فرمودۂ اقبال ہے:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
عالمِ اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ بادئ برحق حضرت رسول ﷺ کی بعثت کے بعد ہدایت و رشد کے ذریعے جو علمی و عملی انقلاب آیا اس کے نتیجہ میں ایمانی جوش و جذبہ کے تحت ایک سو سال کے عرصہ یں ملتِ اسلامیہ کرّہ زمیں پر تین برِّاعظموں کے وسیع و عریض علاقہ پر فاتح قوم کی حیثیت سے حکمرانی کرنے لگی اور چھ سو سال تک سقوط بغداد سے پہلے ان کے زیرنگیں ممالک میں دین اسلام کی حقانیت کے زیر اثر تمام علوم متداولہ میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ دینی علوم کے علاوہ عمرانیات، طب ، ادب و سائنس ، تعمیر ہندسہ اقلیدس اور دیگر علوم و فنون کو بہت فروغ ملااور یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ مغربی سائنس ترقی عالمِ اسلام کی بنا کردہ تہذیب و ترقی کی توسیع ہے۔ مثال کے طورپر دیکھیں کہ گیارہویں صدی کے آغاز میں سلطان محمود غزنوی کے ایک بے مثل شجر عالم ابو ریحان البیرونی نے زمین کا محیط ۲۵ ہزار میل کے قریب حساب لگا کر بتا دیا تھا۔ جب کہ اس وقت یورپ جاہلیت اور پست معاشرتی حالت میں تھا ۔ جب کہ ۵۰۰ سال بعد سولہویں صدی میں دنیا کے مسیحی مراکز اٹلی میں گلیلیو نے زمین کے گول ہونے کا اعلان کیا تو عیسائی مذہبی پیشوا۔ں اور عوام نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر موت کی سزا دے دی۔ بے چارے گلیلیو نے جان بچانے کی خاطر اپنا اعلان واپس لے لیا اور نہایت عاجزی سے اپنی غلطی کا اقرار کرتے ہوئے معافی کا خواستگار ہوا۔ اس پر بھی اُسے یہ رعایت دی گئی کہ اُسے کفر کے جرم کی پاداش میں ملک بدر کر دیاگیا۔
عیسائی دنیا نہ جانے کب تک پس ماندہ حالت میں رہتی ۔ اگر اسپین کی مسلمان حکمرانوں کی قائم کردہ درسگاہوں سے غیر مسلم لوگوں کو حصولِ تعلیم کا موقع نہ ملتا۔ جس کے بعد استفادہ کرنے والوں میں مارٹن لوتھر، والٹیر، روسو ،لاک، ہوبزنے کلیسائی علما کی جاہلیت کا پول کھولا اور اُن کی جاہلانہ جمود پر مبنی رسوم و رواج عقاید کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کی روشن خیالی کو رہنما بنا کر علومِ جدید ، سائنس و حکمت ، صنعت گری کی طرف رجوع کرکے ایسا انقلاب پیدا کیا۔ جس کے نتیجہ میں آج کی حیران کرنے والی ترقی ہمارے سامنے ہے۔
اس کے برعکس مسلمان رفتہ رفتہ سہل پسند ہو کر ایمان و یقین و تعمیری عمل سے دور چلے گئےاور ان کی عظمت اور شان و شوکت بقول علامہ اقبال استبدادی ملوکیت ، خود غرض، ملائیت اور تارکِ عملی اور خانقاہیت کے تباہ کن اثرات سے انھی مغربی قوتوں کے محکم ہو گئے۔ جن پر کبھی وہ خود حکومت کرتے تھے۔ اس کیفیت کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
ایک اور شاعر کا شعر اقبال نے حوالے کے طورپر اپنے کلام میں لکھا ہے:
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشں کند چشم زلیخارا
مگر حقیقت کی نظرسے دیکھیں تو خود کردہ را علاج نیست۔ اس ادبار، پستی و بدنصیبی اور پس ماندگی کی ذمہ دار خود انتشار شدہ عیش و سہل پسندی کی عادی ملتِ اسلامیہ ہے۔ اقبال نے یہ ساری داستان ایک شعر میں سمو دی ہے:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس درباب آخر
یوں تو عالم ِ اسلام گذشتہ کئی صدیوں سے سقوط بغداد، سقوط غرناطہ ۱۹۲۱ء میں اختتام خلافت عثمانیہ مغربی استعماری قوتوں کے ذریعے ایک عبرتناک سلسلہ ہے۔ مگر ہندوستان جہاں کی ہماری اپنی بودو باش ہے اُس کی داستان بھی ایسی ہی المناک ہے کہ سینکروں برسوں ہندوستان پر متواتر حکومت کرنے کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد نفس پرست، عیاش ، کوتہا اندیش مغل حکمرانوں کا سلسلہ چل پڑا۔ انگریزوں نے جو تاجروں کی صورت میں ہندوستان میں وارد ہوئے انھوں نے حکمرانوں کی کمزوری کو سمجھ لیا اور ن کی باہمی عداوتوں و نا اتفاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید ایک دورے کو آپس میں بدظن کرکے لڑاتے اور بک جانے والے غداروں کے ذریعے آہستہ آہستہ ہندوستانی حکومتوں کو ختم کرتے ہوئے ملک پر اپنی حاکمیت قائم کر لی۔ چنانچہ ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی، غدار میر جعفر کے ذریعے بنگال پر قبضہ ۱۷۹۹ء میں میسور کے شیر دل دانا حب الوطن ٹیپو سلطان کو نواب صادق کی غداری کے ذریعہ اور ۱۸۵۷ء میں نام کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو مٹاتے ہوئے آخر شب چراغ سحری کی طرح نام کی حکومت کو بھی گل کرکے بلاشرکت غیرے تمام ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ جس کے بعد مسلمانانِ ہند کا نہایت پرآشوب دور شروع ہوا۔ پہلے تو انگریزی فوج نے بغاوت کے الزام میں اَن گنت مسلمانوں کو مسلمان ہونے پر تہ تیغ کیا، پھانسیوں پر لٹکایا، کالے پانی کی عمر قید سزائیں دیں۔ معاشرتی طورپر شکست خوردہ مسلمانوں کی ذلت اور نکبت انتہا کو پہنچ گئی۔ جب فارسی کی جگہ ملک و دفاتر میں انگریزی زبان رائج کر دی۔ تمام مسلمان یکسر بے روزگار ہو گئے۔ علماء نے انگریزی زبان میں حصولِ علم خلافِ اسلامی عمل قرار دیا۔ ہندوؤں نے فوراًانگریزی زبان میں تعلیم قبول کر لی۔ انگریزوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں کی وجہ سے ویسے ہی عداوت و نفرت تھی۔ انھوں نے ہندوؤں پر تمام ملازمتوں کے دروازے اور بااختیار ادارے وا کر دیے اور تمام تجارت پر ویسے ہی ہندو قابض تھے۔ ان حالات میں مسلم قوم کی معاشی حالت سخت بدتر ہوتی گئی۔ مزید برآں مسلم شرفا کی کمزوری مالی حالت میں انھیں قرضے دیکر ان کی مجبوریاں کا فائدہ اٹھا کر جائیدادیں اور زمینیں قرق کرانی شروع کر دیں۔ ہندو کارندے جو پہلے مسلمانوں کے ملازم ، منشی ،زمینوں پر کاشت کرنے والے مزارعے تھے۔ مالک بن گئے۔ غالب کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا والد چھاسیہ دیگر رشتہ دار نواب جاگیر دار تھےؤ مگر ۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد نہ جاگیریں رہی ، نہ پنشں، نہ مغل بادشاہ کا وظیفہ رہا۔ تنگدستی کی حالت میں گھر کے برتن اورکپڑے بیچ کر کسی طرح اپنی اور افراد خانہ کی تن پروری کرتا رہا۔ اس دوران میں ان کا ایک شاگرد شیونارائن جس کا والد غالب کے آباء کا ملازم تھا۔ اس کی مدد حقِ شاگردی اور احترام میں کرتا رہا۔ تاوقتیکہ نواب رامپور نے غالب کی دستگیری کا ذمہ لیا۔غالب جیسے نابغۂ عصر شخصیت کی زبوں حالی بے قدری سے عام مسلمانوں کی حالت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔
مگر مسلمان جو علمی، عقلی، طاقت، لیاقت میں دوسری قوموں سے کہیں برتر تھے۔ حالات کی مشکلات کے باوجود نا امید نہ ہوئے۔ اُں میں سرسید اوران کے مخلص رفقاء نے وقت کی نبض کو سمجھ کر حالات سے نپٹنے کا لائحہ عمل وضع کرلیا اورانھوں نے بدیشی حاکموں اور مقامی مخالف قوم سے نبردآزما ہونے کے لیے قوم کے دل سے مایوسی اور ناامیدی ختم کرنے کے لیے گوشہ ا سلامی عظمت کا احساس دلایااور کوی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے حالات کے تقاضوں کے مطابقوقار طریقہ سے جدید علوم سے خود کو آراست کرنے کی تلقین کی۔ منزل کی درست سمت طے ہو گئی تواسلامیان ہند حصولِ آزادی کے لیے کوشاں ہو گئے۔ علامہ اقبال ان مخلص رہنماؤں کے سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ جو اپنے بے پایاں علم، مسلمانوں کے علاوہ تمام انسانیت کے درد مند، عمل و حرکت کے علمبردار، توحید اور رسالت پر مکمل ایمان و پیہم پر یقین رکھنے والے، بیداری و ہوشمندی کو آرام طلبی و بے عمل عبادات پر ترجیع پسند۔ خودآگاہی، و خودشناسی سے اپنے اوصاف کو بروئے کار لا کر قوم کو رفعتوں پر دیکھنے کے شدید متمنی تھے ۔اور صحیح معنوں میں حکیم الامت تھے۔ انھوں نے قوم کو بیدار کرتے ہوئے خالق کائنات اور اس کے محبوب کی لاریب تعلیمات پر مکمل ایمان و یقین کے ذریعہ مسلسل جدوجہد ، تگ و تاز ، جسے وہ عشق کا نام دیتے ہیں کہ ذریعے خودی کی تکمیل کا درس دیا۔ جنھیں عشق کی حالت میں توحید پر مکمل یقین کے ساتھ اطاعت کرنے اور ضبط نفس کے ذریعے فروعی دنیاوی خواہشات کو قربان کرکے ضابطۂ حیات کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں ہر دم کوشاں رہ کر وابستے افرادِ مسالکین و سائین کو بے لوث عبادت، ریاضت اور حصول مقصد کی سچی لگن اور ذوق و شوق کے ذریعے حصولِ منزل میں کامیاب ، قربِ الٰہی میں کامران، دنیاوبی کامیابیوں کے علاوہ ماورائی مراتب بھی عطا ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اوران کے افعال و اعمال میں خدا تعالیٰ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ بقول اقبال:
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کارساز
خاکی و نوری بندۂ مولا و صفات
بر دو جہاں سے اُس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہہ دلنواز
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
لازم ہو یا بزم ہو پاک دل پاک باز
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رکت سفر میر کارواں کے لیے
غرضیکہ دین اسلام کا سچا پیروکار ہونا آسان نہیں ۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
چنانچہ اقبال کے پیمبرانہ کلام کو اسلامیان ہند نے حرزِ جاں بنا کر آزادی وطن کے حصول اور عظمت رفتہ کی بازیافت پر پُر عزم ہو کر ہمت باندھ لی اور قائد اعظم کی بے مثل قیادت میں متحد ہو کر ہر طرح کی قربانی دے کر اپنے یقین کی منزل بھی آزاد فن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اقبال کی بشارت کو سچا ثابت کر دیاکہ :
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
عراق مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے ہیں اس راز کو سینا و فارابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطقِ اعرابی
گویا اقبال اسلامیان ہند کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوئےجس کی ایمان، یقین اور صدق کی فطری رفعتوں نے ان کے دلوں کی مایوسی ، ناامیدی اور تاریکی کو حرارتِ ایمانی، ولولہ تازہ اور پرجوش عزم و ہمت میں بدل کر ناقابل تصور امکان کامیابی کی راہ دکھائی۔
مناسب لگتا ہے کہ عنوانات کے بارے میں مختصر ذکر کے ساتھ اقبال کے چیدہ چیدہ اشعار صراحت کے لیے پیش کیے جائیں۔
توحید، ایمان و یقین۔ اقبال ایک عظیم شاعر ، مصلح و مفکر ہے۔ اس کی تمام شاعری کا منبع قرآن حکیم اور سنتِ رسول ﷺہے۔ جس سے اُس نے توحید، رسالت پر مکمل ایمان، بندگی ، اطاعت اور ضبط نفس کی موثر تلقین کی تاکہ قوم وسیع کائنات کو پیدا کرنے والے اور اس کے پرفیکٹ نظام کو معروف اطاعت دیکھ کر خود بھی اپنے اعمال میں اطاعت شعار بن کر قرب الٰہی سے سرفراز ہو کراور بے یقینی گمان سے پاک ہو کر بحیثیت نائبِ حق تعالیٰ اُس کی صفات کا حامل ہو جائے۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیداکر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
میرے ہے چرخ نیل فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد سلا ہوں وہ کارواں تو ہے
توحید کی عظمت کا معترف ہونے کے لیے یقین لازمی ہے کہ نظام مبنی کو چلانے والی قوت لازوال ، بے مثال و بے مثل ہے اس کے نظام کا مسلسل منضبط انداز میں رواں دواں رہنا، گردشِ لیل و نہار اور حیات و ممات کا سلسلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ عظیم ہستی جو سارے نظام کی خالق ہے۔ اس پر دل سے ایمان لایا جائے۔ توحید الٰہی پر یقین کے ساتھ عشق الٰہی کے وجدان سے فہم و ادراک کے در وا ہوتے ہیں۔ یہ سرمدی کیفیت عرفان ذات کی نعمت سے سرفراز کرتی ہے۔ذاتِ باری پر ایمان و یقین ہی اقبال کے تصور خودی کی اساس ہے۔ فرمایا کہ :
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
خودی کے عرفانِ ذات سے ہی انسان خالق کائنات کی عظمت و کبرائی کا ادراک کر سکتا ہے:
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ
یہ مال و دولت و دنیا یہ رشتہ پیوند
بتاں و ہم و گمان لا الہ الا اللہ
عشقِ الٰہی میں بے پناہ قوت کا راز مضمر ہے۔
ایں دو حرفِ لا الہ گفتار نیست
لا الہ جُز تیع بے زنہار نیست
زیستن با سوز اُو قہاری است
لا الہ ضرب است و ضرب کاری است
قوت ایماں حیات افزائدت
ورد ولا خوف علیہم بائدت
چوں کلیمے سوئے فرعون رود
قلبِ او از لا تخف محکم شود
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے
مرد حق محکم ز ورد لا تخف
ما بمیداں سر بجیب، اُو سربکف
مرد میداں زندہ از اللہ ہوست
زیر پائے اُو جہانِ جار سو است
جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پروروح الامیں پیدا
جب تک ترے ضمیر پہ نازل نہ ہو کتاب
گرہ کشاہ ہے نہ رازی نہ صاحب ِ کشاف
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا ہے غارت گر باطل بھی تو
یقین مثلِ خلیل آتش نشینی
یقین اللہ ستی خود گزیں
سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے ہے بد تر بے یقینی
آچ بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے نغوزی
اقبال کی نظم ، نثر واضح طورپر زندگی کے بنیادی امور و مسائل کو آشکار کرتی ہے جو قرآن حکیم کی توضیح و تشریح سے ہمارے لیے لائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اس سے ہمارا راستہ واضح اور آسان ہو جاتا ہے ۔ بشرطیکہ ہم کلامِ اقبال کو توجہ دیں اور سمجھ کر خلوص دل سے اس پر عمل کریں۔ یونکہ اقبال تواپنی شاعری کی مدح و ستائش کا بالکل خواہاں نہیں۔ وہ تو صرف بھٹکی ہوئی قوم کو سیدہ راہ پر لانے کے لیے شاعری کا سہارا لیتا ہے۔ جو یوں ظاہر ہے۔
شعر کجا رمن کجا شعر و سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشنم ناقۂ بے زمام را
اقبال نے مغربی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو مسترد کر دیا ہے اور یقین و اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیماتِ اطاعت خدا اور رسول ﷺمخلوق کے لیے درد مندی، اخلاص، جدوجہد، عملِ پیہم کی طرف اپنی قوم کو راغب کرنے کی سعی ہے۔ جو ہمارے مصائب و مشکلات کا تریاق ہے ہمیں اس کے پیمبرانہ کلام سے اذہان و قلوب کو منور کرنا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک ایمان ، یقین و اعتماد کے بغیر سیرت و کردارناممکن ہے۔ تنازع للبقا کی زبردست آویزش میں وہی کامیاب ہوں گے جنھوں نے پُر اعتماد طریقے سے زندگی کے تلخ حقائق کو قبول کیا۔ روشن مستقبل کی امید رکھ کر پورے اخلاص، ذوق و شوق سے محنت و جدوجہد کرتے رہے۔ اور آخر کامیاب ہو کر جریدۂ عالم میں اپنا نام روشن کارناموں سے ثبت کر گئے۔
عشق اطاعت رسول ﷺ:اقبال کے نزدیک اتنا ہی ضروری ہے جتنا اطاعت عشق الٰہی ہے۔ جن کی ذات اقدس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ و وسیلہ بنایا۔ جن کے لیے یہ کائنات بنائی گئی جو رحمت للعلمین کے لقب سے سرفراز کیے گئے جن کے لیے ورفعنا لک ذکر ک کہا گیا۔جن کی امامت کے طفیل زمین آسمان، جسمانی ، روحانی ظاہری و باطنی منازل تک رسائی ہوتی ہے۔ حضورﷺکی مدح میں اقبال کی نعت کے یہ شعر دیکھیے :
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب ز خاک میں تیرے ظہور سے نزوع
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا اقام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
(یہ ذزرہ ریگ اقبال نے خود کو کہا ہے کہ حضور کے طفیل اُسے کیا قدر و منزلت نصیب ہوئی )۔ اقبال مزید گویا ہے:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا؟ لوح و قلم تیرے ہیں
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں رہی ا ول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہ
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی خود میں ہے گردوں
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ نجف
عشق دم جبریل، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
زندگی:اقبال کا کلام چونکہ انسانی زندگی کے ارتقا ، سربلندی اور بقا کے لیے ہے۔ اس لیے دیکھتے ہیں کہ اقبال زندگی کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے۔ اقبال کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر مکمل ایمان ہے جس نے وسیع کائنات کی تعمیر کی۔ جس کا کسی انسانی پیمانے سے احاطہ نہیں کیا جا سکتا پھر بھی وہ اس کو مزید وسیع کیے جارہا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
مگر خدانے جو کائنات بنائی ہے اس کے استعمال کے لیے انسان کو تخلیق ، تدبیری ، تعمیری ، تفسیری، انتظامی جوہر ودیعت کرکے اپنے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ اس کی تسخیر کرے اور اس کی فطرت صوت و شکل میں مزید حسن اور نکھار پیدا کرے۔ اور ضرورت کے مطابق نئی چیزیں ایجاد اور تعمیر کرے۔ کیونکہ اب انسان کو محروم شدہ جنت کو بھلا کر دنیا کو ہی جنت کی بہتر صورت دینی ہے۔ بقول اقبال :
توڑ ڈالیں فطرتِ انسانی نے زنجیریں تمام
دوزئی جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک؟
اور انسان اپنے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے بیتاب ہے اوریوں اظہار خواہش کرتا ہے:
پرائے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو نو خیز
اور اقبال بھی اس کی ہمنوائی میں بتاتا ہے :
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
آدم اپنی نیابت کو اس طرح خدا تعالیٰ کے سامنے درست ثابت کرتا ہے۔
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان کسار دراغ آفریدی
خیابان گلزار، باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر غوشینہ سازم
اقبال کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی بھٹکی ہوئی خوابیدہ قوم کو بیدار کرکے ماضی کے شان و شوکت کے کارنے سرانجام دینے پر پھر آمادہ کرے اس کے نزدیک زندگی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو اُسے دیے ہوئے اوصاف کو بروئے کار لا کر تخلیقی فکر و عمل کے امتحان کے لیے ہے۔
دیکھیے اقبال انسان کو محترک اور باعمل بنانے کے لیے گوش گذار کرتا ہے!
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
آئی صدائے جبریل پر اسقام ہے یہی
اہلِ فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جائے
کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
ضمیر لالہ میں روشن چراغ جستجو کر دے
چمن کے ذرّے ذرّے کو شہیدِ جستجو کر دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ
وابستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
اقبال انسان کے دل سے موت کا خوف مٹادیتا ہے کہ موت کی کوئی حقیقت نہیں اصل شے زندگی ہے جو ابدی و لازوال ہے۔
موت تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کےپردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
موت کو کہتے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبح دوام زندگی
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن ترا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ
موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقشِ حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظامِ کائنات
جوہرِ انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائو تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کو ہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شپرو تیشح و سنگِ گراں ہے زندگی
چنانچہ اقبال کا یہ حیات بخش کلام تمام انسانوں بالخصوص مسلم قوم کے لیے بہت بڑی عطا اور احسان ہے کہ اس نے انسان کے دل سے موت کا خوف دور کرکے اُس کے دل میں حیات جاوداں کی امید پیدا کی ہے۔
مضمون کے حرف آخر کے طورپر عرض ہے کہ آج کل وطنِ عزیز انتہائی پریشان کن مسائل سے دوچار ہے۔ جس کا حل صرف قرآن حکیم کی ہدایات جس کی اقبال نے اپنی قومی زبان میں بہترین تشرح کی ہے پر پورے طور پر عمل پر ہے یہ ہمارے لیے از حد خوش قسمتی کی بات ہے لیکن موجودہ ارباب اختیار جان بوجھ کر اقبال سے بے اعتنائی برت رہے ہیں کہ یہ ان کی نفسانی ناجائز خواہشات پر قدغن لگاتا ہے۔ خدا کرے ہمیں ایسی قیادت نصیب ہو جو دین سے مخلص ہو اور کلام اقبال نظم و نثر کی معجزنما اہمیت پر یقین رکھتی ہے۔
[نوٹ: مضمون میں تمام اشعار کلیاتِ اقبال سے ماخوذ ہیں]
علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کا آئینۂ استقبال۔ پاکستان
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی صبح کا خورشید آزادی کی خوشخبری کے ساتھ طلوع ہوا۔ پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا تھا۔ کیا ساعتِ سعید تھی کہ رمضان المبارک کا مہینہ، ستائیسویں یعنی لیلۃ القدر اور جمعۃ الوداع کا مبارک دن تھا۔ جن سے پاکستان کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، عنایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ نئے آزاد ملک کی فضا پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، علامہ اقبال زندہ باد کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ مسلمانانِ پاکستان سجدۂ شکر بجالائے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عالمی سطح پر سب سے بڑے اسلامی مملکت اور دنیا کے ممالک میں پانچویں بڑی ریاست عطا کی تھی۔ یہ ایک معجزہ لگتا ہے کہ صرف سترہ سال پہلے ۲۹؍ دسمبر۱۹۳۰ء کو علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی خطبۂ الہ آباد میں مسلمانوں کو اکثریت والے حصے کو مسلمانوں کا الگ آزاد وطن قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے حصول کی کوشش کے تقریباًسات سال بعد ۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مگر آزادی کا وہ جذبہ جو وہ قوم کے دل میں سمو گئے تھے اسے حرزِ جاں بنا لیاگیا ۔ اُن کی وفات کے دو سال بعد ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور بمقام اقبال پا رک قرار داد لاہور جو قرار داد پاکستان کہلائی۔ زیر صدارت قائد اعظم مسلمانانِ ہند کی طرف سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ منظور ہوئی جس میں جس میں قائد اعظم نےفرمایا کہ یہ قرار داد مسلم قوم کو الگ آزاد وطن کے لیے اٹل فیصلہ ہے جس سے ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انھوں نے فرمایا کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ان کے بعد ہم وہی کر رہے ہیں جو وہ چاہتے تھے اور تقریباًساڑھے سات سال بعد اقبال کے آزاد وطن کا خواب ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کو تمام عالم نے پورا ہوتے دیکھا۔ جس کی بشارت اقبال کے کلام میں کئی جگہ ملتی ہے ۔ جیسے کہ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمات کی رات سیماب پا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
اور یہ حقیقت ہے کہ آزاد وطن کا پورا ہونے والا خواب اقبال جیسے دیدہ ور، دانائے راز ، صاحبِ حال وجدانِ و عرفان کو ہی آ سکتا تھا۔ جو بے پایاں علم و حکمت کے ساتھ فقر و استغنا، درویش و بے نیازی صفاء قلب اور حق گوئی کی ملکوتی صفات رکھتا ہو اور تگیہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز کا مرقع ہو۔ انھوں نے اپنی الہامی شاعری کا اظہار یوں کیا ہے:
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغام سروش
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ مے خانہ
وہ اپنی باکمال شاعری کو صرف خوابیدہ پس ماندہ، منتشر قوم کو بیدار کرنے اور ایک صحیح سمت میں متحد عمل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ فرمایا:
شعر کجا و من کجا شعر و سخن بہانہ ایست
سوئے قطارمی کشم ناقۂ بے زمام را
وہ سمجھتے تھے کہ انھیں خدا نے قوم کی رہنمائی کا فریضہ سونپا ہے۔ جس اظہار یوں کیا ہے:
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
تیرے لیے ہے میرا شعلۂ نوا قندیل
صفت برق چمکنا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی
اقبال اُمید اور یقین کا شاعر ہے۔ اُسے یقین تا کہ مسلمانوں کی منزل آزاد وطن پاکستان ہےجو حاصل ہو کر رہے گی۔ چاہے یہ اُس کی زندگی میں دیکھنے کی قسمت میں نہ ہو۔ وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا:
نعمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم منور کو طائرکِ بہار کر
