القصہ یہ کلام کرکے اس مکان سے سرا میں آیا، ارادہ کلکتہ جانے کا کیا۔ اس سبب سے کہ میں جریدہ راہ خشکی سے آیا تھا، اسباب ضروری لندن سے اپنے ہمراہ لایا تھا۔ باقی کپڑے اور اسباب اپنا راہ دریا سے کلکتہ میں روانہ کردیا تھا۔ یہاں آکر کپڑے پرانے ہوئے، اس واسطے اور زیادہ ہم کلکتہ جانے پر مستعد ہوئے۔ خرچ راہ کا میرے پاس تھوڑا رہا۔ یقین کہ خشکی کی راہ سے پورا نہ پڑتا۔ اس وجہ سے ناؤ کی تلاش کرنے لگا۔ بہت جستجو سے ثابت ہوا کہ کئی برہمنوں نے شریک ہوکر ایک کشتی ٹھہرائی ہے، کلکتہ کی طرف ان کی جوائی ہے۔ بندہ نے اُن کے پاس جاکر اظہار کیا کہ میں بھی تمھارے ساتھ کلکتہ چلوں گا۔ انھوں نے یہ بات کہی: ہماری تمھاری شرکت نہ نبھے گی۔ تم ترک کہلاتے ہو، گوشت جانوروں کا کھاتے ہو۔ ہم لوگوں کو اس سے نفرت ہے پھر بھلا ہمارے تمھارے کیا لطفِ صحبت ہے۔ میں نے کہا بہر صورت تمھاری اطاعت کروں گا۔ راہ بھر گوشت نہ کھاؤں گا۔ جب یہ قول و قرار ہوچکا، ناؤ کا کرایہ ٹھہرایا۔ پھر پانچویں تاریخ جولائی کے ان برہمنوں کے ساتھ ناؤ پر سوار ہوکر کلکتہ چلا۔ بموجب اقرار ساری راہ روٹی گیہوں کی اور ماش کی دال کھایا۔ زمفری صاحب جو شریک حصہ ہملٹن صاحب کمپنی کے تھے، بسبب بیماری کے ایک بڑی ناؤ پر سوار ہوکر تبدیل آب و ہوا کے لیے نیل کی کوٹھی میں اپنے بھائی ڈاکتر راجڑ صاحب پاس آتے تھے۔ راہ میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ دور سے مجھ کو دیکھ کر بہت اشتیاق سے آواز دی کہ اے یوسف کمل پوش سلیمانی مذہب! کہاں جاتے ہو اور کدھر سے آتے ہو۔ میں اُن کی ناؤ پر جاکر دو گھڑی ٹھہرا، حال اپنا بیان کیا۔ پھر رخصت ہوکر اپنی ناؤ پر آیا۔ برہمنوں نے کلام انگریزی جب میری زبان سے سنا، حیران ہو کر پوچھنے لگے سچ کہو تم کون ہو۔ اگر مذہب مسلمانی رکھتے ہو، زبان انگریزی کہاں سے سیکھے ہو۔ میں نے کہا اس کا تعجب کیا۔ بہت مسلمان کلکتہ میں رہتے ہیں، انگریزی بولی بول سکتے ہیں۔ وہ تو بہت گھبرائے تھے۔ پر میرے سمجھانے سے سمجھے۔
چلتے چلتے ناؤ ہماری قریب چنکی پور کے پہنچی۔ بابت محصول پرمٹ کے وہاں روکے گئے اور بہت کشتیاں دیر سے رکیں تھیں۔ اس لیے کہ بے محصول دیے کیوں کر جاسکتیں۔ میں نے پوچھا سبب کیا جو محصول دینے میں اتنا عرصہ کھینچا۔ لوگوں نے کہا بابو فلانا یعنی داروغہ گھاٹ کا ابھی سوتا ہے۔ جب میں نے یہ حال سنا آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا بابو صاحب کتنی دیر میں جاگیں گے۔ دریافت ہوا دو تین گھڑی بعد خوابِ راحت سے فراغت پائیں گے۔ چار نا چار میں نے ناؤ کو ٹھہرایا۔ اسی عرصہ میں ایک فقیر لنگڑے گونگے نے ناؤ کے سامنے آکر اشارے انگلیوں سے سوال کیا۔ مجھ کو اس کی پالنگی اور بے زبانی پر رحم آیا۔ روٹی اور ترکاری منگوا کر دینے لگا۔ اُس حرام زادے نے تکرار کرکے سر ہلایا کہ مجھ کو پیسا دو، روٹی نہ لوں گا۔ کچھ کوڑیاں دیں وہ بھی نہ لیں۔ تب میرے ساتھیوں سے ایک برہمن نے روغنی روٹی نکال کر دی۔ وہ بھی دیکھ کر انکار کی۔ پیسا مانگتا اور کچھ نہ لیتا۔ معلوم ہوا کہ پیٹ بھرا ہے، شرارت اور بدذاتی سے مانگتا ہے۔ ہم نے سکوت کیا اور اُس کو کچھ نہ دیا۔ وہ کسی طرح نہ مانتا، ناؤ پر ڈھیلے پھینکتا۔ ہم اس کے ہاتھوں سے تنگ آئے۔ لاچار ہوکر اس کی پیٹھ پر دو تین کوڑے مارے۔ دکھلانے کو گونگا تھا، کوڑے کھا کر صاف بولنے لگا، لنگڑاہٹ بھی جاتی رہی۔ گالیاں سخت دیتا۔ میں نے خواب سمجھایا کہ اس حرکت سے تو باز آ۔ اُس نے ہرگز نہ مانا اور کہا تم کو تھانہ دار پاس لے چل کر قید کراؤں گا۔ مجھ کو اور زیادہ غصہ آیا، اُس کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر ایک گڑھے کیچڑ بھرے ہوئے میں دے مارا۔ سارا بدن اُس کا کیچڑ سے بھر گیا لیکن اگلی باتوں سے باز نہ آیا۔ آخر میں اُس کی بے حیائی سے لاچار ہوا، چار پیسے دے کر رخصت کیا۔ بعد اس کے کچہری پرمٹ میں آکر کہا: ہم نے چار گھڑی سے ناؤ کو یہاں ٹھہرایا، بابو صاحب ابھی تک آرام خواب میں ہیں، ہم ناحق عذاب میں ہیں۔ نائب اور گماشتوں اس کے نے رنجش سے کہا: سینکڑوں کشتیاں رکی رہیں، تم میں کیا سرخاب کا پر لگا جو اتنی دیر میں گھبرا گئے، ہم تک شکوہ لائے۔ چار گھڑی کیا اگر چار روز بھی تمھاری ناؤ یہاں رہے، بعید نہیں بلکہ حق بجانب ہے۔ میں اُس فقیر کی حرام زدگی سے پہلے ہی سے جل رہا تھا، ان کے کلام سن کر آگ بگولا ہوگیا مگر جواب تند نہ دے سکا، اپنے تئیں سنبھالا۔ بقول شخصے قہر درویش بجان درویش، غصہ ضبط کیا۔ اسکول گھر میں ایک ماسٹر انگریزی لڑکوں کے پڑھانے پر مقرر تھا۔ میں نے لاچار ہو کر اُس کے پاس جا کر زبانِ انگریزی میں کہا: تمھارے شہر میں یہ کیا اندھیر اور زیادتی ہے مسافروں کی ناؤ چار چار روز روکی جاتی ہے۔ بندہ محصول دیتا ہے۔ ناحق داروغہ گھاٹ کشتی روکتا ہے۔ ماسٹر صاحب نے میرے ساتھ بابو کے مکان پر آکر محصول دلوایا اور جھٹ پٹ رَونّا لکھوا کر مجھ کو دیا۔ انگریزوں کی رائے صائب سے یہ امر بعید نظر آتا ہے کہ اُن کی عمل داری میں بسبب غفلت کے ایسا ظلم صریح ہوتا ہے۔ وہ بابو یعنی داروغہ پرمٹ جس کو انگریز جانتا، فی الفور رَونّا کشتی اُس کی لکھوا کر روانہ کرتا۔ مگر ہندوستانیوں پر جبر تھا۔ شاید کوئی انگریز لباس ہندوستانی سے وہاں نہیں آیا۔ نہیں تو حال اُس کا کھل جاتا اور تدارک قرار واقعی ہوتا۔
