شام کے وقت ایک گانو میں پہنچ کر سیر کی، ایک مکان دیکھا کہ اس میں بہت مرد اور رنڈیاں جمع ہیں۔ دیکھتے ہی انھوں نے مجھ کو گھیر لیا اور تُرک تُرک کہہ کر پکارا۔ شراب سیب کی وہاں بنتی تھی، مجھ کو لا کر پلائی۔ تھوڑی سی پی، بعینہ مزا تاڑی کا پایا۔ کچھ انعام دے کر رخصت ہوا۔ آگے بڑھا ایک پہاڑ دیکھا۔ لوہے کی کان اس میں تھی، خوب سیر کی۔ پھر ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہوکر دریائی ڈاک منٹ کی سیر کو چلا۔ عجب دریا تھا کہ دونوں طرف اس کے پہاڑ تھے۔ اس پر مکان نفیس بنے ہوئے، پریاں ناؤ پر سوار اپنے عاشقوں کے ساتھ شراب پیتیں۔ چڑیان خوش الحان کنارے پر بولتیں۔ پھول ہر قسم کے پھولے، دیکھنے ان کے سے غمِ دل بھولے۔ جس کے پاس روپیہ ہووے، وہاں جاکر عیش و نشاط سے بسر کرے کہ اس سے بہتر کوئی مقام نہیں۔ بیت:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں ست و ہمیں ست و ہمیں ست
جدھر آنکھیں اٹھائیں، پریاں نظر آئیں۔ افسوس میں بادشاہ ہند کا نہ ہوا، نہیں تو ہر ایک پری کو ایک ملک بخش دیتا۔ دنیا مقام عجب ہے کہ مفلس کو کوئی نہیں پوچھتا ہے، ہر شخص روپیہ ڈھونڈتا ہے۔
سیر کرتے ہوئے ایک شہر میں پہنچا۔ وہاں ناؤ سے اتر کر سرا میں گیا۔ کیا اچھی سرا تھی کہ زبان اس کی توصیف سے عاجز ہوئی، ہر طرف شیشہ آلات اور آئینہ تصویر کے لٹکے، اوپر کمرے میں کرسیاں اور میز رکھے۔ سب کے سب صفائی سے آئینہ کی طرح چمکتے، فرش فروش زرینہ ہر مکان میں بچھے۔ مالک اس سرا کا ایک انگریز بہت خوب آدمی تھا۔ محبت اور اخلاق سے اس سرا کی عمارت اور ہر مکان مہربانی کرکے دکھلایا۔ مجھ کو ہرگز یقین نہ ہوتا کہ یہ سرا ہے بلکہ جانتا یہ شخص ہنسی کرتا ہے۔ پہر رات تک جلسہ گرم رہا، بعد اس کے ہر ایک اپنی جگہ پر جا کر سویا، بندہ بھی ایک مکان میں جاکر بچھونے پر لیٹا۔ ایسا بچھونا کہ پَروں کا بھرا ہوا، نرمی اور ملائمت اس کی سے حریر اور قاقم شرمایا۔ بندہ رات بھر اس پر چین سے سویا، صبح بیدار ہوا اور گاڈی میل کوچ پر ہمراہ بوچڑ صاحب کے سوار ہو کر آگے چلا۔ گاڈی چار گھوڑوں کی تھی، تین درجے رکھتی؛ خط ڈاک کے اس میں روانہ ہوتے۔ چار چار کوس کے بعد گھوڑے بدلے جاتے، تمام دن رات میں بیس منٹ اس کو ٹھہراتے ہیں۔ سب لوگ اُتنی دیر میں کھانا کھاتے ہیں، ایک سپاہی نگہبانی کے لیے پیچھے رہتا ہے۔ وقت پہنچنے مقام اور روانگی کے ترئی بجاتا ہے، اگر کوئی اس وقت نہ پہنچے گاڈی چل نکلے، وہ وہیں پڑا رہے۔ وہاں کے لوگ گاڈی کے آنے جانے کے وقت جانتے ہیں۔ سراؤں میں ہر طرح کا کھانا تیار رکھتے ہیں تاکہ مسافروں کو بیس منٹ کی بھی کھانے پینے میں دیر نہ ہو۔ گاڈی پر سوار سیر دیکھتا جاتا تھا۔ ہر گانو کو آباد، آدمیوں کو خوش سلیقہ پایا۔ کنواریان خوبصورت اپنی اپنی کھیتیوں میں بیٹھیں اناج کاٹتیں۔ باوجود بے مقدوری کے بڑے بناؤ سنگار سے تھیں بلکہ بول چال و حسن و جمال میں امیر زادیون ہندوستان سے بہتر معلوم ہوتیں۔ لڑکے پری زاد جابجا جمع ہوکر عقل مندوں کی طرح بیٹھے باتیں کرتے۔ لڑکپن میں وہ دانائی حاصل کی کہ ہندوستان کے بڈھوں میں بھی نہیں ہوتی۔ کھیت غلّوں سے اور میوؤں سے بھرے ہوئے، بالیاں دانوں سے پُر، خوشۂ پروین سے پرے سرے۔ طراوت ان کی سے قطعۂ جنت شرمندہ، دانے ان کے موتیوں سے زیادہ تابندہ۔ دیکھنے اس سرزمین اور کھیتون ارم تزئین سے ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ سلطنت ہفت اقلیم کی ہاتھ آئی۔ گائے، بکری، بھیڑ اور بیل ایسے موٹے تازے کہ تھوڑی دور چلنے سے تھک جاتے۔ ہوا ایسی فرحت بخش تھی کہ نیند آنے لگی، مگر میں نے تماشا دیکھنے کے واسطے آنکھ نہ بند کی۔ سب طرح سے مجھ کو گاڈی پر آسائش تھی، مگر آدھی راہ میں ایذا پہنچی؛ اس لیے کہ کوچوان نے ایک عورت بدشکل کو میرے پاس بٹھلایا۔ پہاڑ سے موٹی تھی، صورت اس کی سے نفرت ہوتی، میں نے اپنے تئیں بہت بچایا تو بھی اس کے موٹاپے سے صدمہ پہنچا۔ خدا نے خیر کی کہ وہ آدھی راہ سے اتر گئی۔
جاتے جاتے وہاں پہنچا کہ ایک ستون سنگین بہت اونچا کھڑا تھا، ایک ستون پر کئی ستون رکھے۔ ظاہر میں مصالح وغیرہ سے نہیں جڑے ہیں۔ اس کو دیکھ کر متعجب ہوا کہ بے جڑائی مصالح کے ایک کو دوسرے پر کیوں کر قائم کیا ہے۔ یہ حکمت کس سے سیکھی اور کس نے بنایا ہے۔ آخر دریافت ہوا کہ مذہب اور زمانے انگریزوں سے پہلے ایک قوم تھی کہ وہ اس ستون کے نیچے آکر سورج پوجتی۔ آگے بڑھا، مکان لاڈ بیرن صاحب کا ایک ٹیلے پر دیکھا، خوب مضبوط بنا، کسی طرح کا اس میں نقصان نہیں آیا۔ خلاصہ یہ کہ پہر رات گئے لندن کی سڑک پر پہنچا۔ عجب رستہ دیکھا پتھر کا بنا، بیچ میں جانوروں کی راہ تھی، اس میں آدمیوں کے چلنے کی ہرگز نہ اجازتِ شاہ تھی۔ ادھر اُدھر دو طرفہ چار چار یا تین تین گز راہ آدمیوں کی، اسی سبب سے اُس میں خوب صفائی تھی۔ دو طرفہ شاخون آہنی پر فانوس اور گیس جلتے، چمک اپنی سے ستاروں کو شرماتے۔ دونوں طرف بنے ہوئے مکان نفیس اور بہتر، جیسے دو صفیں جنگی کھڑی ہوں جم کر، بلندی اور اونچان میں ہر ایک برابر۔ مرد رنڈیوں، راہ چلنے والیوں کا کیا بیان، جیسے جنت میں حوروں کے ساتھ ہوں غلمان۔ خوبی شاہ راہ اور حسن و جمال کی اور کیفیت آب و ہوا اُس شہر کی دیکھ کر جانتا تھا کہ خواب و خیال ہے۔ ورنہ عالم بیداری میں اُن امروں کا دیکھنا خیال محال ہے۔ بعد اس سیر و تماشے کے سرائے بل موت میں پہنچا۔ عجب سرا تھی کہ بہشت اُس پر رشک لے جاتی، سرا نہیں بلکہ قطع گلشن۔ گلِ شمع و فانوس ہر طرف روشن۔ حال عمارت اس کی کا کیا لکھوں، فقط مضبوطی میں کوہِ بے ستون کہوں۔ میں اُسے دیکھ کر گھبرایا کہ خدایا! خانۂ شاہ لندن میں آیا یا راہ بھول کر پرستان میں آنکلا۔ جب وہاں جا کر پہنچا، دیکھا کہ صاحبانِ انگریز جابجا بیٹھے، اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔ کوئی اپنے یار کے ساتھ شراب پیتا، کوئی اچھی آواز سے گاتا، کوئی در و دیوار دیکھتا، کوئی سیر کتابوں کی کرتا۔ ہر جگہ کرسی اور میز شیشہ آلات رکھے، انداز اور سامان وہاں کے سب اچھے۔ مالک سرا سے ہنوز کھانا نہ مانگا تھا کہ جو کچھ دل چاہتا تھا سامنے لایا، اس سے ثابت ہوا کہ وہ دل کا حال جانتا تھا یا فرشتہ اس کو سکھاتا۔ رات آرام سے بسر کی۔ فجر کو سرا کی سیر دیکھی، ایک رقم ایک ہزار تین سو گھوڑے ولایتی قدم باز زرخرید مالکِ سرا کے تھے، میل کوچ اور گاڈی میں کرائے پر چلتے۔ قیاس کیا چاہیے جس شہر کے سرا والوں پاس اتنے گھوڑے ہوئیں، رئیسوں کا سامان کس قدر ہو گا۔
تیسرے دن شہر کی سیر کو گیا۔ جو کچھ دیکھا دل ہی جانتا ہے، زبان پر نہیں آتا۔ کنارے دریا کے جا کر دیکھا، سیکڑوں جہاز وہاں تھے اور ہزاروں ناؤ رواں۔ جہاز دھوئیں کے ادھر اُدھر آتے جاتے، اُس پر سے صاحبانِ انگریز اپنی بی بیوں کے ساتھ دریا کا تماشا دیکھتے۔ کیا ہی عورتیں تھیں حسن و جمال میں پریوں کو شرماتیں۔ ایک اندھیرے تہ خانے کی سیر کی، صاحبِ خانہ نے راہ بتائی۔ دو آدمیوں نے ہاتھ میں مشعل لی، اس میں پیپے شراب کے رکھے تھے۔ اگر شاید کھلتے شراب کے دریا بہتے، جہاز ان میں چلتے۔ اُن پیپوں پر ایساروغن ملا تھا کہ ہرگز ان میں آگ کا اثر نہ ہوتا۔ شراب یہ خواص رکھتی ہے کہ ایک چنگاری سے رال کی طرح بھڑکتی ہے۔ یہ اُن لوگوں کی کاریگری تھی کہ آگ اُس میں اثر نہ کرتی۔ دو گھنٹے اُس میں روشنی مشعل سے پھرے تو بھی اس سرے سے اس سرے تک نہ پہنچے۔ نہ معلوم تہ خانہ کتنا بڑا تھا کہ میں اتنے عرصے میں کنارے نہ پہنچا۔ لاچار ہو کر باہر آیا، دوسری طرف جاکر دیکھا۔ تنباکو کا ڈھیر تھا، بہ خدا اس قدر ڈھیر نہ کبھی آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا جو تنباکو بابت چوری محصول کے چھن آتی تھی۔ ڈھیر کے ڈھیر جل رہے تھے، اگر اتنی تنباکو ہندوستان میں جلائی جاوے، ہندوستانیوں کے دماغ سے ریزش نادانی کی ہو جائے۔
لندن عجب شہر گلستان ہے، دانائی کی وہاں کان ہے۔ یہ تماشے دیکھ کر سرائے بل موت میں پھر آیا۔ راجڑ صاحب کو ساتھ لے کر مکان کرائے کا تلاش کیا۔ بہت جستجو سے محلہ سمور پلیس میں لمبر تیسرا قریب سینکرک کلیسا کے ایک مکان سو روپے کرائے پر ٹھہرایا، ایک شخص اور کو شریک کرکے اس میں رہا۔ بعد اس کے دکانوں اور بازار کی سیر کرنے گیا۔ ایک رستا دیکھا، پشت ماہی سا بنا تھا اور دونوں طرف زمین کے برابر لوہا لگا اس لیے کہ پہیا گاڈیون دودی کا اونچا نیچا نہ ہو جاوے اور کنکریوں کا ان میں صدمہ نہ آوے۔ وہاں آٹھ سات گاڈیاں کھڑی تھیں، ایک بڑی گاڈی سب سے آگے، اس میں تین آدمی بیٹھے کوئلے سلگاتے، ہر گاڈی کی زنجیر دوسری گاڈی میں لگی تھی، بڑی گاڈی تک زنجیر بندھی یوں ہی تھی۔ جب سب آدمی ان میں بیٹھ جاتے، بڑی گاڈی کے پیچ کو پھیرتے، فی الفور وہ تیرکی طرح دھویں کے زور سے رواں ہوتی۔ ہر ایک گاڈی زنجیر کے لگاؤ سے اس کے ساتھ چل نکلتی، میں نے ایسا کبھی تماشا نہیں دیکھا، نہایت مشتاق تھا۔ گاڈی بان سے پوچھا، کہاں جاؤ گے۔ اس نے کہا آٹھ کوس پر، میں نے کہا مجھ کو بھی سوار کر۔ اس نے کہا بہتر۔ آخر میں اُس پر سوار ہوا، اس نے گاڈی کا پیچ موڑا، فوراً گاڈی چلی، طبیعت بہلی۔ راہ میں ایک جگہ سر نکال کر دیکھا، قریب تھا کہ تیز روی اس کی سے پگڑی میری گرے، جلدی سے سر اندر کرلیا۔ پاؤ ساعت میں آٹھ کوس جا پہنچا، وہاں سے دھویں کی ناؤ پر سوار ہوکر موضع گرنچ میں سیر کو گیا، شہر دیکھا بہت گلزار اور آباد۔ عمارتیں شاہی اس میں جیسے باغ میں شمشاد۔ گورے جہاز کے جب کارِ سرکاری میں زخمی ہوتے ہیں، انگلس پا کر چین سے زندگی وہاں بسر کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کھانے نفیس میزوں پر چنے ہیں، پیالے شراب بیَر کے بھرے رکھے ہیں۔ گورے بڑے مزے سے کھاتے تھے اور خوشی سے بیٹھے تھے۔ میرے دل میں آئی، صاحبانِ انگریز کی دانائی کہ کیا اچھی عقل رکھتے ہیں، جب سپاہی کچھ اچھا کام کرتے ہیں، ان کو انگلس دیتے ہیں، وہ آرام سے بسر کرتے ہیں۔ مالک جب نوکر کے حال پر اتنی مہربانی کرے، نوکر کس طرح آقا کے کام میں جان کو جان سمجھے۔