یعنی مسلمانوں کی آزادی کا دن اگرچہ آکر رہے گا۔ لیکن اگر میری زندگی میں یہ آرزوی پوری نہ ہو تو میرے کلام میں آزاد وطن کے لیے جو پُر سوز پکار ہے۔ اسے آزادی کی آمد کا نغمہ بنا دے۔
مگر یہ دیکھ کر بے حد دکھ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم کشیدگی اور جھگڑے فساد کی فضا کے پیش نظر تقسیم ہند کے بعد مسلم اکثریت والے علاقوں میں آزاد مسلم وطن کا مطالبہ بغیر تبادلۂ آبادی کے جو فریقین کے لیے آئندہ امن اوربرقی کے فروغ کا باعث ہوتا۔ کیونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مسلم آبادی کی نسبت غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق، جان و مال کے تحفظ کا زیادہ اہتمام کیا ہے مگر کانگرسی متعصب قیادت کے ناپاک اور اسلام دشمن عمل کی وجہ سے مسلم قوم کو آزادی کے مقام تک پہنچنے کے لیے خاک، خون اور آگ کے دریاؤں سے گذرنا پڑا۔ جس سے بڑے تباہی و بربادی ہوئی مشرقی پنجاب میں بالخصوص مسلمانوں کاقتلِ عام کیا گیا ۔ اُن کی آبادیاں ، کھیت کھلیاں تباہ کر دیے گئے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔ جن میں نہتے پا پیادہ قافلوں پر ہندو سکھوں نے حملوں کرکے کئی لاکھ مسلمان شہید کر دیے۔ کئی ریل گاڑیوں میں آنے والوں کو کاٹ ڈالا گیا۔ ہزاروں عورتیں اغوا کر لی گئیں۔ غرضیہ ایسی درندگی و بہمیت کا مظاہر ہ کیا گیا کہ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی تباہیاں بھی ہیچ لگتی ہیں۔
راقم کا تعلق شہر اقبال سے ہے اسے فخر ہے کہ اس نے مرے کالج سیالکوٹ میں ترعلیم حاصل کی ہے۔ جہاں اقبال بھی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اوران کے عظیم المرتبت استاد مولوی میر حسن اسی درسگاہ میں بطور معلم شروع سے آخری عمر تک تمام طالبعلموں کو بلا تمیز مذہب و ملت نہات محبت شفقت سے علم سے فیض یاب کر تے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ ، عیسائی سب اُن کی بے حد تعظیم کرتے تھے۔ اقبال اور اُن کے استاد جیسے اہل علِ علم و حکمت اور انسان دوستی کا جذبہ رکھنے والی شخصیتوں کے طز عمل سے کالج اور شہر کی فضا میں امن سلامتی اور خیر سگالی کے رویوں کو ہمیشہ قائم رکھا۔ او ر باہی محبت ، رفاقت میں زندگی گذرتی رہی مگر سیاسی زندگی کی تحریک میں جب ہندو کانگریس اور مسلم لیگ میں اختلافات بڑھنے لگے تو اس کا اثر کالج کی فضا اور مقامی سطح پر بھی پڑا۔ خاص کر ۱۹۴۶ء کے الیکشن کے دوران تناؤ خاصا بڑھ گیا۔ ہندو سکھ معاشی و اقتصادی طورپر مسلمانوں سے کہیں آگے تھے ایسی طورپر بھی وہ بہت محرّک تھے۔ مگر اقبال کے معجزانہ کلام کے زیر اثر مسلمان بھی کافی بیدار ہو چکے تھے ۔ اقبال بچپن سے ہی شعور کی بلندیوں پر تھے ۔ جس میں عالمگیر انسان دوستی اور باہم پیار ومحبت کے جذبات فطری طورپر فرواں تھے۔ انھوں نے ابتدائی زندگی میں دو عشق کیے۔ ایک عشق تو حصولِ علم کے لیے تھا۔ جس میں ان کی رفتار حیرت ناک تھی اور دوسرا عشق ہندوستان شخصیتوں راجہ رام، سری کرشن، مہاتما بدھ، راجہ پھررسی ہری، رشی و شوامتر، گرونانک وغیرہ۔ جن کی علمی معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات اورملکِ ہند کے فطری حسن کے بڑے مداح تھے جن کی تعریف میں اقبال نے ایسی دلفریب نظمیں لکھیں جن کی مثال کوئی بڑے سے بڑا صاحب علم غیر مسلم پیدا نہیں کر سکا۔
مثلاًبانگِ درا کی پہلی نظم ‘ہمالہ’:
اے ہمالہ اے فصیلِ کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
پھر ترانہ ہندی میں لکھا جس کا ہر مصرعہ دل کو چھو لیتا ہے ۔ ایسا ترانہ کسی ہندوشاعر سے تخیق نہیں ہو سکا۔ اور اب ہند میں بھی رائج ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
پھر ہندوستانی بچوں کا قومی گیت لکھا جو مشترکہ سب قوموں کے بچوں کا ہے
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
وحدت کی لَے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میر ؐعرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
اس کے علاوہ ہندو برہمنوں اور مسلم واعظین کو اہمی اختلافات بڑھانے سے روکنے کے لیے پیار محبت کی تعلیم دی:
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
ترے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا
واعظ کو بھی سکھایا جنگ و جدل خدا نے
آ غربت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقشِ دوئی مٹا دیں
ہندومسلم اختلافات بڑھنے پر دکھی دل سے ملک میں بسنے والوں کو برے نتائج سے اس طرح آگاہ کرتے ہیں:
سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق انگیز ہے
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
آپ ہی کہیے۔ ایسا محبت، خلوص سے لبریز بلا تعصب کلام کسی بڑے سے بڑے ہندو شاعر کو لکھنا نصیب ہوا؟ ہندوؤں کو تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں باہمی اختلافات دور کرنے والا اقبال جیسا عظیم مصلح انسان پیدا ہوا ہے۔ مگر ہندو قوم کے متعلق ایک ہزار سال پہلے محمود غزنوی کا درباری عالم ابوریحان البیرونی جو اپنے زمانے کے علوم میں طاق تھا۔ اپنی مشہور تصنیف کتاب الہند میں جو اُس نے ہندوؤں کے ساتھ کافی مدت گزارنے کے بعد لکھی ، تحریر کیا کہ ہندوعجیب وغریب شکی مزاج متعصب قوم ہے۔ کسی دوسرے کو قریب نہیں آنے دیتی۔ نہ ہی کسی پر اعتماد کرتی ہے۔نہ خود اعتمادی کے لائق ہے۔ ذات پات اور چھوت چھات کسی سختی سے پابندی کرتی ہے ۔ انسانوں کو درجوں میں بانٹ رکھا ہے۔ اور نچلی ذات کے لوگوں سے نفرت کرتی ہے ۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ملیچھ و ناپاک سمجھتی ہے۔کسی دوسرے سے مل کر رہنا پسند نہیں کرتی۔
اقبال نے ہندوستان کی عظمت کے انتے بلند پایہ نغمے سنانے کے باوجود دیکھا کہ ۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن وائسرےہند نے انتظامی ضرورت کے تحت بنگال کو تقسیم کرکے مشرقی بنگال جس میں مسلمان کاشتکاروں ، محنت کشوں مزدوروں کی آبادی زیادہ تھی الگ صوبہ بنا دیا۔ جنھیں مغربے حصے کے ہندوسرمایہ داروں، ساہو کاروں اور صنعتکاروں نے استحصال کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ تاکہ وہ نءے قوانین وضع کرکے ہندوسرمایہ داروں کے استحصال سے بچ کر بہتر معاشی اور معاشرتی زندگی گزار سکیں۔ مگر ہندو قوم مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری کو برداشت نہ کر سکی اور تقسیم بنگال کے خلاف ملک گیر ایسی متشدد اور جنوبی تحریک شروع کی کہ انگریز حکومت کو بنگال کی تقسیم کو مجبوراًمنسوخ کرنا پڑا یہ دیکھ کر اقبال پر وزردش کی طرح واضح ہو گیا کہ ہندو کسی صورت میں مسلمانوں کی بھلائی نہیں چاہتے۔ لہٰذا ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو استحصال اور غلامی سے بچناے کے لیے تحریک آزادی کو نیارخ دے کر مسلمانوں کی نسبت سے اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد کا تعین اور جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کر دیا۔ جس پر وہ آخر دم تک قائم رہے۔ جس کے تحت انھوں نے صدارتی خطبہ الہ آباد مورخح ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم اکثریت والے علاقوں میں آزاد مسلم وطن کا مطالبہ کر دیا۔ اور اسی احساس کے نتیجہ میں ترانۂ ملی لکھا:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ و پیما پھر کارواں ہمارا
قائد اعظم نے بھی ہندو قیات کی ہٹ دھرمی کو ناقابل اصلاح سمجھ کر اپنی بے نظیر قیادت میں ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان کے قیام کو ممکن بنا کر دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ مگر اس مرقعہ تک پہنچنے میں کانگریس اورمسلم لیگ دونوں کو ۱۹۱۶ء میں میثاق لکھنؤ پر باہم سمجھوتہ کے بعدمذاکرات کے کئی کٹھن مقامات آئے جن میں ہر دفعہ کانگریسی قیادت نے مسلم لیگ کی طرف سے انتہائی نرم شرائط جس سے مسلمانوں کے صرف بنیادی حقوق کا تحفظ مقصود ہوتا تاکہ دونوں قومیں امن و آشتی سے مل جل کر رہ سکیں۔ پایۂ حقارت اور تکبر سے ٹھکرا دیتی ہے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کو آئندہ وقت میں اپنے غلام اورمحکوم کے طورپر دیکھتی تھی۔ ۱۹۳۵ء کے الیکشن میں کانگریس پورے عروج پر تھی اورمسلم لیگ ابھی جاگیرداروں، زمینداروں متمول اور خطاب یافتہ لوگوں تک محدود تھی اور عوامی جماعت بننے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس الیکشن میں کانگریس کو بہت زیادہ کامیابی ہوئی اورمسلم لیگ ناکام رہی۔ حتیٰ کہ پنجاب میں ۸۶ میں سے صرف دو سیٹیں حاصل کر سکی۔ چنانچہ کانگرس کا تکبر اور رعونت ساتویں آسمان تک پہنچ گیا اورجواہر لال نہرو نے بڑے غرورسے کہا کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ۔ ایک حکومت برطانیہ اور دوسری نیشنل کانگریس۔ اس پر قائد اعظم نے اُسے فوراًٹوکا اور کہا کہ یہاں تیسری طاقت مسلمان قوم بھی ہے۔ جن کے حقوق کے تحفظ کے بغیر ملک کی قسمت کا کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ قائد اعظم جان چکے تھے کہ انگریز بغیر کوئی منصفانہ فیصلہ کیے چلا گیاتو ہندو کانگرس مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے غلام بنا کر ماضی کی محکومیت کا بدلہ اتارتی رہے گی۔ اور علامہ اقبال نے ۱۹۰۵ء سے ہی تقسیم بنگال پر ہندوؤں کا اسلام دشمن رویہ دیکھ کر مسلم آبادی کے لیے جداگانہ انتخاب کا اٹل اعلان کر دیا تھا۔ اقبال ہندوؤں کی بدعہدی اور کہنہ مکرنیوں کے باعث کانگریس قیادت کو ہر گز قابل اعتبار نہیں سمجھے تھے اُنھوں نے کہا کہ اگر مسلم لیگ ہندو کانگریس کی اپنی لکھی ہوئی شرائط پر مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرے گی تو بھی وہ خود ہی کچھ عرصہ بعد اس میں کوئی نہ کوئی انحراف کا پہلو نکال لے گی۔ اقبال نے ۱۹۲۶ء میں جب وہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہندو کانگریسی قیامت مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کا بہت ڈھنڈورہ پیٹتی ہے۔ مگر اس کا حال کڑک مرغی جیسا ہے جو کڑاک کڑاک کرکے شور تو بہت مچاتی ہے مگر اقلیت کے حقوق کا ایک انڈہ بھی نہیں دیتی۔
چونکہ مسلم لیگ کا مسلم آبادی کی نسبت سے مسلم سیٹوں کی تعداد اورجداگانہ انتخاب مانا جا چکا تھا۔ اور اقبال کے کلام نے قوم کی بیداری پر بڑا مشیت اثر دالا تھا۔ اور قائد اعظم نے لیگ کی قیادت سنبھال لی تھی۔ جن پر قوم کا مکمل اعتماد تھا اورمنظم قیادت کی تشکیل دے دی تھی۔ اس کے علاوہ قومی اخبارات میں زمیندار، احسان خاص کر نوائے وقت نے ہندو پریس کے جھوٹے پراپگینڈہ کا منہ توڑ جواب دے کر عام مسلمانوں کو الگ آزاد وطن کی اہمیت واضح کر دی۔ نیز مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے اور کالج سٹوڈنٹس نے شہروں کی بستوں کے علاوہ دیہاتی علاقوں میں گاؤں گاؤں جا کر انھیں مسلم لیگ کی اہمیت اور انگریزوں اور ہندوؤں ی غلامی آزادی کا مفہوم سمجھایاتو ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں دونوں فریقوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ کانگرس زعم تھا کہ وہ ۱۹۳۵ء کے الیکشن کی طرح دوبارہ مسلمانوں کی سیٹیں بزور یا بزر حاصل کرے گی۔ مگر اُسے منہ کی کھانی پڑی ۔ مرکز میں ۳۰ مسلمان سیٹیں تھیں جو سب کی سب مسلم لیگ نے جیت لیں۔
لوکل باڈیز الیکشن میں کانگرس نے مسلم لیگ نمائندوں کے مقابل اپنے خریدے ہوئی یا کانگریسی مسلمان کھڑے کیے ۔سیالکوٹ جہاں میں کالج سٹوڈنٹ تھا وہاں مسلم لیگی نمائندے کے مقابل کانگرس نے ایک نیشنلسٹ مسمی یوسف بٹ کو کھڑا کیا اور اس کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا۔ مگر لیگی کارکنوں نے ایک اایسا نعرہ وضع کیا۔ جس سے اُس کی ووٹوں کی گنتی کے بعد ضمانت مضبوط ہو گئی اور وہ نعرہ یہ تھا۔یوسف بٹ چوڑ چوپٹ ، قوم نوں ویچ کے پیسے کھٹ۔
اس کے بعد صوبائی الیکشن میں بھی دونوں طرف سے بڑی زور آزمائی ہوئی۔ سیالکوٹ نے شیخ کرامت علی کو اپنا نمائندہ کھڑا کیا اس کے مقابلے میں کانگریس نے مجلس احرار کو جو کانگرس کی حمایت یافتہ جماعت تھی۔ اُس کا ایک چوٹی کا کیڈر مولانا مظہر علی اظہر کو مقابلے کا ٹکٹ دیا۔ مجلس احرار تحریک کشمیر کی وجہ سے خاصی مشہور تھی۔ پھر اُن میں مولانا عطااللہ شاہ بخاری اور شورش کشمیری جیسے اور بھی کئی زبردست خطیب تھے مجلس احرار نے الیکشن کے لیے حکومتِ الٰہیہ کا نعرہ وضع کیا۔ جو درودیوار پرلکھا نظر آتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ پاکستان زندہ باد‘‘لے کے رہیں گے پاکستان’’ کا نعہ لگاتی تھی...
مرے کالج میں ریفریشمنٹ وقفے کے درمیان طالب علم اکٹھے ہو کر سیاست پر تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ ایک احراری نے سوال اٹھایاکہ ہم تو تحریک آزادی میں حکومتِ الٰہیہ کے داعی ہیں۔ مسلم لیگ کے پاکستان کا کیا مطلب ہے؟ وہیں نوجوانِ شاعر اصغر سودائی بھی موجود تھے انھوں نے برجستہ جواب دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ! یہ فی البدیہ جواب موجود سامعین کے دل میں فوراًایسا گھر کر گیا کہ تمام ملک میں کیا بڑے کیا چھوٹے سب کا وردِ زباں بن گیا۔ اس نعرے نے حصولِ پاکستان میں بہت کام کیا جو آج بھی ویسا ہی زندہ و تا بندہ ہے۔ کیونکہ سودائی گولڈ میڈلسٹ اور راقم نے اکٹھے ۱۹۵۰ء میں ایم اے اکنامکس میں کامایبی حاصل کی تھی۔ مگر سب سے دلنشیں نعرہ جو نمایاں الفاظ میں دیواروں پر لکھا نظر آتا وہ تھا ہمارا مذہب اسلام ، ہماری قوم مسلمان، ہماری زبان اُردو۔ میرا خیال ہے کہ یک جہتی اور پاکستان کی روح ہے۔ جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ اسے دوبارہ رائج کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس کے علا وہ کلام اقبال کو قومی سطح پر مقبول بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ جو قرآنی تفسیر ہے ۔ سکتہ کوتاہ مولانا اظہر علی اظہر بری طرح ناکام رہے۔ اور ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں ۸۶ مسلم سیٹوں میں ۷۹ یعنی نوے فیصد لیگ نے جیت لیں۔گویا مرکزی ، صوبائی اور مقامی الیکشنوں کے نتیجہ نے ثابت کردیا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اس کے بعد چاہے تو یہ تھا کہ اکثریت کی بنا پر لیگ ک وزارت پنجاب بنانے کی دعوت دی جاتی مگر اسلام کو ہمیشہ سے غداروں کے ہاتھوں قومی نقصان اٹھانا پڑا۔ یونینسٹ پارٹی اسلامی اتحاد پارہ پارہ کرنے کی وجہ سے جس کے اقبال سخت خلاف تھے ان کے لیڈر خضرت حیات ٹوانہ نے ہندوسکھوں سے جوڑتوڑ کرکے وزارت بنا لی۔ اس صریحاًحق تلفی پر مسلمانوں کو سخت رنج ہوا۔ انھوں نے خضروزارت کے خلاف ایج ٹیشن شروع کردیا۔ تمام پنجاب میں احتجاج کے لیے مظاہرے ہوئے اورہزاروں لیگوں نے گرفتای پیش کر دی۔ سیالکوٹ میں بھی خواص و عام نے گرفتیار دیں۔ روزانہ شہر کے مرکز میں حکومت کے خلاف مظاہر ہوتے ۔ ایک دن مظاہرین اور کالج طلبانے جیل کا رخ کیا جس میں راقم بھی شامل تھااور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرالیا۔ پولس کی بھاری جمعیت موجود تھی مگر روکنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ آخر حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے اور ۲ ؍مارچ ۱۹۴۷ء کو مستعفی ہو گئی اور پنجاب میں گورنر راج نافذ ہو گیا۔ ہندو اور سکھ جو خضر ٹوانہ کی حکومت کے پس پردہ سازشی کاروائی کر رہے تھے اب کھل کر سامنے آ گئے ۔ ماسٹر تارا سنگھ جنونی سکھ لیڈر نے کرپان لہرا کر بول بلند کیا :‘‘جومانگےگا پاکستان، اس کو دیں گے قبرستان’’ اس کے ساتھ ہی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا خونریز قتل عام شروع ہو گیا ۔ یہ فسادات نہیں تھے بلکہ ہندو سکھوں کی سوچی سمجھی سازش کے تحت کھلی غارت گری تھی۔ جس میں مسلمانوں کی آبادیاں، کھیت جلا دئیے گئے ۔مسلمانوں کو مہاجرین کو بے سروسامان کے عالم میں پاکستان کی طرف قافلوں کی صورت میں پاپیادہ یا چھکڑوں پر رخ کرنا پڑا۔ تاکہ جانیں بچ جائیں اور کتنی عورتیں قتل و اغواہوئی اورعصمتیں لوٹی گئیں اس کا شمار نہیں۔
اب چونکہ حالات بالکل واضح ہو چکے تھے کہ ملک تقسیم ہو کر رہے گاتو نہرو پٹیل اور گاندھی کو بھی کہنا پڑا کہ وہ پاکستان دیں گے مگر لنڈورا کرکے جو اتنا کمزور ہوگا کہ جلد ہی پیدا کردہ مسائل کے ہاتھوں عاجز ہو کر ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ ۱۹۴۶ء کے الیکشنز کے نتیجہ سے کانگریس خوش نہ تھی اور وائسرے جنرل ویول کے خلاف تھی کہ اُ س نے کانگریس کو من مانی کاروائی نہیں کرنے دی۔ چنانچہ انھوں نے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی سے شکایت کرکے اُس کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن کا تقرر کرالیا۔یہ بھی ایک سازش تھی کیونکہ لیڈی اور لارڈ مونٹ بیٹن سے جواہر لال نہرو کے دیرینہ گہرے مراسم تھے جس کا نہرو نے ہر طرح سے ناجائز فائدہ اٹھا کر پاکستان کو بے حد نقصان پہنچایا۔ ایک سازش یہ کی کہ دوسرے جنگ عظیم کے بعد ہندوستان پر حکومت جاری رکھنا حکومتِ برطانیہ کے مفاد میں نہیں تھا۔ اس لیے اس نے جون ۱۹۴۸ء تک ملک چھوڑنے کا ارادہ بتادیا۔ یہ سن کر نہرو نے مونٹ بیٹن سے سازش کرکے ہندوستان سے جانے کا وقفہ ایک سال کم کرالیا تاکہ محض تین ماہ کے مختصر وقفہ میں قائد اعظم اور لیگ پر دباؤ ڈال کر مجوزہ معاہدے کی ضروری تفاصیل جاننے کا موقع دئیے بغیر ایگریمنٹ کرا لیا جائے۔ چنانچہ تقسیم ہند کا منصوبہ مونٹ بیٹن نے نہرو کی مرضی کے مطابق بنایاجس میں بنگال اور پنجاب میں ہندو اکثریت والے علاقوں کی علیحدگی۔ سلہٹ اور صوبہ سرحد میں استصواب رائے، ریاستوں کو مرضے سے الحاق کا اختیار ، کیونکہ راجہ کشمیر سے درپردہ ہندوستان سے الحاق کی سکیم طے ہو چکی ت ھی جس کی ۹۰ فیصد آبادی مسلم تھی ۔ جملہ محکمہ جات کے اثاثہ جات کی تقسیم، باؤنڈری کمیشی کو حتمی فیصلہ کا اختیار۔ پنڈت نہرو نے یہ منصوبہ فوراًًقبول کر لیا اور قائد اعظم و رفقا کو بتا دیا گیا کہ یا یہ منصوبہ قبول کر لیں ورنہ کانگریس کو قیادت و حکومت کا کلّی اختیار دیگر حکومت برطانیہ میں چلی جائے گی یا جیسا مونٹ بیٹن اپنی مرضی کے مطابق جو فیصلہ کرے گا قبول کرنا پڑے گا۔
چنانچہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کو مجبوراًپہلا فیصلہ ماننا پڑا کہ اس میں پاکستان قائم کرنے کا واضح اعلان تھا۔ مگر باؤنڈری کمیشن جس کا ہیڈ ریڈ کلف تھا زیر اثر مونٹ بیٹن اور نہرو کی بددیانتی سے پاکستان کو نہایت اہمیت کے مسلم اکثریت والے علاقوں سے محروم کر دیا خاص کر گورداس پور جو مسلم اکثریت کا ضلع تھا۔ کشمیر پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے کٹھوعہ اور بٹالہ کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا گیا۔ جو ہند سے کشمیر کو ملاتا تھا۔ فیروز پور ہیڈ ورکس دریاؤں کے پانی کو کنٹرول کرنے والا مقام ناجائز دے دیا گیا۔ بنگال میں مرشد آباد اورکئی مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان کے حوالے کر دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاقے میں موجود مشترکہ اثاثوں کی تقسیم میں بڑی دھاندلی کی گئی۔ اورپاکستان کو بڑے حصے سے محروم کر دیا گیا تاکہ پاکستان کی انتظامیہ شروع میں بیٹھ جائے۔ اب تقسیم ہند کے نتیجہ میں ہندو تعصب کی بنا پر آبادیوں کا جو تبادلہ کرنا پڑا ۔ اُس کا مختصر احوال صرف سیالکوٹ شہر تک محدود ہے ۔ راقم نے جو جو دیکھا ، قتل و غار ت گری جس پیمانہ پر مشرقی پنجاب میں کی گئی ۔ اس کا عشرِ عشیر بھی پاکستان علاقوں میں نہیں ہوا۔ اگرکہیں کہیں ایسا ہوا بھی تو وہ بھی مشرقی پنجاب کے واقعات کے ردِ عمل کے طورپر۔ سیالکوٹ صنعتکاروں کا شہر ہے ۔ ہندو سرمایہ دار ، صعنت کاروبار و تجارت پر غالب تھے ۔ مسلمان عام طورپر متوسط یا غریب کاریگرہندو تھے۔ تاہم یہ اقبال اورمولوی میر حسن کا شہر تھا۔ جو نہایت انسان دوست اور درد مند انسان تھے اس لیے یہاں کبھی مذحبی جھگڑا فساد نہیں ہوا۔ ۱۴ ؍اگست سے کوئی دو ہفتے پہلے شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ سکول کالج کاروبار بازار بند ہو گئے۔ اس لیے کہا گیا کہ سیالکوٹ سے غیر مسلم آبادی کا انخلا بغیر فساد لوٹ مار کے ہو جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تمام غیر ہندو سکھ آرام سے ضروری سامان پیک کرکے کیمپوں میں پہنچا دئیے گئے جہاں سے ہندوستان روانہ کر دیا گیا۔ مگر ۱۴ ؍اگست سے ایک رات قبل کچھ شر انگیزوں نے اپنا کام کر دکھایا۔ رات کو ہندو علاقے کے کاروباری مقام سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے گئے۔ یہ بازار کلاں کہلاتا ہے جس میں ہندووں کی بڑی بڑی کپڑے ، ہاوزری، جوتوں، جنرل سٹورز، کراکری صرافہ وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ ۱۴؍اگست کو کرفیو ٹوٹنے کے وقفہ میں لوگ ضروریات زندگی خریدنے کے لیے بازاروں کی طرف گئے تو دیکھا بازار کلاں کی تمام دکانیں جل کر راکھ ہو چکی تھیں حیرت ہوئی کہ سب ایک رات میں کون کر گیا؟
ادھر ریڈیو پر اعلان ہو رہا تھا یہ ریڈیو پاکستان ہے ۔ یہ ملک پاکستان ہے جو مسلمانوں کا بن چکا ہے۔ اس کی چھوڑی ہر چیز ملک کی ملکیت ہے اس لیے کسی چیز کو ضائع نہ کریں نہ لوٹ ما کریں ۔ہوائی جہاز سے بھی نوٹس پھینکے گئے ۔ تاہم ہندو طویل رہائشی علاقے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا جس میں آنے والے مہاجرین کو آباد کردیاگیا۔ مہاجرین کے لیے وقتی طورپر کیمپ لگا دیا گیا جہاں نئی حکومت اور شہری تنظیموں نے ضرورت کی اشیا فراہم کیںؤ عجب درد انگیز مناظر تھے ۔ راقم نے بھی محلے کی تنظیم کے کارکنوں کے ہمراہ مہاجر کیمپ میں خدمت کے لیے چند دن گزارے۔ مہاجرین اپنا سب کچھ لٹا آنے کے باوجود پاکستان پہنچنے پر پُر امید نظر آتے تھے کہ پاکستان میں اُن کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ان دنوں ہر کام تعطل کا شکار تھا۔ نئی انتظامیہ آہستہ آہستہ نظم و نسق پر توجہ دے رہی تھی۔ اس دوران بعض موقع پرست خالی ہندو آبادی کے گھروں میں بچا کھچا سامان سمینٹے میں لگے تھے۔ ایک دن راقم نے بھی ہندو آبادی کا چکر لگایا جہاں میرے دو ہندوستوں کی رہائش تھی۔ تمام آبادی کے دروازے کھلے پڑے تھے اور شہرِ خاموشاں کا منظر تھا۔ میں اپنے دوستوں کے گھر داخل ہوا ناکارہ سامان اُلٹ پلٹ پڑا تھا چند کتابیں نظر آئیں۔ ایک نہرو کے متعلق اور دوسری مہا بھارت پر وہ اٹھا کر میں واپس لوٹ آیا۔
بہر کیف ملک تقسیم ہو چکا تھا۔ ہندو ، انگریزوں اورمخالفین کی زبردست مخالفت کے باوجود پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا تھا جس کے بارے میں قائد اعظم نے ریڈیو پر فرمایا : خدا کے فضل سے ہم نے آزاد وطن حاصل کر لیا ہے۔ اس میں وسیع اور قیمتی قدرتی وسئال ہیں جن سے ہم نے اپنی لگاتار محنت اور کوشش سے ملک کو مضبوط اورمستحکم کرنا ہے۔مگر بدقسمتی سے قائد اعظم ایک سال کے بعد ہی چل بسے۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ان کے بعد ملکی عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ جو بڑے زمیندار، جاگیر دار ، سرمایہ دار ، بیوروکریٹ تھے۔ جن میں کافی نااہل اورکرپٹ تھے جس وجہ سے ملک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکا۔ جیسے دوسرے ایشیائی ممالک کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان یقین، اتحاد، نظم و ضبط کی بنا پر بنا تھا۔ وہ انتشار، ذاتی مفادات، حصول زر اورمنفی فکر و عمل میں بدل گیا ہے۔ ہمیں اقبال اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں اپنے عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ جیسے اقبال نے کہا ہے:
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمند ر سے نکالا گوہر فردا
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں
ورنہ انھوں نے قانونِ قدرت کی عمل کی تنبیہ کی ہے ۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف