''سمل'' اس نے بے اختیار اسکا ہاتھ پکڑا اور وہ اس کے سینے سے جا لگی۔ ایک پل کو اسکا سانس رک گیا۔ اسے اپنی خوش بختی پر یقین کرنے میں چند لمحے لگے تھے پھر اس نے آہستگی سے اپنا بازو اس کے گرد حمائل کیا۔
''انہوں نے ایسا کیوں کیا فواد؟ کیوں؟ میں نے کبھی اس گھر کے لوگوں کو پرایا نہیں سمجھا انہوں نے کیسے مجھے ایک پل میں پرایا کر دیا؟'' وہ روتے ہوئے اس سے سوال کر رہی تھی۔
''میری بات سنو سمل! بھول جاوُ سب کچھ جو کچھ ہوا صرف ایک غلط فہمی تھی اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔'' ایک ہاتھ سے اسکا بایاں ہاتھ پکڑے دوسرا اسکی کمر کے گرد حمائل کیے وہ اسے سمجھا رہا تھا آواز میں محسوس کیے جانے والی نرمی تھی۔
''مجھے اعتبار ہے تمہارا،تمہارے کردار کا، تمہیں کسی گواہی کی ضرورت نہیں اور رہے تمہارے ننھیال والے تو انہیں تمہاری سچائی کایقین دلاوُں گا یہ میرا وعدہ ہے۔'' وہ اسکے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے بولا۔ ''میرے لیے تم کوئی ان چاہا بندھن نہیں بلکہ زندگی کا وہ خوب صورت موڑ ہو جس طرف مڑنے کی میں ہمیشہ خواہش رکھتا تھا۔ میں تم سے---'' جذبوں کی روانی میں بہتے اسے احساس ہوا یہ وقت پیار کا اظہار کرنے کےلیے درست نہ تھا۔ اسنے سر جھکا کر دیکھا سمل اس کے کندھے پر سر رکھے سو چکی تھی وہ مسکراتے ہوئے اسے بانہوں میں بھرے اٹھا اور بیڈ پر لٹادیا اور خود بھی دوسری طرف نیم دراز ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سہانہ'' صفیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی تیار ہورہی تھی۔
''جی مما''۔
''بیٹا لاشاری صاحب اور انکی بیگم سے ملوایا تھا نا تمہیں عمران کے ولیمے پر وہ لوگ آج آرہے ہیں اپنے بیٹے زوہیب کا رشتہ۔لےکر۔'' انکی آواز میں خوشی کی جھلک تھی۔
''یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں مما؟ مجھے کسی زوہیب ووہیب سے شادی نہیں کرنی۔'' وہ تڑپ کر اٹھی۔
''کیا مطلب ہے تمہارا؟ بی بی! میں ساری عمر تمہیں بٹھا کر نہیں رکھوں گی۔''
''مجھے بیٹھنا بھی نہیں ہے مگر بیٹھوں گی اسی کی ڈولی میں جس سے میں پیار کرتی ہوں۔'' اسکے لبوں پر خوبصورت مسکان ابھر آئی۔
''کون؟ کون ہے وہ؟'' انکی بے چینی دیدنی تھی۔
''فواد احمد۔'' وہ ایک پل کو سناٹے میں رہ گئیں۔
''ارے بیٹا اسے تو وہ کم بخت سمل لے اڑی۔'' وہ جنھجھلا اٹھیں۔
''جو بھی ہو مما فواد میرا ہے اور میں اسے ہر حال میں پا کر رہوں گی۔''
''سہانہ میری بچی! وہ اس نامراد سے پیار کرتا ہے تونے دیکھا نہیں انہیں کس حالت میں پکڑا ہے سب گھروالوں نے۔'' وہ اسے ہر حال میں باز رکھنا چاہ رہی تھیں۔
''نہیں دیکھا میں نے اور یہی میں جاننا چاہ رہی ہوں کہ اس رات کیا ہوا تھا بلکہ میں سمل سے ہی ملنے جارہی ہوں آخر اسکی بچپن کی دوست ہوں اسکا غم بھی تو بانٹنا ہے۔'' اس کے لہجے میں تپش سی بھر گئی۔
''اوکے مما میں جارہی ہوں۔'' اسنے بیگ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔
جبکہ صفیہ بیگم کفِ افسوس مل رہی تھیں انکی اپنی اولاد سارا کھیل بگاڑنے پہ تلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسٹرڈ پرنٹڈ شرٹ اور مسٹرڈ دوپٹے کے ساتھ سفید ٹراوُزر پہنے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ فواد احمد کے گھر کے ڈرائنگ روم میں موجود تھی۔ ملازمہ کولڈ ڈرنک سرو کرنے کے بعد سمل کو بلانے گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کالی لمبی قمیص کے ساتھ ہمرنگ دوپٹہ لیے سفید پاجامہ پہنے وہ اس کے سامنے تھی۔ براوُن بال پونی میں بندھے ہوئے تھے اور چہرے پر پژمردگی تھی۔
''سہانہ کیسی ہو؟'' اس کے اندر آنے پر بھی وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی کولڈ ڈرنک کے سپ لیتی رہی جیسے یہی ضروری کام کرنے آئی ہو تو سمل کو مجبوراً اسے مخاطب کر کے متوجہ کرنا پڑا۔
''آں ہاں بہت اچھی۔ اور تم؟'' وہ جیسے کسی خواب سے جاگی۔ ''میں؟؟'' اسنے ٹھنڈی سانس بھری ''میں بھی ٹھیک ہوں۔''
وہ حیران تھی جس طرح اسے گھر سے نکالا گیا تھا ایسے میں وہاں سے کسی کا ملنے آنا اسکا حیران ہونا بنتا تھا۔
''سمل کیا ہوا تھا اس رات؟؟'' اس نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ''تم نہیں جانتی؟ کسی نے تمہیں نہیں بتایا کہ کیسے مجھے وہاں سے بےعزت کر کے نکالا گیا تھا۔''
''میں تم سے جاننا چاہتی ہوں سمل۔" اسنے ایک ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے کہا۔ ''میں ایک دوست بن کر تمہارا دکھ۔ بانٹنے آئی ہوں سمل مجھے بتاوُ۔''
اس کے انداز میں ہمدردی پاتے ہی سمل کے آنسو بکھرگئے وہ دھیمے لہجے میں اسے کچھ بتاتی چلی گئی۔ اسنے اسے ایک بار بھی نہیں ٹوکا۔ جب وہ خاموش ہوئی تو اس نے کہا
''تمہیں لگتا ہے یہ سب مما نے کیا ہے؟''
''مجھے لگتا نہیں ہے ایسا ہی ہے۔'' اسکا لہجہ چٹخ گیا۔ ''انہوں نے مجھ سے پتا نہیں کیا دشمنی نکالی ہے مگر جو بھی کیا ہے بہت برا کیا ہے۔''
''میں تمہاری سچائی سب کو بتاوُں گی۔ میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں گی۔''
اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
''تم؟؟ تم ہوش میں تو ہو؟ تمہاری اپنی ماں نے کیا ہے یہ سب تمہاری ماں نے۔'' اس نے سخت لہجے میں اسے باور کرایا
''جانتی ہوں میں اور میں پھر بھی تمہارا ساتھ دوں گی کیونکہ تم سچی ہو میری ماں نے جھوٹ بول کر تمہیں اس گھر سے نکلوایا اور اب میں تمہیں اس گھر میں واپس لاوُں گی۔''
''تمہیں واقعی پر اعتبار ہے؟'' اسکا لہجہ بے یقین تھا۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے گلے لگایا
وہ اسے آہستہ آہستہ تھپکتے ہوئے خواب زدہ کیفیت میں بول رہی تھی۔
''تم میری سب سے اچھی دوست ہو سہانہ تم نے مجھ پر اعتبار کیا اپنی ماں سے بڑھ کر '' وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔
اس کے رخسار آنسووُں سے تر تھے۔
''روُو مت میری جان'' اس نے اس کے گال پونچھے۔ ''میری ایک بات دھیان سے سنو۔'' اسکا لہجہ پراسرار ہوگیا۔
"میں تمہاری مدد کروں گی پر بدلے میں تمہیں میری ایک شرط ماننا ہو گی۔''
''کیسی شرط؟؟'' وہ الجھی اور شرط سن کر ایک لمحے کو بالکل خاموش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی شادی کو ایک ماہ ہوگیا تھا اس دوران اس نے کسی حد تک حقیقت کو قبول کرلیا تھا فواد کی نرم طبیعت کے باعث وہ اس سے کافی اچھی طرح بات کرنے لگی تھی دونوں کے تعلقات میں بھی بہتری آگئی تھی۔
''السلام علیکم'' اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا
''وعلیکم السلام'' وہ لائٹ گرین کپڑوں میں ملبوس کھلی کھلی لگ رہی تھی۔
''کیسا دن گزرا آپ کا؟'' اس نے خوشدلی سے پوچھا۔
''دن اچھا گزر گیا میرا اور پتا ہے میں نے آج فسٹ ٹائم کھانا بھی بنایا ہے۔'' اسکی آواز میں بچوں سی خوشی تھی۔
''ویری گڈ! میں فریش ہوکرآتا ہوں آپ کھانا لگائیں۔''
وہ سر ہلاتے ہوئے باہر نکلنے لگی جب اس نے پکارا
''سمل''
''جی؟'' وہ پلٹی۔
''آپ کے گھرسے کوئی ملنے آیا تھا پچھلے دنوں؟''
''نن نہیں۔۔نہیں تو۔''
''اوکے'' وہ کہتے ہوئے واشروم میں بند ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخاری لاج میں ناشتے کی میز پر سب جمع تھے یمنی اور غزالہ بیگم سب کو ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔
''ابا جان لاشاری صاحب دوبارہ آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں''
''ہاں تو بھائی صاحب بلالیجیئے انہیں۔اب ویسے بھی سہانہ۔کی پڑھائی مکمل ہونے والی ہے دیر کرنا مناسب نہیں۔'' منہاج صاحب نے مشورہ دیا۔
''یہ تو ابا جان ہی بتائیں گے پہلے بھی انہوں نے ہی منع کردیا تھا۔''
''ہاں بیٹے بلالو انہیں اس ہفتے کو۔ ٹھیک ہے نا صفیہ؟'' انہوں نے ان سے رائے لی کہ پہلے ان کے کہنے پر ہی منع کیا تھا۔
''جی ابا جان بلالیں۔'' وہ مجبوراً بولیں۔
سہانہ ایک جھٹکے سے کرسی کھینچ کر اٹھی اور ڈائننگ روم سے نکل گئی۔
''اسے کیا ہوا؟؟'' ابتہاج صاحب حیران ہوئے
''شرما گئی ہے شاید۔'' صفیہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولیں۔
''اسے اپنی زبان میں سمجھادو صفیہ! میں اب اس گھر میں دوسری سمل ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔'' انہوں نے انگلی اٹھا کر انہیں تنبیہ کی اور کمرے سے نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سہانہ؟؟تم یہاں؟؟ اس نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا
یہ اسکا اس مہینے میں پانچواں چکر تھا
''ہاں تمہیں اچھا نہیں لگا میرا آنا؟'' وہ مصنوعی ناراضگی سے بولی۔
''دیکھو سہانہ میں نے فواد کو نہیں بتایا کہ تم یہاں آتی ہو انہیں پتا۔چلا تو انہیں بہت برا لگے گا اسلیے تم یہاں نہ آیا کرو میں اپنی زندگی میں خوش ہوں اور۔۔۔۔''
''تم نے شرط کے بارے میں کیا سوچا؟''
''مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔'' اس نے رخ موڑ لیا۔
''بات تو تمہیں کرنی پڑے گی کیونکہ فواد میرا ہے اور میں اسے تم سے چھین لوں گی۔'' اسکا لہجہ بہت سخت تھا۔
میں نے خواب دیکھے تھے اس جگہ کے جہاں تم کھڑی ہو۔'' انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیا
''اور میں اپنی جگہ واپس لوں گی۔'' وہ پلٹی اور سامنےآنے والے کو دیکھ کر اپنی جگہ جم گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