آگے بڑھ کر لائٹ اون کی چہرہ بخار کی شدت سے سرخ ہورہا تها ولید نے ایک نظر ہاتھ پہ بندهی گهڑی پہ ڈالی رات کے پونے گیارہ بج رہے تهے
اس طوفانی بارش میں باہر جانے کا سوال ہی نہیں اٹهتا تها اگر چلا بهی جاتا تو ڈاکڑ ملنا نا ممکن تها ولید نے اچهے سے کمبل اس کے اردگرد لپیٹا اور جلدی سے آتش دان روشن کیا "پانی"
نیم بے ہوشی میں مریم نے پانی مانگا "مریم آنکهیں کهولو مریم"
ولید نے سہارے سے اسے اٹهاتے ہوۓ کہا... دو گهونٹ پانی پی کر اسکے بازوؤں میں پھر سے ڈھے سی گئی پہلی بار مریم کو اپنے اتنا قریب دیکھ کر ولید کی دهڑکنوں میں اتهل پتھل ہوئی...مگر اس وقت سب سے اہم بات مریم کی طبعیت تهی ... وہ اسے بستر پہ لیٹا کر ٹهنڈا پانی اور پٹیاں لینے واش روم کی طرف دوڑا کچھ ہی دیر بعد وہ اسکے سرہانے بیٹها اسکے ماتهے پہ ٹهنڈے پانی کی پٹیاں کر رہا تها ایک گهنٹے تک پٹیاں رکهنے کے بعد اسکا بخار کسی حد تک کم ہوا بے اختیار ولید نے سکون کا سانس لیا "شکر اللہ پاک کا بخار تو کم ہوا..... مگر دوا کہاں سے لاؤں اب"
منہ ہی منہ میں بڑبڑایا
"شاید اسکے بیگ میں ہو چیک کرتا ہوں"
ایک نظر مریم پر ڈال کر اسکے بیگ کی جانب چل پڑا بیگ میں میک اپ وغیرہ کا سامان پڑا تها
ایک طرف فرسٹ ایڈ کا ڈبہ موجود تها "شکر ہے"
دوا لے کر وہ واپس مریم کی طرف آیا ماتهے پہ ہاتھ رکھ کر بخار چیک کیا دوبارہ سے بخار تیز تها
"مریم اٹهو دوا کھا لو مریم"
ولید نے دوا نکال کر ٹیبل پہ رکهی اور آگے بڑھ کر اسے سہارے سے اٹهایا اور گال تهپتهپاتے ہوۓ بولا
"آآآں____"
ادھ کهلی آنکهوں سے ایک نظر ولید کو دیکها اور نڈهال سی آواز میں بولی
"اٹهو شاباش دوا کھا لو پهر آرام سے سو جانا"
ولید نے اسے بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹهایا اور دوا دی مریم چپ چاپ دوا لے کر پهر سے ولید کے سہارے لیٹ گئی کچھ ہی دیر میں گہری نیند سو گئی
جبکہ ولید اسکے سرہانے بیٹهه کر وقفے وقفے سے بخار چیک کرتا رہا
دو گهنٹے میں اسکا بخار تقریبا اتر گیا تها
ولید نے کمبل اچهی طرح اسکے گرد لپیٹا اچانک اسکی نگاہ مریم کی ڈائری پر پڑی
کچھ لمحے سوچنے کے بعد ولید نے ڈائری اٹها لی
ایک بار اچهی طرح اسکے سونے کا اطمینان کرنے کے بعد وہ ڈائری لے کر اس سے کچھ فاصلے پر پڑے صوفے پر بیٹھ گیا
"دیکهوں تو سہی ایسا کیا اسپیشل لکهتی ہے"
ولید نے تجسس بهرے انداز میں ڈائری کهولی پہلے پیج پر لکهی تاریخ دیکھ کر وہ چونکا یہ ڈیٹ وہ کیسے بهول سکتا تها اسی تاریخی تاریخ کو اسکی محبت اسکی زندگی دلہن بن کر اسکے آنگن میں آئی تهی
اشتیاق سے پڑهنے لگا
"بیٹیاں رحمت ہوتیں ہیں سب کہتے ہیں مگر میں زحمت ہوں ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوں اپنے والدین پر اسی لئے آج مما پاپا نے اپنا بوجھ هلہلکا کر لیا مجهے ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جو شاید مجھ سے نفرت ہی کرتا ہے خیر آج مما پاپا کا بوجھ تو ختم ہوا"
نیچے کاغذ پر آنسو کے چند قطرے تهے جو سوکھ چکے تهے جبکہ ولید نے حیرت سے بے خبر سوئی مریم کی طرف دیکها
ولید نے شاک کی سی کیفیت میں پیج پلٹا
"کوئی بهی زیادہ دیر تک کسی کا بوجھ نہیں سہہ سکتا اور ایک دن ایسے ہی ولید بهی تهک جاۓ گا برداشت کرتے کرتے"
بے یقینی سی حالت میں آگے پڑهتا گیا ہر پیج پر اسی طرح کی باتیں درج تهیں "آپ بہت اچهے ہیں ولید مگر یہ بهی حقیقت ہے کہ میں زبردستی آپ پر مسلط کر دی گئی ہوں میرے ماں باپ نے اپنا بوجھ آپکے سر پر لاد دیا مجهے معاف کردیں ولید... بہت جلد آپ خود مجهے اپنی زندگی سے بے دخل کردیں گے آخر کب تک پرایا بوجھ برداشت کریں گے آپ ایک دن تهک جائیں گے اور اسی دن کا مجهے انتظار ہے"
ولید کو بے اختیار مریم کی معصومیت پر ڈهیروں پیار آیا ڈائری بند کرکے وہ اٹھ کر بیڈ پر اسکے سرہانے آکر بیٹھ گیا اپنا ہاتھ اسکے ماتهے پر رکها بخار اب بهی تها مگر شدت پہلے سے کافی کم تهی
"بالکل ہی پاگل لڑکی ہو تم بچے بهی کبهی بوجھ ہوتے ہیں کیا پیرنٹس پر....... اور تم مجھ پہ بوجھ نہیں ہو میرا پیار ہو تم اور میں تمهاری یہ غلط سوچ غلط ثابت کروں گا "
پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پهیرتا ہوا بولا اور دور کہیں تقدیرمسکرادی..
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"گڈ مارننگ بیوٹی فل وائف کیسی ہے طبعیت اب آپکی"
ولید نے مریم کے ماتهے پر ہاتھ رکهتے ہوۓ بخار کی شدت محسوس کرتے ہوۓ بظاہر نارمل لہجے میں پوچها " جی ٹهیک ہوں... کیا ٹائم ہوا ہے"
مریم نے نقاہت بهری آواز میں پوچها "صبح کے سات بجے ہیں تم بتاؤ کیسا فیل کررہی ہو"
"میں ٹهیک ہوں آپ کیوں اتنی جلدی جاگ گئے آج"
عموما وہ آٹھ بجے جاگتا تها "بس ویسے ہی کیوں جلدی جاگنے پر پابندی ہے کیا"
اسکی سبز آنکهوں میں جهانکتے ہوۓ بولا
اب اسے کیا بتاتا کہ پوری رات وہ اسکی وجہ سے سویا ہی نہیں تها
" نہیں میرا وہ مطلب نہیں تها"
اٹهتے ہوۓ بولی
"کیا ہوا کیوں اٹھ رہی ہو ریسٹ کرو تم"
"مجهے فریش ہونا ہے"
"اوکے آؤ تمهیں واش روم تک چهوڑ آؤں اور ایک بات یاد رکهنا صرف ہاتھ منہ دهونا اوکے شاور لینے کی کوئی ضرورت نہیں تمهارے کپڑے آل ریڈی وہیں رکهے ہوۓ ہیں"
اسے سہارے دیتے ہوۓ واش روم تک لے آیا
ایک ہی رات کے بخار نے اسے نچوڑ کے رکھ دیا تها وہ اسے واش روم چهوڑ کر ناشتے کا آڈر دینے کچن کی جانب چل دیا
"اسلام علیکم عفت بی"
کچن میں داخل ہوکر پہلی نگاہ عفت بی پر پڑی جو مریم کی دی ہوئی شال اور سوئیڑ پہنے کام میں بزی تهیں
"وعلیکم اسلام بیٹا! ناشتہ لگاؤں آپکے لئے"
"نہیں عفت بی ہمارا ناشتہ کمرے میں بهجوا دیں اور مریم کے لئے دلیہ اور بوائل انڈہ بهیجوائیےگا"
"کیوں بیٹا خیر ہے مریم بٹیا کی طبعیت تو ٹهیک ہے نا"
وہ حقیقتا پریشان ہوئیں تهیں "جی وہ اصل میں بخار ہو گیا ہے اسے مگر اب بہتر ہے"
"اللہ پاک شفاء دے"
صدق دل سے دعا دی
"آمین... انکل نہیں نظر آرہے ابهی تک جاگے نہیں کیا؟"
