چھبیسویں تاریخ نومبر کی بوچڑ صاحب کے ساتھ ایک گاڈی پر سوار ہو کر کنارے دریا کے آیا۔ بوچڑ صاحب کے بھائی ہندوستان میں آتے تھے۔ ننکو نوکر اپنے کو اُن کے سپرد کیا۔ اُس نے بروقتِ رخصت بہت رنج کیا کہ تم نے مجھ کو اس شہر میں اکیلا چھوڑا۔ دل جدائی گوارا نہیں کرتا۔ میں اُس کو تسلی دلاسا دے کرجہاز پر سوار ہو کر چلا۔ نام اس جہاز کا گران ترک، زرنگار بنا تھا۔ ہر قسم کا کھانا پینا اُس پر موجود اور مہیا۔ کپتان جہاز کا نہایت خلیق اور شفیق حال غربا۔ راہ میں ایک رات بڑا طوفان آیا، جہاز ڈگمگایا۔ کپتان صاحب نے لنگر ڈالا۔ اُس پر بھی کچھ فائدہ مرتب نہ ہوا۔ اکثر صاحبوں اور بی بیوں کا حال حرکتِ جہاز سے پریشان ہوا۔ کوئی زیادتی ابکائی اور قے سے بیہوش اور ہراساں، کوئی دورانِ سر سے مصروفِ شور و فغاں۔ لڑکے بیچارے اور زیادہ حیران۔ خلاصہ یہ کہ جہاز پر شورِ قیامت بپا تھا مگر عنایت ایزدی سے بندہ اپنے حال پر رہا۔ جب وقتِ صبح ہوا، جہاز قریب جزیرہ بلون کے پہنچا۔ کنارہ اُس کا دیکھ کر میں بہت خوش ہوا، اس لیے کہ کنارہ اُس کا پل کی طرح لٹھوں سے پٹا تھا۔ صاحب لوگ مع بی بیوں کے اس پر چلتے پھرتے دور سے صاف دکھائی دیتے۔ بندہ جہاز سے اُتر کر محصول گھر میں گیا، پروانہ اپنا وہاں کے اہلکاروں کو دکھایا۔ بعد اس کے ایک سرا میں جا کر اُترا۔ ایک رات دن سیر و تماشا دیکھتا رہا۔ دوسرے دن صبحی اُٹھ کر گاڈی میل کوچ پر سوار ہو کر دار السلطنت پارس کو روانہ ہوا۔ مواضع اور دہات راہ میں دیکھتے جاتے۔ بہ نسبت دہات لندن کے خوبی اور آبادی میں بہت کم تھے۔ گاڈی میل کوچ بہت بڑی انگریزی میل کوچ سے زیادہ تھی۔ چھ گھوڑے اُس میں جتے مگر انگریزی گھوڑوں سے قوت میں کم اور آہستہ آہستہ چلتے۔ راہ میں نشیب و فراز اور کیچڑ چھلا تھا، اس لیے کہ مینھ برسا تھا اور برستا۔ گاڈیبان گھوڑوں کو ہانکتے ہانکتے تمام منزل تھک گیا۔ ہم تین شخصوں نے شریک ہو کر گاڈی میں سے مقام کیا کہ اُس میں تین آدمیوں کی جگہ بآسائش ہوتی ہے۔ کرایہ پر لیا تھا، تسپر بھی گاڈی کے تکان سے بچاؤ نہ ہوا۔ جاڑے کی خوب شدت تھی۔ راہ میں ہر چیز میسر آتی، کتنے گانو کے بعد ایک موضع آبادان پایا کہ عمارت اس کی بلند اور نام اس کا آمین تھا۔
میں نے اپنے دوست سے کہہ کر وہاں مقام کیا اور اس شہر کی سیر کو چلا۔ لڑکے فقیروں کے پیچھے لگے سوال کرتے ساتھ چلے۔ یہ رسم وہاں کی برخلاف لندن کے نظر آئی۔ وہاں کبھی نہ دیکھی تھی۔ اُس شہر میں ایک کلیسا دیکھا۔ تین سو بیاسی فٹ اونچا تھا۔ تمام شہر اس پر سے نظر آتا۔ تصویریں شاگردوں حضرت عیسیٰ ؑ اور مقدسوں کی رکھیں، میں نے ویسی تصویریں کہیں نہیں دیکھیں۔ آئینہ جوڑیوں کے بہت صاف ایک روغن سے جِلا دیے شفاف۔ اس زمانہ میں وہ روغن نہیں ملتا ہے بلکہ بن ہی نہیں سکتا۔ اُس کلیسا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ بعد سیر کے سرا میں مقام کیا۔
غرض کہ پہلی تاریخ دسمبر کی دار السلطنت پارس میں پہنچا۔ نزدیک بازار بادشاہی کے سرائے ڈلی میں اُترا۔ دوسرے دن شہر کا تماشا دیکھنے چلا۔ پہلے بازار بادشاہی میں آیا، اُس کا آدھ کوس کا گھیرا تھا۔ حال اُس کا سنا کہ زمانۂ سابق میں مکان بادشاہی تھا۔ گردشِ زمانے سے اُس نے مفلس ہو کر بیچا، چنانچہ وہی مکان اب بازار ہوا۔ اسی سبب سے نام اس کا بازار بادشاہی رہا۔ دو طرفہ دکانیں سنگ مرمر کی تھیں۔ بعضو ں میں جواہرات، بعضی شال دو شالوں کشمیری سے بھریں۔ کسی میں کپڑے رنگا رنگ رکھے۔ پھول اُن کے رنگوں سے شرماتے۔ راہ بازار کی مابین دکانوں کے، واسطے محافظت مینھ اور غبار کے، شیشوں سے پٹی، عجب لطافت اور کیفیت رکھتی۔ قہوہ خانوں میں چھت پر زرستون سنگِ مرمر کے تھے۔ اندر ان کے میز پتھر کی رکھی، برابر ان کے کرسیاں زرنگار بچھیں۔ پریاں فرانس کی قہوہ پلانے کے لیے بیٹھیں۔ میں وہ مقام عشرت افزا دیکھ کر سرا میں آیا۔
