علامہ اقبال صوفیاء کرام کے بے حد عقیدت مند تھے اور جب کبھی موقع ملتا ان کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض یا ب ہوتے۔ ان کا پختہ اعتقاد تھا ۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی اِرادات ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
صوفیاء کرام میں حضرت میاں میر بھی ان کے محبوب صوفی تھے ۔ انھوں نے اپنی مثنوی میں حضرت میاں میر سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے پند و موعظت اور تربیت کو اپنی سرزمین اور اہل وطن کے لیے احیائے ایمان اورمشعلِ راہ قرار دیا ہے۔ اتباعِ رسول کریم ﷺ میں ان کے قدم کو مستحکم اور ان کے عمل کو عشق و محبت کی جان بتایا ہے۔ انھوں نے پنجاب کی سرزمین کو اپنے رشد و ہدایت سے منور کر دیا ۔ بھٹکے ہوئے انسانوں کو نیکی کی راہ دکھائی۔ گرتے ہوئے معاشرے کو انتشار و ابتری سے بچایا۔ پنجاب میں سلسلۂ قادریہ کو نشاۃِ ثانیہ بخشی اور تنزل و انحطاط کے دَور میں احیائے ملت و اعلائے کلمۃ الحق کی ایمان افروز کوششیں کیں۔
اقبال نے لکھا ہے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ اگرجہاد میں یہ مقصد پیشِ نظرنہ ہواورجہاد زمین پر قبضہ کرنے کی ہوس کے لیے ہو تو ایسا جہادِ اسلام میں حرام ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے فارسی مثنوی میں حضرت میاں میر کے ایک واقعہ کو نظم کیا ہے۔ جس کا ترجمہ یوں ہے۔
حضرت میاں میر کے ارادت مندوں میں بادشاہ وقت بھی تھا۔ جس کی ہوس ملک گیری بے حد بڑھ گئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ مزید علاقہ جات پر قبضہ کر لے اور اس مقصد کے لیے طویل عرصہ سے مصروفِ جنگ تھا۔ ایک دن یہ بادشاہ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہو کرطالبِ دعا ہوا کہ اسے ملک گیری میں مزید کامیابی ہو۔ حضرت میاں میر یہ سن کر خاموش رہے ۔ ا تنے میں ایک مرید حاضر ہوا اور اس نے چاندی کے چند سکے بطورِ نذر پیش کیے اور کہا کہ حضور میں نے یہ سکے محنت سے حاصل کیے ہیں۔ اس حقیر نذر کو قبول فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ روپیہ ہمارے اس بادشاہ کو دے دو۔ جواب بھی بادشاہی لباس میں ایک گدا ہے۔ اگرچہ اس کی حکومت وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی ہے پھر بھی یہ اپنی حرص و ہوس کی وجہ سے مفلس ترین لوگوں میں ہے اور دوسروں کے دستر خوان پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس کی حرص و ہوس کی بھوک نے زمانے کو جلا کر تباہ کر دیا ہے۔ اس کی ناداری سے خدائی مخلوق پریشان ہے ۔ اس نے اپنے فکرِ خام سے لوٹ مار کر نام تسخیر دیا ہوا ہے۔ فقیری کی آگ تو اُسی تک رہیتی ہے مگر بادشاہ کی بھوک کی آگ ملک و ملت کو تباہ کر دیتی ہے مگر جس نے بھی تلوار غیر اللہ کے لیے اٹھائی۔ بالآخر اس کی تلوار نے اسی کو ختم کر دیا۔
جس طرح اقبال نے حضرت میاں میر کی قناعت، استغناء، حق گوئی و بے باکی اور انسانی عمل کی صحیح سمت کو واضح کیا ہے۔ یقیناًان کی ذات میں مزید قابل تعریف پہلو ہوں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت میاں میر کی زندگی کا مجملاًذکر کرنا مناسب ہوگا۔ جس سے آپ کی شخصیت کا سراپا واضح طورپر سامنے آئے گا۔
