پر مہربان ہو گئی-
{____________}