علامہ اقبال علیہ الرحمت نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ءکو اپنی جان آفریں کے سپرد کی اور ۲۳؍ مارچ۱۹۴۰ء کو ان کی ورفات کے ایک سال گیارہ ماہ بعد سر زمین لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت وہ قراردادِ لاہور جسے قراردادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے منظور ہوئی اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو اس قرار داد کی معنوی تعبیر پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہورپذیر ہوگی۔ اوریوں حضرت علامہ اقبال کی قوم مسلم کو اُس خواب کی تعبیر مل گئی ۔ جو انھوں نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کی شکل میں دیکھا تھا۔
اقبال کثیر الجہت جامع صفات اورنابغہ روزگار شخصیت تھے ۔ انھیں عظیم شاعرِ مشرق، بلند پایہ فلاسفر، ماہر تعلیم ، حکیم الامت ، ماہر علوم شرق و غرب، ترجمان حقیقت وغیرہ کے القاب سے پکارا جاتا رہا ہے۔اور نیم دلانہ طورپر سیاستدان بھی کہا گیا ہے۔ مگر جہاں وہ نہایت عظیم شاعر فلاسفر و مفکر تسلیم کیے گئے۔ وہاں سیاستدان کے طور پر ایک ناکام سیاستدان تک کہہ دیا گیا۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔ شاید اس لیے کہ انھوں نے مال و دولت اکٹھا نہیں کیا۔ نہ جاہ و حشمت کے عہدوں کی خواہش کی۔ بلکہ اُن سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ آزاد زندگی کے لیے گورنمنٹ کی ملازمت ترک کر دی۔ قومی مسائل کی فکر میں وکالت تہ کرکے رکھ دی۔اور کسی عالیجاہ کی عنایات کی تمنا نہ کی بلکہ نعت رسول ﷺمیں یوں برملا کہا:
میرا نشمین نہیں در گہہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تُو شاخِ نشیمن بھی تُو
وہ اپنے فرزند جاوید اقبال سے کی گئی نصیحت پر زندگی بھر کاربند رہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اگرچہ اقبال کی عملی سیاست پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں ۱۹۲۶ء تا ۱۹۳۰ء سمجھی جاتی ہے۔ جب انھوں نے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور محنت کی اور اسمبلی میں شعر و ادب سے ہٹ کر بطور پارلیمنٹرین اُن کا قابلِ رشک روپ سامنے آیا۔ جس میں ان کی تقاریر زیرِ غور۴ موضوع پر نہایت عالمانہ، مفکرانہ فلسفیانہ ادبی چاشی سے مملوفطری ظرافت کی مسکراہٹوں سے مرصع، ضروری اعداد و شمار سے آراستہ، جوابی جملہ میں برجستگی سے معمور ہوتی تھیں۔ جس کے نتیجے میں انھوں نےہر متعلقہ شعبے میں بطور سیاستدان نہایت قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔
اقبال ۱۹۲۶ء میں عقیدت مندوں کے اصرار پر اپنے دوست عبدالعزیز مالواڈہ جو ارائیں برادری کی حمایت سے مستقل منتخب ہوتے آ رہے تھے۔ اقبال کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہونے پر اقبال بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تو انھوں نے آغاز میں اپنا منشور پیش کرتے ہوئے کہا کہ ممبر کا سب سے بڑا وصصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کے وقت اپنے ذاتی مفاد کو قوم پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو قوم کے مفاد کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق عطا کرے کہ میں آپ کی کما حقّہ خدمت کر سکوں میں اغراض ملّی کے مقابلے میں ذاتی خواہشات کے فوقیت دینے کو موت سے بدتر خیال کرتاہوں۔
ممبری کے دوران میں انھوں نے تعلیم اور فنانس کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
۱-دیہات میں تعلیم اور صفائی کے بہتر انتظامات
۲-عورتوں کو طبی امداد کی فراہمی۔
۳-محاصل اور لگان میں کمی
۴-خاص طورپر چھوٹے کسانوں کو لگان کی معافی
۵-محصول کی وصولی میں ناانصافی کا تدارک
۶-ہر شخص پر اُس کی اہلیت کے مطابق ٹیکس اور ادائیگی کے لیے مناسب وقت دیاجانا۔
۷-فروغِ تعلیم پر فکر انگیز تقاریر
۸-مفت ابتدائی جبری تعلیم کے نفاذ پر زور۔
۹-آبادی میں تعلیم کی شرح اور معیار میں بہتری کی ضرورت۔
۱۰- اداروں اور بلدیہ میں مسلم آبادی کے تناسب سے سیٹوں کا تعین۔
۱۱- حکومت پنجاب ضلع منٹگمری میں ساڑھے تین لاکھ اراضی فروخت کر رہی تھی جس کا فائدہ بڑے زمیندار اٹھا رہے تھے۔ لہٰذا زمین کا نصف حصہ چھوٹے زمینداروں کے لیے مخصوص کیا جائے۔
۱۲-انسداد شراب نوشی پر تجاویز
۱۳- سکھوں کو کرپان کے مقابلے میں مسلمانوں کو تلوار رکھنے کی آزادی۔
۱۴-ٹیکس قانون میں ترمیم کرکے اسے انصاف کے اصولوں کے مطابق۔
۱۵-یونانی اور مشرقی طب کی حوصلہ افزائی جو زیادہ آبادی کے موافق بھی ہے اور ارزاں بھی۔
۱۶-عدالتی سٹیمپوں اور آبکاری کی آمدنی میں اضافہ حکومت کے لیے باعثِ اطمینان ہونا چاہیے جس کا مط لب ہے کہ مقدمہ بازی اور شراب نوشی بڑھ رہی ہے۔
۱۷-صوبے کی حالت کی بہتری کے لیے ذرائع آمدنی میں اضافے کے لیے نئی قابل ادائیگی ٹیکس مدوں پر ