اگلے دن پورے دهوم دهام کے ساتھ مریم اور ولید کا ولیمہ بهی اختتام پذیز ہوا اگلے کچھ دن مہمانوں کا آنا جانا جاری رہا جبکہ مریم ولید سے اب بهی اتنی ہی کهنچی کهنچی رہتی تهی
"تم بیڈ پر سو جاؤ میں صوفے پر سو جاؤں گا"
مریم کو صوفے پر بستر ڈالتے دیکھ کر آج بالآخر بول ہی پڑا "نہیں اٹس اوکے میں یہیں پہ ٹهیک ہوں تهینکس"
تکیے لگاتی شان بے نیازی سے بولی عام سے لباس میں بهی وہ بہت حسین لگ رہی تهی ولید نا چاہتے ہوۓ بهی اسے دیکهے گیا
"بات سنیں..."
شادی کے دن کے بعد سے آج پہلی بار اس نے ولید کو مخاطب کیا تها ولید کا انگ انگ کان بن گیا
"جی سنائیں"
"آپ مجهے یوں مت دیکها کریں پلیز"
ہاتهوں کو آپس میں رگڑتے ہوۓ بولی اسکی بات پہ ولید جی بهر کے مسکرایا "کیوں بهئی دیکهنے سے کیا ہوتا ہے"
"بس مجهے پسند نہیں ہے"
"میں پسند نہیں تمهیں"
جان بوجھ کے بات بڑها رہا تها "میرا وہ مطلب نہیں تها بس آپ مجهے مت دیکها کریں ایسے"
اضطراب کی کیفیت میں بولی "تو کیا مطلب تها پهر"
مزے لیتا ہوا بولا
"کچھ نہیں"
یہ بول کر سونے کے لئے لیٹ گئی
"اچها سنو مریم"
اسے اسطرح سوتا دیکھ کر جلدی سے بولا
کچھ بهی تها وہ اسکی محبت تهی اسے اسطرح ناراض نہیں دیکھ سکتا تها
"مریم"
دوسری آواز پہ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی "جی بولیں"
بیزاری سے بولی
"یہاں آؤ میرے پاس"
اس بات پہ مریم کی آنکهیں حیرت سے بڑی ہوگئیں "ارے ارے آنکهیں تو چهوٹی کرو ادهر آؤ یقین کرو مجھ پہ پلیز"
اس طرح کے تاثرات پہ وہ ہنس پڑا اور پهر سنجیدہ لہجے میں بولا تو وہ بهی شال اپنے گرد اچهے سے لپیٹ کر چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتی اسکے سامنے کهڑی ہوگئی
"بیٹهو"
بیڈ پر بیٹهنے کا اشارہ کیا
"نہیں میں ٹهیک ہوں آپ بتائیں کیوں بلایا"
"مریم کہا نا بیٹھ جاؤ"
لہجے میں نجانے ایسا کیا تها کہ وہ بیٹھ گئی
"کیا بات ہے کیوں چپ چپ چپ رہتی ہو کوئی پرابلم ہے تو پلیز مجھ سے شئیر کرو اسطرح چپ مت رہو"
بے حد نرمی سے پوچھ رہا تها
"نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے"
کہتے ساتھ آنسو کا قطرہ اسکی آنکھ سے ٹوٹ کے گرا ولید کے دل کو کچھ ہوا "اوکے.... تو کیا ہم فرینڈز بن سکتے ہیں"
کچھ پل سوچنے کے بعد مریم نے اپنا نرم و نازک ہاتھ ولید کے بڑهے ہوۓ ہاتھ پہ رکھ دیا
"گڈ گرل اب یہ آنسو صاف کرو اور خبراردار جو دوبارہ ایک بهی آنسو آیا تمهاری آنکھ میں"
اپنی انگلیوں کی پوروں سے ولید نے اسکے آنسو صاف کئے
"اب سمائل دو"
اور وہ نم آنکهوں سے مسکرا دی یہ منظر ولید کے لئے دهوپ چهاؤں جیسا تها دل کی اتهل پهتل دهڑکنوں کو سنبهالتے ہوۓ بولا
"چلو اب سو جاؤ چاہو تو یہیں سو جاؤ"
بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا
"نہیں آپ سو جائیں یہاں" وہ
اٹهتے ہوۓ بولی....
"آپ بہت اچهے ہیں ولید مگر یہ بهی حقیقت ہے میں زبردستی آپ پہ مسلط کر دی گئی ہوں میرے ماں باپ نے اپنا بوجھ آپ کے سر پر لاد دیا مجهے معاف کر دیں ولید بہت جلد آپ خود مجهے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیں گے آخر کب تک پرایا بوجھ برداشت کریں گے آپ ایک دن تهک جائیں گے اسی دن کا انتظار ہے مجهے.."