دوسرے دن کلیسائے نیوٹروم میں گیا۔ اُس شہر میں بہتر اُس سے کلیسا نہ تھا۔ عمارت اُس کی نہایت وسیع اور عالیشان۔ دوسری طرف باغِ جنت نشان؛ اُس میں ہر ملک اور ہر قسم کے جانور موجود اور نمایاں، شمار ان کا نہیں یارائے زباں۔ ایک جانور عرب کا نظر آیا کہ لنبائی قد میں قریب بیس ہاتھ کے تھا۔ اگلا دھڑ اس کا بلند، پچھلا پست، اُس سے دو چند شکل اس کی ملی ہوئی شیر و آہو سے تھی۔ زراف اس کو کہتے ہیں بزبانِ عربی۔ اس کی صورت دیکھنے سے مجھ کو عبرت و ہیبت آئی۔ ایک کٹہرے میں سپید ریچھ بیٹھے وہ بھی بجائے تماشے کے تھے۔ رنڈیاں وہاں بیٹھیں، روٹی اور مٹھائی بیچتیں۔ جو مسافر سیر کو جاتا ہے اُن سے روٹی مٹھائی مول لے کر ریچھوں کو کھلاتا ہے، وہ خوش ہوتے ہیں اور روٹی کھاتے ہیں۔
چوتھے دن باغ بادشاہی میں گیا۔ پھولوں کو کھلا ہوا، میوؤں سے بھرا پایا۔ ہر قسم کے پھول تھے۔ کثرت میوؤں سے درخت جھکے۔ پری زاد فرانس کے خوش رفتار، باغ میں عجب بہار۔ غرض کہ وہ قطعہ روکشِ بہشتِ بریں تھا۔ گل بوٹوں سے سراپا رنگیں تھا۔ دماغ اُس کی بو سے تازہ ہوا۔ دل شگفتگی اُس کی سے کھلا۔
پانچویں دن پارس کی میوزیم میں گیا، وہاں کا تماشا دیکھا۔ ایک روغن مل کر ہر طرح کے جانوروں کو زندے کی طرح کھڑا کیا تھا۔ ہرگز زندہ مردہ میں سوائے حس و حرکت کے فرق نہ ہوتا۔ یہاں کئی جانور ایسے خوب دیکھے کہ لندن میں نہ تھے۔ چنانچہ اُن میں سے ایک ہاتھی اور شیر اور زراف تھا، عجیب وضع سے کھڑا تھا۔ اور بیان اُس جگہ کا مناسب نہ دیکھا بعینہ لندن کا سا تھا۔
چھٹے دن میں بوچڑ صاحب کے ساتھ کھانا کھاتا، ایک بوڈھا بہرا سرا میں اُترا تھا۔ شام پین پی کر وہ مست ہوا، مجھ سے اور ولیم بوچڑ صاحب سے کہنے لگا: آؤ ہم تم مل کر ناچ گھر چلیں، وہاں کا سیر و تماشا دیکھیں۔ اُس مکان کو اُن کی زبان میں اپرہ کہتے ہیں۔ ہم اس کے کہنے پر راضی ہو کر ناچ گھر چلے، وہاں جا کر سب مصروفِ تماشا ہوئے۔ دو رنڈیاں کہ ناچنے گانے میں یکتائے زماں تھیں، رقص و سماع میں مشغول ہوتیں، ایسے کرتب دکھائے کہ سب سرور میں آئے۔ مگر مجھ کو ایک امر اُن کا پسند نہ آیا، وہ یہ کہ انھوں نے ناچتے وقت ایسا کپڑا مہین ریشمی پہنا کہ تمام بدن خصوص جسم نہانی ان کا صاف نظر آتا۔ ناچتے ناچتے جب پانوں اُٹھاتیں، گویا لوگوں کو شرمگاہ اپنی دکھاتیں، مرد رنڈی سب تماشا دیکھتے۔ اس امر نامناسب کو خلافِ حیا نہ سمجھتے۔ یہ ماجرا خلافِ عقل نظر آیا۔ میں نے اکثر انگریزوں کا حال سُنا کہ ہندوستان کی کسبیوں سے بسبب پہننے ننگی پوشاک اور کپڑے باریک چست کے نفرت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا راگ اور گانا نہیں سنتے ہیں۔ پر وہاں کوئی مانع نہ ہوا کہ ان کو اس حرکت بیجا سے باز رکھتا۔ قصہ مختصر وہ بوڈھا ساتھی ہمارا دیکھنے ہنروں ناچ اور مقام مخصوص اُن کے سے اور پینے شراب سے ایسا بے حال و بے خود ہوا کہ شور و غل مچاتا۔ اُس محفل میں حکم بادشاہی سوائے ناچنے گانے والوں کے کسی کے بولنے کا نہ تھا۔ جب وہ بوڈھا چلانے لگا، دو تین آدمیوں عزت دار قوم نے منع کیا۔ وہ بہرا اُن ناچنے والیوں کے دریائے عشق میں ایسا ڈوبا تھا کہ ہرگز شنوا نہ ہوا۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ نہیں سنتا ہے اور رنگِ مجلس بدلتا ہے بلکہ اپنے نکالے جانے کا بھی باعث ہوتا ہے، اشارے کنائے سے سمجھایا۔ شور و غل سے اس کو باز رکھا اور اپنے دل میں عہد کیا کہ اس کے ساتھ اب کہیں نہ جاویں گے، ہمراہی اس کے سے آپ کو بچاویں گے۔ رات بھر ناچ کے تماشے میں رہے، صبحی اپنے مقام پر آئے۔
