یہ حالات دیکھ کر انتیسویں تاریخ فروری کی گدھے پر سواری کی اور اونٹ باربرداری کا کرایہ پر ٹھہرا کر بندہ پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب کے ساتھ مصر سے سوئیس کو چلا۔ یہاں سے وہاں تک تین منزل کا فاصلہ تھا۔ تمام راہ کھانا پانی میسر نہ آتا، اس لیے ہر چیز ضروری اور کھانا پانی، شراب میوہ اُونٹوں پر لاد کر ساتھ لیا۔ راہ میں عورتیں مصر کی دیکھیں۔ برقع ریشمی پہن کر مقدور والیاں باہر نکلتی تھیں اور جو غریب اور بے مقدور تھیں سوتی برقع پہنے پھرتیں۔ بہ سبب برقع کے بدن اُن کا سر سے پاؤں تک چھپا تھا، کوئی عضو نظر نہیں آتا۔ آنکھوں کے برابر ایک ٹکڑا جالی کا سیا تھا، اُس سے رستہ نظر آتا۔ بعض کو دیکھا کہ پردہ اُٹھا کر مونھ اپنا راہیوں کو دکھاتیں، برقع برائے نام پہنے تھیں۔ چہروں اُن کے سے جمالِ یوسفی عیاں تھا۔ چال ڈھال میں حسنِ زلیخائی نمایاں۔ مگر اتنا عیب رکھتیں کہ قد و قامت میں اکثر موٹی تھیں۔ ایک مکان نظر آیا، وہ مقبرہ حضرت امام حسینؓ کا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہاں سر مبارک آنحضرت کا دفن ہوا۔ عمارت اُس کی عالیشان۔ ستون اُس کے چاندی کے مستحکم بنیان۔ گرد اُس کے قرآن خواں قرآن شریف پڑھتے۔ مراد والے وہاں آ کر منت مانتے۔
دیکھتے بھالتے کنارے مصر کے پہنچا۔ وہاں دو تین لڑکیون خوبصورت نے آ گھیرا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے سوال بخشش و انعام کا کرتیں اور پیچھے ہمارے دوڑتی آتیں۔ مجھ کو ان کے جمال اور کمالِ افلاس پر رحم آیا۔ ان گُلوں کا کانٹوں میں دوڑنا دل کو نہ بھایا۔ بطریق بخشش اُن کو کچھ دیا اور رخصت کیا۔ وہ اپنی زبان میں دعائیں دیتی پھر گئیں اور بخشش پانے سے نہایت خوش ہوئیں۔ مصر میں اس قدر غلبہ سائلوں اور فقیروں کا ہوتا ہے کہ مسافروں کو راہ چلنا مشکل پڑتا ہے اور خوف ترکوں سے کوئی عورتوں کی طرف بدنظری سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ میری زبان جہاں کے میوؤں سے ذائقہ یاب ہوئی مگر کہیں بہتر مصر کی نارنگی سے خوش ذائقہ نہ پائی۔ مٹھائی اس کی مثل شیریں ادائی معشوق۔ کھٹائی اُس کی مرغوبِ طبائعِ مخلوق۔