آگے بڑھے، ایک اور مکان میں پہنچے کہ وہاں تصویریں جہاز جنگی اور امیرون نامدار فرنگی کی تھیں۔ نشان جنگی لڑائی واٹرلو کا بطریق تحفہ و یادگاری وہاں رکھا، مارے گولیوں کے سوراخ دار تھا۔ اس کے سامنے ایک الماری میں شیشہ تصویر لارڈ نلسن کا اور کُرتے خون بھرے ہوئےاس کے رکھے۔ وہ بھی گولیوں سے چھلنی ہو رہے۔ نمونے جہاز وغیرہ کےاور طرح طرح کی تصویریں رکھیں۔ اس کے مقابل حضرت پالوس اور حواریوں کی تھیں، آدمیوں سے ایسی تصویریں بننا ممکن نہیں، مگر خداکی قدرت سے بنیں۔ امریکہ سے ایک رئیس وہاں آیا تھا، عوض ان تصویروں کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیتاتھا، مگر انگریزوں نے نہ مانا اور تصویروں کو نہ دیا۔ ایک جاسات ستون سنگ مرمر کے ایک ڈال ترشے کھڑے تھے۔ نہیں معلوم پتھر کتنے بڑے تھے کہ اُن سے اتنے اتنے بڑے ستون ایک ڈال ترشے۔ یہ سیریں دیکھ کر شام کو اپنے مکان میں پھر آیا۔
صبح کے وقت مکان کی سیر کرنے لگا، باورچی خانہ میں ایک چھوٹا حوض کہ اس کے اوپر نل پیچ دار تھا، بندہ وہاں کی راہ و رسم سے محض نا آشنا تھا۔ باورچی خانہ کو حمام سمجھ کر نہانے لگا اور پیچ نل کا کھول دیا نوکر میرا بدن ملتا۔ تھوڑی دیر میں پانی کمروں میں بھر گیا۔ تعجب کرکے عورت صاحب خانہ مع پیش خدمت اپنی کے دوڑ آئی، مجھ کو نہاتے دیکھ بہت ہنس کر چلی گئی۔ نوکر میرا اور میں بھی حیران ہوا کہ باعث ہنسی کا کیا ہے۔ شاید یہاں رسم نہانے کی نہیں کہ نہاتے دیکھ کر ہنسیں، میں نے نہا دھو کر حاضری منگوائی۔ اُس وقت وہ عورت نوکر صاحب خانہ کی پھر آئی، فقیر نے اس سے پرسش کی کہ مجھے نہاتے دیکھ کر تو اور تیری بی بی کیوں ہنسی، وہ پھر بہت ہنسی۔ میں نے ہَٹ کی، تب اُس نے کہا، جہاں تم نہائے باورچی خانہ ہے نہ غسل خانہ۔ ہم کو تمھاری نادانی پر ہنسی آئی کہ تمھیں باورچی خانہ اور غسل خانہ کی نہیں شناسائی، یہ سن کر میں شرمندہ ہوا اور کچھ جواب نہ بن آیا۔
اتوار کو سیر کرنے چلا، کلیسائے سنٹ پال میں گیا۔ وہ کلیسا ہزار برس کا بنا ہے مگر اب تک ویسا ہی مضبوط اور نیا ہے۔ میں ہندوستان سے اس کے دیکھنے کی آرزو رکھتا تھا۔ وہاں جاکر دیکھا کہ بہت انگریز اور پادری بندگی کے لیے جمع تھے۔ چونکہ میں پگڑی باندھے تھا، اندر کے جانے سے رُکا، مگر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا۔ ان لوگوں کا طرز عبادت دیکھتا، اتنے میں نگہبان اس مکان کا ایک لکڑی ہاتھ میں لیے میرے پاس آیا اور کہا: تو مرد اجنبی غیر قوم کا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا بجا ہے۔ وہ بہت مہربانی اور شفقت سے پیش آیا، اونچی جگہ میں جہاں بڑے بڑے امیر نامدار بیٹھے تھے مجھ کو لے جاکر بٹھلایا۔ وہاں سے حال عبادت کا خوب دیکھا۔ ایک آرگن تیس ہاتھ کا بجاتے تھے اور دھیان طرف خدا کے لگاتے۔ اس کی آواز سننے سے میرے دل میں ہیبت سمائی، خدا کی قدرت یاد آئی۔ ایک طرف لڑکے کھڑے ہوئے مرثیہ کی طرح شکریہ خدا کا گاتے، داہنی طرف پادری اپنی جگہ پر کھڑے بندگی بجا لاتے۔ انگریزوں کی رائے جہاں آرائے پر صد آفریں کہ مجھ اجنبی بے پہچان کو برابر اپنے بٹھایا، ہر گز خیال خلاف مذہبی کا نہ فرمایا۔ مسلمانوں کی مسجد اورہندوؤں کے بت خانہ میں سوائے اپنی قوم کے دوسرے کو جانے نہیں دیتے ہیں، مگر صاحبان انگریز با وصف حکومت اور اقتدار کے خیال اس کا نہیں کرتے ہیں۔ پگڑی باندھے گرجے جانا نہایت بے ادبی بطریقہ عیسوی ہے،میں پگڑی باندھے گیا تھا، پر کسو نے نہ کہا تو نے یہ کیا حرکت کی ہے۔ جس قوم میں اتنا حلم و صبر ہووے، حق تعالیٰ اسے کیوں کر نہ سرفراز کرے۔ پہلے ایک نورانی شکل بڈھے پادری نے آکر نماز پڑھی، ضعف و نقاہت اس کی سے صاف آواز میرے کان میں نہ آئی، میں سچ کہتا ہوں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ آواز ارگن اور گانے فقرے شکریہ لڑکوں اور نمازپادریوں سے شوق خدا کا ہر دم زیادہ ہوتا، دل میں آتا کیا اچھا ہوتا اگر سب گناہوں سے توبہ کرکے یہاں بیٹھ رہتا۔ دل میں ایسا ذوق شوق ہوا کہ خیال میں نہیں آتا۔ کلیسا کے اندر کام سونے کا ایسا کیا ہے کہ عقل دریافت کرنے خوبیوں اس کی سے بے سروپا ہے، اگر کوئی برسوں وہاں رہے، ہرگز خوبیاں اس کی دریافت نہ کرسکے۔ میناروں پر بھی پانی سونے کا پھرا ہوا، فرش زمین کا سنگِ مرمر سپید سے بنا ہوا۔ قبریں بادشاہون عالیشان اور پادریوں کی اس میں جا بجا، اس کی چھت پر سے تمام شہر لندن نظرآتا۔ میں نے روضہ تاج بی بی کا دیکھا تھا، جب وہاں پہنچ کر اس کی عمارت کو دیکھا سخت حیران ہوا کہ روضۂ تاج بی بی سے اس کو تشبیہ دوں یا اس کو اُس سے بہتر کہوں؛ خلاصہ یہ کہ ایک دوسرے سے بہتر ہے، وہ اس سے یہ اس سے خوشتر۔ دن بھر سیر اس کی دیکھتا رہا، رات کو اپنے گھر آیا۔ دوسرے دن کالاسم میں گیا،وہ مکان طلسمات کا تھا۔ نیچے کے درجے میں تصویریں پتھر کی تراشی ہوئی استادون کامل کی ہرطرف رکھیں، اس میں ناخنِ پا سے سر تلک پٹھے اور رگیں نظر آتیں، جسم آدمی سے اُن میں فرق ایک بال کا نہ تھا۔ بنانے والوں کو تحسین کہ کیا خوب ان کو بنایا۔ اس کے بعد وہاں کے چوکیدار نے کہا، آؤ تم کو ایک مکان دکھلاؤں کہ کبھی نہ دیکھا ہو۔ میں اُس کے ہمراہ ہوا، ایک چھوٹے مکان میں لے گیا کہ اس کے اندر سِوا چار آدمیوں کے جگہ بیٹھنے کی نہ تھی، میں نے پوچھا یہ مکان کیا خوبی رکھتا ہے نہ اس میں وسعت ہے نہ عمارت اچھی۔ ایک بارگی وہ مکان مانند تخت حضرت سلیمان کے ہوا پر اوڑا، جھٹ پٹ بہت بلند ہوا، اُس پر سے سب آبادی و عمارت، مرد، رنڈیاں، راہ، گلی، بازار، جہاز ناویں سمندر کی، پہاڑ، جنگل، لندن کا آسمان ابر نظر آتا، میں ہرگز نہیں جانتا کہ یہ طلسم خیال کا ہے۔ بعد دریافت کرنے کے ثابت ہوا کہ وہ سب طلسم خیال کا تھا۔ پھر چوکیدار نے کہا، آؤ اس سے ایک اونچا مکان دکھلاؤں، میں ششدر ہوا کہ اس سے زیادہ اونچا کیا ہوگا، شاید قریب آسمان لے جاوے گا۔ اس کے ساتھ چلا اس جگہ لے گیا کہ پہلے سے کچھ کم تھا، مگر شہر لندن سب معلوم ہوتا۔ اس کو دیکھ کر اس کے ساتھ پھر نیچے گیا، وہاں ایک حوض دیکھا کہ اس سے فوارہ مدوّر جاری تھا، دونوں طرف پھول رنگا رنگ اور سبزہ ہرا۔ آگے بڑھا، ایک پہاڑ اور خندق دیکھا، اس کے پاس جاکر تامل کیا، اُس گڑھی پہاڑ نقلی کو اصلی سے کچھ فرق نہ پایا؛ جا بجا سے پانی جاری، بسبب رطوبت کے اس پر کائی جم گئی۔ اس کے اندر گیا، سمندر لہریں مارتا ہوا دیکھا اور ایک جہاز طوفان میں تباہ ہوا، دوسری طرف پہاڑ تھا کہ پانی اس سے ایک چشمہ میں آتا اورپانی سے وہ چشمہ لبالب تھا۔ اس میں مرغابیاں اور اور جانور اور ایک باز بھی بیٹھا۔ ایک طرف دیکھا میز لگی ہوئی، ان میں کھانے عمدہ چنے ہوئے، شرابیں رنگا رنگ شیشہ کے برتنوں میں رکھی ہوئیں، پریاں قریب میز کے بیٹھی کھاپی رہیں۔ میں ان کے پاس گیا، ایک پری نے پیالہ شراب کا مجھ کو دیا، شکر خدا کا کرکے پیالہ اس کے ہاتھ سے لیا اور دوستون غائب کو یاد کرکے پیا۔ کرسی بونے پاٹ کے بیٹھنے کی وہاں رکھی تھی۔ یہ سب سیریں دیکھ دوسری سمت چلا، وہاں بھی ایک مکان طلسم کا دیکھا کہ استادون کامل نے نقشہ گانو انگریزوں کا بنایا ہے۔ ہرگز ثابت نہ ہوتا کہ یہ طلسم خیال کا ہے۔ جابجا مکان انگریزوں کا بنا ہے، دھواں آتش دانوں سے نکلتا ہے۔ مزدور اور گدھے راہوں میں چلتے نظر آتے، گھاس اور کھیت اور جانور رواں سب دکھائی دیتے۔ ایک مکان میں ایک ایسا شیشہ بنا کر لگایا ہے کہ باوجود بند ہونے مکان کے سب چیزیں اور صورت آدمیون باہر کی دیکھیں، یہ جو کچھ میں نے دیکھا سب کارخانہ طلسمات کا تھا، یہ حالات دیکھ کر شام کو اپنے مکان پر آیا۔
صبحی بیدار ہوکر میوزیم گیا۔ وہ بھی ایک عجب مکان ہے۔ تعریف اس کی نہ یارائے بیان ہے۔ عمارت اس کی میں لاکھوں روپئے صرف ہوئے ہوں گے۔ ہر طرح کے تحفے اور عجائبات وہاں رکھے، بہت مورتیں مصر کی اور ہتیار لڑائی کے، جانور دو پائے، چوپائے قسم قسم کے رکھے ہیں۔ سب چیزیں نادر ہر ایک جا سے بہت تلاش سے لائے ہیں۔ حضرت نوح کے طوفان کے ڈوبے ہوئے مرد اور عورتیں وہاں تھیں۔ اکثر لاشیں مردوں اور رنڈیوں کی جو پتھر کے نیچے پانی میں دبیں اور مدت تک پڑی رہیں، گوشت سارا گل گیا، مگر ہڈیاں ان کی پتھروں میں لگی رہیں اور اسی طرح ڈھانچے گھڑیال اور کتنے اور جانوروں کے یعنی فقط ہڈیاں پتھروں میں لگیں وہاں نظر آئیں۔ اسی طوفان میں ایک درخت دو پتھروں کے بیچ دبا تھا، انگریزوں نے آرے سے اسے چیرا، آدھا درخت نیچے کے پتھر میں لگا رہا ہے اور آدھا اوپر والے میں جما ہوا ہے۔ میں نے ان امروں کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر طوفان نوح کا اعتبار کیا اور دل میں یقین لایا۔ بعد اس کے سر ایک جانور کا دیکھا کہ دُگنا ہاتی کے سر سے تھا۔ اگلے زمانے میں وہ جانور نکلتا، اب شاید نہیں پیدا ہوتا۔ اس کو دیکھ کر قدرت خدا کی نظر آئی کہ کیسے کیسے جانور اور صورتیں بنائیں۔ وہ تمام روز اسی سیر میں بسر کیا۔
دوسرے دن سیر کلیسائے منسٹر آبی کو گیا۔ بادشاہی مکانوں کی سیرمیں مشغول ہوا۔ درِ دولتِ شاہی پر ایک شخص مشکیں گھوڑے دو رکابے پر سوار زرہ بکتر پہنے تیار نظر آیا، خود میں اس کے ریچھ کے بال لگے تھے، قد اس کا جون سروِ سہی، موچھیں اس کی کھڑی۔ میں نے بہت سفر کیا، پر ویسا سوار کہیں نہیں دیکھا۔ مقابل درِ دولت کے ایک پائیں باغ تھا کہ باغ ارم اس پر رشک لے جاتا، اس میں حوض پانی کے بھرے ہوئے، جانور اس میں تیرتے۔ ملکہ عالم آرا یعنی کوین وکٹوریا اس روز اس مکان میں آئی تھی، اس لیے مجھ کو اندر ان مکانوں کے رسائی نہ ہوئی، باہر سے خوب تماشا دیکھا اور خوش ہو کر گھر اپنے آیا۔ دل میں کہا ایسی زبان کہاں سے لاؤں کہ خوبیاں یہاں کی بیان کروں۔
گیارھویں تاریخ ستمبر کی رات کے وقت باغ بادشاہی کی سیر کرنے گیا، نام اس کا رایل جولاجکل گاڈن تھا۔ وہاں ایک دریا بڑا، اس میں کئی جہاز کا لنگر پڑا ہوا۔ کنارے دریا کے شاہ لندن نے پہاڑ بنوایا کہ پہاڑ اصلی سے ذرا فرق نہ رکھتا۔ نیچے اس پہاڑ کے کئی شہر آباد تھے، بعینہٖ مانند نقشۂ شہرِ یونان کے معلوم ہوتے۔ ایک مکان میں باجے والے بادشاہی نوکر عجیب و غریب باجے بجاتے، سامنے اس کے دوسرے مکان میں گیس اور چراغ اور فانوس بہت روشن تھے۔ اُس میں میز لگی ہوئی اور شیشہ کے برتن اور کھانے عمدہ چنے ہوئے، شرابیں طرح طرح کی شیشہ کے ظروف میں رکھیں؛ پریاں لندن کی وہ کھانے اور شراب بیچتیں، سب کی سب خوبصورت تھیں؛ سوائے اس شہر کے، مقابل ان کا روئے زمین میں نہیں۔ ان میں سے ایک پری چودہ برس کی سراپا غضب تھی، نگاہ اس کی آفت ڈھاتی، تعریف جمال اس کی محال، بالوں اس کے سے عاشقوں کو زندگی وبال، شعر:
زلفیں یوں بکھری ہوئی چہرہ پہ مانگیں تھیں دل
جس طرح ایک کھلونے پہ ہٹیں دو بالک
میں یہ تماشا دیکھ رہا تھا کہ وقت آدھی رات کا ہوا؛ اک بارگی پہاڑ سے دھویں رنگا رنگ نکلنے لگے، ہر ساعت زیادہ ہوتے جاتے۔ بعد دوچار گھڑی کے ایک آواز گرجنے کی سی آئی، پہاڑ کے نیچے رہنے والوں پر تباہی لائی، وہ سب پریشان و تباہ ہوئے، نام و نشان کو باقی نہ رہے۔ یہی نقشہ تباہی یونان کا ہوا کہ پہاڑ سے گندھک نکل کر آدمیوں پر گری اور ہلاک کیا، میں یہ طلسم دیکھ کر اپنے گھر آیا۔
صبح کو راجڑ صاحب اور ایک شخص اور کی صلاح سے نقل گھر گیا، اس مکان کو انگریزی میں اسلس ٹیاٹر کہتے ہیں۔ اس مکان میں تین درجے تھے، سب سے اوپر کمینے اور کم ظرف بیٹھے تماشا دیکھتے، درجہ اوسط میں صاحبانِ والا شان مع اپنی بیبیوں کے رونق افروز تھے، نیچے کے درجے میں غریب اور مفلس جی بہلاتے۔ مکانات خوب نفیس اور مضبوط بنے تھے، ہم ہر آدمی پیچھے دو دو روپئے دے کر بیچ کے درجے میں بیٹھے۔ نقالوں نے پہلے نقل لڑائی مظفر شاہزادہ قزلباش اور ترکمانوں کی بیان کی۔ ایک چادر اٹھادی، سبھوں کی نظرمیں دریا جہاز جنگل آیا اور معلوم ہوا کہ مظفر شاہزادہ بھاگا، ترکمانوں نے اس کا تعاقب کرکے پکڑا، ایک گھوڑے ننگی پیٹھ پر چت لٹاکر رسیوں سے باندھا اور گھوڑا ہانک دیا، گھوڑے نے اپنے تئیں دوڑا کر دریا میں ڈالا۔ ایک باز اُوپر سے حملہ کرتا اور ایک بھیڑیا پیچھے اس کے پڑا، مگر گھوڑا گرتے گرتے دریا سے پار ہوا اور قریب ہلاکت پہنچا۔ اسی عرصہ میں معشوقہ شاہزادہ کی ایک لوٹا تانبے کاہاتھ میں لیے ہوئے پہاڑ سے نکلی اور اپنے عاشق کے اچھے ہونے کے لیے خدا کی درگاہ میں رو رو کر دعا کی۔ شہزادہ کو گھوڑے کی پیٹھ سے کھول کر شیر کے چمڑے پر بٹھلایا اور لوٹے میں پانی لا کر زخموں کو دھو دھا کر صاف کیا۔ بعد دو گھڑی کے باپ شاہزادے کا آ کر اپنے بیٹے کو نظرِ عنایت سے دیکھ رہا تھا کہ ترکمان بھی آ پہنچا؛ ان دونوں شخصوں میں نوبت ڈھال تلوار کی آئی۔ شاہزادہ بھی اٹھ کر ہوا مستعدِ جنگ آرائی، فی الفور دونوں طرف سے سپاہ آئی۔ آخر فوجِ قزلباش نے ترکمان پر فتح پائی، فوج ترکمانی نے بھاگنے کی راہ لی؛ شاہزادہ بڑے جلوس اور دھوم سے شادیانے فتح کے بجاتے ہوئے اپنے گھر آیا۔ جب یہاں تک نوبت نقل کی پہنچی پردہ گرایا اور پھر اٹھایا، اس میں سے ڈکرو نکلا۔ وہ بڑا نقال پوشاک عربی پہنے ہوئے تھا، ایک میدان مدور دو ہاتھ کے نیچے میں آ کر ٹھہرا، سامنے اس کے ایک گھوڑا ابلق اسی میدان میں آیا۔ ڈکرو جدھر اشارہ کرتا گھوڑا اُدھر پھرتا، اسی عرصہ میں ڈکرو نے ایک پتھر دو گز کا طول میں اس میدان میں ڈالا، گھوڑے نے دونوں پانو اگلے اپنے کو اس پر جمایا، تصویر سان بے حس و حرکت ہوا، پھر ڈکرو کے اشارے سے پانو پتھر سے اتار کرناچنے لگا۔ بعد اس کے نو آدمیوں نے حلقے لکڑیوں کے گھوڑے کے قد برابر لیے اور گھوڑے کے گرد کھڑے ہوئے؛ جب ڈکرو اشارہ کرتا، گھوڑا ہوا کی طرح ہر حلقہ سے نکل جاتا، بلکہ ایسی تیزیاں کرتا کہ ہوا کو بھی اس پر رشک آتا۔ بعد ازاں لوگ نو لکڑیاں بڑی بمفاصلہ جسم گھوڑے کے لے کر کھڑے ہوئے، گھوڑا ہر لکڑی سے اُچک کر اس سرے سے اُس سرے پہنچتا، اسی طرح اُدھر سے ادھر آتا۔ بعد ان حرکتوں کے تماشائیوں کے سامنے گھٹنا زمین پر ٹیکا اور سرجھکاکر سلام کیا۔ کیا اچھا گھوڑا تھا، مرتبہ شناسی میں آدمی سے زیادہ ہوش رکھتا۔ ڈکرو اس پر سوار ہوکے چلاگیا؛ تھوڑی دیر کے بعد بہت روشنی ہوئی، ڈکرو آیا۔ اس کے پیچھے ایک گھوڑا سبزہ اسی گول میدان میں موجود ہوا، ڈکرو اس کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوکر اسی میدان میں کاوا دیتا اور نیزہ کو بہت چستی سے ہلاتا؛ کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر آتا کبھی گردن پر جاتا، کبھی پانو میں چمٹتا، کبھی وہاں سے ہٹتا، گھوڑا ویسا ہی رواں تھا۔ غرضکہ ڈکرو نے ایسی چالاکی دکھائی کہ دیکھنے والوں کو حیرت آئی۔ بعد اس کے آٹھ گولیاں پیتل کی نکالیں، گھوڑا دوڑتا جاتا، وہ ان گولیوں کو اچھال کر ہاتھ میں روکتا، یہاں تک کہ بارہ گولیوں کی نوبت آئی، زمین میں ایک بھی نہ گرنے پائی؛ اسی تیز روی میں ایک رکابی تانبے کی لکڑی کا دستہ لگی ہوئی نکالی، گولیاں اچھال کر اس رکابی میں روکتا اور وہ رکابی کی لکڑی ہاتھ میں پکڑے تھا۔ کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہوجاتا، کبھی دُم کے پاس کھڑا ہوکر یہ کمال دکھاتا؛ اسی حال میں چھت سے ایک رسی لٹکا کر اپنے پانو کو اس میں باندھا اور اوندھا لٹک گیا۔ گھوڑا ویسا ہی دوڑتا تھا، اکبارگی قلابازی کھا کر رسی کو اپنے پانو سے کھولا اور گھوڑے پر آ بیٹھا۔ بعد اس کے ایک پلٹن آئی، کپتان اس کا مجنوں کی طرح دبلا اور ناتواں، سپاہی سب بے ساماں، کسی کے پاس بندوق نہ تھی، کسی پاس تھی پر چانپ سے خالی، کسو پاس کپی باروت کی نہیں، کوئی کہیں کوئی کہیں۔ ان سپاہیوں کو دیکھ مجھ کو فوج شاہِ اودھ کی یاد آئی۔ اتنے میں خدمت گاروں نے مسخروں کی طرح آ کر کرسی اور میز لگایا، اس پر شراب اور کھانا ہر قسم کا چنا؛ کپتان نے کرسی پر بیٹھ کر شراب پی اور کھانا کھایا، سپاہیوں کو اپنے برابر بٹھلایا، جب خوب نشہ میں چور ہوا سائیس سے گھوڑا منگواکر سوار ہو بیٹھا، اسی میدان مدور میں گھوڑا پھرایا۔ بندوق کی قواعد ایسی کی کہ میں نے کسی انگریز یا ہندوستانی سے نہیں دیکھی۔ اگرچہ کپتان عمر میں دس برس کا نہایت نزار و لاغر تھا، مگر ایسے ایسے کمال دکھائے کہ عقل میں نہ آئے۔ گھوڑے کی تیز روی سے ثابت ہوتا کہ یہ لڑکا اس پر گر پڑے گا، مگر گھوڑا بے تحاشا ویسا ہی دوڑاتا جاتا، نہایت مدہوشی میں کمیس پتلون بدن سے اتارا،فقط ایک باریک کپڑا ریشمی کمیس کے نیچے کا پہنے رہا، ایک پانو اٹھاکر انگلیاں اس کی دانتوں سے کاٹتا۔ سب تماشائیوں نے اس کی تیزی دیکھ کر بہت تعریف کی اور ٹوپی ہر ایک نے سر سے اتاری۔ میں بھی حیران ہوا کہ اس نے کیا کام کیا، شاید دیو کا بچہ ہے جو ایسے کام کرتا ہے، ورنہ آدمی کو کیا مجال جو دکھلاوے ایسے کرتب اور کمال۔ خلاصہ یہ کہ وہ قواعد کرکے غائب ہوا، ڈکرو پھر آیا، تین گھوڑے بے زین باگ دار ساتھ لایا۔ اس کے اشارہ سے وہ گھوڑے اسی گول میدان میں گئے اور برابر کاوا پھرنے لگے۔ ڈکرو نے کود کر ایک پانو ایک گھوڑے پر رکھا، دوسرے گھوڑے پر دوسرا پانو جمایا، تیسرے کو درمیان لے کر آپ کھڑا ہوکر خوب دوڑاتا۔ تین گھوڑے اور آئے، ان کو بھی آگے کرلیا اور باگ ہاتھ میں لے کر برابر دوڑایا۔ بعد ایک لحظہ کے تین گھوڑے اور موجود ہوئے، ان کو بھی ویسا ہی چھ گھوڑوں پہلے کے آگے کرلیا، سب کی باگیں پکڑ کر برابر دوڑانے لگا۔ کیا کمال رکھتا تھا کہ نو گھوڑوں کو برابر بے کم و بیش دوڑاتا۔ یہ تماشے دیکھ کر میں اپنے گھر آیا۔
جمعرات کے دن اکیسویں تاریخ ستمبر کی، بوچڑ صاحب کے مکان پر گیا۔ سیر کو طبیعت چاہی، ایک گاڈی بگھی کوچ ٹھہرائی، دو گھوڑے اس کو کھینچتے ہیں، آٹھ آدمی فراغت سے بیٹھتے ہیں۔ بوچڑ صاحب اور ان کے بھائی ولیم صاحب اور ڈک صاحب اور ہم اس پر سوار ہوئے اور ٹوارف لندن پرانے قلعہ میں گئے۔ وہ قلعہ دو تین ہزار برس کا بنا ہے، انگریزوں کے مذہب اور زمانے سے پہلے کا ہے۔ عمارت اس کی ہندوستان کے مکانوں کے مانند تھی، مضبوطی میں کوہ آہنی سے زیادتی رکھتی۔ وہاں دو لاکھ ہتیار جنگی تیار،جیسے بندوق اور پستول اور تلوار، ایسی نفاست سے دیواروں پر رکھے کہ طرح طرح کے پھول معلوم ہوتے۔ صفائی میں آئینہ کے مثل آبدار، در و دیوار ان کے سبب سے گلزار۔ ایک توپ اژدھائی باریک کام کی کہ بونے پاٹ کو روم سے ہاتھ آئی، ایک طرف رکھی تھی۔ سر جہاز جنگی لاڈنلسن کا اب تلک وہاں رکھا ہے، لڑائی میں گولی توپ کی جو اس میں لگی تھی ویسی ہی ان میں جمی تھی۔ کاٹ کے گھوڑے اگلے زمانے کے موافق اوستادوں کے ہاتھ کے بنائے ہوئے ایک طرف کھڑے، ان پر پتلے سرداروں کے زرہ پہنے زندہ گھوڑے پر چڑھے معلوم ہوتے، اپنی اصل سے ذرا بھی فرق نہ رکھتے تھے۔ ہرگز نہ ثابت ہوتا کہ یہ کاٹ کے گھوڑے ہیں اور امیروں کے پتلے۔ ایک جانب شبیہ ملکہ وکٹوریا کی، گھوڑے پر سوار تھی۔ تاج جواہر نگار سر پر رکھے، موتیوں کا مالا بیش قیمت گلے میں ڈالے؛ ایک نوکر بھی اس کے پاس کھڑا ہوا۔ میں نے اس شبیہ کو ملکہ اصل جانا، شبیہ نہ سمجھا، جو کوئی دیکھے بے شبہ اس کو زندہ جانے۔ اس قلعہ میں ہتیار لڑائی کے ہر قسم کے موجود ہیں۔ بندوق توڑے دار، گرز، تبر، ڈھال، تلوار اور ہزاروں طرح کے ہتیار بے حد و شمار۔ ہر نوع کا ہتیار انگریزی وضع قدیم کا رکھا، بسبب گذرنے بہت دنوں کے لوہا پتلا پڑگیا تھا۔ وہ تبر بھی تھا کہ شاہ لندن کے بیٹے کا سر اس سے کاٹا گیا۔ چلتہ اور زین شاہ ٹیپو کا بھی یادگاری کے لیے رکھا تھا۔ وہاں کا نگہبان مردِ سلیقہ شعار نظر آیا کہ حال وہاں کی ہر چیز کا بخوبی بیان کیا۔ اس کے کرتہ پر تغمہ بادشاہی تھا، بہت مہربانی سے میرے ساتھ چلتا پھرتا؛ ایک مکان میں لے گیا کہ وہاں زیور نقرئی اور طلائی جڑاؤ و موتی یاقوت اور ہر جواہر کا تھا۔ اظہار خوبیوں اس مکان کا بیان سے کب امکان ہے۔ وہاں سے پھر کر بوچڑ صاحب کے مکان پر کھانا کھایا۔ شام کو سیر کرنے وہاں گیا کہ میز، انٹی کھیلنے کی بہت ستھرائی سے رکھی اور کتنے انگریز شطرنج اور انٹہ بازی میں مشغول تھے۔ حال مفصل اس کا یوں ہے کہ ایک میز کے گرد کتنے لوگ بیٹھتے تھے اور ہاتی دانت کی گولیون رنگ برنگ کو میز پر ایک لکڑی سے ڈھلکاتے۔ اس میں کچھ حساب رکھا تھا کہ اسی سے ہارتے جیتتے۔ میں وہاں جاکر تھوڑی دیر ٹھہرا، کھیل ان کا دل کو نہ بھایا، نا چار باہر آیا اور ان کی بربادیٔ اوقات پر تاسف کیا کہ کیسے بے عقل لوگ ہیں کہ اپنے اوقاتِ عزیز بیجا کاموں میں برباد کردیتے ہیں۔
جمعہ کے دن بائیسویں تاریخ ستمبر کی، میں ایک صاحب کے ساتھ بک سال گاڈن کی سیر کرنے گیا۔ یہ نام ایک باغ کا ہے کہ بہت خوب تھا اور رنگینی اپنی سے باغ ارم کو شرمندہ کرتا۔ وہ مقام طلسمات کا تھا کہ کہیں پانی اوپر سے نیچے آتا اور کہیں ویرانہ تھاکہ اس سے وحشت ہوتی، طبیعت گھبراتی۔ مکانوں کے اندر میزوں پر شیشہ آلات چنے ہوئے، بہت لوگ مع بی بیوں کے خوشی سے بیٹھے۔ آواز ارگن کی ہر طرف سے آتی، مردہ دلوں کو جوش میں لاتی۔ کہیں صاحب لوگ پریوں ساتھ ناچتے گاتے، غرض سب سامان خوشی کے نظر آتے۔ میں اس باغ کو دیکھنے اور گانے ناچنے اور آواز ارگن کی سننے سے بہت محظوظ ہوا اور دوسری طرف چلا۔ دیکھا کہ ایک غبارا ہے، اس میں بہت ڈوریاں لگیں اور دوسو گوروں نے اپنے ہاتھ میں وہ ڈوریاں پکڑیں۔ اس میں دھویں بھرنے کے لیے گیس جلایا، اس لیے کہ بغیر دھویں بھرنے کے غبارا اڑ نہ سکتا۔ نیچے اس کے ایک ٹکڑا تانبے کا لگاہوا، اس پر ایک پلنگ چھوٹا سا بچھا ہوا، اس میں بارہ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ نیچے اس کے ایک ناؤ مع سامان دریائی کے لگی کہ شاید غبارا اڑ کر دریا میں گرے، ناؤ کے سبب سے ڈوبنے نہ پاوے۔ چار آدمی اس میں بیٹھے تھے، ایک شخص ہاتھ میں جھنڈی لیے۔ جب غبارا دھویں سے بھرا، صاحب غبارے نے گوروں کو حکم دیا کہ ڈوریوں کو چھوڑ دو، پھٹک کھڑے ہو۔ گوروں نے ڈوریوں کو چھوڑا، غبارہ بلند ہونے لگا۔ جب دو چار نیزوں پر آیا، اس شخص نے جھنڈی کو ہلایا۔ سب لوگوں نے بہت تعریف کی، ٹوپی سر سےاتاری۔ آخر وہ ایسا بلند ہوا کہ انڈے سا سوجھائی دیتا، پھر نہ ثابت ہوا کہ کہاں گرا۔ جس کاجی چاہے اس کے مالک کو ایک سوتیس روپے دے اور غبارے میں بیٹھ کر آسمان کی سیر کرے۔
یہ کیفیتیں دیکھ کر اس باغ سے دوسرے مکان میں چلا، وہاں ایسی بھیڑ تھی کہ اندر جانا مشکل ہوا، بڑی محنت سے اس کے اندر گیا۔ ایک میز رکھا ہوا تھا، اس پر بارہ پیالہ شیشہ کے چھوٹے اور ایک پیالہ پانی کا بھرا ہوا۔ صاحب مکان نے پردہ اٹھایا، اکبارگی ایک رنڈی پری زاد نکلی؛ اس کے دیکھنے سے میری آنکھ میں ٹھنڈک آئی، عجب صورت رکھتی کہ چاند کو شرماتی۔ پردہ سے نکل کر اس میز پاس آبیٹھی اور پانی کے پیالہ سے ہاتھ بھگو کر ان بارہ پیالوں کو بجاتی، ان سے ایسی آواز نکلتی کہ دل کو بیتاب کرتی۔ اس کے سننے کے لیے سارا بدن کان ہوگیا اور صورت دیکھنے کے لیے ہر عضو آنکھ بنا۔ بخدا اس آواز کو جنگل میں اگر جانور سنتے، بے خود ہوکر مطیع اور فرماں بردار اس کے ہوجاتے۔ میں حیران تھا کہ یہ رنڈی ہے یا پری جادو کر رہی ہے؛ تھوڑی دیر کے بعد وہ پری پردہ میں گئی۔ دوبارہ پردہ اٹھایا، اندر مکان کے نظر آیا کہ بُت پتھر کے کھڑے ہیں۔ ہر چند اور بھی تماشے وہاں تھے، پر میرا ہمراہی گھبرایا کہ چلو یہاں سے، ناچار اس کے کہنے سے گھر آیا۔
کراہنٹ صاحب مصور نے کلکتہ سے ایک خط اپنی بہنوں کے واسطے لکھ کر دیا تھا، میں تعویذ کی طرح اس کو اپنے ساتھ حفاظت سے رکھتا۔ تیئیسویں تاریخ ستمبر کی اس خط کو ان کی بہنوں پاس لے گیا۔ دونوں بہنیں ان کی بن بیاہی تھیں، میرے ساتھ بہت اخلاق سے پیش آئیں، مہمانداری میں مصروف رہیں۔ میں نے شام تک ان کے ساتھ چائے پی اور کھانا کھایا، ان کی عنایت و اشفاق کا شکر گزار ہوا۔ کیا خوب شہر لندن ہے، لوگ وہاں کے مسافروں پر ایسی عنایت کرتے ہیں کہ باپ بیٹوں کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ فقیر نے سفر بہت شہروں کے کیے، مگر صاحب مروت ایسے کہیں نہ پائے۔ انگریز جو ہندوستان میں آتے ہیں مزاج بدل جاتے ہیں، اِن لوگوں کو اُن سے کچھ نسبت نہیں۔ مصر؏:
چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک
مقام تاسف ہے کہ ہندوستان کے لوگ اس شہر جنت نشان میں نہیں پہنچتے ہیں تاکہ اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کے اخلاق کا حال دیکھتے اور جانتے۔ شام کو میں ان سے رخصت ہوکر مکان پر آیا، بوقت رخصت کراہنٹ صاحب کی ماں اور دونوں بہنوں نے کہا: تم پرسوں ضرور آنا اور بی بی لکی سے ملاقات کرنا۔ میں نے کہا: بسر و چشم آؤں گا اور ان سے بہرہ یاب ملازمت ہوں گا۔ بموجب وعدہ پچیسویں تاریخ ان کے مکان پر گیا اور ایک گاڈی کرایہ کرکے ہمراہ دونوں بہنوں کراہنٹ صاحب کے بی بی لگی کے گھر چلا۔ وہاں جاکر دیکھا کہ کھانا پک رہا ہے اور تین بی بیاں اور انگریز بزم آزا، بی بی لکی اور سبھوں سے ملاقات ہوئی، بہت عنایت ہر ایک نے کی۔ بعد کھانے پینے کے باتیں شروع ہوئیں، ایک مصور نے تصوریں اپنے ہاتھ کی دکھائیں، نہایت خوب بنی تھیں۔ بعد اس کے بی بی لکی کی بیٹی آئی اور بین ہاتھ میں لائی۔ جب اس کو بجانے لگی، قدرت خدا کی نظر آئی۔ کیا آواز تھی، اگر دریا پاس بجاتی، پانی بہتا رک جاتا؛ اگر صحرا میں وہ آواز پہنچتی، جانوروں کو راحت آتی؛ نکیسا اگر اس کو سنتا، پردہ میں چھپتا۔ عمر اس کی چودہ برس کی، حسن و جمال میں بے مثل تھی۔ میں اس لیلیٰ وش کو دیکھتے ہی مجنون بن گیا اور ٹکٹکی باندھ کر یہ شعر پڑھنے لگا:
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چینِ بہارِ تو زداماں گلہ دارد
اگر رتبہ سلطنت مجھ کو حاصل ہوتا، اس کے اوپر سے قربان کر کے غلامی اس کی اختیار کرتا۔ خلاصہ یہ کہ آدھی رات تک اسی کیفیت میں رہا؛ جب اور لوگ رخصت ہونے لگے، میں بھی رخصت ہوکر اپنے مکان پر آیا۔ تمام رات اس ماہرو کو یاد کرکے ستارے گنتا رہا۔
ستائیسویں تاریخ بدھ کے دن بوچڑ صاحب کے مکان میں جا کر سیر دریا پر طبیعت لہرائی۔ ایک گاڈی کرایہ کی ٹھہرائی، بوچڑ صاحب، ان کے بھائی ولیم صاحب اور ڈک صاحب بخشیٔ فوجِ بادشاہی کو ساتھ لے کر اس گاڈی پر سوار ہو کر کنارے دریا کے گئے، پھر ایک دھویں کے جہاز پر سوار ہوکر دریا کی سیر میں مشغول ہوئے۔ جہاز دودی پہلو بہ پہلو آتے جاتے پر ایک دوسرے سے ٹکر نہ کھاتے، یہ اوستادیاں کپتانوں جہاز کی تھیں۔ میں نے ان کی بہت تعریفیں کیں۔ لندن عجب شہر ہے؛ جدھر دیکھیے کیا دریا، کیا صحرا، کیا شہر ہرجا پر پریاں بیٹھی اختلاط کررہی ہیں، دل عاشقوں کا پھسلاتی ہیں۔ جو کوئی زندگی میں بہشت دیکھا چاہے، اپنے تئیں اس شہر میں پہنچاوے اور مزہ زندگی کا پاوے۔ یہ سیر دیکھ کر کنارے دریا کے پھر آئے اور توپ خانہ بادشاہی کے پاس کہ اس کا نام اولج ہے، اترے۔ چاہا کہ اندر اس کے جا کر تماشا دیکھیں، دربانوں نے منع کیا کہ بے پروانگی گورنر جرنیل کے مرد اجنبی یہاں جا نہیں سکتا؛ یہ سن کر میں مایوس ہوا، مگر رڈک صاحب نے میرے لیے گورنر جرنیل کا حکم پہنچوایا، تب میں اس کے اندر گیا اور دو صاحبوں اور کو ہمراہ لیا۔ وہ وہاں کا حال بتلاتے اور عجائبات دکھلاتے۔ ایک طرف دیکھا توپ بنانے کی کل تھی، لوہا وغیرہ پانی کی طرح پگھلا کر اس میں ڈالتے اور توپیں ڈھالتے۔ وہ اندر سے ٹھوس ہوتیں، گولی باروت کی جگہ نہ رکھتیں، اس لیے ایک اور کل تھی کہ کولہو کے بیل کی طرح گھوڑے اس میں جتے ہوئے گرد گھومتے، توپ کے منھ کو اس کے برابر رکھتے اور بقدر اندازہ کے اندر سے خالی کرتے۔ ایک طرف دوسرا سانچا تھا، اس میں لٹھے لکڑی کے ڈالتے، اوزار جہاز اور اَور چیزوں کے بناتے۔ غرض وہ لوگ ایسی چالاکیاں کرتے کہ دیو اور جنات ان کو دیکھ کر چکراتے۔ ایک جگہ اور نمونے جہاز جنگی اور اشیائے نادر کے رکھے، فرمائش شاہِ مصر سے چودہ توپیں تو بتیس یہی پانچ پینتالیس پنی بنی تھیں، وہ بھی وہاں زمین پر پڑی تھیں۔ سامنے ایک دیوار چوڑی استوار بنی، آزمائش توڑ گولی کے لیے تھی۔ توپوں میں گیارہ گیارہ سیر باروت بھرتے، اس دیوار پر نشانہ مارتے۔ وہاں سے ایک اونچے پر گیا، نیچے دیکھا بیس ہزار توپیں نظر آئیں، چھوٹی بڑی۔ ایک ندی سیاہ رنگ لہریں مارتی معلوم ہوتی۔ توپیں قواعد کی اور جو ہر روز بنتیں ان کے سوا تھیں۔ یہاں سے غور کیا چاہیے، جو لوگ ایسے صاحب عقل اور تدبیر ہوں، ہمیشہ انھیں کاموں میں مشغول رہیں، کیونکر حاکم ہفت اقلیم کے اور عالمگیر نہ ہوں۔ ان سے مقابلہ کرنا گویا جنات سے لڑنا ہے۔ ایک اور مکان میں سب سامان توپ خانہ کا تھا۔ زین، لگام اور ساز چرمینہ گھوڑوں کا باحتیاط رکھا۔ اگر شاید کبھی ضرورت پیش آئے، بیس ہزار توپ جنگی مع گھوڑوں کے دو گھنٹے میں تیار ہوئے۔ برخلاف ہندوستان کے، وہاں اسباب بے احتیاطی سے ڈال رکھتے ہیں، کیڑے اس کو کھاتے ہیں۔ جب کام لگا کاریگروں کو بلاتے ہیں، شور و غل مچاتے ہیں اور حال یہ کہ اس سے کام کچھ نہیں نکلتا۔ فقیر یہ حال دیکھ کر قواعد کے میدان میں گیا۔ وہاں پچاس ہزار سپاہی پیدل قواعد کررہے تھے، عجیب عجیب چالاکیاں کرتے۔ قریب اس کے ایک بڑی توپ پڑی تھی، صاحبانِ انگریز نے قلعہ بھرت پور سے وہاں لے جا کر بطریق تحفہ رکھی۔ ایک اور مکان تھا کہ اس میں ہتیاروں ہندوستان کا انبار بے پایاں تھا، سوا اس کے ہر قسم کے ہتیار تھے اور نادر تحفے مصر کے کہ بونے پاٹ بعد فتح مصر کے لایا تھا، وہاں رکھے۔ معلوم ہوا کہ کوئی بادشاہوں لندن سے شوق ہتیاروں کا رکھتا تھا، اس نے توپخانہ میں یہ سلاح خانہ بنوایا اور ہتیاروں کو اس میں جمع کیا۔ ایک گاڈی ٹوٹی بھی نظر آئی، اس سے مجھ کو حیرت چھائی کہ جہاں ایسے تحفے رکھے اور ہتیار عمدہ جمع کیے، اس ٹوٹی گاڈی کا کیا کام، اس کا کیا آغاز و انجام۔ حال اس کا وہاں کے نگہبان سے پوچھا، اس نے جواب دیا کہ بونے پاٹ کی لاش کو اسی گاڈی پر رکھ کر لائے تھے اور اس ٹاپو میں کہ چاروں طرف اس کے سمندر ہے دفن کرا ہے۔ مجھ کو اس بات کے سننے سے بہت رنج ہوا کہ زندگی چند روزہ کا کیا بھروسا، بونا پاٹ سا بادشاہ جو دس لاکھ فوج ملازم رکھتا اور سب بادشاہوں پر غالب آیا تھا، آخر کار کس بیکسی سے لاش اس کی گاڈی پر لائے اور اسے جزیرۂ خراب میں سونپ آئے۔ مصر؏:
دنیا ہیچ ست و کار دنیا ہمہ ہیچ
یہ ماجرا دیکھ کر وہاں سے پھرا۔
اٹھائیسویں تاریخ ستمبر کی، جمعرات کے دن ایک گاڈی کرایہ کرکے اس پر سوار ہوا اور کتاب خانہ شاہ لندن میں گیا۔ وہاں کتابوں عربی، فارسی، عبرانی، یونانی، سریانی، انگریزی کا ایسا ڈھیر تھا کہ دور سے بجائے خود ایک پہاڑ معلوم ہوتا۔ پاس اس کے ایک اور مکان، اس میں تصویر ہر عضو انسان کی موم سے بنی ہوئی، عضوِ اصلی سے فرق ایک بال کا بھی نہ رکھتی۔ ہر ایک رگ پٹھا صاف نظر آتا، بسبب برودت کے اس میں کبھی فساد نہ آتا۔ ایک الماری میں شیشہ کی، جسم مردہ کا تھا؛ اس کا بھی رگ پٹھا ظاہر تھا، میں نے حال اس کا مکان دار سے پوچھا، اس نے بیان کیا کہ عرصہ تین ہزار برس کا ہوا کہ یہ مردہ مصر سے آیا اور اسی طرح رکھا ہے، جس کو شوق تحصیل علم ڈاکتری کا ہوتا ہے، یہاں آ کر رگ پٹھے دیکھتا ہے اور پہچانتا ہے۔ وہاں سے پھر کر شام کو بموجب طلب راجڑ صاحب کے مکان میں جا کر چائے پی، وہاں پادری ماٹ مر اور دو تین بی بیاں آئی تھیں، ان سے مجھ سے باتیں ہوئیں۔ پہلے پادری صاحب نے کہاکہ ہم کو ہے مقام بڑے تعجب کا کہ سو برس سے پادری ہندوستان میں جا کر وعظ و نصیحت کرتے ہیں، مگر ہندوستانی لوگ نہیں سمجھتے ہیں اور راہ راست پر نہیں آتے ہیں۔ میں نے جواب دیا وہ لوگ آپ راہِ راست پر ہیں، اگر پادری کے کہنے پر عمل نہ کریں، کیا تعجب کا مقام ہے۔ انھوں نے کہا: کیوں کر سیدھی راہ پر ہیں، بت پرستی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے غافل ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: جیسے کوئی عاشق معشوق تک نہ پہنچ سکتا ہو اور دیکھنا اس کا منظور رکھتا ہو، ناچار وہ تصویر اس کی سامنے رکھتا ہے اور اپنے دل کو اس سے تسلی دیتا ہے۔ اسی طرح ہندو بت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں، حقیقتاً اس کو خدا نہیں جانتے، بلکہ خدا کو وحدہٗ لا شریک کہتے ہیں۔ انھوں نے یہ سن کر سکوت کیا، دوسرا کلام فرمایا کہ یہ ہم نے مانا، بیل اور درختوں کے پوجنے کا سبب کیا۔ میں نے کہا جس نے مذہب ہندوؤں کا ایجاد کیا مرد عاقل تھا، ہندوستان میں گرمی بہت ہوتی ہے، مسافروں کو دھوپ سے ایذا ہوتی ہے، راہ میں جہاں کہیں درخت پاتے ہیں اس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں۔ اس صورت میں اگر موجد مذہب ان کے کا درخت پرستی کا حکم نہ کرتا لوگ جڑ سے درخت کو کاٹ ڈالتے اور مسافروں اور جانوروں کو بسبب نہ ہونے سایہ کے بہت رنج پہنچتے، بلکہ قریب المرگ ہوتے۔ باوجود اس تاکید کے اب بھی درخت کٹتے ہیں اور لوگ نہیں سمجھتے ہیں؛ اگر یہ اعتقاد نہ ہوتا خدا جانے کیا حال ہوتا اور کوئی درخت باقی نہ رہتا۔ گاؤ پرستی کا حال بھی یوں ہی ہے، اکثر امر ہندوستان کے بیل پر موقوف ہیں جیسے کھیتی اور سینچنا اور گاڈی میں بھی جُتیں۔ پس اگر گاؤ پرستی کا حکم نہ ہوتا، کوئی بیل زندہ نہ بچتا، لوگ ان کو کھاجاتے۔ ان سب باتوں میں ہرج واقع ہوتے، غرض یہ سب باتیں مصلحت کے واسطے ہیں، وحدانیت خدا میں کچھ دخل نہیں رکھتی ہیں۔ اگر کوئی نادان بیل کو خدا جانتا ہے، جادہ پیمائے حماقت کا ہے۔ ہر روز کا نہانا، برتنوں کا مٹی سے دھونا، پکانے کی جگہ چوکا دینا، شراب نہ پینا، گوشت کا نہ کھانا یہ بھی فائدہ سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان گرمی کی کان ہے، اگر نہ نہائیں وبا اور مرض میں گرفتار ہوجائیں؛ اگر شراب اور گوشت استعمال کریں، احتراقِ خون میں مبتلا ہوکر ہلاکت کو پہنچیں؛ پس یہ سب امر منفعت کے واسطے ہیں، نہ مذہب میں داخل ہیں۔ مگر ہندوؤں کے پیشوا نے ان باتوں کو از راہ دانائی اعتقادات میں شامل کیا کہ اس وجہ سے ان سب امروں کو ضرور ماننا پڑے گا۔ سوا اس کے آپ ملاحظہ فرمائیں، جو تلنگے یا متصدی ہندو نوکر شاہِ لندن کے ہیں، اپنے اوپر کیا کیا مصیبتیں اٹھاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت روٹی کھاتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو خرچ بھجواتے ہیں، جب آپ رخصت لے کر گھر جاتے ہیں ہر طرح سے والدین کی خدمت کرتے ہیں اور اپنی کتاب اور پوتھی پر چلتے ہیں؛ پس کس طرح راہ راست سے ہٹے ہیں۔ صاحبان انگریز باوصف جاننے انجیل اور تحصیل علوم کے کیا عمل کرتے ہیں، باوجود امکان اور مقدور کے ماں باپ سے غافل ہوکر بیبیوں حسینوں کے ساتھ مشغول رہتے ہیں اور ماں باپ سے مطلق سروکار نہیں رکھتے۔ یہ بات آشکارا ہے کہ فرزند پھل زندگانی کا ہے، یعنی ماں باپ اس سے بڑھاپے میں چین اٹھاویں اور اس کی جہت سے آرام پاویں۔ جب ان کو لڑکے سے کچھ فائدہ نہ ہوا مقام افسوس کا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی تم میں سے عیب آدمیوں کا دیکھے گا، خداوند تعالیٰ اس کے گناہوں پر نظر کرے گا۔ یہ بھی فرمایا کہ اے اُمت کے لوگو! جہاں تک تم سے ہو سکے اپنے ہم قوموں سے کسی کو بھوکا پیاسا نہ رکھو اور محتاجوں کو اپنے پاس جگہ دے کر کھانا پانی دو، وگر نہیں تم نے مجھی کو بھوکا پیاسا رکھا، قیامت کے دن تم پر اس کا عذاب ہوگا۔ اس زمانہ میں عیسائیوں کا حال یوں ہے کہ اپنی قوم کے بھوکے پیاسے کو عیب لگا کر نکال دیتے ہیں، ہرگز نان و نمک نہیں دیتے ہیں۔ اب تم سے انصاف چاہتا ہوں کہ ہندوؤں کو اچھا کہوں یا عیسائیوں کو۔ اگرچہ دین عیسائی اَور دینوں سے بالذات بہتر ہے، لاکن کسی عیسائی کا عمل نہیں ہے اس پر۔ پس پہلے اپنے ہم مذہبوں کو راہِ راست پر لانا چاہیے، بعد ازاں اوروں کو سمجھانا۔ جب یہ لوگ اپنے طریقے پہ قائم ہوئیں اور لوگ بھی ان کا کہنا مانیں اور پادریوں کے سمجھانے سے راہ پر آویں۔ آدمی جب آپ ہی عمل نہ کرے، دوسرے کو کیا سمجھا سکے؛ ویسی ہی مثل ہے جیسے کوئی آپ شراب پیے اور بیٹے کو منع کرے، بھلا وہ کیوں کر مانے گا اور شراب پینے سے باز آوے گا۔ ایک شخص نے کہ نام اس کا یوسف تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: وہ کون کام ہے کہ خداوند تعالیٰ بسبب اس کے مجھ سے راضی رہے۔ فرمایا کہ خدا نے دس حکم جو کیے ہیں آدمیوں کی بھلائی کے لیے ہیں، ان پر ہمیشہ عمل کیا کر بصدق و یقین؛ اس سے بہتر کوئی امر نہیں۔ یوسف نے کہا: جب سے میں نے ہوش سنبھالا، ان ہی دس حکموں پر عمل کیا۔ آنحضرت نے فرمایا: جا سب مال اپنا خدا کی راہ پر لٹا کر میرے ساتھ آ۔ یوسف نے یہ سنتے ہی سر جھکایا اور کچھ جواب نہ دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اونٹ کا نکلنا سوئی کے ناکے سے، آسان ہے اس سے کہ دولت مند خدا کی سلطنت میں داخل ہوئے، غرض یہ امر ناامکان ہے۔ ایک روز ایک شخص نے آنحضرت سے پوچھا کہ آپ کے رہنے کی کون سی ہے جا۔ فرمایا کہ جانوروں، درندہ کو بہت جگہ ہے مگر میرے لیے اتنی جگہ نہیں کہ سر رکھ کر سو رہوں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کب گھوڑے کی گاڈیوں پر معشوقۂ رعنا کے ساتھ سوار ہو کر بازار کی سیر کرنے جاتے تھے اور کب گرجے میں مخملی فرش پر نماز پڑھتے تھے، کب پَر بھرے بچھونے پر سوتے تھے۔ تم لوگ ہر طرح سے دلجمعی رکھتے ہو، خوشی سے رات سے دن کرتے ہو، زبانی دینداری کا دعویٰ، دل میں ذرا بھی خیال نہیں آتا۔ پادریوں کا وہ حال کہ مال میں مشغول ہو کر بی بیوں ساتھ گاڈیوں پر چڑھ کر سیر کرتے پھرتے ہیں۔ خدمت گار ان کی اطاعت میں حاضر رہتے ہیں۔ راہ خدا ایک کوڑی نہیں دیتے ہیں۔ غریبوں پر کم توجہی کرتے، بھوکے کو روٹی نہیں دیتے۔ زبانی وعظ و نصیحت کہتے ہیں اور آپ عمل نہیں کرتے۔ بھوکا روٹی روٹی پکارے، وہ نصیحتوں پر اتارے۔ بھلا یہ کہاں کی دینداری ہے۔ شعر:
ترک دینا بمردم آموزند
خویشتن سیم و غلہ اندوزند
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کب عیش و نشاط سے زندگی بسر کی اور عبادت خدا کی میں کب کوتاہی کی۔ تم نے خزانہ جمع کیے، خدا کی راہ میں دو پیسے بھی نہ دیے۔ زبانی نصیحت کرنا تمھارا لوگوں کو کیا فائدہ بخشے گا۔ میں نے اکثر پادریوں سے ملاقات کی، ان کی فربہی اور جسامت سب سے زیادہ دیکھی۔ اگر عبادت اور ریاضت میں رہتے اس قدر موٹے نہ ہوتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن سب لوگ امت میری کے، مجھ سے ملیں گے اور مجھ کو دیکھیں گے۔ تھوڑے ان میں سے مقبول ہوکر مجھ تک پہنچیں گے اور بہت سے نا مقبول ہو کر رہ جائیں گے۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی جنیو پہنے اور بطور برہمنوں اور شاستر کے عمل نہ کرے، برہمن نہیں اور مسلمان فقط ختنے کرنے سے مسلمان نہیں ہوتا ہے، جب تک اپنے پیغمبر کے طریقۂ کار پر عبادت نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص پوشاک انگریزی کے پہننے سے عیسائی نہ ہو، جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی راہ پر قائم اور شناسائی نہ ہو۔ یہ مثل ویسی ہے جیسے کوئی کالے کپڑے پہن کر اپنے تئیں سپاہی بناوے، وقت لڑائی کے حال شجاعت اس کی کا کُھل جاوے؛ یوں ہی حال پرہیز گار اور ریا کار کا دن قیامت کے ظاہر ہوگا۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک میم نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا تم نے جوابدہی ہندوؤں کی خوب کی، مسلمانوں کی بات باقی رہی۔ میں کچھ ان کے مذہب سے بھی سوال کروں، اگر آپ آمادۂ بیان ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھا، تب انھوں نے یہ کہا کہ مسلمانوں کے مذہب میں نکاح ایک مرد کا چار بی بیوں سے جائز ہوتا ہے، ظاہراً یہ امر خلاف عقل نظر آتا ہے کہ ایک مرد چار عورتوں کی رفع حاجت کرے اور ہر ایک کی خیر گیری کی طاقت رکھے۔ میں نے جواب دیاکہ ابتدا ظہور اسلام میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا ایمان تھوڑے سے لوگ لائے تھے، کافر خلاف اپنے جان کر بمقابلہ پیش آتے، جو کچھ شہید ہوتے اور بھی تھوڑے رہتے۔ لہٰذا پیغمبر ﷺ نے بمقتضائے مصلحت چار نکاح جائز رکھے، اس سبب سے لڑکے زیادہ پیدا ہوتے، امت کی زیادتی ہوتی گئی اور اسلام کی ترقی ہوئی اور یہ جو پیغمبر ﷺ نے گوشت سور کا کھانا، شراب کا پینا منع کیا، بہت سا اس میں فائدہ تھا۔ ملک عرب گرم اور آدمی وہاں کے جہل مطلق تھے۔ اگر گوشت سور کا کھاتے اور شراب پیتے، نشہ میں آ کر لڑ لڑ مرتے اور ہر طرح کے مرض میں مبتلا ہوتے۔ سوا اس کے سور کا پالنا کچھ محنت نہیں رکھتا ہے، فکر دانے چارے اس کی کا نہیں کرنا پڑتا ہے، وہ خود چر چگ کر پیٹ اپنا بھرتا ہے۔ عرب کے لوگ اس کو غنیمت جانتے اور پالتے، یاد الٰہی سے باز رہتے۔ پس یہ کیا خوب بات ہے گویا ان کے لیےراہِ نجات ہے اور ان کے ہاں پانچ وقت کی نماز اور وضو کا حکم ہے، فرمایئے اس میں کیا سقم ہے، آگے عرب کے لوگ بسبب جہالت کے بت پرستی کرتے تھے، اب نماز پنج وقتہ اور یاد خدا میں مصروف رہتے ہیں۔ وضو باعث نفاستِ بدن ہے اور موجب صحت و سلامتِ تن۔ اور ذبح کرنا جانوروں کا فائدے رکھتا ہے بے انتہا۔ تم خوب جانتے ہو کہ زیادہ ہونا خون کا باعث ہے امراض اور جنون کا،اس لیے وہ لوگ جانور کو ذبح کر کے خون بہاتے ہیں اور گوشت نفیس اس کا کھاتے ہیں۔ اب فرمایئے کون سی بات اسلام کی قابلِ حرف گیریٔ جناب ہے، جو کوئی اپنے طریقہ پر قائم نہ ہو اس کا کیا حساب ہے۔ جیسے دین عیسائی بہتر ہے بالذات، مگر کوئی نہیں رکھتا ہے اُس پر ثبات۔ پس یہ خطا صاحبِ دین کی ہے، نہ نفسِ دین و آئین کی۔ پھر میں نے پادری صاحب سے کہا مسلمانوں میں ختنہ کرنا رواج رکھتا ہے یہ بھی سبب نفاست کا ہے نہ عیب و کراہیت کا۔ آخر پادری صاحب نے پوچھا: تمھارا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا: بندہ بارہ برس کے سِن سے اسی تحقیقات میں پھرتا ہے اور روز و شب اسی تلاش میں رہتا ہے مگر کسی دین میں ایسا شخص نہ پایا کہ حرص و طمع دنیا سے علاقہ نہ رکھتا ہو۔ بہت روز ان فاضلوں کی صحبت میں کاٹے کہ منبروں پر چڑھ کر وعظ و نصیحت کہتے اور روتے؛ آخر جو ان کو دیکھا، ہوائے نفسانی سے صاف نہ پایا۔ برسوں برہمنوں اور ہندو فقیروں کی خدمت میں رہا کہ شاید انہی سے ہاتھ لگے راہِ راست کا پتا۔ بعضے فقیروں کو دیکھا کہ درختوں سے پانو باندھ کر اُلٹے لٹکتے، بعض شدت گرمی میں آگ تاپتے لیکن جب خوب غور کیا سوائے مکر و فریب کے کچھ نہ پایا۔ اسی طرح پادریوں پاس اکثر رہا، ان کو بھی بموجب حکم عیسیٰ علیہ السلام کے روپیہ کی طلب سے خالی نہ پایا۔ آخر لاچار ہوکر مذہب سلیمانی اختیار کیا، اس کو سب سے اچھا جانا۔ وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ہے: بنی اسرائیل میں مجھ سا بادشاہ کوئی نہیں ہوا، حق تعالیٰ نے سب نعمتیں جہاں کی مجھ کو دیں، نہیں طاقت شکر اس کے کی میرے تئیں، اتنی مدت میں مَیں نے خلاصۂ مطلب یہ سمجھا: نیک بخت وہ شخص ہے جو کسب اور وجہ حلال سے معاش پیدا کرے، اس میں سے کچھ آپ کھاوے باقی کچھ غریبوں کو دے۔ بدبخت وہ ہے کہ گدھے کی طرح بوجھ روپے کا اپنے اوپر اٹھاوے، نہ آپ کھاو ے نہ کسی کو کھلاوے، نہ دن کو آرام پاوے، نہ رات کو سووے۔ یکایک اس کی موت آوے، جہاں سے لے جاوے؛ وہ بیکسی سے مرے، اوروں کے لیے مال اپنا چھوڑے، جیسے کتا مرے۔ نہیں معلوم روح اس کی بہشت میں یا دوزخ میں پڑے، اسی طرح بعد مرنے کے روح نہیں ثابت ہوتی ہے کہ کہاں جاتی ہے۔ اسی قول پر مذہب بندے کا ہے کہ خداوند تعالیٰ کو برحق جانتا ہے، بدکاری، چوری اور سب گناہوں کو بد سمجھتا ہے۔ ہر وقت ہر کام کے لیے مقرر ہوا، سونے کے وقت سونا، کھانے کے وقت کھانا۔ جیسے کہ کسی بزرگ نے کہا: کُلُّ أمرٍ مَرہُونٌ بِأوقاتِہَــــا۔ بندہ یہ جانتا ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے، آدمی کے واسطے ہے، مگر آدمی کو تمیز کھانے کی چاہیے کہ اعتدال سے تجاوز نہ کرے۔ میں نے بے دھڑک مذہب اپنا ظاہر کیا، بھروسا خدا پر رکھا، چاہے کوئی بھلا جانے، چاہے بُرا مانے۔ مثل: راجہ روٹھے نگری راکھے، رام رُسے کت جاندا۔ میری ان باتوں سے سبھوں نے سکوت کیا۔
بعد اس کے رخصت ہوکر اپنے گھر آیا اور تیئیسویں تاریخ ستمبر کی روز ہفتہ کے ڈایہ رام میں گیا۔ جب اندر جانے کا ارادہ کیا، آنکھوں میں اندھیرا چھایا۔ اس سبب سے ہاتھ میرا ایک عورت کے کندھے پر جا پڑا، سخت ندامت زدہ ہوا۔ اکبارگی روشنی چمکی، شکل ہیکل حضرت پالوس کی نظر آئی، زمین اس کی سنگ مرمر کی تھی، دونوں طرف کے ستون بھی ایسے ہی، قربان گاہ کے مقابل تصویر پوپ کی رکھی۔ دفعتاً اس ہیکل میں آگ لگی اور چھت گری، اس میں سے آسمان نظر آیا۔ فرش زمین جو سنگ مرمر سے بنا تھا نہ ثابت ہوا کہ کیا ہوگیا۔ تصویر پوپ کی بھی ٹوٹ گئی مگر قربان گاہ اپنی حالت اصلی پر رہی۔ بعد اس کے جس زمین پر بندہ اور دو تین انگریز اور بی بیاں بیٹھی تھیں، اپنی جگہ سے ہلی، ایک گانو میں جا پہنچی۔ نام اس کا الکتا، بہت آباد وسیع لطیف تھا، گرد اس کے ہر طرف پہاڑ بلند، رات بسبب چاندنی کے دن سے دہ چند۔ چراغ اور شمعیں روشن تھیں۔ اکبارگی پہاڑ سے آوازیں ہیبت ناک آئیں، برف کا ایسا طوفان آیا کہ شمع اور چراغوں کا نور جاتا رہا، اندھیرا چھا گیا، کلیساؤں میں گھنٹا بجا کہ یہ وقت ہے قہر و آفت کا، سبھوں کو چاہیے کریں ذکر خدا کا۔ یہاں تک کہ کوئی مکان نہ دکھائی دیتا، مگر کنگرہ کلیسا کا نظر آتا۔ بعد عرصہ کے ثابت ہوا کہ صبح ہوئی، آفتاب بدستور مقرر پچھم سے نکلا۔ میں ہرگز نہ جانتا کہ یہ سب پہاڑ گانو خیال ہے اور شعبدہ، لاکن درحقیقت یہ سب طلسمات تھا اور صاحبانِ فرنگ کا کمالات۔ مگر مجھ کو ہرگز یقین نہ آیا کہ یہ سب ہی طلسم بنا ہوا، بلکہ دو ایک شخصوں سے تکرار کی اور اس کے طلسم ہونے کا انکار۔ پھر ظاہر ہوا، انھی کا قول سچ تھا۔ یہ طلسم دل کو بہت بھایا۔ یہ ہیکل بعینہٖ نقشہ اس ہیکل کا تھا کہ کنسٹان ٹینا کے بادشاہ نے روم کے پچھم طرف آدہ کوس فاصلے پر بنوائی تھی۔ عرض اس کا ایک سو اڑتالیس فٹ اور دوسو فٹ لنبائی، گھیر مر مر کے ستونوں اس کے کا گیارہ فٹ آٹھ انگل، فرش زمین اس کی کا مرمر سے بالکل۔ ایک قربان گاہ اس میں بنی، مقابل اس کے تصویر پوپ اور ایک عورت کی کھڑی۔ جب وہ ہیکل قریب تیاری کے پہنچی، سن اٹھارہ سو تیئیس عیسوی میں سولھویں تاریخ جولائی کے اس کی چھت میں آگ لگی، یہاں تک کہ جل کر گری۔ ہر ایک ستون ٹکڑے ٹکڑے ہوا، فرش سنگ مرمر کا بھی جل کر گم ہوگیا، تصویر پوپ اور اس عورت کی بھی ٹوٹ گئی، مگر قربان گاہ بدستور رہی۔ یہاں کی ہیکل طلسمی جو میں نے دیکھی وہیں کی نقل تھی پر اصل معلوم ہوتی۔
پہلی تاریخ اکتوبر ۱۸۳۷ ء کے بندہ تاج گھر گیا، اس کا نام رایل سری ٹیاٹر تھا۔ کئی شعبدہ باز عرب سے وہاں آئے تھے، اپنے اپنے کمال دکھلاتے۔ ایک نے ان میں سے نو آدمیوں ہمراہیوں اپنے کو برابر کھڑا کرکے ننگی تلواریں ہاتھ میں دیں، انھوں نے بموجب اس کے کہنے کے ہاتھ اٹھا کر تلواریں علم کیں، وہ شخص پھلانگ مار کر ان تلواروں کے اوپر سے کود جاتا۔ ایک طرف ایک موٹا کپڑا بچھا تھا، اُڑ کر کبوتر کی طرح اس پر جابیٹھا۔ بعد اس کے ایک لکڑی کھڑی کی، اس کے اوپر ایک تھالی جمائی، اس میں ہاتی دانت کے مہرے رکھے۔ ہر ایک قلا بازی کھا کر اچھل کر اس تھالی سے مہرہ ہاتھ سے اٹھاتے، ان کی چالاکیاں دیکھ کر ہم حیران ہوئے، اس لیے کہ ویسے کرتب والے دکھن اور مچھلی بندر میں بھی نہ دیکھے تھے۔
دوسری تاریخ اکتوبر کی پاڑلی صاحب نے دعوت کر کے اپنے گھر بلایا۔ میں وہاں جاکر بہت خوش ہوا، دونوں بہنیں گران صاحب کی اور اَورپریاں اس مجلس میں بیٹھی شراب پیتیں۔ ایک مرد ضعیف بھی بیٹھا تھا، ذکر علم ریاضی اور گردشِ فلکی کا درمیان لایا، میں نے لطائف الحیل سے اس کو ان قصوں سے روکا، پر وہ اس ذکر سے باز نہ آیا۔ لاچار ہوکر صاف صاف کہا کہ میں فن تحصیلِ معاش کا جو ہر آدمی کو ناگزیر ہے نہیں رکھتا ہوں، علم نجوم اور ستاروں کا کہاں سے لاؤں۔ یہ کہہ کر اس کی طرف سے مونھ پھیرا، پریوں کے ساتھ شراب پینے لگا۔ مجلس رقص و سماع کی گرمی رکھتی، رات بہت کیفیت سے کٹی۔ صبح کو اس بڈھے کو دیکھا، کرسی پر بے خبر سوتا، کسو نے کہا یہ سوتا ہے، میں نے کہا نہیں خیال ستاروں میں ڈوبا ہے، جگانا ضرورت نہیں رکھتا ہے۔
تیسری تاریخ وہاں سے اپنے گھر آیا، تنہا ملول بیٹھا تھا۔ چھوٹے بھائی بوچڑ صاحب کے آئے، کلام خاطر داری کے زبان پر لائے کہ اے یوسف خان! تو کیوں آزردہ ہے، میرے ساتھ سیر کو آ۔ میں بپاس خاطر ان کے ساتھ چلا۔ اس مکان میں لے گئے کہ عجائبات خطۂ یونان کے وہاں تھے، انگریزوں نے ان چیزوں کو گڑھوں اور تہ زمین سے پایا، اس مکان میں تماشے کے لیے رکھا۔ سوائے اور عجائبات کے ایک صندوق پتھر کا وہاں نظر آیا، اس کے اندر ایک کھوپڑی کاغذ کی طرح صاف تھی۔ گرد اس کے حمائل زریں لپٹی، جس کی وہ کھوپڑی تھی اسی کی تلوار بھی اس صندوق میں رکھی، چھلنی کے مانند مشبک ہوئی۔ بسبب اس کے کہ مدت تین چارہزار برس کی اس پر گزری۔ گرد صندوق کے خط یونانی زبان قدیمی میں حال اور نام اس نامدار کا لکھا تھا، مگر مجھ سے بسبب ناآشنائی اس زبان کے پڑھا نہ گیا۔ اس کے ہاتھ لگنے کی یہ صورت ہے کہ ایک دفعہ انگریزوں نے زمین یونان کھودوائی، تہ زمین میں صورت اس صندوق کی نظر آئی، بہت شوق سے اس کو نکالا اور یہاں لاکر رکھا۔
بندہ صاحبانِ لندن کے اخلاق کا حال بیان نہیں کرسکتا ہے، ایک دوسرے پر سبقت رکھتا ہے۔ میرے مکان پر آ کر تسلی دیتے اور باوجود اجنبیت کے اپنا ہمراز مجھ کو کرتے۔ حال وہاں کا دیکھ کر ہم اپنے گھر آئے۔ شام کوبوچڑ صاحب کے بھائی میرے پاس آکر اپنے ساتھ سیر کو لے چلے۔ راہ میں دو پریاں نظر آئیں، دکان پر بیٹھی قہوہ پلاتیں، ایک نگاہ سے دل تماشائیوں کا پھسلاتیں۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا قہوہ پیو، اس نے جواب دیا پھرتی دفعہ پی لینا۔ میں نے کہا زندگی کا کیا اعتبار، پھر آنے کا کیا اقرار؛ اگر اتنی دیر میں چراغ زندگی بجھے، یہ آرزو دل ہی میں رہے۔ یہ شہر میرے نزدیک جنت الماویٰ ہے، اگر بخوبی نہ دیکھا اور آدمیوں کو نہ پہچانا کیا فائدہ۔ آخر وہ راضی ہوئے، وہ دکان پر ٹھہرے، قہوہ نوشی کے حیلہ سے ان کے نظارے کیے، بعد اس کے اپنے گھر پھرے۔
آٹھویں تاریخ اکتوبر کی کپتان لاڈ صاحب کے ساتھ موضع ٹیٹرس ہل میں گیا۔ وہ گورستان ہے انگریزوں کا، لندن سے بہت فاصلہ رکھتا۔ سبب دور گاڑنے مُردوں کا یہ تھا کہ مبادا روم یا مصر کی طرح بسبب مُردوں کے متعفن ہو ہوا، مصر اور روم میں وبا اکثر آتی ہے۔ باعث اس کا یہی ہے کہ عین شہر میں بہت تکیے ہیں، مردے وہیں دفن کیے ہیں۔ موضع ٹیٹرس ہل بلندی پر واقع ہوا ہے۔ وہاں سے تمام لندن نظر آتا ہے، ایک کلیسا بھی اس میں خوب بنا ہے، اس مقام کو بنظرِ غربت دیکھا۔ پھر کپتان صاحب کے مکان پر آکر کھانا کھایا اور عرض کیا: مدت سے آرزو رکھتا ہوں کہ ہیکل یہودیوں کو دیکھوں۔ کپتان صاحب نے لی بیسن یہودی جوہری کے مکان پر لے جاکر مجھ سے ملاقات کروائی۔ اس نے بہت اخلاق اور محبت سے ملاقات کی اور مہربانی فرمائی۔ مجھ سے اس سے دیر تک ہر مقدمہ میں خاص مذہب کے باب میں گفتگو رہی، آخر اس نے خوش ہو کر یہ بات کہی کہ کل ہماری عید کا دن ہے، اگر تم آؤ اپنے ساتھ ہیکل میں لے چلوں، لطف وہاں کا تمھیں دکھاؤں۔
میں دوسرے دن بموجب وعدہ اس کے مکان پر آیا۔ وہ مجھ کو اپنے ساتھ ہیکل میں لے گیا۔ عمارت اس کی عالی تھی۔ ظروف پرستش کے طلائی، سامنے اس کے ایک قربان گاہ بنی۔ مگر کلیسائے انگریزوں کی سی اس میں نفاست نہ تھی۔ بہت یہودی اپنے طریقے پر نماز پڑھتے تھے مگر دل سے ہرگز متوجہ نہ تھے۔ ظاہر میں عبادت تھی، باطن میں شقاوت۔ کاہن یعنی پیشوا ان کے قریب منبر کے بیٹھے سبھوں کی طرح بے دلی سے نماز پڑھتے۔ ایک طرز ان کی مجھے پسند آئی، وہ امر یہ تھا کہ عورتیں یہودیوں کی اوپر کے درجے میں تھیں، وہاں مردوں سے کوئی نہیں۔ انگریزوں کے کلیساؤں میں یہ بات نہیں پاتا ہوں کہ رنڈیاں مردوں سے جدا ہوں۔ ان کا عبادت خانہ دیکھ کر دل میں آیا کہ اگر قابو پاؤں، ان کی رنڈیوں کو اچھے باغ میں رکھوں۔ مردوں کو گھوڑوں اور کتوں کی خدمت پر مقرر کر کے شکار گاہ میں دوڑاؤں۔ مگر انتظام اور عمل انگریزوں کا ایسا ہے کہ ہاتھی چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ لا چار رخصت ہو کر گھر آیا۔
بعد چند روز کے لی بیسن نے مجھ کو ایک رقعہ لکھا کہ کل ہماری عید ہے۔ اگرتم آؤ عنایت سے نہیں بعید ہے۔ میں دوسرے دن بموجب طلب گیا، دربانوں نے اندر جانے نہ دیا کہ اس وقت کوئی آدمی سوا یہودیوں کے نہیں جا سکتا ہے۔ تمھارا آنا کہاں سے ہوتا ہے۔
آخر جب لی بیسن کو خبر ہوئی، اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ اپنے زمرے میں اچھی جگہ مجھ کو بٹھایا۔ وہ سب میرے جانے سے حیران ہوئے۔ سبھوں کے چہروں پر آثار ملال نمایاں ہوئے کہ اس وقت مرد اجنبی غیر قوم کا اپنے ہاں لانا راہ دانائی سے بعید ہے۔ لی بیسن نے کہا اپنی جماعت سے کہ اس شخص سے پوچھو، مذہب تمھارا کیا ہے۔ ایک شخص جو ان سبھوں میں ممتاز تھا میری طرف متوجہ ہو کر حال مذہب کا پوچھنے لگا۔ میں نے ایسا جواب دیا کہ بہت راضی ہوا۔ آخر اس نے بھی یہی کہا کہ ہم کو تعصب نہیں مذہب کا۔ اگر بنظر انصاف دیکھیے اور دل میں غور کیجیے، مآل سب مذہبوں کا ایک ہے۔ بعد اس کے میں حال ان لوگوں کا دیکھتا رہا۔ انھوں نے ایک مکان گنبد دار پھولوں کا بنایا۔ اس کے اندر دو تین کاہنوں کو بٹھلا کر کھانا کھلایا۔وہ لوگ اپنے کاہنوں کی تعظیم بادشاہوں کی مانند کرتے ہیں۔ بجا آوری احکام ان کے میں مستعد رہتے ہیں۔ بادشاہ انگلستان کا بھی ان کی عزت کرتا ہے اور معزز رکھتا ہے۔
میں یہ حال دیکھ کر اپنے گھر آیا اور یہ سنا کہ نویں تاریخ نومبر کی جمعرات کے دن جلوس کوئین وکٹوریا کا کل ڈھال میں ہوگا، یعنی اجلاس تخت سلطنت ابتد اسی دن ہوا تھا۔ اس روز کے جلوس دیکھنے کو لوگ منزلوں سے آ کر جمع ہوتے ہیں۔ٹڈیوں کی طرح ہر طرف کے رئیس امیر دیکھنے آتے ہیں۔ اس روز کل ڈھال کے نزدیک مکان کرایہ کا نہیں میسر آ تا۔ مجھ کو اس جلوس کے دیکھنے کا شوق غالب ہوا۔ چند روز پیشتر سے ایک مکان قہوہ خانے کے بائیں طرف قریب کل ڈھال کے ایک دن کے لیے ایک اشرفی کرایہ کا ٹھہرایا۔ جس روز جلوس ہوا، صبحی اٹھ کر اس مکان میں چلا۔ راہ میں ایسا ہجوم تماشائیوں کا تھا کہ اس مکان تک پہنچنا دشوار ہوا۔ بہ ہزار دقت جا پہنچا۔ بعضے شخصوں کو دیکھا کہ مکان کرایہ کا ڈھونڈھتے، دو سو روپیہ ایک دن کا کرایہ دیتے مگر ہاتھ نہ لگا۔ ایسا آدمیوں کا انبوہ تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ میں اس مکان میں بیٹھا، سواری آنے کی راہ دیکھتا۔ دن قریب ڈیڑھ پہر کے آیا۔ ترشح مینھ کا شروع ہوا۔ اس سبب سے جلوس ہم راہی شاہزادی میں کمی تھی۔ دوپہر پر دو بجے سواری آئی۔ وقت سوار ہونے شاہزادی کے گھنٹے کلیساؤں میں بجنے لگے، لوگوں کو اس امرخیر سے خوش خبری دینے لگے۔ سب سے پہلے سردار اور منصب دار گھوڑوں پر سوار کل ڈھال میں داخل ہوئے۔ بعد ان کے ارکانِ دولت اعیان سلطنت چار چھ گھوڑے کی گاڈیوں پر سواروں کے شامل ہوئے۔ گھوڑے گاڈیوں کے اصیل ولایتی قدم باز راہوار، سب ساز ان کا جڑاؤ نہایت آبدار۔ نوکر پوشاک زرینہ و زربفت پہنے، ایک دوسرے سے زیادہ بنے چنے۔ پھر سواری وزیراعظم لاڈمیر کی آئی۔ بعد اس کے گاڈی ملکہ جم جاہ کی نمود ہوئی۔ گاڈی ستھری جواہر جڑے، آٹھ گھوڑے سمند اس میں لگے۔ صورت و سیرت میں سب برابر تھے، ایک ذرہ آپس میں فرق نہ رکھتے۔ اگر ایک چھپایا جاتا دوسرا سامنے آتا۔ دھوکا اس کا اس پر ہوتا اور ہرگز فرق نہ ثابت ہو سکتا۔ویسے گھوڑوں کی صورت دیکھنا مجھ کو پھر نہ نصیب ہوئی۔ بھوک پیاس ان کے دیکھنے سے بھولی۔ اصیل اور قدم بازی میں چاق۔ خوبی میں ہر ایک یکتائے آفاق۔ جب وہ گاڈی اگاڈی بڑھی، میرے قریب آئی۔ دو تصویریں رومیوں کی قد آدم اس میں کھڑی تھیں۔ میں سمجھا دو رومی زندہ ہیں، تصویریں نہیں۔ جب خوب غور سے دیکھا شبہ مٹا۔ ملکہ مہر سیما کوئن وکٹوریا مع اپنی والدہ ماجدہ کے اس پر سوار تھیں۔ چاند صورت، سورج طلعت دکھائی دیتیں۔تخمیناً عمر میں اٹھارہ برس کی۔ مجمع شرم و جمال و عفت بے شمار تھیں۔ میں نے صورت دیکھتے ہی دل میں دعا کی: یا اللہ! گاڈی ملکہ کی میرے پاس پہنچ کر ایک لحظہ ٹھہرے، خدا نے سن لی۔ جب گاڈی میرے سامنے آئی، ایک ساعت رکی، چہرۂ نورانی ملکہ کا میں نے بغور دیکھا، نمونہ قدرت ایزدی کا پایا۔ آداب تسلیمات بجا لایا۔ نگاہ عنایت سے میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا۔ ان کی ماں نے بھی دیکھا۔ میں خوشی سے پھولوں نہ سمایا اور دل میں دعائیں دیتا رہا کہ یااللہ اس کی سلطنت کو کبھی زوال نہ ہوئے، ہمیشہ زیادتی اور کمال ہوتا رہے۔ غرض قدوم میمنت لزوم سے کلڈھال رشک گلزار ہوا اور وہ میدان کثرت فوج و سپاہ وردی پوش سے رشکِ لالہ زار۔ ایک رسالہ سواروں مشکی گھوڑوں کا زرہ اور خود پہنے نظر آیا۔ ہر ایک کی موچھیں کھڑی، کمال ہیبت اور شان سے ٹولیاں باندھے قدم با قدم برابر جاتا۔ تماشائیوں کو ان سے ہرگز صدمہ نہ پہنچتا۔ سوا ان کے بہت توزک سے اور فوج مسلح تھی۔ دیکھنے سے اس کے بہت ہیبت آتی۔ القصہ فوج بادشاہی اور تماشائیوں کا ایسا اژدہام تھا کہ بیان میں نہیں سماتا۔ سننے میں آیا کہ اس جلوس میمنت مانوس میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ صرف ہوا۔ فقیر نے تیسرے پہر کا کھانا وہیں کھایا۔
شام کو اپنے گھر آیا۔ اثنائے راہ میں چراغ فانوس روشن تھے۔ چاند، سورج، ستارے روشنی کے ایسے بنے کہ چمک دمک میں مہر و ماہ و ستاروں سے ڈِگتے۔ دکانوں پر دو شالے رومال سرخ سرخ، کار کشمیر کے رکھے اور ہر طرح کی چیزیں، اسباب عجیب و غریب وہاں تھے۔ نہیں معلوم بایں افراط کہاں سے ہاتھ آئے۔ ہر پری زاد فرنگ کے خوشی سے راہ میں آتے جاتے، ہر ادا سے اعجاز مسیحائی دکھاتے۔ مرد رنڈیاں پہلو بہ پہلو خوش رفتار، جیسے جنت میں حور و غلمان نمودار۔ دکان نان بائیوں کی نعمتوں سے بھری، فریفتہ ہوا جس کی نظر اس پر پڑی۔ لوگوں کی بول و چال و دیدارِ حسن و جمال مجھ کو خواب خیال معلوم ہوتا، ورنہ بیداری میں ایسی کیفیت دیکھنا محال تھا۔ فی الواقعی جو دیکھا خیال ہی تھا کہ اب اس کا دیکھنا میسر نہیں آتا، بلکہ جس سے وہ حال کہتا ہوں اعتبار نہیں کرتا۔ اگر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو مانے۔ اسی طرح سب کام دنیا کے خیال ہیں۔ لذات اس کی سریع الانتقال۔ کوئی کیفیت اس کی برقرار نہیں رہتی۔ کوئی لذت اعتبار نہیں رکھتی۔ عاقل کو چاہیے کام آج کا کل پر نہ ڈالے، شاید کل کوئی اور سانحہ پیش آئے، شعر:
کہ داند کہ فردا چہ خواہد رسید
زدیدہ کہ خواہد شدن نا پدید
رباعی:
دنیا خوابے ست کش عدم تعبیر ست
صید اجل ست چہ جوان و چہ پیر ست
ہم روی زمین پرست وہم زیر زمین
ایں صفحۂ خاک ہر دو رو تصویر ست
گیارھویں تاریخ نومبر کے الود بوچڑ صاحب میرے مکان پر آئے۔ اپنے ساتھ کلڈھال کا تماشادکھانے لے گئے، جہاں جلوس شاہی ہوا تھا۔ کوئی اس کے اندر بے ٹکٹ جانے نہ پاتا۔ مگر جو چٹھی رکھتا ہوتا، البتہ جا سکتا، اس لیے انھوں نے اپنے باپ سے ٹکٹ لے لیا تھا۔ اس ذریعہ سے میں بھی کلڈھال کے اندر گیا۔ وہاں کا خوب تماشا دیکھا۔ برابر میز لگی ہوئی تھی، ان پر ظروف نقرہ و طلائی رکھے۔ سب سے آگے میز بادشاہی لگا۔ اس کا عجب ٹھاٹھ تھا۔ دستر خوان زربفت کا، مقیشی جھالر لگا ہوا اس پر بچھا۔ بہت برتن سونے چاندی کے برابر چنے۔ جھاڑ شیشہ و بلور کے کی چھت اور دیوار پر لٹکے۔ برابر اس میز کے ایک کرسی زرنگار، مقابل اس کے چھت سے لٹکتا ایک چتر طلائی بشکل تاج شہریار۔ وہ کرسی اور میز خاص مقام اجلاس شاہزادی کا تھا۔ عمدہ اسباب بادشاہی وہاں رکھا، تصویریں امیرانِ نامدار کی دیوار میں لگیں۔ ان سب نادر چیزوں کے دیکھنے میں مصروف تھے سارے تماشا بین۔ میں نے دیر تلک تماشا دیکھا، پھر بھی وہاں سے نکلنے کو جی نہ چاہتا۔ بلا چاری مکان پر آیا۔ انگلستان میں ایسی ایسی عجیب چیزیں اور تماشے دیکھے کہ ہندوستان میں کانوں سے بھی نہ سنے تھے۔ خدا اس شہر کو قیامت تلک قائم رکھے اور وہاں کے فرماں روا کو مدد بخشے۔ شعر:
عجب شہر ہے وہ عجب شہریار
پر از حکمت و لطف ہے وہ دیار
تیرہویں تاریخ نومبر کی ایک شخص کے ساتھ ماڈم ترساد میں گیا۔ جب قریب اس کے جا پہنچا، اپنی آنکھ سے دیکھا کہ ایک مجلس آراستہ ہے، اس میں نامدار بیٹھے۔ میں نے اس ساتھی سے کہا: تو مجھ سے ہنسی کرتا ہے کہ بے تعارف و شناسائی امیروں کی محفل میں لے چلتا ہے۔اس نے کہا: یہ تصویریں امیروں کی موم کی بنی ہیں، صاحبانِ تصویر کچھ مرے کچھ جیتے ہیں۔ میں یہ سن کر سخت متحیر ہوا۔ اس کا کہنا ہرگز یقین نہ ہوتا مگر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا، یہاں تک کہ قریب تصویروں کے پہنچا تو بھی یہ شبہ نہ مٹا کہ امیر زندہ ہیں یا تصویریں اِستادہ۔ آخراُس شخص نے میرے رفع شک کے لیے ایک تصویر کے مونھ پر ہاتھ رکھا۔ ہرگز سر یا ہاتھ اُس نے نہ ہلایا۔ تب میں نے بھی گستاخ ہوکر چہروں پر ہاتھ رکھا اوراُن کے تصویر ہونے کا یقین لایا۔ ایک طرف تصویر وکٹوریا شاہزادی کی اور والدین اُس کے کی بنی تھی۔ میں نے دیکھتے ہی تسلیم بجا لانی چاہی۔ اُس نے کہا یہ بھی تصویر ملکہ کی ہے، نہ ملکہ اصلی ہے۔ بخدا ایسی تصویر کہ اصل اپنی سے سرِ مُو تفاوت نہ رکھتی۔ لباس، رنگ، قد قامت میں تل بھر کم وبیش نہ تھی۔ اسی سبب سے دیکھنے والے کو اصل و نقل میں تمیز نہ ہوتی۔ تصویریں مومی شیکس پیر، لاڈ بائرن، سر والٹر سکاٹ شاعروں ذی رتبہ کی کھڑی تھیں۔ ایسا ثابت ہوتا کہ شعر و سخن میں طبیعتیں اُن کی لڑیں۔ اسی طرح لاڈ نلسن سپہ سالار جہاز جنگی اور کئی بادشاہوں انگلستان کی مثل ولیم اور جارج کے اور کئی بادشاہوں روس اورکئی رہزنوں کی تصویریں مومی بنی تھیں۔ سوا اُن کے اور کتنوں کی کہ دیکھنے والوں کو زندہ معلوم ہوتیں۔ جن کی وہ نقل تھی، اگر سامنے ہوتے دیکھنے والے اصل اور نقل میں تمیز نہ کر سکتے۔ فقیر یہ مکان ارزنگ نشان دیکھ کر اپنے گھر آیا۔
دیب صاحب نے بتقریب ضیافت مجھے طلب فرمایا۔ بموجب طلب بائیسویں تاریخ نومبر کی، میں ان کے مکان پر گیا۔ ازانجا کہ مہمان نوازی طریقہ رئیسوں کا ہے، خاص طرز انگریزوں کا۔ انھوں نے بہت اشفاق فرمایا اور اپنی دو لڑکیوں پری پیکر پاس بٹھلایا۔ میز پر ہر قسم کا کھانا پینا نعمتوں کا چُنوایا۔ اپنے ساتھ مہربانی سے کھلایا۔ میں درمیان اُن دونوں گلوں کے کانٹا معلوم ہوتا۔ جب کھانا کھا چکے، آتشدانوں کے گرد سب برابر بیٹھے۔ ایک نے دونوں پریوں میں سے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: آگ، کیا خاصیت ہے اس کی اگر ہمارے ملک میں نہ ہوتی، بغیر اس کے بہت اذیت پہنچتی۔ میں نے کہا: یہ خواص رکھتی ہے، پانی سے بجھتی ہے۔ مگر آگ حسن تمھارے کی غضب ڈھاتی ہے، ایک چنگاری اُس کی جس پر گرے جان و جگر جلاتی ہے۔ پانی سے زیادہ بھڑک آتی ہے، حشر تک بجھنے نہیں پاتی ہے۔ آدھی رات تک یہی راز و نیاز رہا۔ بعد اس کے میں رخصت ہو کر اپنے گھر چلا۔ ایک گلی تنگ تاریک میں پہنچا۔ ایک رنڈی رومال مونھ میں لپیٹے چلاتی غل مچاتی۔ ایک مرد اس پر زیادتی کر رہا تھا۔ اُس سے اپنے تئیں بچاتی۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس گرفتار پنجۂ ظالم نے مجھ کو پکارا کہ برائے خدا مجھ کو اس کے ہاتھ سے چھوڑا۔ مرد نے کہا: اے شخص اگر ذرا بھی آگے بڑھا، میں نے تجھ کو مارا۔ میں سخت متردد ہوا۔ ہرطرف آدمیوں تھانے پولس کو دیکھنے لگا، کوئی نظرنہ آیا۔ لاچار ہو کر دل میں سوچا، اگر تو اس عورت کو اس خرابی میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، خلاف جواں مردی اور آدمیت کے ہوتا ہے۔ اگر تھانہ دار کوخبر کرتا ہے، وقت ہاتھ سے جاتا ہے۔ اگراُس سے الجھتا ہے اور آدمی تھانے کے دیکھ پاویں، ساتھ ان کے تجھ کو بھی گرفتار کر لے جاویں۔ سر دست بدنامی خدا راہ ہوئی۔ کوئی اصل مطلب سے آگاہ نہ ہوے۔ آخردل میں یہی ٹھنا کہ اُس حرام کار سے اُس رنڈی کو بچالوں۔ یہ امر خدا راہ کا کرتا ہوں، اپنی ذات کا کچھ لگاؤ نہیں رکھتا ہوں، جو کچھ ہونا ہو سو ہوے۔ مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔ خدا کو یاد کر کے دونوں پانوں اُس کے زمین سے اُٹھا کر دے مارا اور اُس کے اوپر چڑھا۔ کشتی کے بیچ سے دونوں شانوں کو اس کے مضبوط گانٹھا۔ اس عورت سے کہا کہ میری کمرے سے کھول شالی ٹپکا، اُس سے اس کے پانو باندھ۔ اُس نے ویسا ہی کیا۔ کمر بند میرا کھول کر پانوں کو اُس کے خوب باندھا۔ میں نے زمین میں اُس کو خوب سا رگڑ کر ہاتھ بھی باندھے۔ تب وہ مردک گڑگڑانے لگا کہ میں نے بڑا گناہ کیا، قصور میرا معاف کرو، خدا کے لیے مجھ کو چھوڑ دو، نہیں تو تھانہ میں گرفتار ہوؤں گا،سزا پاؤں گا۔ مجھ کو تم سے شرم آتی ہے، آنکھ نہیں سامنے کی جاتی ہے۔ لعنت میری اوقات پر کہ اپنے ہم جنس اور ہم مذہب سے ارادۂ بد رکھتا تھا۔ رحمتِ خدا تم پر کہ باوجود اجنبیت و بیگانہ وضعی کے اس بدی سے باز رکھا۔ میں سمجھا کہ یہ اپنی سزا کو پہنچا۔ در صورتِ گرفتارئ تھانہ بہت ذلیل ہوگا۔ قول و قرار لے کر چھوڑ دیا۔ اُس نے چھوٹتے ہی سلام کیا اور بھاگا۔ تب میں نےعورت سے پوچھا کہ اس وقت تمھارا نکلنا کیونکر ہوا اور یہ شخص نالائق تم سے کیا تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں اپنی ماں کے کام کو جاتی تھی۔ جب یہاں آکر پہنچی، اس بدمست نے ہاتھ میرا پکڑا۔ خیال بدی کا رکھتا تھا۔ اتنے میں خدا نے تم کو یہاں پہنچایا کہ مجھ کو اُس سے چھوڑایا۔ میں نے یہ سن کر اس کو اس کے گھر تک پہنچا کر اپنے گھر کا راستہ لیا۔ اُس نے بہت مبالغہ سے بلا کر یہ حال اپنی ماں اور عزیزوں سے کہا۔ اُن لوگوں نے شکر گزار ہو کر مجھ کوکئی پیالے شراب کے پلائے اور پتا مکان کا پوچھنے لگے۔ میں نے اس خیال سے کہ مسافر کو کسی سے دوستی کرنا نہ چاہیے۔ لاؤبالی پتا بتا کر رخصت ہوا اور اپنے گھر آیا۔
تیئیسویں تاریخ نومبر کی کپتان لاڈ صاحب کے مکان پر گیا۔ اُن کو اپنےساتھ لیا۔ جس مکان میں دیوانے اور سودائی قید تھے، دیکھنے چلا۔ حال اُس کا یہ ہے کہ شاہ لندن نے ایک مکان بنوایا ہے۔ جو کوئی لندن میں دیوانہ ہو جاتا ہے، وہ اُس مکان میں مقید ہوتا ہے۔ اُس مکانِ عالیشان میں کئی درجے ہیں۔ مرد رنڈیوں سے جدا رہتے ہیں۔ ڈاکتر علاج معالجہ کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ جب کوئی اُن میں سے اچھا ہو جاتا ہے، اپنے گھر چلا آتا ہے۔ جب میں اُس مکان میں پہنچا، نگہبان نے روکا کہ بغیر چٹھی سند کے کوئی اندر نہیں جانے پاتا۔ میں نے اُس سے اظہار کیا: میں مسافر ہوں، دشوار ہے چٹھی ملنا، تو اپنی مہربانی سے اس مکان کو دکھلا؛ مسافر نوازی سے بعید نہ ہوگا۔ اس بات سے وہ برسرِ عنایت ہوا، مجھ کو اندر لے گیا۔ ہر ایک درجہ دکھلایا۔ دیوانوں کو دیکھا، جا بجا بیٹھے کوئی ہنستا، کوئی روتا، کوئی کاغذ اخبار پڑھتا۔ ایک نے اُن میں سے مجھ کو دیکھتے ہی بہت اشتیاق سے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اور کہا: اتنے دنوں سے تو کہاں تھا۔ میں تیرا بہت مشتاق، نگراں تھا۔ میں تجھ کو خوب پہچانتا، تو قوم مملوک سے ہے۔ بونے پاٹ کی لڑائی میں شریک تھا۔ اُس کی گرم جوشی سے ڈاکتر صاحب اور ہر ایک دیکھنے والا حیران ہوا کہ یہ شخص بیس برس سے قید ہے، کسو سے بات نہیں کرتا۔ تم سے اتنا کیوں ملتفت ہوا۔ ہم کو ہے مقام بڑے تعجب کا۔ حال اس کا یوں بیان کیا کہ یہ سارجن ہے، نوکرِ بادشاہی تھا۔ بعد لڑائی بونے پاٹ کے کئی بادشاہ لندن کے سیر کو آئے۔ لاڈ منگلٹن صاحب نے سبھوں سے اُس کی تعریف فنون سپہ گری اور بہادری اس کی کے ظاہر کی۔ سب لوگ مشتاق دیکھنے کے ہوئے۔ اُس نے اِس میدان میں کہ کئی بادشاہ اور لاکھ سوار و پیادے موجود تھے، گھوڑے پر چڑھ کر کمال اپنے دکھلائے۔ شاہِ روس نے بہت تعریف کر کر کہا کہ ہم نے کوئی سوار اس کمال کا نہیں دیکھا۔ یہ شخص فنون سپہ گری میں کامل اور یکتا۔ تب سے یہ دیوانہ ہو کر اس حال کو پہو نچا کہ یہاں آ کر قید ہوا۔
اُس مکان میں تین درجے تھے۔ پہلے میں وہ دیوانے کہ بسبب احتراقِ بلغم کے اختلالِ حواس بہم پہنچایا۔ مزاج اُن کا مائلِ نرمی وملائمت تھا۔ دوسرے میں وہ لوگ کہ بسبب حرقتِ خون کے اُن کے دماغ میں فساد آیا۔ تیسرے میں نہایت دیوانے پرلے سرے کے جن کا مزاج بسبب احتراق سودا یا صفرا کے بالکل منحرف ہوا۔ ہر ایک کو ایک جگہ بلند کرسی کی شکل پر ہاتھ باندھ کر بٹھلایا، کوئی مجال حس وحرکت کی نہیں رکھتا اس خیال سے کہ ناخونوں سے اپنی آنکھیں نہ پھوڑیں۔ ہاتھوں میں دستانہ چرمی پہنائے، دروازے آتشدانوں کے لوہے کے جالی دار بنائے کہ مبادا کوئی اپنے تئیں اُس میں گرائے۔ اس طرح دوسری طرف رنڈیاں درجے بہ درجے قید تھیں، حسن جمال میں بے مثال تھیں۔ دیکھنے والا ان کا دیوانہ بن جاتا۔ اپنے تئیں واسطے دیدارِ جمال اُن کے کے اُس مکان کا قیدی بناتا۔ بعضی اُن میں جو اچھی ہو چلی تھیں، علیحدہ مکان میں اپنے اپنے کام اور پیشہ میں لگی تھیں۔ میں دو تین عورتوں باہوش کو اس قید میں دیکھ کر بہت ملول ہوا۔ فی الفور باہر نکل کر اسکول میں آیا۔ وہاں دیکھا لڑ کے بن باپ کے یتیم پتلون زرد پہنے ہوئے لکھنے پڑھنے میں مشغول تھے۔ خرچ ضروری اُن کے بادشاہ کے ہاں سے مقرر اور معمول تھے۔ وہ سب لڑکے امیروں نامدار کے ہیں، بہت صاحبِ لیاقت۔ طبیعت اُن کی نوشت وخواند پر ایسی مصروف پائی کہ مجھ کو حیرت آئی۔ اپنے دل میں کہا سبحان اللہ! لڑکے ہندوستان کے باوجود تاکید والدین کے تحصیلِ علم میں ہرگز نہیں مشغول ہوتے ہیں، اوقات اپنی مفت برباد دیتے ہیں بلکہ چھٹ پنے میں حرکتیں بیجا کرتے ہیں۔ یعنی ماں باپ کو گالیاں دیتے اور ان کے سامنے حقہ پیتے ہیں؛ وہ انھی باتوں میں لڑکپن ان کا سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔
ایک اور مکان میں گیا۔ اُس میں نصیحت کرنے والے اور پادری سرکار بادشاہی سے مقرر ہوئے ہیں۔ جوعورت زنا کاری سے باز آئے اورحرام کاری سے تو بہ کرے، اُن کے پاس جا کر ظاہر کرے کہ میں تمھارے ہاتھ سے توبہ کرتی ہوں اور گناہوں سے باز آتی ہوں۔ وہ لوگ اُس کو اُس مکان میں رہنے کی جگہ دیتے ہیں۔ وعظ کہہ کر تعلیم کرتے ہیں اور سرکارِ شاہی سے اُس کے لیے کچھ خرچ مقررکرواتے ہیں۔ جب وہ راہِ راست پر آوے، کسو مرد کے ساتھ نکاح کر دیتے ہیں۔ ایک اسکول اور ہے اُس میں اندھےلڑ کے رہتے ہیں۔ روٹی کپڑا سرکار سے پاتے ہیں۔ پادری اشارے سے اُن کو تعلیم کرتے ہیں۔ بندگی عبادت بخوبی سکھاتے ہیں۔ ایک اسکول اور ہے، جو لڑکا چھنال رنڈیوں کا یا حرامی پیدا ہوئے، وہ اس لڑکے کووہاں ڈال جاوے۔ سرکار سے پرورش اُس کی ہوتی ہے۔ جب سنِ شعور کی نوبت پہنچتی ہے، پڑھایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے فراغت پاتا ہے۔ بعد اس کے کسی عہدے میں نوکربادشاہی ہوتا ہے۔ اب صاحبان عقل غور کریں کہ ان باتوں میں کیا کیا فائدے ہیں۔ جہاں کہیں ہرمقدمہ میں ایسا انتظام ملحوظِ خاطر ہو، کیوں کرکسی امر میں خلل اور فساد ظاہر ہو۔ ایسے لوگ جہاں پر کس طرح مسلط اور قادر نہ ہوں۔ ہندوستان میں کوئی کسی کو نہیں پوچھتا ہے۔ بادشاہ فکر رعایا سے غفلت رکھتا ہے۔ اگر کوئی عورت زنا کار ہوئی تمام عمر اسی میں رہی، کوئی اُس کو نہ سمجھاوے کہ راہ راست پر آوے۔ اگر کوئی لڑکا یتیم ہوتا ہے، کوئی شخص نہ اُس کو روٹی کپڑا دیتا ہے نہ پڑھاتا ہے۔ ان صورتوں میں خاک انتظام ہو۔ امورِ ملکی کا کیا سرانجام ہو۔ صاحبان انگریزوں کی عقل پر آفرین اور مرحبا کہ کیا اچھی باتوں کا رواج دیا۔ اپنی قوم سے کسی لڑکے کو بے علم و ہنر نہیں رکھتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے ایک طرز جدا معاش کا مقرر کرتے ہیں۔ غرض یہ سب امور لندن کے جو بندے نے لکھا بہت خوب اور مستحسن دیکھا۔ بعد ان سیروں کے ملک فرانس کے دیکھنے کا شوق ہوا۔