ساتویں دن پھر ایسا ہی امر پیش آیا یعنی جب وہ بوڈھا کھانا کھا چکا اور شراب پی کر مست ہوا، مجھ سے اور بوچڑ صاحب سے کہنے لگا آج میرے ساتھ کنسٹ میں چلو، وہاں کی سیر دیکھو۔ ہم نے تکرار کی کہ تمھارے ساتھ جانے سے دل میں انکار کی۔ تم بالطبع مست ہوتے ہو، کسی کا کہنا نہیں سنتے ہو۔ اس نے ایسا مبالغہ کیا کہ ساتھ جانا پڑا، مقام عذر نہ رہا۔ ناچار ہمراہ ہوئے، کنسٹ گئے۔ وہ ایک مکان عالیشان بہت نفیس تھا۔ چند رئیسوں امیروں قوم نے شریک ہو کر اس کو بنوایا۔ کوچ عمدہ رکھی ہوئی، اس پر بچھونے اطلس و مخمل کے بچھے ہوئے۔ آٹھویں دن رات بھر مرد و زن کا جماؤ ہوتا ہے۔ ہر کوئی بجانے باجوں کا کمال دکھلاتا ہے اور شراب پی کر اپنی اپنی معشوقہ کا ہاتھ پکڑ کر ناچتا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا فرانسیس کی پریوں کو دیکھا کہ کوچوں پر بیٹھی باجے بجاتیں۔ کیا خوب باجے تھے کہ آواز اُن کی سے مردے جی اٹھتے۔ اتنے میں دورِ جام شروع ہوا۔ بعد اس کے ہر ایک مست ہو کر ایک ایک پری کا ہاتھ پکڑ کر ناچنے لگا۔ چونکہ بندہ تمام عمر کبھی ناچا نہ تھا، ان صاحبوں کے سامنے اجنبی معلوم ہوتا۔ مگر اس حیلہ سے کامیاب مطلب تھا۔ اُس بڈھے نے بھی ہاتھ ایک بڑھیا کا کہ مٹاپے اور قد میں اس سے دگنی تھی، پکڑ کر ناچنا شروع کیا۔ بوجھ اس بڑھیا کا بھاری تھا۔ تھوڑی دیر میں تھک کر ہانپتے ہوئے کوچ پر بیٹھا اور سویا۔ میں نے اور بوچڑ صاحب نے تمام شب خوشی سے بسر کی۔ مگر وہ رات ایسی جلد کٹی کہ تھوڑی سی معلوم ہوئی۔ فقیر نے یہ شعر حسب حال پڑھی:
امشب مگر بوقت نمی خواند ایں خروس
عشاق بس نہ کردہ ہنوز از کنار و بوس
بالجملہ وہ شب ایسے لطف سے بسر ہوئی کہ بادشاہوں کو باوجود سامان کے میسر نہیں آتی۔ ہندوستان میں ایسی مجلس پریوں کی، خواب میں بھی نہیں دکھائی دیتی۔ صبحی اپنے مقام پر آیا۔
آٹھویں دن اپنے ہمراہیوں سے پیشتر جاگا۔ ایک شخص اٹھارہ برس کے سن کا شیشہ شراب بیر آگے رکھتا، قہوہ وغیرہ ملا ملا کر اُس کو پیتا۔ میں دیکھ کر متحیر ہوا یہ کون ایسا ہے جو علی الصباح شراب بیر پیتا ہے۔ یہ وقت لال شراب پینے کا ہے اس لیے کہ شرابِ سرخ اس وقت پینا فائدہ اور رواج رکھتا ہے۔ میں اسی خیال میں تھا کہ اُس نے آپ ہی کہا آؤ شراب بیر پیو۔ میں نے کہا اس وقت معاف رکھو۔ ثابت ہوا کہ وہ امیر زادہ تھا۔ باپ اُس کے نے تحصیلِ علم کے واسطے فرانس میں بھیجا تھا، وہ یہاں آ کر ایسے امور بے جا میں پھنسا۔ شغل علم سے باز رہا۔ پھر اُس نے کہا ہمارے ساتھ چلو، سیر عجائبات اس ملک کی دیکھو۔ میں نے اقبال کیا۔ بوچڑ صاحب کو ساتھ لے کر ہمراہ اُس کے چلا۔ جاتے جاتے اُس جگہ لے گیا کہ در و دیوار شیشے کا تھا۔ جو کوئی گمنام زہر کھا کر مرتا ہے یا تلوار بندوق سے اپنے تئیں ہلاک کرتا ہے، لاش اس کی اس مکان میں رکھتے ہیں۔ فوارے کی راہ حوضوں سے پانی اُس پر چھڑکتے ہیں۔ بعد تین چار روز کے جب تعفن آتا ہے اور کوئی وارث مردہ نہیں پیدا ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں دفن کر دیا جاتا ہے۔ اگر وارث اُس کا ہوتا ہے، ایام مقررہ سے پہلے لاش لے جاتا ہے۔ چنانچہ اُس وقت بھی لاش ایک رنڈی کی پڑی تھی، مجھ کو اس سے عبرت آئی۔ پارس میں چند روز رہا، کوئی دن ایسا نہ ہوا کہ دو تین آدمیوں نے اپنے تئیں نہ ہلاک کیا۔
نویں تاریخ دسمبر کی پکچر آف اڈس میں گیا۔ وہ تصویر خانہ تھا۔ ایسا مکان کہ بلندی میں آسمان سے باتیں کرتا۔ ستون اُس کے زرنگار اور مطلا فرش اس کا شفاف خوش رنگ لکڑی کا پل کی طرح پٹا ہوا۔ اگر کوئی عاقل اچانک اُس پر قدم رکھتا، یقین ہے کہ بسبب چکناہٹ کے پھسل پڑتا۔ اُس مکان میں تصویریں مصوروں کامل اگلے زمانہ کی زیب پذیر تھیں، سب کی سب بے نظیر تھیں۔ اُستادوں کے ہاتھ کی بنیں۔ بموجب تخمینہ قریب دو لاکھ کے نظر آئیں۔ اس جائے عشرت فزا کو دیکھ کے میں بہت خوش ہوا۔
بعد ازاں ایک گاڈی کرایہ کر کے مع بوچڑ صاحب کے اُس پر سوار ہو کر پیالس برسیل کو چلا۔ وہ مقام پارس سے چھ کوس فاصلہ رکھتا۔ مکان جشن اگلے بادشاہ کا تھا۔ وہاں آ کر مع اپنی بیویوں کے جشنِ جمشیدی کرتا یعنی شراب پی کر اُن کے ساتھ عیش و نشاط میں مشغول ہوتا۔ راہ میں جا بجا آبادی و سبزی نظر آئی۔ دلِ حزیں نے اس سے شگفتگی بہم پہنچائی۔ دو گھڑی دن رہے وہاں پہنچا۔ گرد اُس کے پہاڑ اور سبزۂ مینا رنگ تھا۔ قریب اُس کے ایک باغ جنت آثار بوجھ پھلوں سے جھکے ہوئے درختِ میوہ دار، پھول اُس کے رنگا رنگ، غیرت دہِ کارنامۂ ارژنگ۔ حوضوں پُر آب میں تصویریں عجیب و غریب قائم و برپا، اُن کے مونھ سے فوارہ پانی کا اُبلتا۔ بعض حوض میں مرغابیاں اور چڑیاں دریائی تیر رہیں، گویا وہ چشمۂ حیات تھا اُن کے تئیں۔ اُس باغ کے دیکھنے سے دل میں طاقت آئی، آنکھوں نے طراوت پائی۔ اُسی کے پاس ایک مکان گنبددار، اندر اُس کے کرسیاں سنگِ مرمر کی ترشی ہوئیں آبدار۔ بیچوں بیچ اُس کے حوض لبریز، پانی کا فوارہ اُس میں جاری تھا۔ اگلے بادشاہ اس کو عرقِ انگور سے بھرتے، نازنینوں کے ساتھ پیتے۔ بعد اس کے مکانِ جشنِ بادشاہی نظر آیا۔ سوائے زر تابدار، چھت اور دیوار اس کی مینا کار۔ پائے نگاہ شفافی اس کی سے پھسلتا ہر بار۔ میزاک ڈال سنگِ مرمر کے بچھے تھے۔ ہر ایک لاکھ لاکھ روپیہ سے قیمت زیادہ رکھتے اور سامانِ شاہانہ ایسا کہ عقل میں وصف اُس کا نہ آ سکتا۔ حق یہ کہ وہ مکان روضۂ تاج بی بی سے لاکھوں درجے بہتر تھا۔ عمارتوں لندن اور ہندوستان سے کہیں خوب تر تھا۔ کوئی بادشاہوں زماں سے اب مجال نہیں رکھتا ہے کہ ویسا مکان بنوائے۔ الحاصل وہ مکان حلقۂ زمین میں جوں نقشِ نگیں ہے یا بروئے زمین بہشت بریں ہے۔
گیارھویں دن بوچڑ صاحب کے ساتھ گاڈی پر سوار ہو کر بالشیش میں گیا۔ وہ گورستان فرانسیسیوں کا تھا۔ شہر سے دو کوس فاصلہ رکھتا۔ دروازے اُس کے پر پھول والیاں بڑے تکلف سے ہار پھول بیچنے میں مشغول تھیں۔ جو کوئی اپنے دوستوں کی قبر پر جاتا، ہار اُن سے مول لے کر قبروں پر چڑھاتا۔ فقیر کو اس بات سے رسوم ہندوستان کا خیال آیا کہ وہاں بھی یہی طریقہ تھا۔ جب اُس کے اندر پہنچا قبریں سنگِ مرمر کی بنی دیکھیں تیار۔ اُن پر ایک چھوٹی سی کوٹھری کھڑکی دار۔ اُس میں دو بتیاں مومی اور کتاب نماز کی اور تصویر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اور پھولوں کے ہار۔ جو کوئی اپنے دوست کی قبر پر جاتا ہے، کھڑکی کھول کر اندر کوٹھری کے بیٹھ کر کتاب نماز پڑھتا ہے۔ ثواب اُس کا مردہ کی روح پر پہنچتا ہے۔ عود وغیرہ خوشبو کے لیے جلاتا ہے۔ طرفہ تکلف یہ دیکھا کہ ہر قبر کے پاس درخت پھولوں کا تھا۔ درختوں سرو کا سایہ ہر قبر پر رہتا۔ دھوپ کا ہرگز گذر نہ ہوتا۔ دو قبریں سنگِ مرمر کی الاڈانوریا کی بہت مضبوطی بنی تھیں۔ شبیہیں ان کی پتھر پر لکھیں۔ وہ دونوں عاشقی معشوقی میں مثل لیلا و مجنوں یکتائے زمانہ ہوئے ہیں، حالات اُن کے افسانۂ زبان ہوئے ہیں۔ اس نواح میں اب جوکوئی کسی پر عاشق ہوتا ہے اُن کی قبر پر جا کر پھولوں کا ہار چڑھاتا ہے اور کتاب نماز پڑھ کر ثواب ان کی روح پر بھیجتا ہے۔ دو تین قبریں اور جرنیل لشکر بونے پاٹ کی نظر آئیں۔ بہت مستحکم اور مضبوط تھیں۔ سبب زیادتی سنگ مرمر کا یہ معلوم ہوا کہ وہاں سے قریب ملک انٹلی اور پہاڑ مرمر کا تھا۔ اُس سے یہ پتھر کُھد کُھد کر آتا۔ بندہ جہاں میں پھرا، پر ایسا قبرستان لطیف کسی قوم کا نہ دیکھا۔ قبرستان نہیں گلستان ہے، بظاہر مُردوں کے لیے بہشت کا سامان ہے۔ یہ بات دل کو پسند آئی، اَور قوموں میں نہ ہونے اس رسم سے، طبیعت غم کھائی۔ انگریز کہتےہیں خاک مردوں کو تکلف ضرور نہیں، کیا اس سے اُن کو نجات ہے۔ یہ صحیح میں بھی جانتا ہوں لیکن اگر قبروں پر پھول رکھیں، خوشبوئیں جلائیں کیا قباحت کی بات ہے۔ خوشبو ایسی چیز ہے کہ جانور، پرندہ مثل زنبور سیاہ و زنبورِ عسل اُس پر مائل ہوتے ہیں۔ ہندو اپنے بتوں پر ہار پھول چڑھاتے ہیں، مسلمان قبروں پر پھول لے جاتے ہیں، خوشبوئیں جلاتے ہیں۔ پس یہ رسم ہر مذہب میں خوشنما ہے۔ ظاہر ارواح کو اس سےلطف ہوتا ہے۔
بارھویں دن پتہیم میں گیا۔ وہ خاص مدفن بادشاہوں فرانسیس کا تھا۔ عمارت عالی رکھتا۔ صورت اُس کی یہ کہ گنبد در گنبد مانند چھلکے پیاز کے بنا۔ اندر اُس کے تصویریں عمدہ کھچی ہوئیں، خوشنما سیڈھی گول چکردار بنی تھی۔ لوگوں کو اوپر چڑھنے میں کیفیت اندر گنبد کے نظر آتی۔ سب سے اوپر چھت شیشے کی، محافظت گرد و غبار کےلیے بنائی۔ وہاں سے تمام عمارت شہر کی نظر آئی۔ اندر مکان کے تہ خانہ تھا کہ تابوت بادشاہوں کا اُس میں دفن کیا۔ نگہبان اُس مکان کا مجھ کو اندر لے گیا۔ اپنے دامن پر ایک لکڑی ہاتھ سے پکڑ کر ماری، توپ کی سی آواز کان میں آئی؛ معلوم ہوا کہ یہ بسبب مکان گنبددار کے وہ شور تھا۔ قبر بادشاہوں کی دیکھ کر مجھ کو عبرت آئی کہ کیا کیا صورت تہ زمین سمائی۔ یہ پادشاہ کہ فرماں روا تھے، اب کوئی نشان سلطنت کا نہیں رکھتے۔ والٹیر جو بڑا عالم اپنے علم کا تھا، آخر بسبب زیادتی علم کے بے دین ہوا تھا۔ اُس کی قبر بھی وہیں تھی، اُس پر تصویر اُس کی کھڑی۔