تاریخ نے حضرت میاں میر کی کوئی تصنیف نہیں بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو وقت گفتگو و خیالات کو تحریر کرنے میں صرف ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہا جائے گویا ان کی زندگی سراپا عمل تھی۔ ان کی زندگی کے حالات کا علم زیادہ تر ان کے مرید اور حد درجہ عقیدت مند مغل شہزاد ے دارالشکوہ کی دو معروف و اہم کتب سکینۃ الاولیاء اور سفینۃ الاولیاء سے ملتا ہے۔اگر یہ تصانیف نہ ہوتیں تو حضرت میاں میر کی زندگی کے بیشتر حالات سے آگاہی نہ ہوتی۔
ہمارے ممدوح صوفی و ولی کا نام نامی محمد میر اورکنیت میر تھا۔ والد کا نام قاضی سائیں دتہ تھا۔ جو نہایت بلند پایہ عالم تھے اور سندھ میں اپنے علم و فضل و تقدس کے اعتبار سے ممتاز مانے جاتے تھے۔ حضرت میاں میر سندھ کے مشہور شہور سیون شریف میں پیدا ہوئے۔ دارشکوہ کی کتاب سکینۃ الاولیاء میں ان کی پیدائش کا سال ۱۵۵۰ء لکھا ہوا ہے۔سات سال کی عمر میں والد وفات پا گئے ، والدہ نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا فریضہ سنبھالا۔ جو خود بڑی عالم اور زہد و تقویٰ میں رابعہ بصری کا نمونہ تھیں۔ ناناکا نام قاضی قادن تھا جو قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز ہو ئے۔ گویا حضرت میاں میر علیہ الرحمۃ قاضی خاندان سے تھے۔ نسب حضرتِ عمر فاروق ؓسے جا ملتا تھا۔ مسلکاًحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ قادریہ پر کاربند تھے۔ گویا اس طرح آپ نسباًفاروقی، مسلکاو شریاًحنفی و قادری تھے۔
ابتدائی تعلیم والدہ سے حاصل کرکے ان کی اجازت سے علائق دنیا سے منہ موڑ کر سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ خضر سیوستانی کے مرید ہوئے۔ جن سے عبادات، ریاضت اورمجاہدے کی تربیتِ شاقہ کے بعد خرقۂ خلافت حاصل کیا۔
۲۵ سال کی عمر میں جب جلال الدین اکبر حکمرانِ ہند تھا۔ لاہور تشریف لائے، جہاں مولانا سعداللہ و مفتی عبدالسلام لاہوری کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہے۔ جن کے تلامذہ میں مادھول لال شاہ حسین بھی تھے۔ آپ لاہور میں بزرگانِ دین کے مقابر یا باغات میں درخت کے نیچے اکیلے یادِ حق میں دن گزارتے ۔ نماز کے وقت مریدوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کرتے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے۔ جب ان کی ولایت کی شہرت ہوئی اور معتقدین بڑھنے لگے تو ہجوم سے بچنے کے لیے سرہند چلے گئے جہاں وہ بیمار پڑ گئے۔ مگر ایک مرید حاجی نعمت اللہ نے اتنی جانفشانی سے خدمت کی کہ صحت یاب ہو گئے۔ چنانچہ خدمت کے اعتراف میں انھیں سلوک کےدرجہ کمال تک پہنچا دیا۔
سرہند میں ایک سال قیام کے بعد دوبارہ لاہور آکر محلہ خان پور میں مقیم ہو گئے اور اصلاحِ فکر و تہذیب اور روحانی صفات سے خلفاء اور مریدانِ باصفا کی ایسی جماعت پیدا کی جس سے رشد و ہدایت کا قادریہ سلسلہ ہر سو پھیل گیا۔ آپ مریدوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے اور انھیں نمائشی زہد و تقویٰ سے بچنے کی تلقین کرتے۔