"مریم شاہ"
اپنا نام لکھ کر اس نے ڈائری بند کی ایک نظر سوئے ہوۓ ولید پہ ڈالی اور خود بهی سونے کے لئے لیٹ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آج سنڈے تها گهر میں معمول سے زیادہ چہل پہل تهی فریش ہو کر وہ ناشتے کی ٹیبل پر پہنچ گئی سب کو سلام کرکے ولید کے ساتھ والی کرسی کهینچ کر بیٹھ گئی"مریم بچے کیا سوچ رہی ہو ناشتہ شروع کرو " مسز وقار نے اسے سوچ میں گم دیکھ کر کہا ولید سمیت سب نے اسے دیکها
"جی ماما"
کھجل سی ہوکر ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئی
ناشتے کے بعد وقار صاحب نے ایک لفافہ حسنین اور ایک ولید کی طرف بڑهایا
"یہ کیا ہے بابا"
حسنین نے پوچها ولید نے بهی سوالیہ نظروں سے وقار صاحب کی طرف دیکها" خود ہی کهول کے دیکھ لو"
وقار صاحب نے کہا
"بابا یہ اس سب کی کیا ضرورت تهی"
ولید نے دیکھ کر کہا وہ
شمالی علاقہ جات کے ہنی مون ٹکٹ تهے
"کیوں ضرورت نہیں بالکل ضرورت ہے اب چلو تم لوگ جانے کی تیاری کرو اور ہاں ماہم اور مریم دونوں کو آج تم لوگ ایاز کے گهر لے جانا"
وقار صاحب یہ کہہ کر اخبار سنبهالتے اپنے کمرے کی جانب چل دئیے پیچهے مسز وقار بهی ہولیں
"واؤ... مبارک ہو بهئی انجواۓ کرنا"
سونیا بهابهی ماہم اور مریم دونوں کے گال سہلاتی کچن کی جانب چل دی جبکہ حسن پہلے ہی اٹھ چکا تها
"چلیں بیگم صاحبہ تیاری کر لیں"
حسنین نے ماہم کو پرشوق نگاہوں سے دیکهتے ہوۓ کہا جبکہ ماہم نے بدلے میں اسے گهورنے پر استفادہ کیا
دوسری طرف مریم نے ولید کو شکایتی نظروں سے دیکها اور اٹھ کر کمرے میں آ گئی جبکہ ولید اسکی نگاہوں کا مطلب سمجهتا اسکے پیچهے چلا آیا
"مریم.... کیا ہو گیا یار رو کیوں رہی ہو"
اسے روتا دیکھ کر اسکے قریب چلا آیا
اسکا ایک ایک آنسو ولید کو اپنے دل پہ گرتا محسوس ہوا
"آپ نے کیوں منع نہیں کیا بابا کو"
روتے روتے معصومیت سے بولی اور اس لمحہ ولید کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا
"اچها تم رونا تو بند کرو کیا کہا تها رات میں نے پهر بهی تم رو رہی ہو ناٹ فیئر یار..."
اسکے قدموں میں بیٹھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتهوں میں لیتا ہوا بولا
تبهی مریم نے بے دردی سے آنکهیں مسل دیں
"آپ بابا کو منع کر دیں پلیز"
"اوکے میں بات کرو گا پرامس اب موڈ ٹهیک کرو اور تیار ہو جاؤ"
"کیوں تیار کیوں ہونا ہے"
حیرت سے بولی
"ہاۓ خدا اتنی معصومیت کسی کو نہ دے ابهی نیچے کیا کہا بابا نے کہ ایاز انکل کے گهر چلنا ہے"
مسکراتے ہوۓ بولا
"ہاں سوری میں بهول گئی"
کھجل سی ہو کر بولی
"سوری رکهو اپنے پاس اور جلدی سے ریڈی ہو جاؤ"
"اوکے بس دس منٹ میں آئی آپ چلیں"
وہ اٹهتے ہوۓ بولی تبهی ولید نے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ بیٹها لیا
"ایسے نہیں پہلے سمائل کرو" "بس اب جائیں مجهے تیار ہونا ہے"
مسکرا کر کہا اور اٹھ کر الماری کی جانب بڑھ گئی جبکہ ولید بهی سرشار سا باہر نکل گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ماہین کے ساتھ ساتھ ایاز شاہ اور فاطمہ بیگم بهی اپنے دونوں دامادوں اور بیٹیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوۓ "اور بیٹا گهر میں سب ٹهیک ٹهاک ہے"
ایاز شاہ نے پوچها جبکہ ماہین دونوں کو لے کر کمرے کی جانب چل دی جبکہ فاطمہ بیگم نے کچن کا رخ کیا
"ہاۓ سچی.... اف کتنا مزہ آۓ گا بہت لکی ہو تم دونوں تو"
ماہم نے اپنا اور مریم کا ہنی مون ٹرپ کا بتایا تب ماہین چیخ کر بولی اسکی بات پہ مریم پهیکا سا ہنس دی
