آٹھویں تاریخ جمعرات کو دوپہر کے بعد زمین جزیرۂ کیپ کی نمایاں ہوئی، مگر بسبب ناسازی ہوا کے جہاز کے پہنچنے میں دیرِ بیکراں ہوئی۔ سترھویں تاریخ جہاز ہمارا جزیرۂ سیمن بیہ میں پہنچا۔ عجب شہرِ طراوت افزا تھا کہ ہر طرف اس کے پہاڑ بلند، سبزۂ رنگا رنگ سے سبز رنگ تھے، غیرت دہِ کارنامۂ ارزنگ تھے۔ آب و ہوا وہاں کی ایسی معتدل اور لطیف تھی کہ ہر لحظہ بدن کو صحت، دل کو راحت آتی۔ ہر چند ابتدا میں اُن پہاڑوں کو دیکھنے سے وحشت ہوئی، مگر فی الواقعی روح نے اس سے تازگی پائی۔ وہ حال خواب و خیال معلوم ہوتا اس لیے کہ ایسا شہر آباد کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس شہر کے دیکھنے سے میں ایسا مسرور ہوا کہ کبھی دل سے نہیں بھولتا، اس واسطے کہ متواتر دو تین مہینے سے سوا دریا کے شکلِ زمین نہ دیکھی تھی۔ وہاں پہنچ کر دوستوں کو یاد کرکے شراب پینے لگا۔ تماشائی قدرتِ صانع بیچوں کا ہوا۔ ایک جہاز تہلایہ نام حفاظت کے واسطے مقرر تھا، پچاس ضرب توپ اور سامان لڑائی کا اس پر تھا۔ جہاز جو اُدھر سے جاتے وہ لوگ ان سبھوں کا حال دریافت کرتے، اگر کوئی بیمار ہوتا اس جزیرے میں اُترنے نہ پاتا۔ جب جہاز ہمارا وہاں جا کر پہنچا، ڈاکتر صاحب اور اَور لوگوں نے ہمارے جہاز پر آ کر حال بیماروں اور تندرستوں کا پوچھا۔ افضالِ خداوندی سے کوئی بیمار نہ تھا، ڈاکتر صاحب وغیرہ دیکھ بھال کر اپنے جہاز پر گئے۔
شام کے وقت ہم لوگ ناؤ پر سوار ہوکر سیمن بیہ میں اُتر گئے۔ وہاں کی خوبیاں اور بلندی مکانوں کی اور خوش اخلاقی آدمیوں کی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سرائے کلارنس میں شام تک اپنی صحبت اور جلسے میں بیٹھے رہے۔ جب رات ہوئی، جہاز پر جانے کی نیت کی۔ ملاح نے کہا، رات کو ناؤ نہیں کھلتی ہے۔ ہم نے دیکھا کوئی تدبیر بنتی نہیں ہے؛ لاچار دس روپیہ دے کر اس کو راضی کیا تب جاکر مانجھی نے ہم کو ناؤ پر چڑھا کر جہاز تک پہنچایا۔ آدمی وہاں کے سب حسین و جمیل، پرلے سرے کے خوبصورت اور شکیل؛ خواب میں بھی ایسی صورتیں نہ دیکھی تھیں جو بیداری میں نظر آئیں۔
اٹھارھویں تاریخ افسرانِ جہازِ جنگی مجھ کو اپنے جہاز پر سیر دکھانے لے گئے۔ کام مضبوطی اور نفاست جہاز کی دکھائی۔ میں نے تو کبھی ایسا جہازِ جنگی نہ دیکھا تھا۔ کاریگری اور خوبیاں اس کی دیکھ کر حیران ہوا کہ یا اللہ! اس کو آدمیوں نے بنایا ہے یا فرشتوں نے سانچے میں ڈھالا ہے۔ پچاس تو پیں اس پر لگی تھیں اور بیس ضرب اٹھارہ پنی دائیں طرف اور بیس اٹھارہ پنی بائیں طرف۔ پانچ پانچ تینتیس پنی ادھر اُدھر کہ بے سلگانے پلیتے اور مہتاب کے سب چھوٹیں اور آئینہ کی طرح صاف صاف نظر آتیں۔ میگزین شیشے اور باروت کا ایسا مضبوط بنا کہ کبھی اس کو صدمہ آگ یا پانی کا نہ پہنچتا، بمقتضائے احتیاط ایک شیشہ گندا اس کے اوپر کھڑا کیا۔ بجائے خود سدِ آہنی تھا، ہرگز آگ اور پانی کا اس پر اثر اور گزر نہ ہوتا۔ اُس جہاز پر تین سو پچاس آدمی مسلح بیٹھے تھے، ہر وقت مستعد رہتے۔ ایک کنارے سات حبشی پابزنجیر تھے، رنگ ان کا ایسا کالا کہ اُس وقت اندھیرا معلوم ہوتا۔ بال ان کے ایسے پیچ دار کہ پیچ و تابِ زمانہ ان سے شرم سار، اوپر کا ہونٹ ان کا نتھنوں تک پہنچا، نیچے کا ٹھوڑی تک لٹک آیا۔ میں ان کو دیکھ کر جانور صحرائی سمجھا کہ جہازیوں نے سیر و تماشا کے لیے پالا۔ جب جہاز والوں سے پوچھا، معلوم ہوا کہ حبشی ہیں۔ اسپانیل حبشیوں کو پکڑ لاتے ہیں، لوگوں کے ہاتھ بیچ جاتے ہیں۔ صاحبانِ انگریز نے جہاز جنگی مقرر کیے کہ جب اسپانیل حبشیوں کو پکڑ لاویں، اُن کو مع سب اسباب کے اُن سے چھین لیویں۔ چنانچہ اِن کو ہم نے اُن سے چھین لیا، بہ سبب وحشت کے زنجیر میں قید کیا۔ جب ان کی وحشت کم ہوگی، کچھ آدمیت ان کو آوے گی، چھوڑدیں گے۔ میں دیکھنے عجائبات اور خوش اخلاقی جہاز والوں سے بہت خوش ہوا ور رخصت ہو کر کنارے جزیرۂ کیپ کے آیا۔ تماشا عمارت و آبادی وہاں کا دیکھتا تھا کہ ایک مردِ ضعیف ہمارے پاس آیا، کمال مہربانی اور اخلاق کیا۔ مجھ کو اور بوچڑ صاحب اور ایک اور شخص کو اپنے گھر لے گیا۔ گھر اس کا اگرچہ چھوٹا تھا، مگر بہت خوب بنا تھا۔ ہم سبھوں کی ضیافت چائے اور شراب انگوری وغیرہ کی کی اور دو لڑکیان خوب صورت اپنی کو تکلیف انگریزی باجے بجانے کی دی۔ ان دونوں سے ایک کتخدا اور دوسری کنواری تھی، پر ہر ایک انگریزی باجوں کے بجانے میں کمال رکھتی۔ سننے اس کے سے روح کو راحت حاصل ہوئی، دل کو فرحت آئی۔ دوتین گھڑی بڑی کیفیت سے گزری، آخر اُس بڈھے اور پری رویوں سے ہم نے رخصت لی۔ حال اُس بڈھے کا دریافت کیا، ظاہر ہوا کہ وہ شخص کارِ نجّاری میں یکتا تھا۔ جہازوں کو جوانی میں بناتا، اسی کام میں بہت روپے کمائے اور مکان خوب خوب ہوئے۔ اب بہت دولت و عزت رکھتا ہے، عیش و نشاط سے زمانہ بسر کرتا ہے، اسی سبب سے بادشاہ جان کہلاتا ہے۔
شہر کیپ
وہاں سے ہم تینوں آدمیوں نے شریک ہوکر ایک گاڈی چھ گھوڑوں کی ساٹھ روپے کرائے پر ٹھہرائی، اُس پر سوار ہو کر واسطے سیر شہر کیپ کے چلے۔ راہ میں قدرت خدا کی نظر آئی۔ بڑے بڑے پہاڑ ہیں، سبزہ ان پر بے حد و بے شمار، سبزہ رخسارے معشوقوں کا اُس کے سامنے شرمندہ۔ دیکھنے اُس کے سے خاطر شاد، دل زندہ ہوتا۔ درخت پھولوں کے جھونکے ہوا سے ہلتے، دل تماشائیوں کا اپنی طرف کھینچتے۔ دیکھنے روانی نہروں سے آنکھ میں ٹھنڈک آتی، صفائی پانی اس کے کی چشمۂ کوثر سے یاد دلاتی۔ بلبلیں درختوں پر بیٹھی چہچہاتیں، قمریاں سرو کے سایہ میں کوکو کا شور و غل مچاتیں۔ ایسے ایسے طائر وہاں بیٹھے کہ طائرِ دل خود بخود جاپھنسے۔ قلم کو کیا طاقت کہ وصف وہاں کا لکھے، زبان کو کیا مجال کہ خوبیاں اس جا کی بیان کرے۔ صاحبانِ انگریز نے جابجا مکانِ نفیس مع پائیں باغ بنوائے ہیں، روز و شب اس میں آسائش سے رہا کرتے ہیں۔ راہ میں مَیں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ کوئی بانسری بجاتا ہے، کوئی شراب پیے ہوئے پانی کی لہروں کی سیر دیکھتا ہے۔ ان باتوں کو دیکھ کر میرا دل لہرایا، کاش کہ کوئی ایسا سبب ہوتا کہ میں بھی ساری عمر آرام سے یہاں رہتا اور زمانے سے سروکار نہ رکھتا مگر کہاں ایسے نصیب کہ ہاتھ آتی یہ دولت عجیب۔ راہ میں مسافر خانے بنے ہوئے تاکہ مسافر کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، مچھلی، انڈے، مرغی، شراب سب وہاں موجود اور جو کچھ نہ چاہیے وہاں سے مفقود۔ عجب شہر ہے؛ لڑکوں، کنواروں، خوبصورتوں کو دیکھا کہ اُستاد کے سامنے بڑے امتیاز سے بیٹھے پڑھ رہے ہیں، خُرد و بزرگ سے حسبِ مراتِب ادب سے پیش آتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ ہمارے وطن کے لڑکے اس سِن میں نشست و برخاست کی تمیز نہیں رکھتے ہیں۔ یہ کیا شے ہیں جو اِس صغر سن میں باوجود حسن و جمال کے دانائی میں بڈھوں سے سبقت لے گئے ہیں۔ پریاں کوچہ و بازار میں کھڑیاں، دل عاشقوں کا عوض ایک جھپکی آنکھ کے پُھسلاتیاں۔
آدھی راہ میں ایک مسافر خانہ بہت خوب دیکھا، وہاں جاکر ہم سب بیٹھے راہ کی ماندگی سے سستائے۔ پک صاحب اُس سراکا مالک تھا، بہت اخلاق سے پیش آیا اور اپنی بی بی سے کہا: ان کے واسطے شراب بیَر اور پنیر اور مچھلی وغیرہ لا۔ وہ بہت ہوشیار اور دانا تھی، ایک کشتی چھوٹی میں سب چیزوں کو خوبی سے جما کر لائی، بہت تکلف سے ہر چیز کھلائی اور شراب پلائی۔ نہایت خوش ہو کر ایک ساعت ہم نے توقف کیا اور پک صاحب کو بطریق انعام کچھ دیا۔ اسی عرصہ میں ایک بھیڑ کا بچہ آیا۔ ہمارے پانو پر مونہہ اپنا رگڑتا اور زبان سے بدن ہمارا چاٹتا۔ جب تھوڑی شراب بیَر اُس کو پلائی، نشے میں آ کر اس نے آرام پائی، کنارے جا بیٹھا۔ معلوم ہوا اسی واسطے مونہہ رگڑتا تھا۔ ہر مسافر کو چاہیے کہ وہاں جا کر شراب بیر پیے اور کیفیت اس کی معلوم کرے۔
وہاں سے روانہ ہوکر قریب شام کیپ میں پہنچ کر جارج کی سرا میں مقام کیا۔ عجب سرا تھی کہ ہمارے شہر میں مکان بادشاہ کا بھی ایسا عالی شان نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہاں ایسی عمارت کا دیکھنا خواب میں بھی نہیں میسر آتا ہے۔ جھاڑ فانوس اُس کی چھتوں سے لٹکتے، جیسے ستارے آسمان پر چمکتے۔ صحن ایسا وسیع تھا، اگر لشکر اُس میں آتا ایک کونے میں سما جاتا۔ ہم لوگ وہاں جاکر دلجمعی سے بیٹھے، صحبت اور جلسے گرم ہوئے۔ نکلسن صاحب کپتان پلٹن اٹھائیسویں انگریزی کے رخصت لے کر وہاں آئے تھے۔ آدمی ان کا ہمارے پاس پیغام لایا، اگر اجازت ہو ہم تمھاری ملاقات کو آویں۔ ہم نے کہلا بھیجا، ہم لوگ مشتاقِ ملازمت ہیں آپ تشریف لائیں، عنایت فرمائیں۔ رات کو کپتان صاحب آئے اور حرفِ دوستانہ زبان پر لائے۔ بعد صحبتِ نمکین اور کلامِ شیرین کے نوبت شراب کباب کی آئی، کپتان صاحب نے شراب پی کر اور بہت خوش ہوکر خوب نغمہ سرائی کی، مجھ سے ٹوپی بدل کر رشتۂ برادری کو مضبوطی دی۔ ہم سبھوں نے رات خوشی سے بسر کی، جب تھوڑی رات رہی، ہم سوئے۔ کپتان صاحب اپنے مقام پر گئے۔
سوا پہر دن چڑھے آنکھ کھلی، حاضری کھائی۔ بعد اس کے سب مل کر کیپ کی سیر کو چلے۔ وہاں تین قلعے دیکھے قوم ڈچ کے بنائے ہوئے تھے، دو قلعے بسبب بے مرمتی اور گزرنے مدتِ دراز کے ڈھے گئے، مگر ایک ان میں سے بہت مضبوط اور بلند۔ قریب اُس کے چھاؤنی گوروں کی قابل دیکھنے کے تھی۔ جاتے جاتے بازار میں پہنچے، دیکھا کہ بازار مختصر بہت اچھا تھا۔ دو طرفہ گوشت فربہ دُنبے اور گائے کا لٹکا، کنجڑنیاں دونوں طرف بیٹھی ترکاریاں بیچتیں، خریداروں کو اشارے آنکھ سے اپنی طرف مائل کرتیں۔ دوسری طرف اور بازار میں جاکر دیکھا کہ حبشنیں بدشکل مچھلیاں بیچ رہی ہیں۔ عجب رنڈیاں، چوتڑ اُن کے پہاڑ سے موٹے، بال پیچ دار، مونہہ کالے؛ پُتلی آنکھ کی اُن کے دیکھنے سے، زبان قلم کی ان کی سیاہی لکھنے سے کالی ہوئی۔ دیکھ کر ان کو میں ڈرا کہ کیوں ان چڑیلوں میں آپھنسا، لاچار وہاں سے بھاگا اور میوزیم میں آیا۔
میوزیم اُس مقام کو کہتے ہیں کہ انگریزوں نے عجائبات وہاں رکھے ہیں۔ چنانچہ ہر طرح کے ہتیار وحشیوں کے اور جنگلی آدمیوں کے رکھے، مردہ جانور روغن ملے ہوئے کھڑے۔ عجب روغن تھا کہ اس کے مَلنے سے جسم جانوروں، مُردوں کا نہ سڑا بلکہ مردہ زندہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک کھال، دو چند کھال ہاتی سے، نظر آئی؛ اس کو دیکھ مجھ کو حیرت چھائی۔ حال اس کا وہاں کے اہتمامی سے پوچھا، جواب معقول نہ دے سکا۔ ثابت ہوا کہ وہ خود کیفیت اُس کی نہ جانتا تھا اور لیاقت اہتمام اس مکان کی نہ رکھتا تھا۔ وہاں سے باہر نکل کر مکان گورنر جنرل صاحب بہادر کا بہت خوش قطع بنادیکھا۔ چشمہ پہاڑ سے نیچے اس کے بہتا، سوا اس چشمہ کے وہاں پانی نہ ملتا۔ اس واسطے کہ اُس جزیرہ میں کنواں نہ تھا۔ ہر کوئی پانی اسی کا پیتا، نہایت شیریں اور ہاضمِ طعام تھا۔ رنڈیاں وہاں کی خوبصورت، خوش منظر، زیبا طلعت، رنگت میں نہ بہت گوری نہ کالی؛ اس لیے کہ باپ انگریز اور ماں باہر والی۔ ایک قوم ملائی وہاں مسلمان ہیں، شراب نہیں پیتے ہیں، مزاج میں غصہ بہت رکھتے ہیں۔ عورتیں اُن کی پتے کے لیے ایک کپڑا سر پر لپیٹے رہتی ہیں، عفیفہ اور پارسا معلوم ہوتی ہیں۔ ملائی جس کے نوکر ہوتے ہیں، خوب اطاعت اس کی کرتے ہیں۔ ایک مسجد اپنی عبادت کے لیے بنا کر ایک موذن اس پر مقرر کیا ہے۔ ہر چند کوئی ان میں سے علم دین کا نہیں پڑھا ہے، پر اپنے طریقہ پر استحکام رکھتے ہیں۔ شادی بیاہ سِوا اپنے ہم جنسوں کے کسو سے نہیں کرتے ہیں۔ سوا اُن کے، قومِ حبشی بھی وہاں رہتے ہیں، قمار بازی اور شراب نوشی میں پھنس کر کارِ آقا سے باز رہتے ہیں؛ جب تنخواہ پاتے ہیں امورِ بیجا میں اُڑاتے ہیں، ہرگز آدمیت کا نام و نشان نہیں جانتے ہیں۔ راہیں بازار کی صاف نہیں، گاڈی اور بگھیاں ایک گھوڑے سے چھ گھوڑے تک کرائے پر ہاتھ آتیں۔ مقابل اس جزیرہ کے سمندر ہے، جس کا جی چاہے ناؤ پر سوار ہوکر جہاز اور دریا کی سیر کو جاوے۔ بندہ گھوڑے پر، بوچڑ صاحب گاڈی پر سوار ہوکر چلے جاتے تھے۔ ناگاہ ایک معشوقہ چودہ برس کی دیکھی۔ ایک دکان میں بیٹھی؛ پری صورت، حور سیرت، چاند اُس کو دیکھ کر شرمائے، سورج اُسی کے فراق میں دن بھر چکر کھائے۔ عجب حسن و جمال بے مثال کہ بیان اس کا امرِ محال۔ گورے گورے گال، ہونٹھ لعل لعل، دانتوں میں چمک، کمر میں لچک، شیریں ادا، دل ربا، ابھری اس کی چھاتیاں، دل عاشقوں کا پُھسلاتیاں، فرد:
برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِن
جوانی کا عالم، تماشے کے دن
میں اس کے دیکھتے ہی بے ہوش ہوگیا اور نشۂ بادۂ وصال اس کے سے مدہوش ہوا، پھر اپنے تئیں سنبھالا اور کنسٹانسیا یعنی انگورستان میں گیا۔ وہاں شراب عمدہ کھینچی جاتی ہے، ہر کسی کی طبیعت اس کے دیکھنے کو للچاتی ہے۔ وہاں کے مالک نے بہت اخلاق سے ملاقات کی اور شراب انگوری ہم کو پلائی۔ عجب ذائقہ کی تھی کہ کبھی دل سے نہیں بھولتی۔ ایک شخص قوم ملائی سے میرا نوکر تھا، اس نے مجھ سے کہا: تم مذہب مسلمانی رکھتے ہو شراب کیوں پیتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ حضرت پیغمبر ﷺ نے شیرۂ انگور کو منع نہیں کیا۔ اس بات سے صاحب خانہ خوش ہوکر ہنسا۔ جس جگہ اپنے معشوق کے ساتھ شراب پیتا تھا، لے گیا۔ عجب جگہ کہ ایک پیپل کے سے درخت پر لکڑیوں کی پاڑھ باندھ کر گھاس پھوس کا مکان بنایا تھا، نیچے اُس کے ہر چہار طرف چشمہ بہتا۔ آب و ہوا وہاں کی دل کو بھائی، تھوڑی دیر بیٹھ کر شراب پی۔ بوچڑ صاحب نے ایک پیپا شراب خرید کی۔
پھر اُس سے رخصت ہو کر سرائے جارج میں آئے، راہ میں ایک گاڈی دیکھی۔ اٹھارہ بیل سیاہ رنگ اُس کو کھینچتے، ایک شخص اکیلا اُن سب کو ہانکتا؛ میں اُس کو دیکھ کر متحیر ہوا۔ کپتان براؤن صاحب بھی کسی کام کو آئے تھے، راہ میں ملے، ہم وہ باہم چلے۔ پک صاحب کی سرا میں آ کر ٹھہرے، وہاں سے ایک گاڈی کرایہ کرکے کپتان صاحب کے ساتھ اُس پر سوار ہو کر سیمن بیہ کو راہی ہوئے۔ راہ میں ایک گانو دیکھا، وہاں کے لوگوں نے اویل پر مدارِ معاش ٹھہرایا۔ اویل ایک مچھلی کا نام ہے، ہاتی سے چار چند اُس کا اندام ہے۔ وہ لوگ اس کو پکڑتے ہیں، ہڈی اور چربی اس کی بیچتے ہیں۔ چنانچہ وہاں کے سب مکان اس کی استخواں سے پٹے تھے بلکہ دروازے اور شہتیر اُسی کے بنے تھے۔ ایک ہڈی میں نے دیکھی بیس ہاتھ لنبی تھی، یہ سیر و تماشے دیکھتے سیمن بیہ میں پہنچے۔
تیئیسویں تاریخ جون کے، جہاز پر سوار ہوکر لندن چلے۔ جابجا پہاڑ دریائی پانی میں چھپے تھے، جہاز ان کے ٹکڑ سے ٹوٹتے۔ اس خیال سے باوصف ناموافقت ہوا اور برسنے مینہ کے کپتان صاحب نے ٹھہرانا جہاز کا مناسب نہ جان کر بڑی اُستادی سے جہاز ہانکا۔ بسبب رطوبت مینہ اور مخالفت ہوا کے کپتان صاحب کو استسقا ہوگیا۔
گیارھویں تاریخ جولائی کے جہاز ہمارا قریب اس پہاڑ کے پہنچا کہ قبر بونے پاٹ کی اس پر تھی؛ ہر چہار طرف اس کے سمندر۔ جہاز بسبب مخالفت ہوا کے وہاں رکا۔ مجھے بونے پاٹ کی قبر دیکھنے کا بڑا شوق تھا، باوجود ان موانع کے کپتان صاحب نے جہاز میں لنگر نہ ڈالا، آگے بڑھایا۔ اس سبب سے پہاڑ کے اوپر جانے کا اتفاق نہ ہوا، مگر جہاز سے صاف نظر آتا۔
جاتے جاتے سترھویں تاریخ اسنشن پہاڑ پر پہنچے۔ تین راتیں برابر عجب حالات دیکھے، پانی سمندر کا چمکنا نظر آتا۔ میں حیران تھا کہ اس کا سبب کیا کہ پانی آگ سا چمک رہا ہے۔ طرفہ اس پر یہ ہوا کہ ایک شعلۂ جوّالہ آدھی رات کو جہاز کے مستول کے اوپر سے گرا۔ کپتان صاحب سے حال چمکنے پانی کا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ ایک قسم کے کیڑے ہیں، جب وہ پانی کے اوپر آتے ہیں پانی کا یہ حال ہوتا ہے کہ شعلہ ساں چمکتا ہے۔ میرے یقین کے لیے ایک برتن میں پانی بھرلیا، میں نے دوربین سے بغور اس میں دیکھا، ننھے ننھے کیڑے نظر آئے، ووہی باعث چمک پانی کے تھے۔ یہ حال دیکھتے بھالتے مصیبتوں سے بچتے بچاتے اکتیسویں تاریخ اگست کی 1827عیسوی میں قریب ولایت انگلستان کے پہنچے، ولایت لندن وہاں سے ڈیڑھ سو کوس باقی رہا۔ بندہ شکر خدا کا بجالایا اور کپتان صاحب سے کہہ کر ایک ناؤ سواری کے لیے بلوائی۔ اس میں دو ملاح اور ایک کپتان تھا، کشتی تو چھوٹی تھی مگر بہت مضبوط اور خوب بنی۔ باورچی خانہ آہنی اس میں خوش اسلوب، نہایت مرغوب۔ جب وہ ہمارے پاس آئی، چالیس روپے کرائے پر ٹھہرائی۔ کپتان صاحب سے رخصت ہوکر جہاز ازابیلہ سے اترے، بوچڑ صاحب کے ساتھ اس ناؤ پر سوار ہوکر چلے۔ آب و ہوا وہاں کی دل کو بھائی، روح کو اس سے تازگی آئی۔