واقعہ ہے کہ خواجہ بہاری جو آپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ ایک دفعہ اپنے گھر میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ چھت کے گرنے کے آثار پیدا ہوئے۔ خواجہ بہاری نے لوگوں کو فوراًباہر چلے جانے کو کہا لیکن خود اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔اور بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھتے رہے ۔ چنانچہ چھت گر گئی مگر جس جگہ وہ بیٹھے تھے اس جگہ چھت کی دو کڑیاں باہم ملی رہیں اور خواجہ بہاری محفوظ رہے ۔ یہ بات لوگوں نے حضرت میاں میر علیہ الرحمۃ کو بتائی کہ وہ سن کر خوش ہوں گے مگر انھوں نے ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ہاءے محبِّ جاہ و شہرت کی طلب کہ لوگ دیکھ لیں کہ خواجہ بہاری مرتے وقت بھی خدا کو یاد کرتا رہا۔ فرمایا کہ کلمہ طیبہ دل میں پڑھا جاتا ہے۔ آپ خود نمائی کے بے حد خلاف تھے اور فقیرانہ لباس یا پھٹی پیوند شدہ گدڑی پہننا پسند کرتے تھے کہ لوگ ظاہری روپ دیکھ کر پہنچا ہوا بزرگ سمجھ کر ہاتھ چومتے اور عقیدت مندی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کشف و کرامات کا اظہار ناپسند اور کارخانہ قدرت میں دخل اندازی سمجھتے اور سالک کی راہ میں حجاب قرار دیتے اور فرماتے کہ کشف با برسرِ اُو کفش۔ (یعنی کشف کے سر پر جوتا)۔
خود نمائی کی تردید میں وہ حضرت داتا گنج بخش کو قول نقل کرتے کہ سلوک کی راہ گدڑی پہننے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ منزل اللہ کی محبت، ریاضت و محبت سے ملتی ہے۔ جو شخص طریقت سے آشنا ہو گیا اس کے لیے امیرانہ لباس بھی گدڑی ہے غرضیکہ وہ خود نمائی ، حبِ جاہ اور ریا کاری کو قطعاًپسند نہیں کرتے۔
حضرت میاں میر حسنِ اخلاق کا پیکر مجسم تھے۔ جس کی وجہ سے اہل اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں بھی نہایت ہر دلعزیز اورلائق تعظیم تھے۔ جو کثیر تعداد میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر باہمی اخلق و محبت اور انسانی ہمدردی کے زریں اقوال سن کر تسکین اطمینان کی دولت سے بہرہ مند ہو کرلوٹتے۔ اس حقیقت کے ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ سکھوں کے گروارجن سنھ نے مقدس گدوارہ امرتسر کی بنیاد آپ کے ہاتھوں میں رکھوائی۔
آپ کے پاس ایک تونگر شخص حاضر ہوا اور اپنے شدید بیمار بیٹے جس کے بچنے کی امید نہیں تھی صحت یابی کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا لوگوں کی عجیب حالت ہے۔ چاہتے ہیں کہ درویشوں سے دعا کراکے سارے مسئلے حل کرالیں اورکچھ محنت اور خرچ نہ کرنا پڑے۔ پھر فرمایا کہ میں ضمانت دیتاہوں کہ تم بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور ننگے بدنوں کو کپڑے پہنا دو تو اس کی برکت سے مشکل حل ہو سکتی ہے۔ اس شخص نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا اور بعد میں آکر حضرت کو خوشی خوشی بتایا کہ اس کا بیٹا صحت یاب ہو گیاہے۔
