بندہ یہ حالات دیکھتے قرب و جوار لکھنؤ کے پہنچا، ایک گانو میں آ کر ٹھہرا۔ شکار میں مشغول ہوا۔ ایک چڑیا کو چھرّے سے مارا۔ پچاس آدمی جنگلی دوڑ پڑے۔ ڈھال تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے کہ تم نے ہمارے گانو کے جانور کو کیوں مارا۔ سبھوں نے آ کر مجھ کو گھیر لیا۔ میں مقابلہ کرنا اُن سے مناسب نہ سمجھا، نرمی اور آشتی سے پیش آیا۔ لیکن وہ لوگ بد ذاتی سے باز نہ آئے، آمادہ میرے قتل پر تھے۔ کوئی کہتا اس کا سر کاٹ ڈالو۔ کسی کے خیال میں آتا، نہیں زندہ پکڑ لے چلو۔ جب میں نے دیکھا کہ جان مفت جاتی ہے، کوئی تدبیر نہیں بن آتی ہے، انگریزی بولی میں گفتگو کی۔ انھوں نے انگریز سمجھ کر طرح دی اور اپنی راہ لی۔ اُس دن اگر میں اپنے تئیں انگریز نہ بناتا، بے شک و شبہ مارا جاتا۔ اسی طرح سینکڑوں آدمیوں کا خون ہوتا ہے، کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا ہے۔ وہاں سے بچ کر خدا خدا کر کے متصل لکھنؤ کے آیا۔ ایک چٹھی میں کپتان ممتاز خان منگنس صاحب بہادر کو لکھا کہ اگر آپ کی مرضی ہو میں حاضر ہوں، نہیں تو اور کسی طرف جاؤں۔ کپتان صاحب نے اس کے جواب میں چٹھی عنایت آمیز لکھ بھیجی کہ ضرور آؤ، مجھ کو ہے تمھاری انتظاری۔ بندہ بموجب حکم کے اُن کے مکان پر گیا، فیضیاب ملازمت ہوا۔ انھوں نے نہایت مہربانی فرمائی اور دعوت و مہمانی کی۔ ایک خیمہ کھڑا کروایا، اُس میں فقیر کو اُتروایا۔ بعد چند روز میں نے قصد اور سمت کا کیا۔ انھوں نے باز رکھ کر فرمایا: تم یہاں رہو اور اسم سابق اپنے کے درستی کرو۔ بندہ چٹھیاں سفارش کی افسرون ولایت کی لکھی ہوئیں کرنیل لو صاحب، بڑے صاحب اور پاٹن صاحب چھوٹے صاحب کے نام پر لایا تھا۔ دونوں صاحبوں کو لے جا کر دکھلائیں۔ انھوں نے کمال اخلاق اور عنایت سے پیش آکر یہ باتیں کہیں کہ ہم کو شاہ اودھ کی فوج میں سفارش کرنے کا اختیار نہیں۔ مہربانی زبانی اُن کی سے شکر گذار ہوا۔ اگرچہ خوبیٔ ایّام سے کچھ بھی نہ اجرائے کار ہوا۔ میں نے یہ حال کپتان مینگنس صاحب سے کہہ کر رخصت ہونے کا قصد کیا۔ انھوں نے اپنے مکان کے نزدیک ایک مکان کرایہ کا میرے رہنے کے لیے ٹھہرا دیا اور جدا ہونا میرا ہر گز گوارا نہ کیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد تدبیر کر کے سرکار شاہی میں عرضداشت کی اور اسامی قدیمی بحال کروائی۔ یعنی اپنے ہمراہی رسالہ سواروں اور توپ خانہ کی صوبہ داری دی، کھانے میں اپنے ساتھ شریک رکھا۔ چنانچہ آج تک وہی طور چلا آتا ہے کہ بندہ انھیں کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ کپتان صاحب نے جس قدر عنایت میرے حال پر فرمائی زبان طاقت نہیں رکھتی ہے اس کی شکر گزاری کی۔ جب تک جیوں گا اُن کا احسان مند رہوں گا۔ ان دنوں ڈاکتر کاربائن صاحب نے ازراہ اشفاق چٹھی سفارش میری کی افسران فوج انگریزی کے نام پر میرے پاس لکھ بھیجی تھی کہ اگر تم کو منظور ہو اُن کے پاس جاؤ۔ پلٹن انگریزی میں جو قندھار جاتی ہے، تمھاری نوکری ضرور ہو جاوے گی۔ بندہ فقط پابندی مہربانیوں کپتان صاحب موصوف کے سے وہاں جانے سے باز رہا، ورنہ بے شبہ و شک وہاں جاتا۔ اس شہر میں جتنے صاحب لوگ رہتے ہیں میرے اوپر کمال شفقت فرماتے ہیں۔ چنانچہ جس دن بڑے صاحب اور چھوٹے صاحب یعنی کا لفیلڈ صاحب اور دلکی صاحب اس شہر میں آئے تھے، شاہزادہ ولی عہد صاحب عالم بہادر ثریا جاہ اُن کے استقبال کو تھوڑی دور تک گئے تھے۔ بندہ بھی ہمرکاب ظفر انتساب تھا۔ دلکی صاحب نے راہ میں نظر عنایت سے میری طرف دیکھا۔ جب آ کر اپنی کوٹھی میں داخل ہوئے اور کاروبار ضروری سے فراغت کر چکے۔ میری یاد فرمائی اور بلا کر بہت سی مہربانی کے بعد اس کے بڑے صاحب سے میرا ذکر کیا۔ اپنے ساتھ لے جا کر مشرف ملازمت کروایا۔ بڑے صاحب نے بھی قدردانی کی۔ بمقتضائے ریاست قر ب بساط بوسی سے عزت دی۔ بندہ گاہ گاہ اب بھی دلکی صاحب اور کا لفیلڈ صاحب کے پاس جاتا ہے، ووہی عنایت ِ سابقہ اپنے حال پر مبذول پاتا ہے۔ جب سے کا لفیلڈ صاحب اس ملک میں آئے، مزاج محمد علی شاہ بادشاہ اودھ کا انتظام ملکی پر مصروف کر لائے ہیں۔
نصیرالدین حیدر جو سابق یہاں کے تخت نشین تھے۔ روانہ خلدِ بریں ہو کر دریا پار کی کر بلائے نو تعمیر میں مدفون ہوئے۔ میں ان کا نمک خوار و خدمت گزار تھا۔ نہایت ملول ہو کر اُن کے مقبرے پر گیا۔ دیکھا کہ بجائے فرش حریر و ریشم کے فرش زمین خوابگاہ ہوا اور جسم نازک ان کا جو پھولوں کا ہار بار جانتا، ہزاروں من اینٹ پتھر کے نیچے دبا۔ کوئی رفیقوں اور جلسہ والوں سے پاس نہ رہا۔ دنیا عجب مقام ہے، کبھی اوج کمال پر پہنچاتی ہے، کبھی خاک میں ملاتی ہے۔ ایک دن وہ تھا کہ وہ حضرت ِ خلد منزل تختِ سلطنت ہندوستان پر جلوہ فرما تھے۔ نوکر اور خدمت گزار حسب مراتب اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہو کر تسلیمات بجا لاتے۔ رنڈیاں ناچنے گانے والیاں الحانِ داؤدی اور حسنِ یوسفی سے دل تماشائیوں کا پھسلاتیں۔ جام طلائی و نقرئی میں شراب بھر بھر کر اہل محفل کو بطور دور پلاتیں، وہ خود بدولت کمال عیش و عشرت سے زر ریزی میں مشغول ہوتے۔ فقرا اور مساکین کو دفعتاً تونگر کر دیتے۔ کوئی ہندوستانیوں سے باقی نہ رہا کہ ذلہ ربائے خوانِ انعام شاہ خلد آرامگاہ کا نہ ہوا۔ کوئی اہلِ علم و کمال اس اقلیم میں نہ آیا کہ قدردانی اُس مغفور مبرور سے ترقی مدارج پر نہ پہنچا۔ زندگی میں وہ حال تھا، آج یہ ماجرا نظر آیا کہ جنبشِ دست و پا کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ مثل خزانہ تہ ِ خاک و خشت دبے ہیں۔ بندہ شاہ سلیمان جاہ کا مقبرہ اور حال بے کسی ان کے کا دیکھ کر سخت ملول ہوا اور دیر تک سرہانے قبر کے کھڑے ہو کر روتا رہا۔ حال وفات ان کی کا اس طرح سنا کہ نمک حراموں نے زہر پلا کر مارا۔ افسوس صد افسوس ان کم بختوں نے غضب کیا کہ ایسے بادشاہ ِ فیاض کو یوں برباد کیا۔
بعد انتقال ان کےکے مرزا فریدوں بخت عرف منا جان جو اپنے تئیں صلبِ شاہِ خلد آرام گاہ سے جانتے تھے اور شاہ سلیمان جاہ حالت حیات اپنی میں نوشتہ مہری اپنا متضمن ابطال دعوی فرزندی اُن کی کاسرکار کمپنی میں بھجوا چکے تھے، بے اجازت بڑے صاحب کے آ کر تخت سلطنت پر بیٹھے اور اپنے طور پر مصروفِ نظم و نسق ہوئے۔ بڑے صاحب یعنی کرنیل لو صاحب نے کہا تم کو نہیں مناسب تخت پر بیٹھنا۔ اس لیے کہ تم بموجب نوشتہ شاہ ِ مغفور کے ان کے نطفہ سے نہیں ثابت ہوتے ہو، پس ارادہ سلطنت کا کس دعوے سے رکھتے ہو۔ بہتر یہ ہے کہ اس خیال سے باز آؤ، خیریت سے اپنے گھر جاؤ۔ نہیں تو بعد دو گھڑی کے گرفتار ہو گے، نہایت ذلیل و خوار ہو گے۔ مرزا فریدوں بخت نے کہنا بڑے صاحب کا نہ مانا اور اپنے تئیں مستحقِ سلطنت جانا۔ لاچار بڑے صاحب نے اپنے ہمراہی پلٹنوں اور توپ خانہ کو حکم دیا۔ یکایک گولی اور گولہ برسنے لگا۔ مصطفی ٰ خان قندھاری رسالہ دار اسی جھگڑے میں مارے گئے اور بہت لوگ ناحق مفت کام آئے۔ تختِ زرنگار اجلاسِ شہر یار گولے توپ سے پرزے پرزے ہوا۔ فریدوں بخت مع بادشاہ بیگم دادی اپنی کے گرفتار ہو آیا۔ بعد اس کے لو صاحب نے بموجبِ حکم شہنشاہ انگلستان نصیرالدولہ بہادر کو تخت سلطنت پر بٹھلایا۔ تمام اختیار امورِ سلطنت کا اُن کو دیا۔ چنانچہ یہاں کے اب ووہی فرماں روا ہیں، صاحبِ سکّہ و لِوا ہیں۔ کسی نے سکّہ اُن کا یوں کہا، بندہ نے یادداشت کے لیے اس رسالہ میں لکھا، فرد:
بجو د و کرم سکہ زد در جہاں
محمد علی بادشاہ زماں
محمد علی شاہ نے ابتدائے جلوس اپنے سے روشن الدولہ نائب شاہ خلد منزل کو عہدۂ نیابت سے معزول کیا اور سبحان علی خاں کمبو مشیر اُس کے کو بسبب مفسدی طینت اس کی کے مع اہل و عیال گنگا پار کر دیا۔ حکیم مہدی علی خاں منتظم الدولہ بہادر کو فرخ آباد سے بلا کر بجائے روشن الدولہ کے عہدۂ وزارت پر سرفراز کیا۔ چند روز خان مسطور نے نہایت خوش سلیقگی سے کاروبارِ وزارت نباہا، پر افسوس اجل نے مہلت نہ دی تھوڑے دنوں کے بعد قضا کی۔ بعد اُن کے بھتیجے اُن کے منور الدولہ بہادر نے خلعتِ نیابت سے سربلندی پائی، اپنے چچا کے طور پر انھوں نے بھی یہ خدمت انجام دی۔ اگرچہ مقلد مجتہد کے مثل نہیں ہو سکتا، الّااثر اس کا کچھ آ جاتا ہے۔ اسی طرح ان دنوں منور الدولہ اگرچہ مستعد رہتے ہیں، پر اجرائے کار میں اپنے چچا کو نہیں پہنچتے ہیں۔ عظیم اللہ خاں جو قدیم سے رفیق شاہ حال تھے، ابتدائے تخت نشینی شاہ زمان سے مالا مال اور نہال ہوے۔ داروغگی دیوان خانہ ٔ سلطانی کی انھیں کے پانام ہے۔ سوا اُس کے اور کار خانجات کا انھیں کے حوالہ سرانجام ہے۔ بادشاہ کے مزاج میں نہایت دخل رکھتے ہیں، جلوت و خلوت میں باریاب ہوتے ہیں۔ جب سے محمد علی شاہ نے تخت سلطنت پر اجلاس فرمایا ہے، رومی دروازے کے سامنے دولت خانہ میں ایک امام باڑہ قبر اپنی کا اور مسجد اور دروازہ، جواب رومی دروازے کا اور دکانیں اور بازار بطور امام باڑہ اور مکانات آصف الدولہ بہادر کے بنوایا ہے اور اب تک بنتا جاتا ہے۔ اگر چہ امام باڑہ ٔ آصف الدولہ کو نہیں پہنچتا ہے مگر تاہم قابل تماشا ہے اور بہت بلکہ اور سب عمارتون اس شہر سے نفیس بنا ہے۔ عمارت عالی شان رکھتا ہے۔ آگے اس مقام کا نام جمنیا باغ تھا، اب بسبب بننے امام باڑہ کے خطاب اُس کا حسین آباد ہوا۔ بڑے صاحب کی کوٹھی مقام بیلی گارد اور دولت خانہ بادشاہی سے حسین آباد تلک سڑک وسیع بنی ہے۔ ایسی ہمواراور درست ہوئی کہ اندھا بھی اُس پر بے تکلف دوڑتا چلا جائے، کہیں ٹھوکر نہ کھائے۔ دو طرفہ راہ میں دو دو تین تین گز کے فاصلہ پر لکڑیاں گڑی ہیں، رات کو اُن پر لالٹینیں روشن ہوتی ہیں۔ اَور راہوں کی درستی کا بھی حکم ہوا ہے۔ جابجا رستہ بنتا جاتا ہے، چنانچہ لکھنؤ سے شاہجہان پو ر تک سڑک بنتی آتی ہے۔ تھوڑے دنوں میں لائق آمدورفت بگھیوں کے ہوئی جاتی ہے۔ غرض کہ مزاج بادشاہ کا ہر صورت سے رعایا پروری پر مصروف ہے اور عنان عزیمت کی رفاہیتِ خلائق پر معطوف۔ گرفتاری رہزنوں اور قزاقوں اور کھود ڈالنے گڈھی زمینداروں سرکشوں کے لیے بہ تاکید ِ اکید حکم دیا ہے۔ بموجبِ حکم محکم قزاق ہر شہر سے پکڑے آتے ہیں اور قلع وقمع گڈھیوں کا ہوتا ہے۔ ان دنوں بندہ بھی دو تین دفعہ ہمراہ کپتان منگنس صاحب اورر اجہ درسن سنگھ غالب جنگ کی زمینداروں اور رہزنوں کے پکڑنے کو گیا تھا۔ ایک دن موضع سریان میں گڈھی کھودنے اور گرفتاری امام بخش زمیندار کے واسطے گیا۔ دیکھا کہ گڈھی بہت مضبوط بنی، گرد اُس کے چاروں طرف خندق گہری کھدی۔ ہر سمت اس کے جنگلا تھا۔ دیکھنے والے کا دم رکتا۔ اُس گڈھی میں آٹھ سو آدمی بندوقچی تھے۔ ملازم بادشاہی اُس کی گرفتاری کو تین ہزار آدمی مع دس ضرب توپوں کے گئے۔ بعضے عاقلوں اور بھائیوں اُس کے نے اُس کو سمجھایا کہ تو لڑائی سے باز آ، مقابلہ فوج بادشاہی نہ کر سکے گا۔ اُس کوتاہ اندیش نے ہرگز نہ مانا۔ ہمراہی اُس کے سب گڈھی سے نکل گئے۔ فقط سولہ آدمی امام بخش کے ساتھ گڈھی میں رہ کر گولیاں مارتے۔ ادھر سے تین ہزار آدمی مستعد تھے۔ اُن کے سوا دس ضرب توپ کے گولے پڑتے۔ آخر وہ سولہ آدمی اما م بخش سمیت مارے گئے اور فوج بادشاہی سے دو آدمی کام آئے اور کتنے زخمی ہوئے۔ حق یہ ہے کہ گڈھی والوں نے بہت جرأت کی لیکن فوج بادشاہی کے سامنے ان کی کیا حقیقت تھی۔ اگر چند روز حکم بادشاہ کا یوں ہی جاری رہے گا، رہزنوں اور ڈکیتوں کا ممالک محروسہ بادشاہی میں نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ ملک کا انتظام بخوبی ہو ئے گا، روپیہ سرکاری بے کدو کا وش تحصیل آئے گا۔
اس اطراف و جوار میں لکھنؤ بھی غنیمت ہے کہ یہاں کچھ ایجاد و صنعت ہے۔ لیکن جو قدرت اختراعی اور صنعت و کاریگری فقیر نے ملک انگلستان میں دیکھی، یہاں عشر عشیر اس کی بھی نہ پائی۔ شمہ یہ کہ وہاں کلیں آہنی توپ اور بندوق اور تلوار اور کاغذ اور کپڑے وغیرہ کی کھڑی کی ہیں کہ گھڑی بھر میں اس سے ایک رقم کی ہزاروں چیزیں بنتی ہیں۔ یہاں کوئی اس کی خبر نہیں رکھتا ہے بلکہ نام و نشان بھی نہیں جانتا ہے۔ رئیس ہندوستان کے خوابِ خرگوش میں پڑے رہتے ہیں۔ بٹیر یا مرغ یا کبوتر یا پتنگ بازی وغیرہ میں عمر برباد کرتے ہیں۔ کوئی تحصیل علم و ہنر کا شوق نہیں رکھتا ہے۔ امورات کار آمدنی اور فنون سپاہ گری یا شکار شیر وغیرہ سے کاہلی کرتا ہے۔ صد آفریں امیران انگلستان پر کہ ان میں سے کوئی تمام دن میں ایک گھڑی اپنی برباد نہیں کرتا ہے، ہر کوئی اپنے کام میں شام تلک مصروف رہتا ہے۔ رات کو عیش و عشرت کرتے ہیں۔ خیال سیر ملکوں کا سر میں رکھتے ہیں۔ عورتیں ان کی بھی تضیع اوقات نہیں کرتی ہیں، علم و ہنر میں مشغول رہتی ہیں۔ بہ خلاف ہندوستان کے کہ مرد یہاں کے امور بے جا میں صرف اوقات کرتے ہیں اور اپنی عورتوں کو ایک مکان میں قید کرکے دنیا اور ما فیہا سے غافل کر دیتے ہیں۔ سوائے دیوارِ خانہ یا چھت آسمان کے ان کو نظر نہیں آتا ہے۔ ہر مرد اس پردہ نشینی کو باعث عصمت بی بی سمجھتا ہے۔ در حقیقت ان کو سیکھنے علم و ہنر سے باز رکھتا ہے۔ میرے نزدیک یہ خیال بے جا ہے کہ پردہ نشینی باعث عفت کا ہے۔ بلکہ جو عورت بالطبع عفیفہ اور صالحہ بنے، اگر ہزار مردون بد میں بیٹھے عصمت اس کی قائم رہے اور بد طینت عورت کو کوئی لاکھ پردے میں چھپائے، وہ اپنی حرکات ناشائستہ سے باز نہ آئے۔ ولایت لندن میں ایک عورت حسینہ ناکدخدا غیر مردوں کے ساتھ ایک بگھی میں بیٹھ کر جس ملک میں چاہے چلی جاوے، ہرگز اس سے کسی طرح کا فساد یا حرکت بد واقع نہ ہونے پائے۔ اس لیے کہ مرد نیک کار ہیں اور عورتیں حیادار۔ پس کیوں کر امر نا مناسب کا خیال آوے۔ یہاں پردہ نشینی میں کیا کیا خرابیاں ہوتی ہیں، انجام کار ذلت اور رسوائیاں ہوتی ہیں۔ اگر یہاں کی عورتیں علم رکھتی ہوتیں اور بے پردہ باہر نکلتیں، ہرگز ایسا فساد نہ ہوتا۔ بھلا اس پردہ نشینی میں کیا فائدہ نکلا۔ حقیقت میں مرد نادانی کرتے ہیں کہ عورتوں اپنی کو ایک مکان تنگ پنجرے سے میں قید کرکے تماشائے عجائبات زمانہ سے باز رکھتے ہیں۔ کیا اندھیر ہے کہ آپ سیر دیکھتے پھرتے ہیں اور اپنے ہم جنسوں یعنی عورتوں کو اجازت نہیں دیتے ہیں۔ کافی ہے ان کو یہ پند “ہر چہ بر خود نہ پسندی، بر دیگرے مپسند”۔
ہر چند حال بہت تھا، لاکن اسی قدر لکھنا مناسب سمجھا۔ اس فقیر نے نہایت خون جگر کھایا، تب جا کر یہ رسالہ مختصر تیار ہوا۔ امید ہے کہ ارباب خرد اس کو پسند کریں، عیب گیری میں نہ مصروف ہوویں۔ اب بھی یوسف حلیم کمل پوش سلیمانی مذہب ارادہ سیر ملک سیہ پوشوں کا رکھتا ہے اور ایران و توران و استنبول اور روس و ماژندران وغیرہ کے جانے پر آمادہ ہے۔ بسب لاچاری اور نہ بہم پہنچنے زاد راہ کے یہاں پڑا ہے۔ امیر اور رئیس ہندوستان کے ایسے خیال کب رکھتے ہیں کہ خرچ راہ کا اور ایک محرر کامل ہمراہ میرے کر کے رخصت کریں۔ بندہ ملکوں میں پھرے اور بے کم و کاست حال ہر جا کا اپنی آنکھ سے دیکھ کر بیان کرے۔ اگر یاورئ بخت سے کوئی متکفل خواہش میری کا ہوا، فبہا، نہیں تو فقیر تھوڑے دنوں میں راہی ہوگا۔ خدا مسبب الاسباب ہے، کوئی سبب کر دے گا۔ پاجامہ فقیری پہن کر سیر ملکوں کی کرے گا۔ ایک دن وہ تھے کہ میں انگلستاں میں پریوں کے ساتھ چلتا پھرتا تھا، رات کو نفیس باجوں کی آواز سنتا تھا؛ ایک یہ وقت ہے کہ اس مکان نا ہموار میں چڑیلوں کے پڑوس رہ کر صورت کریہہ ان کی دیکھتا ہوں اور رات کو ان کی آپس کی لڑائی کے شور و غل سے سونے نہیں پاتا ہوں۔ ولایت لندن میں پریوں کی سیر دیکھتا، دکانون خوش قطع کے نظارے کرتا۔ بارش برف کا عجب عالم تھا۔ نسیم خوش گوار بہار سے دل شگفتہ ہوتا۔ سیکڑوں بگھیاں اور گھوڑے نفیس نظر آتے۔ راگ معشوقوں کے دل میں اثر کرتے۔ یہاں بجائے گھوڑوں کے گدھے اینٹوں کے لدے رات کو دوڑتے دکھائی دیتے ہیں اور بجائے پریوں کے چڑیلوں کے مونھ نظر پڑتے ہیں۔ جس مکان میں رہتا ہوں قریب اس کے اجلاف لوگ رہتے ہیں۔ ان کی عورتیں رات کو شراب پی پی کر درجہ بدرجہ ہمسایوں کو گالیاں دیتی ہیں۔ اگر بالفرض تھک کر چپ رہتی ہیں، مرد ان کے بد مست ہو کر آلہا گاتے ہیں، دماغ کو پریشان کرتے ہیں۔