ولید نے ڈائنگ ٹیبل پر ایک نظر ڈال کر پوچها عموما اس وقت اسفند صاحب اخبار کا مطالعہ کرتے ہوۓ چاۓ پیتے ہیں
"ہاں بیٹا وہ صبح اسلام آباد گئے ہیں انکے کسی دوست کا انتقال ہوگیا ہے مجهے کہا آپکو بتا دوں"
"اوہ... اچها آپ ناشتہ بهجوا دیں میں مریم کو دیکھ لوں" "اچها بیٹا میں بهجواتی ہوں"...
*********************************
کمرے میں واپس آیا تو مریم اب تک واش روم میں تهی
"مریم... ٹهیک ہو نا"
دروازے پر آکر پوچها
"جی.." جواب سن کر اطمینان کی سانس بهری اور بیڈ پر آکر بیٹھ گیا
"ولید.."
اچانک اسے مریم کی چیخ سنائی دی بجلی کی سی سرعت سے اٹھ کر اسکی جانب بهاگا
"کیا ہوا" خوف زدہ سی کهڑی مریم سے پوچها جسکا چہرہ زردی کی طرح پیلا پڑ گیا تها
"مریم..."
ولید نے دونوں کندهوں سے پکڑ کر اسے جهنجهوڑتے ہوۓ پوچها
"وہ... و..ہ... چهپکلی..."
کانپتے ہوۓ بولی ولید نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور باہر لے آیا "بیٹهو تم یہاں میں دیکهتا ہوں"
اسے بیڈ پر بیٹها کر کمبل اسکے گرد لپیٹ دیا
"کچھ بهی تو نہیں ہے وہاں پاگل لڑکی"
تهوڑی دیر بعد واپس آکر بولا "میں سچ کہہ رہی ہوں وہاں پر تهی وہ"
جهرجهری لے کر بولی
"جتنی اسپیڈ سے تم نے چیخ ماری تهی بیچاری کو ہارٹ اٹیک آ گیا ہوگا سیدهی سی.ایم.ایچ کے آئی سی یو میں پڑی آخری سانس لے رہی ہوگی" ولید نے اس انداز سے بولا کہ نا چاہتے ہوۓ بهی مریم ہنس پڑی جبکہ ولید اسے دیکهے گیا
ڈارک بلیو شرٹ اور بلیک شال کندهوں پہ ڈالے کهلے بالوں میک اپ سے بے نیاز چہرہ لیۓ وہ اس وقت ولید کو دل
میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی تبهی دروازے پہ دستک ہوئی
"آجاؤ"
ولید خود کو سنبهالتے ہوۓ بولا
تبهی ملازم ناشتہ کی ٹرے لیۓ داخل ہوا
"وہاں رکھ دو"
ولید نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا "چلو اٹهو ناشتہ کرو پهر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے اٹهو شاباش"
ولید اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹیبل تک لے آیا
"میرا دل نہیں کر رہا آپ کر لیں "
"ٹهیک ہے مجهے بهی نہیں کرنا حالانکہ میرے پیٹ میں پورا چڑیا گهر دوڑ رہا ہے" پیٹ پر ہاتھ رکهتے ہوۓ بولا جبکہ مریم اسے گهور کر چار و ناچار ناشتہ کی طرف متوجہ ہوگئی
"گڈ گرل"
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"بہت دن ہوگئے نا گهر بات نہیں کی تم نے چلو کال کرکے دیتا ہوں بات کرلو"
دونوں اس وقت لان میں بیٹهے دهوپ سینک رہے تهے جب ولید نے اچانک کہا "نہیں نہیں آپ رہنے دیں پلیز" جلدی سے بولی
"کیوں رہنے دوں کوئی پرابلم ہے کیا"
حیرت سے پوچها
"نہیں بس ویسے ہی"
سر جهکا کر بولی
"تو کروں کال...؟؟"
آنکهوں میں دیکهتے ہوۓ بولا جہاں آنسو بس بہنے کو تیار تهے
"نہیں" کہہ کر وہ جهٹکے سے اٹھ کر کمرے کی طرف بهاگی
"مریم آج تمهاری ساری غلط فہمیاں دور کرکے رہوں گا میں"
خود سے عہد کرتے ہوۓ بولا....
******************************
رات کا کهانا مریم اور ولید نے اپنے روم میں ہی کهایا "چلو اب میڈیسن بهی کها لو اپنی"
ولید نے اسے لیٹتے دیکھ کر کہا بخار کے بعد سے ولید نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر سونے کا آڈر دے دیا تها جسے اس نے بنا چوں چرا کے خاموشی سے مان لیا "بعد میں کها لوں گی"
لیٹتے ساتھ ہی آنکهوں پر بازو رکھ لیا "ابهی کهانی ہے اب اٹھ جاؤ ورنہ زبردستی کهلاؤں گا تمهیں"
اس دهمکی کا خاطرخواہ اثر ہوا اور وہ چپ چاپ اٹھ گئی ...
******************
"مریم مجهے تم سے کچھ بات کرنی ہے"
دوا کها کر دوبارہ لیٹنے والی تهی جب ولید بولا
"جی بولیں"
تکیہ سے ٹیک لگا کر بولی
"مریم... تمهاری مجھ سے شادی کیا زبردستی ہوئی ہے" "نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے"
لہجہ بظاہر نارمل تها مگر دل اندر سے ہول رہا تها کہ نجانے وہ آگے کیا پوچھ لے
"کیا تم کسی اور کو پسند کرتی تهیں شادی سے پہلے"
"نہیں تو آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں اور ویسے بهی مجهے نیند آ رہی ہے مجهے سونا ہے"
سونے کے لیۓ لیٹنے ہی لگی تهی جب ولید نے اسکا نرم و ملائم ہاتھ پکڑا "مریم پلیز... بتاؤ مجهے کیا بات ہے پلیز"
اسکا ہاتھ پکڑے بے حد اپنائیت سے بولا
مریم جو آنسو روکے ہوئی تهی اتنی اپنائیت ملنے پر ایک دم اسکے گلے لگ کر رونے لگی جبکہ ولید اچانک اسکے رونے
پر ہڑبڑا سا گیا "مریم کیا هوا یار...."
پریشان سے لہجے میں بولا جبکہ وہ مزید شدت سے اسکے گلے لگی روتی رہی ولید نے اسے اپنے مضبوط بازؤؤں میں سمیٹ لیا اور اسے رونے دیا
"اب بتاؤ کیا بات ہے بهروسہ کرو مجھ پر"
کافی دیر رونے کے بعد وہ ولید سے الگ ہوئی تو اس نے پوچها "میں مما پاپا پہ بوجھ تهی انہوں نے مجهے آپکے سر پر تهوپ دیا"
یہ کہتے ساتھ پهر سے آنسو اسکے رخساروں کو بهگونے لگے جسے اس نے بے دردی سے رگڑ ڈالا
"کس نے کہا تم سے ایسا پاگل ہو کیا"
وہ حیران تها
"مجهے پتہ ہے آپ نے ترس کها کر اپنے گهر والوں کے دباؤ میں آکر میرے ساتھ شادی کی ہے"
روندھی ہوئی آواز میں بولی
"پاگل لڑکی شادی کوئی مذاق نہیں ہے اور میں نے کسی کے بهی دباؤ میں آکر تم سے شادی نہیں کی بلکہ اپنی مرضی اور خوشی سے کی ہے"
"بس مجهے سب پتہ ہے میں بوجھ تهی مما پاپا پہ اور اب آپ پر"
"بات سنو! کبهی کوئی بیٹی کسی والدین پر بوجھ نہیں ہوتی اور ہر پیرنٹس کا یہ پسندیدہ ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ جلدی سے بیٹی کی شادی ہو اور بوجھ کم ہو یہ جنرل سی بات ہے حقیقت میں ہر بیٹی اپنے ماں باپ کی شہزادی ہی ہوتی ہے اور شہزادی کے لئے تو ہمیشہ شہزادہ ہی چنا جاتا ہے نا" آخری بات ولید نے اسکی نم آنکهوں میں دیکھ کر کہی تبهی مریم نے اسکی بات پر سر ہلا دیا "تو تم بهی تو پیاری سی شہزادی ہی ہو اور تمهارے لیۓ میرے جیسا شہزادہ ہی ہونا چاہیے نا "
اسکے آنسو دہیرے سے صاف کرتے ہوۓ بولا
"اور اب اپنا دل صاف کرو تم بالکل بوجھ نہیں ہو نہ مجھ پر نہ ہی اپنے پیرنٹس پر اب جلدی سے سمائل دو"
اور وہ نم آنکهوں سے مسکرا دی
"گڈ گرل چلو اب بات کرتے ہیں گهر...
کال کر لوں نہ اب تو اگر اجازت ہو تو"
موبائل جیب سے نکالتے ہوۓ بولا تو مریم نے بهی مسکراتے ہوۓ سر ہلا دیا
اور پهر کافی دیر بات کرنے کے بعد اس نے پرسکون ہو کر کال کٹ کی اور ولید کی طرف دیکھ کر مسکرا دی وہ بهی اسے مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیا
"چلو اب سو جاؤ طبعیت پھر سے خراب نا ہو جاۓ میں پانی لے کر آتا ہوں"
خالی جگ اٹهاتے ہو بولا
جب واپس آیا تو وہ سو چکی تهی جگ ٹیبل پر رکھ کر وہ اسکے سرہانے بیٹھ گیا "بالکل جهلی ہو تم مگر جو بهی ہو صرف میری ہو میری اینجل آئی لو یو تمہیں میں کبهی اکیلا نہیں چهوڑوں گا آج کے بعد کبهی کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا"
دہیرے سے اسکے بال سہلاتے ہوۓ بولا
دور کہیں تقدیر اسکے یقین پر مسکرا دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"مریم.... مریم.. مریم" فل والیوم میں ولید مریم کو پکار رہا تها "کیا ہے کیوں اتنا چلا رہے ہیں"
دونوں ہاتھ کمر پر رکهے اس سے پوچھ رہی تهی
"پیار ہے جان من اور کیا ہے"
کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کرتے ہوۓ بولا
"کچھ تو شرم کر لیں دو بچوں کے باپ ہیں آپ"
خود کو چهڑاتے ہوۓ بولی
"تو کیا ہوا یار ویسے کہاں ہیں میرے شہزادے"
گرفت مضبوط کرتے ہوۓ پوچها ایک سال میں بہت کچھ بدل گیا تها مریم اور ولید کے دو جڑواں بیٹے ہوۓ جبکہ ماہم نے پیاری سی بیٹی کو جنم دیا تها اور سونیا کے ہاں بهی بیٹے کی ولادت ہوئی تهی "سب ہال میں ہیں آپ بهی چلیں مما ,پاپا بهی کب سے آپکا پوچھ رہے ہیں اور اب سیریس بتائیں کیوں بلا رہے تهے آپ"
اسکی گرفت سے نکلتی ہوئی بولی
" ہاں وہ جو فائل کل تمہیں دی تهی وہ چاہیے تهی کہاں رکهی ہے مل نہیں رہی مجهے ہیلپ کر دو" "بالکل نہیں ملے گی ابهی وہ فائل پہلے چلیں باہر سب سے ملیں ماہی بهی بہت بار پوچھ چکی ہے چلیں" اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ہال کی طرف لے جاتے ہوۓ بولی
"جو حکم بیگم صاحبہ"
خاموشی سے اسکے ساتھ ہولیا بہت سی غلط فہمیوں کے کیچڑ میں چلنے کے بعد بالاخر دونوں اعتبارء وفا کی بارش میں بهیگ گئے
ختم شد