تعلیمات کے سلسلہ میں وہ شریعت کے اتباع پر زور دیتے ۔ مریدوں کو ارشاد کرتے کہ سلوک میں پہلا مرتبہ شریعت کا ہے۔ طالب پر لازم ہے کہ وہ شریعت کے احکام پر عمل کرے۔ جس کی برکت سے خود بخود دل میں طریقت کی خواہش پیدا ہوگی اور طریقت کے حقوق بھی احسن طریقے سے ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ بشریت کا حجاب اس کی آنکھوں سے دُور کر دے گا اور اس پر حقیقت کا مفہوم منکشف ہوگا۔ جو روح سے متعلق ہے۔ طریقت، باطن کی طہارت اور مرتبہ حقیقت کا ادراک ہے اور حقیقت کا مفہوم موجو د کو فانی بنانا اور دل کو ماسواللہ سے خالی کرنا ہے جو درجہ قرب الٰہی تک پہنچاتی ہے۔ نفس، دل اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اصلاح مقصود ہے۔ نفس کی اصلاح شریعت سے، دل کی طریقت سے اور روح کی حقیقت سے ہوتی ہے۔
حضرت میاں میر اس پایہ کے صوفی تھے جو فنا فی اللہ کی منزل میں تھے ۔ ان کا تمام وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا۔ وحدت الوجود ان کا منتہائے نظر تھا۔ مرقوم ہے کہ آپ کو شیخ محی الدین ابن عربی کی کتاب فتوحاتِ مکیہ کا کافی حصہ حفظ تھا۔اور مولانا جامی کی شرح فصوص الحکم پوری حفظ تھی۔
اس کے علاوہ وہ اعتدال پسند تھے چونکہ وحدت الوجود پر شدتِ تعلق کے بعد شریعت اور طریقت میں توازن رکھنا مشکل ہے۔ لہٰذا وہ اس فلسفے کی موشگافیوں میں نہ پڑتے اور طالب کو پابندی سے شریعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔
حضرت میاں میر نہایت صلح جو اور کم گو تھے۔ جہاں اشاروں سے بات سمجھ سکتے وہاں زبان استعمال نہ کرتے۔ وہ کام اور عمل کو باتوں پر ترجیح دیتے۔ آپ ظاہری اور باطنی علوم میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ اگر کبھی قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کرتے تو علماء ف فضلاء انگشتِ بد نداں رہ جاتے۔ علم فقہ میں بھی کمال دسترس تھی۔ اس تمام علمی تبحر کے باوجود قیل و قال اور بحث و تمحیص سے اجتناب کرتے۔ مناظر کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مگر ایک دفعہ مناظرے کے حالات پیدا کر دئیے گئے تو آپ کی دانش روحانی کے باعث اس کی نوبت نہ آ سکی۔
واقعہ یوں روایت ہے کہ ملکہ نور جہاں اور اس کے بھائی آصف جاہ نے سنی علماء کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ایک ایرانی مجتہد کو بلایا۔ جو دہلی جانے سے پہلے حضرت میاں میر کے پاس لایا گیا۔ حضرت بڑے اخلاق سے ملے۔ دورانِ گفتگو سر راہے پوچھا کیا آپ نے کبھی کربلائے معلیٰ کی زیارت کی ہے۔ مجتہد نے بشاشت سے جواب دیا۔ جی ہاں !خدا کا شکر ہے کئی بار یہ سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ اس مقام کی کچھ فضیلت بیان فرمائیں ۔ مجتہد کہنے لگا کہ اس خاک پاک کی ادنیٰ خاصیت یہ ہے کہ اس کے ارد گرد سات کوس تک دفن ہونے والے روزِ حشر بغیر کسی حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت نے فرمایا: کیا ایسی فضیلت انبیاء کرام کے مزارات کو بھی حاصل ہے؟ کیوں نہیں، مجتہد نے کہا نبیوں کے مزارات کے دس کوس تک دفن ہونے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ تب حضرت نے فرمایا کہ اگر حضور اکرم ﷺکے مزار کے چاروں طرف دس کوس تک مدفون لوگ جنتی ہیں توپھر ان دو بزرگوں کی بخشش بھی یقینی ہے جو حضور اکرم ﷺ کے قدموں میں دفن ہیں۔ یہ سن کر ایرانی مجتہد مبہوت ہو گیا۔ اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ القصہ وہ لاہور سے ہی واپس ایران چلا گیا۔
حضرت میاں میر صرف زاہدِ خشک نہیں تھے۔ ان کے نزدیک سماع ضرور حدود کے ساتھ مباح تھا کہ ہر عارفانہ کلام خوش الحانی کے ساتھ دلوں کو گرماتا اور فکر ونظرمیں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اس سے قلوب و اذہان تسخیر ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم کی قرات خود اس کی مثال ہے ۔ مگر حضرت میاں میر شاہ حسین کی طرح نہ توموسیقی میں غرق رہتے نہ وہ سلطان باہو کی طرح اس کے منکر۔ خوش الحانی اللہ کی نعمت ہے جس کا مناسب اور برمحل استعمال جائز ہے۔
حضرت میاں میر کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے تمام عمر پارسائی اور تجرد میں گزاری اور شادی بیان اور بال بچوں کے بکھیڑے میں نہ پڑے۔ سلسلہ قادریہ میں تجرد یعنی انقطعاع عن العلائق و خلائق کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی قربت کے راستوں کی رکاوٹ ہیں۔ ان کو ترک کرنا انتہائی کٹھن ہے۔ مگر حضرت میاں میر دنیاوی اور نفسانی خواہشات پر مکمل حاوی رہے جو صرف ایک فنا فی اللہ ولی ہی کر سکتا ہے۔
علائق دنیا سے استغنا اوربے نیازی ہی نے حضرت میاں میر کو وقت کے کسی سلطان کا مرہون منت نہ ہونے دیا۔ وہ عام آدمیوںسے تحفہ قبول کر لیتے اور تھوڑا سا خود بھی استعمال کرتے مگر باقی تمام دوسروں پر تقسیم کر دیتے۔ اس ضمن میں سلاطین وقت کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
حضرت میاں میر کی جب شہرت ہوئی تو شہنشاہ جہانگیر حکمران تھا۔ جب اُسے حضرت کی شخصیت اور اعلیٰ اقدار کا پتہ چلا تو آپ سے حسنِ ظن رکھنے لگا۔ داراشکوہ نے سکینۃ الاولیاء میں لکھا ہے۔
اگرچہ جہانگیر اولیاء اللہ اور درویشوں کا معتقد نہ تھا اور ان کو تکلیف دیتا اور بدسلوکی کرتا تھا۔ مگر اس نے اپنا خاص ایلچی حضرت میاں میر ی خدمت میں بھیج کر ملاقات کی درخواست کی۔ ان کی آمد پر جہانگیر نے آپ کے بے حد تعظیم و تکریم کی اور بہت دیر تک حضرت کے دلپذیر نصائح نصیحت توجہ سے سنے، بادشاہ اس قدر متاثر ہوا اور کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں تخت و تاج چھوڑ کر آئندہ آپ کی خدمت میں ہی رہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ کا وجود اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے ضروری ہے۔ اور آپ کے عدل و انصاف کی وجہ سے عوام اور درویش لوگ دلجمعی سے اپنی عبادت میں محور رہتے ہیںؤ تاہم اگر آپ اپنی جگہ پر کسی عادل حکمران کو لا سکتے ہیں تو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ بادشاہ کو یہ بات اچھی لگی اور جھجکتے ہوئے کہا کہ مجھ سے کچھ طلب کیجیے؟ اس پر آپ نے کہا کہ جو کچھ مانگوں گا وہ دو گے؟ جہانگیر نے کہا، ضرور! آپ نے فرمایا تو پھر مجھے جانے کی اجازت دیجیےؤ
اس شانِ استغنی کو اقبال کی شاعرانہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے:
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے!
کہ منعمِ کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
اس واقعہ کے علاوہ دارا نے جہانگیر کے دو خطوط نقل کیے ہیں جن میں حضرت کا ذکر نہایت احترام سے کیا گیا ہ۔ گویا بقول اقبال:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریرد سپاح
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
شاہجہاں کا دورِ حکومت آیا تو وہ دو مرتبہ حضرت میاں کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کتاب شاہ جہاں نامہ میں اس ملاقات کا تفصیل سے ذکر ہے۔ شاہجہاں نے اس نشست و قربت کو اپنے لیے بڑی خوش نصیبی سمجھا کہ اسے اس پیشوائے اہلِ صفا کی محبت کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ بار بار حضرت کے پاکیزہ کردار اور اخلاق محمود کی تعریف کرتا اور انھیں مشائخ و صوفیا کی صف میں کامل و اکمل پایا۔ شاہجہاں کی حضرت میاں میر سے دوری ملاقات کا ترجمہ اس طرح ہے۔
خداشناس بادشاہ اصحاب معرفت و تقویٰ کے رہنما ، ارباب صفات و صفا کے پیشوا، برگزیدہ حق شناس درویش ِ باضمیر حضرت میاں میر کے کاشانۂ فیض آشیانہ پر جو پہلے بھی اس کے قدومِ سعادت لزوم سے مہطِ انوار ہو چکا تھا، تشریف لے گئے اور اس تجرد و خلوگ گزیں ہستی کے بہت سے باریک نکات اور معرفت پرور حقاق حاضرین کے انشراح صدور اور انبساطِ قلب کا باعث ہوئے۔
اس موقع پر شاہجہاں نے ایک سفید پگڑی اور تسبیح حضرت کی خدمت میں بطورنمونہ نذرانہ پیش کی اور دعا کی التجا کی۔ ان دونو ں ملاقاتوں کا دار اشکوہ نے مفصل حال لکھاہے ۔ بادشاہ حضر ت میاں میر سے اتنا متاثر ہوا کہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ہم نے ترک و تجرید اور ما سوا اللہ سے بے نیازی اور لا تعلقی میں حضرت جیسا درویش نہیں دیکھا۔
دارا نے شاہجہاں کی حضرت میاں میر سے نیاز مندی کے بیان میں اپنی بیماری اور حضرت کی دعا سے شفایابی کا حال بھی لکھا ہے کہ وہ چار ماہ سے کسی جانکاہ مرض میں مبتلا تھا۔ شاہی معالج عاجز آ گئے تو شاہجہان اسے لے کر حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی۔ حضرت نے دارا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیالے میں پانی ڈالا اور کچھ پڑھ کر شہزادے کو پینے کو کہا ۔ اس کے پیتے ہی ہفتہ تک دارا کو کامل شفا نصیب ہوگئی۔
دوسری ملاقات کے موقع پر بھی حضرت نے نہایت لطیف و دلپذیر نکات بیان کیے۔ بادشاہ نے درخواست کی کہ آپ توجہ فرمائیے کہ میرے دل میں دنیا کی رغبت باقی نہ رہے۔ انھوں نے فرمایا جب تم کوئی ایسا عمل کرو کہ کسی مسلمان کا دل خوش ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے دعا کرو۔ مگر اللہ سے اس کی ذات کے سوا کچھ نہ مانگو۔
دارا اشکوہ حضرت سے بنسبت اپنے باپ شاہجہاں اور دادا جہانگیر کے حضرت میاں میر سے زیادہ انسیت رکھتا تھا اور دل و جان سے ان کا معتقد تھا۔ حضرت کی روحانی صحبت اور نظر کرم نے شہزادے کے ذوق و شوق کو جلا بخشی ۔ دارا نے سکینۃ اولالیاء میں لکھا ہے کہ حضرت میاں میر شاہجہاں کی ملاقات کے دوران لوگ چباتے اور پھینک دیتے اور یہ فقیر کمال ارادات اور اخلاص سے انھیں اٹھا کر کھا لیتا تھا۔ جس کی برکت سے طبیعت کو بہت روحانیت ملی۔ جب بادشاہ رخصت ہوا تو دارا ان کے پاس ہی رک گیا اور اپنے سر کوحضرت کے پائے مبارک پر رگڑنے لگا ۔ انھوں نے بہت شگفتگی اور خوشی سے اپنا دست مبارک اس فقیر کے سر پر رکھ کر عرش تک پہنچا دیا اور بہت لطف و کرم سے رخصت کیا۔
دار اشکوہ بیان کرتا ہے کہ حضرت کی توجہ و کرم بعد از وصال بھی فقیر کے شامل حال رہی اور اس نے خواب میں حضرت کی زیارت کی۔ انھوں نے میرے سینے سے اپنے سینے کو رگڑا اور فرمایا کہ اپنی امانت کو سنبھالو۔ اس کے بعد ا نوار و تجلیات کی اتنی بارش ہوئی کہ میں نے عرض کیا کہ اس سے زیادہ کی مجھ میں ہمت نہیں۔ مگر اس کے بعد میں اپنے سینے کو پاکیزہ، مصفی اور نورانی پاتا ہوں۔
دار اشکوہ اوراورنگ زیب میں گہرے اختلافات تھے۔ ایک وجہ اختلاف شاہجہان کی دارا کو اورنگ زیب پر فوقیت دینا تھی ۔ جسے اُس نے ولی عہد نامزد کر دیا تھا۔ مگران کے مزاج، اطوار، عقائد اور طرزِ عمل میں بھی زمین و آسمان کا فرق تھا۔ دار اشکوہ وسیع المشرب اور بھگتی تحریک سے متاثر تھا جب کہ اورنگ زیب نہایت متشرع بلکہ بنیاد پرست علماء کا پیرو تھا۔ دار اشکوہ اگرچہ ولی عہد سلطنت تھا مگر وہ جہانبانی کے تقاضوں کو چھوڑ کر خطاطی، تصوف اور مطالعہ میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ اس کے مقابلے میں اورنگ زیب اس سے کم عمرہونے کے باوجود شروع سے ہی فن حرب میں مہارت حاصل کر چکا تھا اور شاہجہاں کی بیماری کے دوران میں اس نے داراشکوہ کو شکست دے کر حکومت سنبھال لی۔
دار اشکوہ حضرت میاں میر کا بے حد معتقد تھا۔ اورنگ زیب اگرچہ دارا کی صوفیانہ روش کے خلاف تھا تاہم اس کے دادا پیر حضرت میاں میر سے حسنِ ظن رکھتا تھا۔ دارا کے قتل کے بعد جب اورنگ زیب تخت پر بیٹھا تو اس نے حضرت میاں میر کے روضۂ پاک کی عمارت مکمل کرائی۔ جو دارا سے نامکمل رہ گئی تھی۔
حضرت میاں میر ۸۸ برس کی عمر میں ۱۶۳۵ء میں دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے۔ وفات سے ایک روز قبل لاہور کا حاکم وزیر خان ایک حکیمِ حاذق لے کر حاضر ہوا۔ مگر حضرت نے علاج کرانے کی بجائے شعر پڑھا اس کا ترجمہ یہ ہے:
عشق کے درد مند کا علاج محبوب کے دیدار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اس طرح حق و صداقت، فقر و استغنا ، علم و عمل کا یہ پیکرِ سعود نام و نمود و حبِّ جاہ و شہرت سے بے نیازی ولی کامل اپنے درخشندہ خصائل و فضائل کے تابندہ نقوش چھوڑ کر جن کا گہرا رنگ حضرت علامہ اقبال کی ذاتِ ستودہ صفات میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سفر کر گیا تاہم اس کا روضہ اسی لاہور کی سرزمین میں واقع ہے جو حاضرین خاص و عام کے لیے آج بھی چشم بصیرت کا کام دیتا ہے۔
حضرت میاں میر کی خدمت میں اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار اسرار و رموز میں اس طرح پیش فرمایا ہے :
حضرت شیخ میاں میر ولی
ہر خفی از نور جانِ اوجلی
بر طریقِ مصطفے محکم پئے
نغمۂ عشق و محبت را نئے
تربتش ایمان خاکِ شہر کا
مشعلِ نور ہدایت بہر ما
حضرت میاں میر کے مذکورہ اوصافِ عالیہ کی مناسبت سے حضرت علامہ اقبال کا مقام بھی کسی واللہ سے کم تر نہیں ہوتا۔ غالب نے اپنے بارے میں کہا تھا:
یہ مسائلِ تصوّف یہ تیرا بیان غالب
ہم تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتے
مگر اقبال غالب کی طرح بادہ خوار نہ تھے ۔بلکہ وہ امتِ مسلمہ اور عالم انسانیت کی سر بلندی و توقیر کے جذبے و شوق کے بادۂ الست سے سرشار دنیا کی ہرکشش سے بے نیاز تمام عمر ایک اعلیٰ و عظیم مقصد کے حصول میں مسلسل اپنے خونِ جگر کی تمام تر توانائی صرف کرکے قوم کے لیے اپنی جان و مال قربان کرکے وہ معجزہ سر انجام دیے گئے جس کا راستہ قیام پاکستان تک جاتا ہے۔ اگر اُن میں خود آگاہی ، وجدانی بصیرت، علمی تبحر، جذبۂ ایثارو قربانی، استغنا و درویشی جیسے جوہر نہ ہوتے تو انیں یہ مقام عظمت حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی درویشی ، بے نیازی اور خود آگاہی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
اپنے رزاق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور پہچانے ہیں تو ہیں تیرے گدا دارا و جم
واقعی اُن کی فقیری میں شاہی کی شان تھی۔ ان کی ذات اکتسابی و وہبی علوم کا مخزنتھی۔ جسے انھوں نے کبھی ذاتی منفعت اور شہرت کے لیے استعمال نہ کیا۔ وہ ایک دیدہ و دنائے راز تھے۔ جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہےؤ وہ محرم رازِ درون مے خانہ تھے اور حکیم الامت تھے۔ محض بلند پایہ شاعر و فلسفی نہ تھے۔وہ قدرت کے سربستہ رازوں سے آگاہ تھے۔ جسے بیان کرنے کے لیے نفسِ جبریل درکار ہے۔ وہ پردۂ افلاک کے پوشیدہ حادثات کا عکس اپنے آئینہ ادرک میں محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی خود آگاہی سے امت پر خودی کا راز آشکار کیا۔ جورازِ کُن فکان بھی ہے اور خدا کا ترجمان بھی۔ وہ نغمۂ جبریل بھی تھے اور صورِ اسرافیل بھی ۔ وہ کتاب اللہ کے حکیمانہ ارشادات کو مکمل طورپر سمجھتے اور بعینہ اپنے کلام میں دوسروں کو ابلاغ کرتے ۔
وہ صاحب ِ صدق و یقین ، حامل خلقِ عظیم ایسے درویش تھے جن کو حق تعالیٰ نے اندازِ خسروانہ عطا کیے تھے۔ حضور اکرمﷺکی نگہہ ناز کے کرم سے اقبال کی عقل کو غیاب و جستجو یعنی حکیمانہ اور جذبۂ عشق کو درد و سوز و حضور یعنی کلیمانہ نعمتیں میسر تھیں۔
غرض یہ کہ اُن کا کلام محض شاعری نہیں بلکہ جزوِ پیغمبری ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ :
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں شاد بے محفل ملت کو پیغام سروش
عظیم بزرگ مولانا شاعر گرامی نے جو اقبال کو ہمیشہ مجدد عصر کہہ کر بلاتے ایسے ہی نہیں کہا تھا:
در دیدۂ معنی نگہباں حضرتِ اقبال
پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب اوصاف و خصائل اس حقیقت کا واضح ثبوت نہیں کہ دنیاوی مصلحتوں ، ذاتی اغراض ، سہل انگاری ، کوتاہ اندیشی میں مسلم قوم نے ارادتاًاقبلا سے مجرمانہ غفلت برتی ورنہ ان کے پیامِ سروش میں ہمارے لیے تمام مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے۔
مگر اقبال مسلمانوں کے دوبارہ حصولِ عظمت رفتہ سے نااُمید نہیں۔ اور ایک درخشاں صبح کی نوید دیتے ہوئے یوں فرماتے ہیں :
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہِ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے