قصہ مختصر بندہ سرائے میرزا پور سے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ سولہ کوس منزل طے کر کے بنارس پہنچا۔ یہ شہر میرا دیکھا ہوا تھا۔ پر اس بار بھی خوب پھرا اور سیر دیکھتا رہا۔ رستہ بازار کا مانند شہرون ہند کے تنگ تھا۔ الّا خوب آباد ہے اور اسباب سب قسم کا ملتا۔ قصائی جو بکری کا گوشت بیچتے تھے ایک سڑی دکان مثل بیت الخلا پر بیٹھے تھے۔ میلے کچیلے کپڑے پہنے۔ گوشت کو ایک کثیف چیتھڑے پر رکھے ہوئے۔ اوپر سے ایک اور میلا کپڑا اوڑھائے، خریداروں کو اُس کے دیکھنے سے نفرت آتی۔ بیچتے وقت ہزاروں مکھیاں گرتیں، بہتیری اُس میں حل ہوتیں۔ ہندوستان میں یہ شہر عمدہ مشہور ہے۔ جب اُس کا یہ دستور ہے، اَور قصبات و دیہات کا کیا مذکور ہے۔ برخلاف انگلستان کے کہ وہاں قصائی پوشاک سپید اور نفیس پہنے، دکان رشک گلستان پر نفاست سے بیٹھے ہیں۔ ٹکڑے گوشت فربہ کے مانند دستون پھول کے برابر لٹکا کر بیچتے ہیں۔ ایک طرف پارچے اور بھیڑ مسلّم لٹکی، دوسری طرف چٹھی قیمت ہر ایک کی لکھی ہے۔ جو خریدار آتا ہے، بے تکلف چٹھی کے موافق قیمت دے کر ٹکڑا گوشت کا لے جاتا ہے۔ اسی طرح مچھلی اور مرغی بیچنے والوں کا حال ہے۔ وہاں کے سب دکانداروں کی یہی چال ہے۔ دکانوں کو سیسر سے بلند کیا، صفائی سے اُن پر جوبن تھا۔ افسوس کہ ہندوستانی اپنے اپنے فنون میں کاہل ہیں، صفائی ستھرائی ہر چیز کی سے غافل ہیں۔
بنارس میں کنارے گنگا کے ایک مکان عالیشان بنا ہے۔ سابق وہ بت خانہ تھا عالمگیر نے اپنے عہد میں اس کو کھدوا کر بطور مسجد بنوایا ہے۔ اب وہ تماشا گاہ خلائق ہوا۔ بندہ بھی ایک روز اس کو دیکھنے گیا۔ بدویوں کی پوشاک پہنے تھا۔ کئی راجہ ہندو اور مسلمان صاحب آبرو وہاں موجود تھے۔ میری وضع نرالی دیکھ کر حیران ہو کر پوچھنے لگے تم کون ہو کہاں سے آتے ہو۔ میں نے کہا فقیر ہوں پھرتے پھرتے ادھر بھی آ نکلا۔ تمھیں اس تقریر سے غرض کیا۔ انھوں نے نہ مانا زیادہ اصرار کیا۔ میں جواب دیا کہ مرد سیاح جادہ پیما ہوں۔ ملک فرنگستان سے آتا ہوں۔ وہ بہت متعجب ہوئے کہ اللہ بہت دور سے آئے۔ اب بتاؤ کہ انگلستان بنارس کی سی آبادی رکھتا ہے۔ یہاں کا سا مکان اور محل بلند سنگین وہاں بھی بنتا ہے۔ یہ سن کر میں ہنسا۔ انھوں نے تعجب کیا کہ سچ کہو ہنسنے کا باعث کیا ۔ تب تو میں نے کہا وہ ملک روئے زمین میں بہشت خانہ ہے۔ اُس کے سامنے یہ شہر اور عمارت اُس کی پاخانہ ہے۔ اس شہر ناہموار کو اُس سے کیا نسبت، اس میں اُس میں بڑا تفاوت۔ وہاں ایسی فضا اور وسعت ہے کہ گویا نمونہ جنت ہے۔ اگر وہاں ایسی تنگی اور عفونت ہوا ہوتی، انگریزوں کی زیست اصلاً نہ ہوتی۔ یہاں کی سی بے حیائی اگر وہاں کے لوگ کرتے انگریز ان لوگوں کو جان سے مارتے۔ یہاں کے لوگ عجب بے حیا ہوتے ہیں کہ ایک لنگوٹی غرقی سے ستر ڈھاکتے ہیں، اُس سے مقام بول و براز نظر آتے ہیں۔ پر وہ کسی زن و مرد سے شرم و حیا نہیں رکھتے ہیں۔ انگلستان میں مرد اور عورت تہرے چوہرے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ کیا ممکن کہ سارے بدن میں اکہرا کپڑا بھی پہنیں۔ اس سرزمین میں بہ نسبت ہر اقلیم کے میوے اور نعمتوں کی زیادتی ہے، روز بروز ثروت اور حشمت کی ترقی ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر وہاں یہ سب امر میسر ہوتے ہیں انگریز کیوں اُس شہر کو چھوڑ کر تلاش معاش میں اور ملکوں میں پھرتے ہیں۔ تم ہندوستانی ہو کر لندن کی تعریف کرتے ہو۔ شاید وہاں انگریزوں کے ساتھ کھانا کھایا اور اُن کے مذہب میں آئے ہو۔ اس سبب سے اُن کا دم بھرتے ہو۔ میں نے کہا تم غلط کہتے ہو، کوئی کسو کے ساتھ کھانے سے اُس کے مذہب میں نہیں آ جاتا ہے۔ مذہب دل سے تعلق رکھتا ہے۔ ساتھ کھانے اور زیادتی صحبت غیر مذہب والے سے مذہب میں کچھ خلل نہیں آتا۔ میں نے اگرچہ انگریزوں کے ساتھ کھایا، پر اس وجہ سے اُن کے مذہب میں نہیں آیا۔ جب تک دل سے ایمان نہ لاؤں اور ان کے مذہب میں نہ آؤں۔ میں مذہب سلیمانی رکھتا ہوں۔ موافق اور مخالف دونوں سے صلح کرتا ہوں۔ میں نے تم سے جو تعریف لندن کی کی، ساری حق اور صحیح تھی۔ اس میں مذہب سے کچھ واسطہ نہیں۔ انگریزوں سے مجھ کو علاقہ نہیں اور یہ جو تم نے کہا کہ اگر انگلستان میں یہ ناز و نعمت ہوتی، انگریز لندن سے کیوں باہر نکلتے۔ صورت اس کی یوں ہے کہ اُس اقلیم کی وسعت پانسو کوس کی ہے۔ ہمیشہ لوگوں کی اولاد بڑھتی ہے۔ اگر سب وہیں رہتے مکان رہنے کے نہ ملتے۔ اس واسطے بعضے اُس شہر کو چھوڑ کر عربستان یا ہندوستان وغیرہ میں جاتے ہیں، نقد و اسباب جمع کرکے پھر اپنی ولایت آتے ہیں۔ اسی سے خیال کرو اگر اُس ملک میں یہ لطف و خوبی نہ ہوتی کیوں انگریز اور شہروں سے روپیہ جمع کرکے وہاں چلے جاتے اور جو کہ سامان خاطر خواہ نہیں پاتے ہیں، جہاں جاتے ہیں وہیں بسر کرتے ہیں۔ اس صورت میں انگریزوں کا اور ملک میں رہنا بلاچاری ہے، گویا بلبل باغ کی رہنے والی کو قفس میں گرفتاری ہے۔ جب پنجرے سے چھوٹے، باغ میں اُڑ جائے۔ انگریز بھی جب طاقت پائیں، ملک بیگانہ سے لندن میں جاویں اور یہ جو ہندی مشہور کرتے ہیں کہ انگریز ہندوستان میں اکثر ثروت پاتے ہیں، لندن سے محتاج آتے ہیں محض جھوٹ کہتے ہیں۔ اُس ملک کا انتظام ایسا کہ جب لڑکا کسی کے ہاں پیدا ہوا، دائی کی گود میں سونپا۔ یہاں تک کہ سنِ شعور کو پہنچا۔ صفائی کا یہ عالم کہ کوئی کپڑا میلا یا متعفن اُس کے پاس تک نہیں آنے پاتا۔ پھر مکتب گلزار آئین میں فرش سفید بچھاتے ہیں، پوشاک صاف ستھری پنہا کر اُس کو پڑھواتے ہیں۔ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ناز و نعمت سے پرورش دیتے ہیں، بعد اس کے زیادہ مستعدی کے لیے اسکول بھیجتے ہیں۔ وہاں بھی ہزاروں روپے عوض تعلیم وغیرہ کے دیتے ہیں۔ بعد فراغت ان سب باتوں کے کسی عہدہ ادنیٰ میں سو سوا سو روپے کا نوکر شاہی ہوتا ہے، بتدریج رتبے اور عہدہ اعلیٰ کو پہنچتا ہے۔ بھلا اگر اُن کو دولت و حشمت نہ ہوتی، صورت تعلیم و تربیت اس صرف زائد سے کیوں کر ہوسکتی۔ خُرد بزرگ وہاں کے پُر شرم و حیا۔ لڑکوں کا ایسا فہم رسا کہ ثروت آبائی پر مغرور نہ ہو کر مثل عوام کے ہزاروں محنت و مشقت سے علم و ہنر حاصل کرتے ہیں، باپ اُن کے ان باتوں سے نہایت راضی اور خوش ہوتے ہیں۔ لڑکے ہندوستان کے باپ کی حشمت پر غرہ کرتے ہیں، کسبیوں کی صحبت میں اوقات برباد کرکے انجام کار نہیں سوچتے ہیں کہ بعد باپ کے ہم تدبیر معاش کس ہنر سے کریں گے، زندگی اپنی کیوں کر نباہیں گے۔ طرفہ ماجرا یہ ہے کہ باپ اُن کے اُن کا حال لہو لعب دیکھ کر فکر مآل سے غافل ہوکر خوش ہوتے ہیں۔ درشتی کا کیا مقام، کلمۂ پند و نصیحت بھی نہیں کہتے ہیں۔