چلتے چلتے پچیسویں تاریخ جولائی کے، ناؤ ہماری کلکتہ پہنچی۔ دوستوں آشناؤں سے ملاقات ہوئی، سبھوں نے میرے حال پر شفقت کی۔ ہملٹن کمپنی اور کران صاحب نے یہ بات کہی کہ تم کرایہ کی حویلی نہ لو، ہمارے مکان پر اُترو۔ میں نے کثرت صحبت باعثِ کمی الفت سمجھ کر نہ مانا۔ محلہ ٹبک خانہ میں ایک مکان بیس روپے کرایہ کا مع تنخواہ باغبان لے کر رہا۔ بیچ میں عمارت نفیس اور مکان خوش وضع تھے۔ گرداگرد، درخت میوے اور پھولوں کے۔ جب میں لندن جاتا تھا، سیر اس شہر کی بخوبی کرچکا تھا۔ مگر اس خیال سے کہ شاید انقلاب زمانہ سے کچھ صورت بدلی ہو پھر پھرا۔ حال وہاں کا دیکھا۔ جن دو کانوں پر چھپر پڑے تھے، کھپریل بنی۔ جن راہوں میں تنگی تھی، وسعت ہوئی۔ جو دکانیں سابق بدقطع تھیں، اب کی مرتبہ مرتب اور تیار دیکھیں۔ زمانہ عجب انقلاب رکھتا ہے کہ کسی آدمی یا جگہ کو سدا ایک حال پر نہیں چھوڑتا ہے۔ بعد اس کے اور مکانوں میں جن کو پہلے نہیں دیکھا تھا، دوستوں کے ساتھ دیکھنے گیا۔ لطف و صنعت سبھوں کا بنظرِ غور دیکھا۔ چنانچہ مارچ صاحب نے کلڈھال میں، مارس صاحب نے ٹون ہال میں، کران صاحب نے میوزیم اور اَور جاؤں پر لے جاکر تماشا دکھلایا۔ وصف اُن مکانوں کا زبان سے بیان نہیں ہوسکتا۔ بنگالیوں کے لڑکے دیکھے۔ بے تکلف مثل ولایتیوں کے کلام انگریزی کرتے۔ چرچا علم کا روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ اگر یہی حال بیس برس تک رہتا ہے، یقین کہ وہاں کے رہنے والوں سے کوئی بے علم و جاہل نہ رہے گا بلکہ بجائے خود ہر ایک اُستاد بنے گا۔ لڑکے بنگالیو ں کے شوق دلی سے علم انگریزی پڑھتے ہیں۔ مدرسوں میں اُستاد فارسی خواں بھی نوکر رہتے ہیں۔ علم فارسی لڑکوں کو پڑھاتے ہیں۔ اسی طرح عربی کے لیے عالم کامل جانب شاہِ لندن سے مقرر ہوئے ہیں۔ طالبِ علموں کو صرف نحو، منطق، ریاضی، ہیئت، فلسفہ، حکمت پڑھانے میں مستعد رہتے ہیں۔ اگرچہ بندہ عربی فارسی میں دخل نہیں رکھتا ہے کہ بیان کمالات ان کے کا بتفصیل کرے، مگر ایک عالم کے دو تین شاگردوں سے ملاقات ہوئی، کامل پائی اُن کی عقل و دانائی۔ اس دلیل سے ثابت ہوا حال مستعدی مدرسوں کا کہ جن کے ادنیٰ شاگردوں میں یہ عقل رسا ہے کیا مذکور اُن کے علم و فضیلت کا ہے۔ غرض کہ کوشش انگریزوں سے کلکتہ دارالعلم ہوا ہے۔ قلعہ کلکتہ کا سب قلعوں سے زیادہ مضبوط ہے اور متین، سیکڑوں توپیں اس میں لگیں۔ اگر روپیہ آدمی کے پاس موجود ہو جو چیز کہیں نہیں ملتی، اُس شہر میں میسر آتی ہے۔ عجب نادر شہر اور بستی ہے۔ اگر کسی پاس روپیہ اور مال ہووے وہاں جا کر مزہ زندگانی کا لوٹے کہ ہمہ چیز وہاں ملتی ہے۔ ہر ملک کے آدمیوں کی صورت نظر آتی ہے۔ کنارے گنگا کے چنپا گھاٹ پر ہر روز ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ شامِ اودھ اور صبحِ بنارس بھول جاتی ہے۔ ہر طرف سبزہ اُگا ہے۔ جاڑے گرمی اور ہرفصل میں ہرا رہتا ہے۔ جہاز روم اور روس اور حبش کے یہاں آ کر مقام کرتے ہیں۔ صاحبان انگریز اور بی بیاں بگھی پر سوار ہو کر وہاں ہوا کھانے جاتے ہیں۔ گھوڑے اور بگھی مانند رسم لندن کے یہاں کرایہ پر ملتے ہیں۔ روز بروز سب سامان اور انداز لندن کے سے ہوتے جاتے ہیں۔ صاحب علم اگر اُس شہر میں جائے، ہرگز مفلس و محتاج نہ رہنے پائے۔ سڑکیں یہاں کی ہموار اور صاف، آئینہ مثال۔ کوڑی یا مردے جانور پڑے رہنے کا کیا مجال۔ رستے ایسے ماہی پشت بنے کہ پانی یا جو کچھ اُس پر گرے، دونوں طرف ڈھلے۔ ایک قسم آدمی پہاڑی جوڈھانکر کہلاتے ہیں، سرکار سے کئی ہزار روپے درماہہ سوا چھکڑوں کے پاتے ہیں۔ وہ تمام شہر کا کوڑا اور گندا پانی موریوں کا چھکڑوں پر لاد کر باہر پھینک آتے ہیں۔ اب ہندوستان میں کوئی شہر مقابل اُس کے نہیں نظر آتا ہے، بندہ از راہ انصاف سچ کہتا ہے۔ میں اسی سیر و تماشے میں دو مہینے وہاں رہا اور حال سفر اپنے کا بطور کتاب جمع کرنا چاہا مگر میرے پاس خرچ تھوڑا سا رہ گیا تھا اور کوئی یار و مددگار نہ ہوا۔ لا چار قصد روانگی کا کیا۔
ساتویں تاریخ ستمبر کی ایک چھوٹی ناؤ کرائے پر ٹھہرا کر گنگا کی راہ سے بنارس چلا۔ اُس سال گنگا بڑی طغیانی پر تھی اور بسبب بڑھنے پاٹ کے آنب کے باغوں میں بہتی۔ یعنی اپنی جگہ اصلی سے بہت بڑھی تھی۔ زور بہنے اپنے کے سے سیکڑوں درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر ڈوبایا۔ دو تین دن تک ہم کو کنارہ نہ نظر آیا۔ لاچار ہو کر ایک آنب کے درخت میں ناؤ کی رسی کو باندھا۔ شب بھر وہاں مقام کیا۔ صبحی پھر روانہ ہوا۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اس مرتبہ گائے بھینسوں کو پانی میں ڈوبتے، سینکڑوں سانپ بچھو ہماری ناؤ پر چڑھے آتے۔ بہ ہزار خرابی دن رات چل کر دیوان گنج میں بھاؤ سنگھ کی کوٹھی میں ڈاکتر راجڑ صاحب کے پاس پہنچے۔ وہ تجارت نیل اور ریشم کی کرتے تھے۔ راجڑ صاحب اور ان کی میم نے نہایت شفقت و عنایت فرمائی۔ میں نے بہر صورت وہاں آسائش پائی۔ سچ تو یہ ہے کہ بندہ نے ان کی میم صاحب کی سی عورت خلیق کم دیکھی کہ مسافر نوازی میں بدل و جان مصروف ہوئی۔ بندہ تین دن عیش و عشرت میں رہا۔ تفریح طبع کے واسطے شکار بھی کیا۔ رمفری صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، انھوں نے بیماری سابقہ سے صحت پائی تھی۔ بہت گرم جوشی سے پیش آئے۔ دیر تک ذوق شوق سے ہم آغوش رہے۔ بعد تین دن کے فقیر نے نیّت چلنے کی کی، راجڑ صاحب اور میم صاحب سے رخصت چاہی۔ دونوں صاحبوں نے یہ بات کہی، ابھی نہ جاؤ، چند روز یہاں رہو۔ میں نے بہت کہہ سُن کر راضی کیا اور رخصت ہو کر وہاں سے روانہ ہوا۔ حق تعالیٰ راجڑ صاحب اور ان کی میم صاحب کو ترقی مراتب پر پہنچاوے کہ دل اُن کا مسافر نوازی پر مصروف رہتا ہے۔ ولایت میں ان کے بھائی سے بھی ملاقات ہوئی تھی، انھوں نے بھی میرے حال پر کمال مہربانی فرمائی تھی۔
جب بندہ راجڑ صاحب سے رخصت ہو کر کشتی پر سوار ہو کر چلا، راہ میں ایک دن تیسرے پہر دریائے گنگ میں ایک کو ڈوبتے دیکھا۔ ملاحوں سے کہا شاید یہ کوئی آدمی ہے ڈوبتا، اگر کوئی تم میں سے جائے اور اس کو میرے پاس لائے، موافق مقدور کے انعام دوں گا۔ ملاحوں نے جواب دیا: اس دریائے قہار میں اپنے تئیں گرانا عاقبت اندیشی سے دور ہے اور ناؤ کو بھی اس طرف لے چلنا سراپا فتور ہے، مبادا صدمہ پانی کا پہنچے، ناؤ ڈگمگا کے ڈوبے۔ اسی طرح سینکڑوں آدمی ڈوبتے ہیں، ہم کس کس کو دریا سے نکالیں۔ جب ملاحوں نے میری بات نہ سنی اور کسی اور نے بھی اس کی طرف توجہ نہ کی، میں نے بے اختیار ہو کر دل میں کہا اگر طبیب دوا مریض کی نہ کرے مواخذہ دار ہووے۔ میں تیرنے میں دخل رکھتا ہوں۔ اگر اس کو دریا سے نہ نکالوں گنہگار خدا کا ہوں۔ بلا تحاشا آپ دریا میں کودا، اُس ڈوبتی عورت کو نکالا، کنارے لا کر کہا: اگر تجھ کو منظور ہو میری ناؤ پر آ کہ تیری دوا کروں، صورتِ صحت دکھلاؤں۔ اس کمبخت نے نہ مانا، دل میں کچھ اور ہی خیال کر کے کہا: میں کیوں تیری کشتی پر آؤں، تو دھرم میرا برباد کرے گا۔ میں نے دل میں کہا: سبحان اللہ جس سے نیکی کی وہ کچھ اور ہی سمجھے۔ کلام شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا یاد آیا، شعر:
نکوئی با بداں کردن چناں ست
کہ بد کردن بجای نیک مرداں
آدمی کو چاہیے کہ ناقدر دان کے لیے جان اپنی محل ہلاکی میں نہ ڈالے۔ بُروں کے ساتھ برائی سے در گزر نہ کرے۔ یہ حال دیکھ کر اپنی ناؤ پر سوار ہوا اور منزل مقصود کا رستہ لیا۔
چلتے چلے منگیر پہنچا۔ ناؤ سے اُتر کر شہر میں گیا۔ شہر چنداں وسعت نہ رکھتا مگر آباد خوب تھا۔ آب و ہوا وہاں کی اور شہروں سے معتدل اور بہتر تھی۔ قریب اس کے کئی پہاڑ اُن پر سبزی لگی۔ متصل اس سے ایک چشمہ پانی کا خوشگوار، کئی مکان سارجنوں کے اس قرب میں طیار۔ سارجن مع اپنی بی بی لڑکوں کے لبِ جو بیٹھے، مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر آثار شگفتگی اور بشاشت کے نمودار۔ پیشہ ور وہاں کے اپنے اپنے فن میں کمال رکھتے۔ عمدہ عمدہ چیزیں کنارے گنگا کے لا کر مسافرون کشتی نشینوں کے ہاتھ سستی بچتے۔ چنانچہ میرے سامنے پنجرے عجیب و غریب اور گوشت اور مچھلیاں اور سب چیزیں ارزاں بیچیں۔ ایک شخص نے چھ مچھلیاں بڑی ایک روپے کی مول لیں۔ میرے نزدیک اس قیمت پر مفت تھیں۔ وہاں سے ایک پالکی کرایہ کی لے کر سیتا کنڈ کے جنگل میں گیا۔ شہر سے تین کوس پرے تھا۔ وہاں پہاڑ بسبب روئیدگی کے سبز ہو رہے تھے۔ درخت میوؤں سے لدے ہوئے، آواز جانوروں کی موزوں، سبزہ اُگا زمرد گوں۔ ویسی زمین ارم تزئین ہندوستان میں کم نظر آئی، سبزی اور ہوائے ساز گار اس کی دل کو بھائی۔ اُس دشت پُر فضا میں تین چار تالاب برابر تھے۔ خوشگواری میں ایک دوسرے سے بہتر، سرد پانی سبھوں کا۔ الا بیچ والے کا نہایت گرم تھا۔ ووہی سیتا کنڈ کہلاتا، اگر کوئی اُس میں ہاتھ ڈالتا۔ شدّتِ گرمی سے آبلہ پڑ جاتا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کر قدرت الٰہی پر غش کر گیا کہ سبھوں میں پانی سرد ہے بیچ میں جلتا آگ سا۔ کئی ٹھلیاں مول لے کر ٹھنڈا اور گرم ملایا۔ جب وہ حد اعتدال پر آیا اُس سے نہایا۔ عجب تاثیر اُس کی تھی کہ کسالت اور ماندگی دور ہوئی۔ بعد اس کے ایک درخت کے سائے میں بیٹھا شیشہ عرقِ انگور کا جو ساتھ لے گیا تھا کھولا۔ ٹھنڈھا پانی اُس چشمۂ شیریں کا ملا کر دوستوں کو یاد کر کے دو تین پیالے اس کے پیے، زندگی کے مزے اور لطف حاصل کیے۔ جب وہ چشمے خوشگوار اور کوہ و صحرائے سبزہ زار دیکھا، بے اختیار دل میں آیا کہ ساری عمر یہاں بیٹھ کر یادِ خدا میں مصروف رہوں۔ طریقۂ اسلاف پر گلّہ بکریوں اور گھوڑوں کا چراؤں مگر بن نہ پڑا۔ مشکل نظر آیا۔ بعد چار گھڑی کے وہاں سے پھر آیا۔ ناؤ پر سوار ہو کر راہی ہوا۔
عظیم آباد پہنچ کر دو دن سیر کرنے کو رہا۔ وہ شہر کنارے گنگا کے ہے بہت آباد ہوا۔ مگر یہاں کی آب و ہوا میں رطوبت ہے، اکثر لوگوں کو مرض پر صعوبت ہے یعنی رہنے والے یہاں کے اکثر مرض فتق یا فیل پائی میں گرفتار ہیں۔ سبھوں کا رنگ زرد، دبلے اور نزار ہیں۔ قریب اُس کے دانہ پور ہے۔ وہاں انگریزوں کا توپ خانہ اور لشکر ہے۔ آب و ہوا وہاں کی بہ نسبت عظیم آباد کے بہتر ہے۔ یہ سب سیر دیکھ کر بنارس میں آیا۔ یہاں آ کر ایک چھکڑا کرایہ کا ٹھہرایا۔ اسباب اپنا ناؤ اسے اُتار کر اُس پر لادا اور گھوڑا پچھّم کا مول لیا ہوا جو وقت جانے کلکتہ کے یہاں چھوڑ گیا تھا، اُس پر سوار ہو کر دار السلطنت لکھنو چلا۔ عمل انگریزی سے بخوبی نبھ آیا۔ مگر شاہ اودھ کے عمل میں زمینداروں نے جا بجا کوس دو کوس کے بعد بابت کوڑیون محصول کے سخت ستایا۔ ہر چند کہتا تھا میرے چھکڑے میں نہیں کوئی اسباب محصول کا پھر تم کسی چیز کا محصول مانگتے ہو، ناحق اور بے وجہ ستاتے ہو۔ اس کا جواب یہ دیتے تم ہمارے گانو سے آ نکلے ہو، اس کا محصول دو۔ جا بجا اس بات پر تکرار ہوئی پر کسو نے میری بات نہ سنی۔ آخر لا چار ہو کر ایک کتّا ولایتی جو اپنے ساتھ لایا تھا، اُس کے گلے میں رسّی ڈال کر چھکڑہ سے باندھا۔ جہاں کوئی زمیندار رہ گذری کی کوڑیاں مانگتا، میں جواب میں کہتا: یہ کتّا اور چھکڑہ ہے، کپتان ڈاسن صاحب کا۔ سارا اسباب تم کو سونپتا ہوں، میں کپتان صاحب پاس جاتا ہوں۔ تم اس کی حفاظت کرو۔ مبادا کچھ کم ہو، جوابدہی میں پھنسو۔ نام انگریز کا سنتے ہی سب خاموش ہو جاتے۔ نرمی اور ملایمت سے پیش آتے۔ طرفہ تر یہ ماجرا ہے۔ قابل استہزا ہے کہ جو لوگ ملازم شاہ اودھ کی نگاہ بانی کے لیے مقرر ہیں وہ بھی کوڑیاں تحصیلتے ہیں۔ آمادہ تر محافظت راہ کی جیسی جیسی کچھ کرتے ہیں، لوگ خوب جانتے ہیں۔ زمین اس نواح کی قابل زراعت اور بہت بہتر ہے۔ مگر بسبب ظلم عالموں کے ہزاروں بیگھہ خراب افتادہ اور ابتر ہے۔ بلکے گانو کے گانو جا بجا جلے پڑے ہیں۔ سوائے جانورون درندہ کے کہیں آدمی نظر نہیں آتے ہیں۔ شاہ اودھ کی طرف سے جو چکلہ دار آبادی ملک اور تحصیل روپے کے لیے جاتا ہے، حاکم سابق سے زیادہ ظلم و بدعت کرتا ہے۔ اپنی منفعت کے خیال سے خوف خدا اور بادشاہ سے غافل ہوتا ہے، رعیت کو ظلم سے اُجاڑ دیتا ہے۔ عاملوں کے یہ ہتھکنڈے ہیں کہ وقت تردد کے اسامی اور زمینداروں کو دِلاسے سے بلاتے ہیں، پٹہ قبولیت روپے بیگھہ کا لکھواتے ہیں۔ جب غلّہ تیار ہوا، دو روپے بیگھہ مانگتے ہیں۔ اپنے قول و قرار سے بدل جاتے ہیں، اس وجہ سے کسان بھاگتے ہیں۔ زمیندار عاملوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور بد قولی کے سبب سے ایک کوڑی نہیں دیتے ہیں۔
عامل فوج بادشاہی بلوا کر گڈھی قلعہ اُن کا کھدواتے ہیں۔ گائے، بیل اور غلّہ ان کا بیچ کر دُگنا تگنا روپیہ بٹھلاتے ہیں۔ زمین یہاں کی قابل زراعت ہے، پر افسوس کہ چکلہ داروں کی بدعت ہے۔ شاہ اودھ بہ سبب کثرت مشاغل کے اس امر سے غفلت رکھتا ہے، ورنہ ان ظالمون بوم ہفت کو اس ظلم ناحق سے متنبہ کرتا۔