"پاگل آہستہ بولو کتنا چیختی ہو تم"
ماہم نے ایک دهموکا اسکی کمر پہ جڑتے ہوۓ کہا "اففف... بجو مار کیوں رہی ہو"
کمر سہلاتے ہوۓ بولی
جبکہ مریم اٹھ کر کچن میں فاطمہ بیگم کے پاس چلی آئی"لائیں مما میں ہیلپ کرتی ہوں"
فاطمہ بیگم اسوقت دوپہر کے کهانے کی تیاری کر رہیں تهیں جب مریم آکر بولی "ارے نہیں بیٹا.... تم مہمان ہو جاؤ تم باہر بیٹهو جاؤ شاباش میرا بچہ میں کرلو گی"
فاطمہ بیگم نے کهانا بناتے ہوۓ کہا جبکہ مریم کے اندر چهناکے سے کچھ ٹوٹا "مہمان اب میں مہمان ہوگئی بیٹی سے مہمان بن گئی اب میں"
فاطمہ بیگم کو دیکهتے ہوۓ تاسف سے سوچ رہی تهی آنسو پہ اختیار ختم ہوتا جا رہا تها اپنے کمرے میں جاکر جی بهر کر رونا چاہتی تهی آنسو ضبط کرتی جانے کے لئے مڑی تبهی دروازے سے آتے ولید سے ٹکرائی
بنا اسکی طرف دیکهے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بهاگی
"ارے ولید بیٹا کچھ چاہیے تها"
فاطمہ بیگم نے اسے دیکھ کر کہا جو حیران سا مریم کے بارے میں سوچ رہا تها
"نہیں آنٹی وہ دراصل مریم سے کچھ کام تها"
جلدی سے بولا
"اچها مریم وہ ابهی تو یہاں ہی تهی میرے خیال سے اپنے کمرے میں ہوگی بلاؤں کیا" کهانا پکاتے ہوۓ بولیں "نہیں آنٹی میں وہیں چلا جاتا ہوں"
یہ کہہ کر مریم کے روم کی طرف چل پڑا
"ٹھک ٹھک ٹھک"
"کون ہے"
آنسوؤں سے تر آواز میں پوچها گیا
"میں ہوں دروازہ کهولو مریم"
ولید کی گمبهیر آواز پہ آنکهیں صاف کرتی ہوئی دروازے کی جانب بڑہی
وہ ولید کے سامنے کوئی تماشا نہیں چاہتی تهی سو خود کو نارمل کرکے دروازہ کهول دیا
ولید نے اندر آ کر دروازہ لاک کر دیا "کیا بات ہے یہاں کیوں آ گئی"
کندهوں سے پکڑ کر اپنے سامنے کرتے ہوۓ بولا
"وہ... میں یہاں.... وہ اپنا پرس لینے آئی تهی"
اٹک اٹک کر بولی اسکا چہرہ اور آنکهیں رونے کی وجہ سے ابهی تک نم تهیں "یہاں دیکهو میری طرف"
ٹهوڑی سے پکڑ کر اسکا میک اپ سے عاری چہرہ اوپر کرتا ہوا بولا "تمهیں پتہ ہے تمهیں جهوٹ بولنا بهی نہیں آتا بتاؤ کیا بات ہے بیٹهو یہاں بتاؤ مجهے"
پیار سے اسے بیڈ پر بیٹهاتے ہوۓ بولا اس پر مریم کے رکے ہوۓ آنسوؤں کو پهر سے باہر آنے کا موقع مل گیا اور روتے ہوۓ ہچکیوں کے درمیان وہ اسے بتانے لگی
"مما کہتی ہیں میں مہمان ہوں میں کوئی کام نہیں کرسکتی یہاں"
ساری بات بتا کر وہ پهر سے پورے زور و شور سے رونے لگی "اففف... پاگل لڑکی اتنی سی بات پہ اپنے اتنے قیمتی آنسو ضائع کر دئیے"
اسکے آنسو پونچهتا ہوا بولا
"اچها پہلے رونا بند کرو بات سنو میری"
اور وہ آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتی سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکهنے لگی
"تمهیں یہاں کام کرنا ہے تو کیوں نا تمهیں یہاں ماسی کی جاب دلا دوں کیا خیال ہے"
سنجیدہ لہجے میں بولا
"ہاں ٹهیک ہے........ کیا مطلب ہے آپکا میں ماسی لگتی ہوں آپ کو آپ خود بلڈوزر..."
پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا جب آیا تو نان اسٹاپ بولے گئی آخری جملہ پہ بے اختیار زبان کو بریک لگا ولید نے بے اختیار قہیقہ لگایا جبکہ مریم جی بهر کے شرمندہ ہوئی
"ایم سوری"
شرمندہ سے لہجے میں بولی
"نہیں نہیں بولیں بولیں آپکو تو سات خون بهی معاف ہیں"
مزید شرمندہ کرتے ہوۓ بولا "مجهے جانا ہے سب انتظار کر رہے ہونگے باہر"
"پہلے سمائل کرو پهر"
پهر سے بیٹهاتے ہوۓ بولا
"بس آپ چلیں میں منہ دهو کر آتی ہوں"
کمرے سے باہر دهکیلتے ہوۓ بولی.... دوپہر کا کهانا کها کر وہ سب واپس وقار ہاؤس کی جانب چل دئیے