مصر سے دو کوس آگے بڑھے۔ کئی مقبرے قدیمی صحرا میں نظر آئے۔ اہل عرب سے حال اُن کا پوچھا۔ انھوں نے کہا مقبرہ ہارون رشید اور کئی بادشاہوں کا ہے۔ مدّت کا بنا ہے۔ سامنے سے عمارت مستحکم اور وسیع نظر آئی۔ مگر بہ سبب رواروی راہ کے وہاں کی سیر نہ ہو سکی۔ اس خیال سے کہ جہاز دودی سوئیس سے رواں ہو جاوے گا، بندہ سرگرمِ تردد تھا۔ چلتے چلتے صحرائے ریگستان میں پہنچا۔ وہاں ہم سب کھانا کھا کر سو رہے، صبح اٹھ کر پھر چلے۔ راہ پُر آفت و بلا تھی۔ صورت دانے پانی کی کہیں نظر نہ آئی۔ ہزار خرابی سے قطع مسافت کرتے تھے۔ تیسری منزل تیئیسویں تاریخ فروری کے پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب کہنے لگے ہم آگے چلتے ہیں، سوئیس میں جا کر جہاز ٹھہراتے ہیں، تم آہستہ آہستہ اُونٹوں کے ساتھ آؤ۔ اُن کو احتیاط سے لے آؤ۔ اگر جہاز چلا جاوے گا کچھ بن نہ آوے گا۔ چلتے وقت ہیڈ صاحب نے میرے گدھے کو تیز رفتار قدم باز دیکھ کر اپنی سواری میں لیا۔ اپنا گدھا سست قدم میری سواری کو دیا۔ میں نے چار ناچار قبول کیا۔ وہ دونوں صاحب جلدی سے آگے بڑھے۔ ہم اونٹوں کے ساتھ چلے۔ جب رات آئی، بہت تاریکی چھائی۔ چلتے چلتے پاؤں گدھے میرے کا ایک گڑھے میں جاتا رہا۔ میں بھی اُس کے اوپر سے مع تلوار بندوق کے اُس میں گرا۔ عرب جو میرے ساتھ تھے، حال پوچھنے لگے۔ میں زبان عربی سے ناآشنا تھا۔ اُس وقت اور ہر حال میں طائب طائب کہتا۔ طائب ان کی بولی میں بجائے بہتر کے بولتے اور میں نے کہا بیچ ایسے وقت مصیبت کے۔ انھوں نے یہ سن کر قہقہہ مارا اور غار سے مجھ کو نکالا۔ بڑی محنت اور مشقت سے ڈیڑھ پہر رات گئے سوئیس میں مج صاحب کے مکان پر جا کر اُترا۔ سارا اسباب اونٹوں سے اُتارا۔ مج صاحب ملازم شاہ لندن کے تھے۔ پہنچانے اسباب ضروری جہاز کے لیے مقرر سرکار سے تھے۔ اپنے دونوں ہمراہیوں کو خواب غفلت میں پایا۔ جگانا اُن کا مناسب نہ سمجھا۔ ہاتھ پاؤں دھو کر کچھ کھانا کھایا اور سو رہا۔
صبح اُٹھا حال جہاز کا پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ان دونوں کے آنے سے پہلے روانہ ہو گیا۔ یہ سن کر بہت ملول ہوا کہ یہاں کچھ دنوں رہنا پڑا۔ حال اس شہر کا اس طرح دیکھا کہ کہیں سبزی اور درختوں پھول کا نام و نشان نہ تھا۔ یہاں تک کہ پہاڑ بھی سبزے سے خالی پایا۔ تمام شہر کے کنوؤں کا پانی کھاری تھا۔ نہ کوئی چشمۂ شیریں جاری ہے۔ وہاں سے تین کوس کے فاصلہ پر ایک کنواں اچھا تھا۔ نام اس کا بیر موسےٰ اور پانی اُس کا میٹھا۔ سقّے مشکوں میں پانی اُس سے بھر لاتے۔ بازار میں لا کر بیچ جاتے۔ خریدار ان پر ہجوم کرتے، شہد کی طرح مول لیتے۔ سوا پانی کے سوئیس میں ہر چیز ملتی۔ آسانی سے بے تکلّف میسر آتی جیسے گوشت، دودھ، دہی، پنیر، گھی اور تمباکو پینے کا۔ حقّہ چپک بھی وہاں خوب بنتا۔ قہوہ خانوں میں شراب اور چائے موجود و مہیّا۔ ایک سرا پختہ تھی، جگہ اُترنے مسافروں اور سوداگروں کی۔ یہ شہر مقام تجارت اسباب مصر کا ہے۔ دریائے شور سے لگا ہے۔ بگلے عرب کے یعنی چھوٹے جہاز وہاں آتے ہیں، اسباب خرید کر کے جدّے اور مکّے لاد لے جاتے ہیں اور وہاں کا اسباب یہاں بیچنے لاتے ہیں۔ پرنکل صاحب نے مج صاحب سے اترنے کی جگہ مانگی۔ انھوں نے ایک جگہ بہتر رہنے کے لیے تجویز کر دی۔ حق یہ ہے کہ مج صاحب مردِ دانا تھا۔ لیاقت چوگنی درماہے کی رکھتا۔ اُس وجہ مقرر سے کہ سرکار کمپنی سے پاتا۔ اُس شہر میں رہنا ہر کسی کا کام نہ تھا۔ قوم گرِیک سے کتنے آدمی وہاں رہتے تھے۔ لوگ حال بیان کرنے لگے کہ یہاں گرمی کی فصل میں اکثر تپ و بخار آتا ہے۔ ہر شخص شراب دوا جان کر پیتا ہے۔ انھی دنوں میں نے کلن صاحب سے جو مج صاحب کے مکان پر رہتے تھے، ملاقات کی، دوستی اور محبت بدرجہ کمال بہم پہنچی۔ وہ تھے رہنے والے دٹلین کے۔ پسٹن فوج انگریزی رسالہ ہارس ٹرین کے سرکار سے رخصت لے کر مصر کی سیر کرنے آئے تھے۔اُس شہر کو پسند کر کے چندے ٹھہرے۔ ہم اکثر ان کی صحبت میں رہتے۔ وہ بہت سیاح اور جہاں دیدہ تھے۔ جب سے وہ اس جوار میں آئے ترکوں کی طرح ڈاڑھی مونچھ بڑھا دی اور پوشاک ترکی پہنتے۔ بندہ بیشتر اُن کے ساتھ دریائے شور اور بازار کی سیر کرنے جاتا، باتون شیریں اُن کی سے ذائقہ یاب ہوتا۔ قہوہ خانوں میں ہمراہ اُن کے جا کر قہوہ و شراب پیتا اور مج صاحب کے مکان پر جو کنارے دریا کے تھا، اُن کے ساتھ بیٹھ کر حقّہ چپک پیتا، پانی کی لہروں کی سیر دیکھتا۔ ہر روز نہانے کو ان کے ساتھ سمندر جاتا۔ اسی لطف میں ہفتہ عشرہ گزرا۔
ایک دن دوپہر کو دل گھبرایا، کنارے دریا کے جی بہلانے گیا۔ وہاں سے پھرا آتا تھا۔ راہ میں ایک پھاٹک کے نیچے ایک بیمار پڑا دیکھا۔ اُس نے میرے دیکھتے ہی سوال کیا کہ للّٰہ مجھ بیمار غریب الوطن پر بتصدّق حضرت عیسیٰ کے رحم کرو اور کہیں رہنے کی جگہ دو۔ میں نے اُس سے پوچھا تو کہاں کا رہنے والا اور مذہب تیرا کیا ہے۔ کہا وطن میرا بنبئی اور مذہب میرا عیسوی ہے۔ ایک صاحب والا شان کا نوکر ہو کر اُس کے ساتھ جاتا تھا۔ مصر میں پہنچ کر مرض تپ اور بخار میں گرفتار ہوا۔ لاچار ہو کر اپنے آقا سے عذر بیماری کا کیا۔ درماہہ لے کر یہاں تک آیا۔ اب یہاں کوئی خبر گیر میرا نہیں ہوتا۔ پھر میں نے اُس سے کہا میں مذہب سلیمانی کا یقین اور آئین رکھتا ہوں۔ کوڑی پیسا پاس نہیں رکھتا ہوں۔ تو اپنے مذہب والوں سے مطلب اپنا ظاہر کر۔ اُس نے کہا بہت خوب اور بہتر۔ بعد اس کے میں اُسی پھاٹک پاس کھڑا چپک پیتا رہا۔ ایک شخص عیسائی سوئیس کا رہنے والا تسبیح ہاتھ میں لیے سامنے آتا تھا۔ اپنے مذہب میں بہت پرہیزگار اور متقی۔ ملک شام میں زیارت مقبرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کی۔ بظاہر اپنے مذہب والوں سے تقویٰ، طہارت میں سبقت لے گیا۔ نہایت مرفّہ الحال اور صاحب مقدور تھا۔ میں نے اُس بیمار سائل سے اشارے آنکھ سے کہا۔ یہ جو صاحب بڑے دیندار آتے ہیں ان کو حال اپنا کہہ سنا۔ جب وہ برابر آئے، اُس نے گڑگڑا کر کہا میں مذہب عیسائی رکھتا ہوں، مسافرت میں بیمار پڑا ہوں۔ برائے خدا مجھ پر رحم اتنا کرو کہ گھر لے چل کر میری دوا کرو۔ انھوں نے اُس سے یہ بات سن کر پوچھا تو خط صلیبی کھینچنا جانتا ہے۔ ا س نے فی الفور خط صلیبی ابرو سارے بدن پر کھینچ کر دکھلایا اور اُن کے پاؤں پر گرا۔ وہ خفا ہو کر سخت کلمے کہہ کر چلے گئے، ایک پیسا بھی نہ دے گئے، سوا باتون سخت و ناروا کے۔ اسی طرح بہت پادری اور کتنے اور صاحب اُس راہ سے نکلے، حال اُس کا دیکھتے گئے۔ سبھوں سے اُس نے سوال کیا مگر کسی نے اُس پر رحم نہ کیا۔ اس سخت دلی اُن لوگوں سے ثابت ہوا کہ عقیدہ درست نہیں ہے کسی کا۔ ظاہر میں پادری اور سب صاحب مذہب عیسائی کا دم مارتے ہیں، باطن میں ذرّہ بھر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ نے ان لوگوں کے حق میں فرمایا کہ حال ان کا مثل مقبرے کے ہے۔ ظاہر میں آراستہ و خوشنما، اندر اُس کے سوائے ہڈیون مردہ کے اور کیا۔ اسی طرح میری امت کے لوگ ظاہر میں میری محبت کا دعویٰ کریں گے، باطن میں کچھ اُس کا خیال نہ رکھیں گے۔ دین عیسائی بالذات بہتر ہے۔ لیکن اس مذہب والے اپنے طریق سے بےخبر ہیں۔ اکثر آنحضرت علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ فردائے قیامت میں تم سے کہوں گا کہ اے میری امّت کے لوگو میں بھوکا تھا، تم نے مجھ کو کھانا نہ کھلایا، پیاسا تھا پانی نہ پلایا، ننگا تھا کپڑا نہ پہنایا، مسافر تھا تم نے اپنے گھر رہنے کا ٹھکانہ نہ دیا۔ مراد اس سے یہ ہے کہ میری امّت کے بھوکوں، پیاسوں، ننگوں کو تم نے کامیاب نہ کیا۔ باوصف یہ کہ سلوک کرنے کا تم کو اختیار تھا۔
القصہ جب اُس مسافر بیمار کا کوئی پرسان نہ ہوا، میں نے پرنکل صاحب کے آدمی سے کہا کہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے جاؤ، باورچی خانہ میں رہنے کی جگہ دو۔ وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔ باورچی خانہ میں اُتارا۔
ازانجا کہ جہاز کے آنے میں عرصہ تھا، لاچار اُس اطراف و جوانب کی سیر کا ارادہ کیا۔ پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب اور کلن صاحب کے ساتھ ایک گرِیک کی کشتی پر سوار ہوئے اور سمندر میں چلے۔ نام اُس گرِیک کا نکلس۔ کشتی بھری ہوئی تھی غلّہ سے۔ تھوڑی دور تک ناؤ موافقت ہوا سے اچھی طرح چلی۔ جب بیچ میں جا پہنچی، ہوا ناموافق زور سے بہی۔ کشتی ڈگمگائی۔ لہر پانی کی ناؤ تک آئی۔ ہوا کے زور سے ناؤ کبھی اونچی ہوتی، کبھی نشیب میں جا گرتی۔ نکلس بڈھا تھا۔ تدبیر سے عاجز ہوا۔ ایک ملّاح اور تھا۔ اُس نے لاچار ہو کر اپنے تیئں دریا میں گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ ہم نے منع کیااور منع کر کے پکڑ رکھا۔ بادبان کی رسّی کاٹ دی۔ ناؤ ٹھہرائی لیکن تدبیر آدمی کی ہوا پانی سے کچھ کام نہیں کرتی۔ کشتی ویسی ہی ڈانواڈول رہی۔ کنارے لے جانے کی بھی صورت نہ تھی۔ اس لیے کہ کنارے پر درخت مونگے کے ایسے سربرآوردہ تھے کہ اگر کشتی اُن پر جاتی، توڑ ڈالتے۔ یہ وہی مقام تھا کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر آئے۔ پانی خدا کے حکم سے خشک ہوا، وہ پار اُتر گئے۔ ہم لوگ اس مصیبت میں پڑے۔ خدا کی درگاہ میں دعا کرتے تھے۔ اکبارگی بگلہ عرب کا نظر آیا۔ ہم نے اُن سے اظہارِخیال کیا۔ انھوں نے ایک چھوٹی ناؤ بھیج کر اپنے پاس بلایا۔ ہم نے اُس ناؤ پر سوار ہو کر اُن کے بگلے پر پہنچنا غنیمت جانا۔ سبب بچنے جان کا ہوا۔ بعد ایک ساعت کے ایسی ہوا موافق چلی کہ کشتی اس گرِیک کی بھی بخیریت کنارے پر پہنچی۔ ہم اُس بگلے پر چڑھ کر موضع طور میں آئے۔ وہ وطن یہودیوں کا تھا۔ کئی گھر عرب کے اور دو تین گھر گرِیک کے تھے۔ اُس کی طرز آبادی سے معلوم ہوتا کہ سابق میں خوب آباد ہو گا۔ قسم غلّہ سے کوئی چیز وہاں نہیں پیدا ہوتی۔ زمین اُس کی سنگستان اور کان نمک کی تھی۔ اس سبب سے درخت میوہ دار اور سبزہ بھی نہ تھا مگر درخت کھجور کا البتہ اُگتا۔ ظاہراً کم پانی غلّہ اور ہر چیز کی تنگی سے لوگ وہاں سے نکل گئے، وطن مالوف اپنے سے ٹل گئے۔ غذا وہاں کے لوگوں کی مچھلی ہے۔ اسی سے اُن کو سیری ہے۔ غلّۂ مصر اور طرفوں کو جاتا ہے، اس سبب سے گراں بکتا ہے۔ اسی لیے لوگوں نے مچھلی کھانا اختیار کیا ہے۔ پانی کنوؤں کا کھاری ہوتا ہے۔ اگرچہ بہت شوریت نہیں رکھتا ہے مگر بدمزہ پایا جاتا ہے۔ وہاں دریائے شور میں مچھلی کی زیادتی سے گویا کانِ ماہی ہے۔ جب بگلہ یعنی جہاز ہمارا وہاں پہنچا۔ آدمیون معزز کو دیکھا کہ جال شکار کے واسطے دریا میں ڈالا۔ جب اُس کو پانی سے اُٹھایا، اتنی مچھلیاں بھر گئیں کہ اُٹھانا جال کا دشوار ہوا۔ اُس مقام سے دو تین کوس کے فاصلہ پر ایک حوض سنا کہ وہ حمام حضرت موسیٰ اور مقام تعظیم کا تھا۔ پانی اس کا بھی خوب شیریں نہ تھا۔ اُس میں ہم نے جا کر غسل کیا۔ بعد فراغت کے پھر وہاں سے طور کو چلے۔ راہ میں کئی جھانکل اُڑتے دیکھے۔ میں نے چھرے بھر کر اُن پر ایک بندوق ماری۔ اتفاقاً اُن میں سے ایک کو زخم لگا کاری، وہ زخمی ہو کر گرا۔ میں نے شکرِ خدا ادا کر کے گوشت اس کا کھایا۔ پنجہ اور چونچ پھینک دیا۔ اُس کو عرب کے لڑکوں نے بھون کھایا۔ طور میں آ کر بہت تلاش کر کے اونٹ بہم پہنچائے۔ ان پر سوار ہو کر کوہِ طور پر چلے۔ طور سے کوہِ طور تک چار روز کی راہ تھی۔ ہم نے اپنی تیز روی سے دن بھر چل کر تین روز میں طے کی۔ راہ میں ایسے ایسے رستے پہاڑ کے دیکھے کہ بسبب تنگی کے دو اونٹ برابر نہ جا سکتے۔ بلکہ سوا اونٹ کے دوسرا جانور ہرگز تاب و طاقت نہ رکھتا کہ اُن راہون دشوار گزار سے چل سکتا۔ اونٹ عجیب جانور ہوتا ہے کہ اپنے اوپر تکلیف سہہ کر سوار کو منزل تک پہنچاتا ہے۔ جس جگہ پہاڑوں پر اونٹ تھک جاتے، اونٹ والے غزلین عربی گاتے۔ اکبارگی اُونٹ جوش میں آتے، تیز ہو کر چل نکلتے۔ فی الواقعی غزل سرائی بدوؤں کی عجیب کیفیت رکھتی۔ میری طبیعت بھی اُس کو سن کر مسرور ہوئی۔ راہ بھر پہاڑوں پر کہیں سبزہ نہ دیکھا مگر ایک آدھ چشمہ نظر آیا کہ بلندی سے نشیب میں بہتا اور درخت کھجور کا بھی اُس کے پاس تھا۔ وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا، پانی پیا، بدن دھویا۔ باقی تمام راہ اپنی ساتھ کی مشکوں سے پانی پیتا گیا۔ دیر تک وہاں بیٹھ کر سستائے۔ ٹھنڈی ہوا مزے دار پانی پر للچائے۔ آگے چلنے کو دل نہ چاہتا۔ مگر لاچار قدم آگے رکھا۔ نام اُس کا وادئ ایمن مقام بنی اسرائیل کا تھا۔ چالیس برس تک گروہ بنی اسرائیل کا اُس میں حیران و پریشان رہا۔ جا بجا پہاڑوں پر خطوط عربی، ہندی، عبرانی لکھے۔ ظاہر ا وہ سب لکھے ہوئے بنی اسرائیل کے تھے۔ ہر چند غور و خوض کیا مگر مضمون اس کا ہم میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ایک جگہ تکیہ قبرستان بدویوں کا نظر آیا اور اکڈال پتھر قبرون انگریزوں زمانہ قدیم کا بھی دیکھا۔ درمیان انھیں پہاڑوں کے اونٹ پرنکل صاحب او ر کلن صاحب کی سواری کے بیمار ہوئے اور تھک کر راہ چلنے کے قابل نہ رہے۔ ہم کو سخت حیرانی ہوئی کہ یہاں سے جان کیوں کر بچے گی۔ بدوی اسی جنگل میں دوڑے گئے۔ اپنے بھائیوں کے پاس سے دو اونٹ لائے۔ کلن صاحب اور پرنکل صاحب ان پر سوار ہو کر چلے۔