تیرھویں دن کتاب خانہ بادشاہی میں گیا۔ ہر علم اور ہر زبان کی کتابوں کا ڈھیر تھا۔ برابر رکھی ہوئیں بطرزِ خوشنما کہ کوئی عمرِ نوح پاوے اور رات دن ان کی سیر کرے، ہرگز ان کی نہایت کو نہ پہنچے۔ ان لوگوں کو شاباش اور آفریں جنھوں نے خونِ جگر کھا کر کتابیں جمع کیں۔
چودھویں دن اُس مکان میں گیا کہ تصویریں آدمیوں اور جانوروں کی اور ہر ایک عضو ان دونوں کے موم سے بنائے ہیں، ایسا ثابت ہوتا کہ تصویر آدمیوں کی بات کیا چاہتی ہیں۔ تمام اعضا ایسے بنے کہ سرِ مُو فرق نہ رکھتے۔ ہاتھ چومیے بنانے والوں کے کہ کیا کمال کیا تھا۔ جو لڑکا شوق ڈاکتری کا رکھتا ہے، مدتہا وہاں رہ کر ہر عضو مومی کو بغور دیکھتا ہے۔ یہ بات خلاف عقل نظر آئی کہ محافظ وہاں کی ایک عورت تھی۔ اُس نے ہر عضو تصویر مجھ کو دکھلایا۔ بعضا ان میں سے ایسا کہ قابل دیکھنے رنڈی کے نہ تھا۔ صاحبان عقل سے بعید نظر آیا کہ اس خدمت پر اُس کو مقرر کیا۔
پندرھویں دن ایک مکان میں گیا۔ وہاں صد ہا آدمی قالیچے شطرنجیاں بُن رہے تھے، بناوٹ میں تصویر عمدہ کھینچتے۔ دریافت ہوا کہ وہ سب مصور تھے۔ تصویریں قالین اور دریوں پر ایسی معلوم ہوتیں کہ کسی مصور کامل نے تصویریں کاغذ پر کھینچی ہیں۔ اُن کی کاری گری دیکھ کر متحیر ہوا۔ حال ان کا پوچھا، ظاہر ہوا کہ واسطے فرش دیوان عام شاہ فرانسیس کے بُنتے ہیں اور کہیں نہیں بیچتے۔ زبانِ فرانسیسی میں اس کام کو ٹپسٹری کہتے ہیں۔ اُس کے بعد کونسل کے مقام پر گیا، ایک مکانِ فلک بنیاد دیکھا۔ ستون سنگ مرمر کے ایک ڈال راست اس میں لگے۔ صاحبانِ کونسل اپنے رتبہ کے موافق جا بجا بیٹھے۔ ہر ایک کے نمبر لکھے۔ اُس مکان کی شکست و ریخت کے لیے مزدور لگے تھے۔ میں یہ حال دیکھ کر باہر نکلا، پانی برسنے لگا۔ سارے کپڑے تر ہوئے مگر گرتے پڑتے گھر چلے۔ راہ میں دو رنڈیاں ایک خوبصورت دوسری کریہ الہیئت ملیں۔ میری وضع خلاف اُس شہر کے دیکھ کر تُرک تُرک کہتی، تماشا دیکھتی، پیچھے دوڑی آتیں۔ اکبار پانو پھسلا، دونوں لڑکھڑا کر گریں۔ میں نے قریب جا کر زنِ جمیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا، بدشکل کو ویسے ہی چھوڑا۔ وہ بڑی محنت سے اُٹھ کر اپنی بولی میں کچھ کہنے لگی۔ مگر اُس زبان سے مجھ کو آگہی نہ تھی۔ آخر اُس نے ایک دھکا دیا مجھ کو زمین پر گرایا، دوسری عورت خوبصورت نے جس کو میں نے اٹھایا تھا میری طرف ہو کر اُس سے مقابلہ کیا۔ میں جان بچانی غنیمت سمجھا، وہاں سے بھاگا۔ لڑکے کیچڑ بھرے ہوئے کپڑے اور بیگانہ وضع دیکھ کر تالیاں دیتے پیچھے میرے دوڑتے آتے۔ بہزار خرابی بھاگتے بھاگتے سرا میں پہنچا۔ میرا حال دیکھ کر سب ہمراہی ہنسنے لگے۔ میں سخت نادم و شرمندہ ہوا۔ پانو میں چوٹ آئی تھی، اس سبب سے دو ایک دن قیام کیا۔ بعد اس کے اُس امیر زادہ کے ساتھ جو صبوحی شراب بیر پیتا تھا سیر کو چلا۔ مٹھائی بیچنے والیوں کی دکان پر گیا۔ دیکھا کہ رنڈیاں خوبصورت تھال مٹھائی کے سلیقہ سے جمائے ہوئے بیچ رہی ہیں۔ جب مجھ سے چار چشم ہوئیں، بے اختیار ہو گیا۔ دل ہاتھ سے کھو گیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا قسم مٹھائی سے جو چاہو سو لو، میں نے جواب دیا تمھارے لبِ نوشیں، کلام شیریں کے سامنے مٹھائی کیا اصل ہے۔ یہ اصل وہ نقل ہے، تم خود شہد ہو؛ اس سے زیادہ کیا مٹھائی ہے بھلا سچ کہو۔ یہ سن کر وہ بہت ہنسیں اور باتیں معشوقانہ فرمائیں۔ اپنے پاس عنایت سے بٹھلایا۔ بندہ ان کی شیریں گفتاری سے چاشنی یاب ہوا۔ جب چلنے کا ارادہ کیا، انھوں نے پھر بٹھلایا۔ میں نے کہا مکھی کو اُسی قدر شہد پر بیٹھنا چاہیے کہ پھنس نہ جاوے۔ میں بھی اگر زیادہ ٹھہروں گا، پھنس جاؤں گا۔ پھر میں نے چلتے وقت تھوڑی مٹھائی مول لی اور روانہ ہوا۔ وہی امیر زادہ اور کتنے مکانوں میں لے گیا۔ بیان اُن کا نہیں ہو سکتا۔ حق یہ ہے کہ فرنگستان پرستان ہے، ہر ایک شخص حسن و جمال میں غیرتِ مہرِ درخشاں۔ جو کوئی یہاں آتا ہے، وطن کو اپنے بھول جاتا ہے۔ شعر:
سیہ چشم سبزانِ رنگیں نگاہ
بشورِ نمک از شکر باج خواہ
رہِ مایہ دارانِ ایمان زنند
بخروار بیعِ دل و جان کنند
جائے فضل و کمال ہے، کانِ حسن و جمال ہے۔ ملک پارس دار السلطنت فرانس نہایت آبادان ہے اور ولایت جوں گلستان۔ مگر راہ کوچہ و بازار کا انتظام لندن سا نہ تھا۔ یعنی لندن میں ایسی سڑک بنی ہے، دونوں طرف سے بلند بیچ میں نیچی ہے۔ دو طرفہ راہ بلند پر آدمی آتے جاتے ہیں۔ راہ پست بیچ کی سے جانور اور گاڈی لے جاتے ہیں۔ یہاں سب راہ برابر ہے، یکساں سرا سر ہے۔ آدمی اور جانور کی راہ میں کچھ فرق نہیں۔ بلکہ برسات میں بسبب نشیب و فراز فرش سنگی کی راہیں قابلِ آمد و رفت نہیں رہتیں۔ کہیں کہیں پانو پھسلتے ہیں، آدمی اور جانور گرتے ہیں۔ مگر جب سے فلپ شاہ بادشاہ تخت پر بیٹھا ہے، راہوں کی تیاری میں جہدِ بلیغ رکھتا ہے۔ سابق اکثر جا روشنی چراغ و فانوس کی ہوتی تھی، بادشاہ موصوف وہاں اب گیس روشن کرواتا ہے۔ عدل و انصاف کا پتلا ہے۔ بہت رسمیں بیجا جو پہلی تھیں، اس نے اپنے عہد دولت سے موقوف کروا دیں۔ جیسے قمار بازی وغیرہ وہاں کے لوگوں کی عادت تھی، اُس نے بالکل اٹھا دی۔ ہر امر میں احتیاط و ہوشیاری رکھتا ہے۔ اس کی تدبیر سے رستہ بھی مثلِ لندن کے تیار ہوتا ہے۔
مکانِ قواعد اور سلاح خانے میں گیا۔ بارہ ہزار سپاہیوں کو قواعد میں مشغول پایا۔ پیادے فرانسیس کے قواعد اور قد اور چستی چالاکی میں پیادوں انگلش سے کم تھے۔ دل کا حال نہیں معلوم کہ شجاعت کم یا زیادہ رکھتے۔ سوار داڑھی موچھ والے البتہ ہیبت ناک تھے۔ قد و قامت میں دراز اور چالاک نظر آتے۔ گھوڑے اُن کے ضعیف البنیان، نہ مثل گھوڑوں انگلستان کے۔ گاڈیوں میں بھی گھوڑے چھوٹے لگے۔ لندن میں ایسے گھوڑے دیکھے کہ سُم اُن کے اونٹوں کے سے اور پٹھی ہاتھی کے سے تھے۔ جس قدر صفائی اور صیقل لندن کے ہتیاروں میں دیکھی یہاں کی فوج کے ہتیاروں میں نہ تھی۔ جب ان سیروں سے فارغ ہوا۔ گاڈی میل کوچ سے مقام کیا۔ کرایہ پر ٹھہرا کر دو تین صاحبوں کے ساتھ سوار ہوا اور لندن چلا۔ راہ میں گانو آباد فرانسیس کے دیکھے۔ ہر ایک دیوار شہر پناہ رکھتی اور ہر ایک میں قلعہ اور خندق۔ قلعے میں پل بنے تھے۔ جو گاڈی اس پر سے جاتی، سبکی و گرانی اس کی اُس پل سے دریافت ہوتی۔ کوئی جب تک پروانہ سند پاس نہ رکھتا ہو، اس میں چہرہ اور خال و خط اس کا نہ لکھا ہو، شہروں فرانسیس میں نہیں جا سکتا ہے۔ چلتے چلتے بندہ جزیرۂ بلون میں پہنچا۔ وہاں مچھلی پکڑنے والوں کے جہاز جمع تھے۔ بسبب افراط کے مچھلی بہت ارزاں بیچتے۔ آب و ہوا وہاں کی اچھی۔ بارش، برف کی زیادتی۔ یہ جزیرہ کنارے سمندر کے عجب جائے عشرت فزا تھا، زمانہ قدیم سے بسا تھا۔ تین طرف سے دیوار شہر پناہ تھی مگر ایک سمت جدھر حال سے آبادی ہوئی خالی۔ ایک قلعہ قدیمی بھی اُس میں تھا۔ وہاں پہنچ کر بوچڑ صاحب کا دل مائلِ قیام ہوا، بپاسِ خاطر ان کی، آٹھ روز مقام کیا۔ ہر روز سیر و تماشے میں رہتا۔ اسی عرصہ میں مجھ سے اور ایک عورت خوبصورت سے نہایت محبت ہوئی، مگر خالی اغراضِ نفسانی سے تھی۔ سن اس کا پندرہ سولہ برس کا، عقل و دانائی میں وحید و یکتا۔ اکثر اس کے ساتھ دریا کنارے سیر کرنے جاتا۔ ایک روز میں اور وہ مصروف تماشا اور کوئی مخلِ صحبت نہ تھا، اس نے شیشۂ ساعت نکال کر کوکا۔ حال ساعتوں دن کا دریافت کیا۔ گھڑی بیش قیمت تھی۔ میں نے یہ بات کہی: تم ہندیوں پر بے مروتی اور بے رحمی کا طعنہ دیتی ہو۔ اگر اس وقت میں تم کو دریا میں ڈال دوں اور گھڑی چھین لوں، تم کیا کرو، کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے خوب سمجھ کر تم سے اتحاد کیا۔ اتنی عقل و تمیز رکھتی ہوں کہ جواہر کو پتھر سے جدا کروں۔ آٹھ دن کے بعد بمقتضائے ضرورت اُس نازنین سے جدا ہو کر جہاز گران ترک پر سوار ہوا۔ اگرچہ مفارقت اس کی کا سخت قلق تھا، مگر چار ناچار صبر کیا۔ رات کو ہوا موافق تھی، جہاز چل نکلا اور سریع السیر ہوا۔ بندہ دو تین ہمراہیوں کے ساتھ اس پر بیٹھا تھا، اور لوگ بھی اس میں تھے۔ رات کا کھانا کھا کر باتیں کرنے لگے۔ کسو نے شراب پی کر کچھ قصور کیا تھا، اس کا تذکرہ آیا۔ کوئی کہتا، قابل تعزیر ہے، کوئی کہتا، سزاوار بخشش اُس کی تقصیر ہے۔ ایک شخص ظاہر میں بہت متقی اور دیندار تھا، علم رکھتا۔ وہ بھی اس کے حق میں باتیں طرح طرح کی کہتا۔ بندہ خاموش بیٹھا سنتا تھا۔ کسی کی بی بی خوبصورت اس دیندار کے پاس بیٹھی تھی، جب سب لوگوں کو نیند آئی میں نے بھی اس کی باتیں سنتے سنتے کپڑا مونھ پر رکھ کر قصداً اپنے تئیں نیند میں ڈالا۔ اس مرد دانا نے چپ و راست نظر کر کے بزعم خود سبھوں کو سوتا پایا۔ دروازہ کمرے کا بند کیا اور اس عورت غیر کی سے مشغول لذات نفسانی ہوا۔ میں اپنے دل میں سوچا، یہ وہی شخص ہے جو دو گھڑی پیشتر دینداری کی باتیں کہتا۔ آپ ہی گناہ میں ڈوبا۔ عجب حال اہل دنیا کا۔
ولایت کے سب سامان اور باتیں اور رسمیں اچھی ہیں، مگر بعضی رسمیں خلاف آئین ہیں۔ ایک اُن میں سے مقدمہ خاوند جورو کا ہے۔ بنظر انصاف دیکھا چاہیے کہ مرد بہزار محنت و مشقت وجہ معاش حاصل کرتا ہے۔ حقوق والدین سے کہ ان سے زیادہ حق کسی کا نہیں، غافل ہوتا ہے، دل و جان سے بی بی کی خاطر داری میں مصروف رہتا ہے۔ سخت حیف ہے کہ وہ بی بی اور سے ملتفت ہوئے۔ ننگ و ناموس شوہر برباد کرے۔ ہزاروں لعنت اس مرد ملعون پر کہ پرائی جورو سے مرتکب مباشرت ہو، منھ کالا اس عورت کا کہ غیر مرد سے مشغول لذت ہو۔ یہ رسم اس ملک کی اپنےمزاج کے پسند نہ آئی۔ اس لیے کہ اس میں بہت فساد ہے اور برائی۔
قصہ مختصر بعد چند روز کے لندن میں پہنچ کر قدیمی مکان پر اُترا اور شہر کی سیر میں مشغول ہوا۔ لی بیس یہودی ایک کلیسا میں لے گیا۔ وہاں کے عبادت کرنے والوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں خدا کے بیٹے، بلکہ رسول ہیں خدا کے بھیجے۔ اسی طرح انگریزوں میں کئی مذہب دیکھے بلکہ ہر قوم میں سینکڑوں مذہب ہوے۔
میں نے خوب غور کیا، مذہبوں کا پردہ پایا۔ ہر ایک ہوا و حرص دنیا میں پھنسا ہے، مذہب کا نام رکھ لیا ہے۔ عمل اپنے طریقہ پر کوئی نہیں کرتا ہے۔ آخر بعد تحقیقات کے یہ ثابت ہوا کہ مذہب سلیمانی ہی سب مذہبوں سے اچھا ہے۔ کلیہ اس کا یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو وحدہ لا شریک جانے۔ جو کچھ معاش محنت مشقت سے پیدا کرے کچھ اپنے خرچ میں لاوے باقی خدا کی راہ پر بانٹ دے۔ خدا نے جہاں میں پیدا کیں اقسام کی نعمتیں، بندوں کے لیے ہیں تا کھاویں اور بانٹیں۔ جنت و دوزخ اسی دنیا میں موجود ہیں نہ اور کہیں۔ جس کی عمر رنج و مصیبت میں گزرے اس کو دوزخ ہے یہیں۔ جس کی زندگی چین و آرام سے بسر ہوتی ہے اس کو ہے بہشتِ بریں۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ عدل و انصاف میں نہیں کوئی اس کا سہیم۔ یہ بات خلاف عدل و داد کے ہے کہ زندگی چند روزہ انسان کے لیے بہشت و دوزخ آباد کرے۔ اس زندگی چند روزہ میں اور مصیبتیں کیا کم ہیں۔ سینکڑوں مکروہات و غم ہیں۔ چڑیا اور جانوروں کو باوصف بے عقلی کے اپنے بچوں سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ اُڑ کر دور سے دانہ لا کر کھلاتے ہیں اور اس کو بہر صورت تکلیفوں سے بچاتے ہیں۔ حق تعالیٰ جو ستر درجے ما باپ سے زیادہ محبت اپنے بندوں سے رکھتا ہے کیوں کر عقل میں سماتا ہے کہ دوزخ میں ڈالے گا۔ آدمی زاد جب پیدا ہوا، فکر دودھ کا ہوا۔ جب کچھ بڑھا، محنت تحصیل ہنروں اور نوشت و خواند میں پڑا۔ جب اس سے فراغت پا کر سن بلوغ کو پہنچا، جورو کے پھندے میں پھنسا۔ سب چوکڑی بھولا۔ جب کہ عیال دار ہوا، اور زیادہ جکڑ گیا۔ عزیز قریب والدین سب کو بھولا۔ ماں باپ کے مرنے کا غم طرہ اس پر ہوا۔ جب پچاس برس کا ہوا، کوئی بینائی سے معذور ہوتا ہے، کوئی کانوں سے نہیں سنتا ہے۔ اس سے زیادہ عذاب اور کیا ہو گا کہ ساری عمر بندے کی مصیبت میں گزری۔ اس کا نام دوزخ ہے۔ خداوند کریم و رحیم نے دوزخ اور کہیں نہیں بنائی کہ اُس میں بندوں کو ڈالے۔ خلاصہ مذہب سلیمانی کا یہ ہے، سوا اس کے گمرہی ہے۔ ہر ایک مذہب برائے نام ہے۔ جو خدا کی راہ پر خرچ کرتا ہے، غریبوں مسکینوں کی پرورش مدنظر رکھتا ہے، مردم آزاری سے باز رہتا ہے، وہی بندہ مقبول ہے کوئی مذہب رکھتا ہووے۔ اے یوسف حلیم! یہ قصہ بے پایاں ہے، زبان کو نہیں تاب بیاں ہے۔ سر رشتہ سخن کا توڑ، باگ قلم کی طرف مطلب کے موڑ۔
پچیسویں تاریخ دسمبر کی تھی، اس روز عید انگریزوں کی ہوئی۔ پراون صاحب نے جو کپتان جہاز کے تھے، میری دعوت کی۔ بموجب طلب ان کے کے قریب شام کے ان کے مکان پر گیا۔ کتنے صاحبوں اور بی بیوں سے جو شریک دعوت تھے، فائز ملاقات ہوا۔ ساری رات عیش و عشرت میں رہا، صبحی رخصت ہو کر اپنے گھر آیا۔ بعد چند روز کے تین دن تک مثل کہرہ کے ایسا برف پڑتا رہا کہ روزِ درخشاں رات کی طرح تاریک ہوا۔ کچھ نہ دکھائی دیتا۔ پانی دریائے سرپن ٹین کا جم گیا۔ فرش مرمر سپید کا سا نظر آتا۔ زن و مرد لوہے کی جوتیاں پہن کر اس پر دوڑتے پھرتے، اس پار سے اس پار آتے جاتے۔ میں نے ایسا ماجرا کبھی نہ دیکھا تھا۔ اچنبھا سمجھ کر دیکھ رہا تھا۔ آخر یادگاری کے لیے میں بھی کبھی اس پار آتا کبھی اس پار جاتا۔ اس عرصہ میں آگس چنچہ یعنی خرانہ کے مکان میں آگ لگی جو قریب مکان کمپنی کا تھا۔ لوگ سراسیمہ ہو کر دوڑے، آگ بجھانے میں مصروف ہوئے۔ ایک کل پانی کی سامنے لا کر کھڑی کی۔ نل اس کے مقابل آگ کےکیے اور دیر تک گھماتے رہے، مگر بسبب برودت کے پانی کل کے اندر جم گیا تھا ہرگز رواں نہ ہوا۔ جب بہت لوگوں نے محنت کی، کل کے اندر گرمی پہنچائی، تب پانی نلوں کی راہ سے بہ نکلا، آگ کو بجھایا۔ لیکن بجھتے بجھتے سارا اسباب جل گیا۔ چند روز بعد کپتان لاڈ صاحب نے میری دعوت کی، نہایت مہربانی میرے حال پر فرمائی۔ ازراہ عنایت مکان ڈوک صدر لین بھائی شاہ کا تماشا دکھانے اپنے ساتھ لے گئے۔ عمارت رفیع الشان، نقش و نگار بے پایاں نظر آئے۔ کمرے اس کے بہت بڑے تھے۔ دروازے اس کے مکان بادشاہی سے زیادہ اونچے۔ آتش خانے سنگ مرمر کے ترشے عجیب و غریب بنے تھے۔ میں نے باوجود سیاحت کے ویسے کہیں نہیں دیکھے۔ محافظ مکان سے پوچھا کہ ان آتشدانوں کے ساخت میں کیا خرچ ہوا۔ اس نے کہا ایک ایک کے تراشنے میں اسی ہزار روپیہ صرف ہوا۔ اسی بات سے دریافت کیا چاہیے کہ اور صنعتوں میں کیا لاگت آئی ہو گی جس کے فقط آتشدانوں کے تراشنے میں اتنی مزدوری اٹھی۔ وہ مکان دیکھ کر بندہ بہت محظوظ ہوا۔
ماہ جنوری میں ایک دن برنڈن صاحب سے کہ اگلے دنوں میں شاہ اودھ کے نوکر تھے، ملاقات ہوئی۔ بہت تپاک سے مل کر اپنے گھر لے جا کر میری ضیافت کی۔ دیر تک دوستانہ باتیں رہیں اور عجائبات اور خوبیاں لندن کی بیان ہوئیں۔ بعد اس کے ذکر اس پل کا آیا کہ انگریزوں نے دریائے ٹیم کے نیچے بنوایا۔ وہ قریب ان کے مکان کے تھا۔ میں نہایت مشتاق دیکھنے کا ہوا۔ آخر ان کے ساتھ پل دیکھنے چلا۔ وہاں جا کر عجب حال دیکھا۔ اوپر ایک دریا جس میں جہازوں کا لنگر پڑا ہوا تھا، بہتا۔ نیچے اس کے انگریزوں نے پل بنوایا۔ دو طرفہ اس میں راہ آدمیوں کی، بیچ میں گاڈی بگھیوں کی۔ تھوڑے دن پیشتر ایک مقام پر ٹوٹ گیا تھا۔ پانی اس طرف سے اندر اس کےآیا تھا۔ ٹپنل صاحب جو وہاں کے نگہبان تھے، کہنے لگے اگر تم کو خوف نہ آتا ہو تو اس جاگہ چلو۔ میں اپنے ساتھ لے چلوں۔میں نے جواب دیا، بسم اللہ میں مستعد ہوں۔ کپڑے اوٹے جوٹے موٹے پہنے۔ دس آدمیوں نے پلیتے روشن کر لیے۔ اس مقام پر پہنچ کر دیکھا عجب انداز کا تھا کہ عقل میں نہ آتا۔ جہاں درز پڑی تھی مرمت جاری تھی۔ پیچوں میں لگا کر اینٹ اس جاگہ تک پہنچاتے۔ ایک ایک مزدور چھ روپیہ روزینہ پاتے۔ اس پل کی تیاری میں چوبیس کرور روپیہ خرچ ہوا اور اب تک ہوتا جاتا ہے۔ ایک بازار بھی وہاں بنا چاہتا ہے۔