“کیاہوا”
سمل نے قدرے بیزاری سے دریافت کیا۔
“میں دیکھتا ہوں"
وہ کہتے ہوئے باہر نکلا۔
وہ بھی اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔
وہ بونٹ اٹھا کر چیک کر رہا تھا۔
"مجھے لگتا ہے گاڑی کو ورکشاپ بھیجناپڑےگا"۔
"کوئی ٹرانسپورٹ دیکھ لیتے ہیں۔گاڑی لاک کر دیتا ہوں ڈرائیور لے جائے گا۔"
اس کے رسان سے کہنے پر اس نے سر اٹھایا اور طنزیہ انداز میں بولی
"یہ پاکستان ہے فواد صاحب کل تک یہاں آپکو گاڑی کا نام ونشان بھی نہیں ملے گا۔"
"کوئی بات نہیں ۔میرے لیے اسوقت آپکی حفاظت زیادہ ضروری ہے۔"
وہ کہتا ہوا آگے بڑھا تو وہ بھی قدرے حیران سی اس کے پیچھے ہولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برستی بارش میں ٹرانسپورٹ ملنا بھی محال تھا۔ آدھ گھنٹے کی خواری کے بعد ایک ٹیکسی ملی ۔ جس وقت وہ تھکن سے چور بھیگے ہوئےگھر پہنچے سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
"کہیں سب لوگ مہندی لے کر یمنی کے گھر چلے تو نہیں گئے؟؟؟"
وہ پریشانی سے روہانسی آواز میں بولی۔
"گیٹ کھلا ہوا ہے۔ شاید اندر کوئی ہو میں موبائل کی لائٹ آن کرتا ہوں۔"
فواد کا انداز تسلی آمیز تھا۔
موبائل کی روشنی میں آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔لاوئنج سے گزرتے ہوئے جانے کس چیز سے اسکا پاوُں الجھا اور اسے سنبھالنے کی کوشش میں فواد کا۔۔۔۔دونوں دھڑام سے صوفے پر گرے۔
اسی پل لائٹ آن ہوئی اور سارا ہال جگمگا اٹھا۔
آنکھوں کو چندھیاتی روشنی میں جب وہ دیکھنے کے قابل ہوئی تو تمام گھر والوں کو ہال کے دروازے پر دیکھ کر ششدر رہ گئ۔
ان کے چہروں پر کیا کیفیت تھی ایک نظر خود کو دیکھا تو سمجھ آگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صوفے پر گرے فواد کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور فواد کی بانہوں کا گھیرا اسکی کمر کے گرد تھا۔
وہ فوراً سے پیشتر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر۔۔۔۔۔
''ارے دیکھیے اباجان! کیسا شیطانی کھیل کھیلا جارہا ہے اس گھر میں۔''ارے میں پوچھتی ہوں ہمارا ہی گھر ملا تھا تجھے اس گندگی کےلیے؟؟ اسی دن کےلیے تیرے اتنے لاڈ اٹھائے تو ہمارے سر میں سواہ ڈال دے"۔ صفیہ بیگم کی پاٹ دار آواز سارے میں گونج رہی تھی سب ششدر کھڑے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''مامی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟؟آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نہیں جانتی آپ کیا کہہ رہی ہیں اور۔۔۔۔۔۔''
''ارے بس بس! " صفیہ بیگم نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔''جانتی نہیں ہو کیا کر رہی تھی اس کے ساتھ" بڑی ہی بےدید لڑکی ہو بھئ آنکھوں دیکھی جھٹلا رہی ہو۔ ہم کیا بچے ہیں جو تمہاری ان باتوں سے بہل جائیںگے؟؟"۔
"خالہ آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں تو بس۔۔۔"
چھوڑو میاں! تم نے مجھے بے عزت کردیا۔ بھانجا سمجھ کے گھر بلایا تھا تمہیں۔ اگر یہ ہی بے لحاظ ہو گئ تھی تو تم ہی کچھ سوچ لیتے۔''
''اباجان! آپ تو میرا یقین کریں۔ آپکی سمی ایسی نہیں ہے۔ یہ بس ایک غلط فہمی ہے۔ میرا اعتبار کریں۔''
سمل نے افنان بخاری صاحب سے التجا کی پر وہ خاموش کھڑے رہے۔
''ماموں جان! میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں''۔
''چھوٹے ماموں! میری بات سنیں میں سچ کہہ رہی ہوں'' وہ باری باری سب کے پاس جا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''ابا جان! کچھ بولیے نا پلیز انہیں بتائیے آپکی سمل ایسی نہیں''۔ وہ روتے ہوئے انکی ٹانگوں سے لپٹ گئ۔ انہوں نے آہستگی سے اسے علیحدہ کیا اور اپنے کمرے کی جانب چل دیئے۔
''ابا جان ابا جان رک جائیے میری بات تو سنیے پلیز ابا جان''۔
وہ روتی رہی،پکارتی رہی پر انہوں نے کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کردیا۔
''اور تم بے غیرت آدمی! اب کیوں کھڑے ہو یہاں سے دفع ہو جاوُ۔'' عمران غصے کے عالم میں اسکا گریبان پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا۔
''دیکھو عمران! ایسا کچھ نہیں ہےجو تم لوگ سمجھ رہے ہو۔ میرا یقین کرو سمل بالکل پاکیزہ ہے۔" فواد نے لہجے کو حتی الامکان ٹھنڈا رکھا۔
''سمل کیا ہے یہ ہمیں تجھ سے جاننے کی ضرورت نہیں۔ نکل یہاں سے اس سے پہلے کہ میں رشتہ داری کا لحاظ بھی بھول جاوءں۔" عمران بدستور غصے میں تھا۔
اس نے بے بسی زمین پر شکست خوردہ انداز میں بیٹھ کر روتی سمل کو دیکھا اور گہری سانس بھرتا باہر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی سب ایک ایک کر کے اپنے کمروں کی جانب چل دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''آپی''۔رانیہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئ اور آہستگی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
''رانیہ،رانو میں بے قصور ہوں۔ میں نے صفیہ مامی کو فون کر کے بتایا تھا کہ میں فواد کے ساتھ آرہی ہوں۔ اسکی گاڑی خراب ہو گئ تھی اس لیے دیر ہوگئ۔ وہ مجھ پر کتنے گندے الزام لگا رہی ہیں۔'' وہ رانیہ کا ہاتھ تھامے روہانسی آواز میں وضاحت کررہی تھی۔
''میں جانتی ہوں آپی آپ جھوٹ نہیں بولتیں مگر گھروالوں نے آپکو جس حالت میں دیکھا انکا غصہ بھی جائز ہے۔ اب آپ اٹھیے اپنے کمرے میں چلئے۔صبح تک اباجان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا وہ آپکی بات ضرور سمجھیں گے"۔ رانیہ کا انداز تسلی آمیز تھا
''لیکن میں''۔ اس نے کچھ کہنا چاہامگر وہ اسکی بات کاٹ کر بولی۔ '' میں نے کہا نا آپی سب ٹھیک ہو جائے گا۔اب آپ اپنے کمرے میں چلئے۔" اس نے سہارا دے کر اسے کھڑا کیا اور کمرے میں پہنچا گئ۔
کمرے میں پہنچتے ہی اسکے آنسو دوبارہ امنڈ آئے۔یہ کیا ہوگیا تھا اسکے ساتھ۔صرف چند لمحوں کا کھیل اور سب ختم۔ کیا وہ اتنی بےاعتبار تھی کہ کسی نے۔اس سے وضاحت مانگنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اتنے سالوں میں اسے پہلی بار محسوس ہورہاتھا کہ وہ بے سروسامان ہے اسکا کوئی گھر نہیں۔ اگر اس کے ماں باپ زندہ ہوتے تو کوئی بھی اتنی آسانی سے اس پر انگلی نہ اٹھاپاتا۔رات اس کے آنسووءں سے بھیگتی اسکی بےبسی کا ماتم کرتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''سہانہ! کیا کررہی ہو یہاں؟ یمنی بلارہی ہے تمہیں'' وہ قدرے سائیڈ پر ہو کر سمل کو فون کر رہی تھی جب رابی(یمنی کی کزن) اسے بلانے آئی۔
''ہاں چلو"۔ وہ اسکے ساتھ اندر چلدی۔
''کہاں تھیں تم؟؟کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔ سمل بھی نہیں آئی اور تم بھی۔" بولتے بولتے اسکی آواز بھرا گئ تھی۔ آج یمنی کی رسم مہندی تھی عمران کی رسم کل وہ لوگ گھر پہ ادا کر چکے تھے وہ ساتھ نہیں آیا تھا۔
''ارے میری بھابھی رووء مت! میں سمل کو کال کر رہی تھی اسکا نمبر بند جارہا ہے اور گھر پہ بھی کوئی فون نہیں اٹھارہا۔''
''سمل سے تو میں بات ہی نہیں کروں گی اس نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔'' یمنی سخت ناراض تھی۔
''مجھے لگتا ہے اسکی طبیعت زیادہ خراب تھی تبھی مما نے سب کو بلا بھیجا۔'' صفیہ بیگم کی کال پر اس کے اور ثانیہ کے علاوہ سب گھر چلے گئے تھے۔
''پریشان نہ ہو تمہیں پتہ تو ہے اسکی عادت کا۔ کسی بات پر موڈ خراب ہو گیا ہوگیا اور سارے گھر کی دوڑ لگوادی۔" یمنی نے ہلکے پھلکے انداز میں تسلی دی۔ اسکی بات ہر وہ پھیکا سا مسکرادی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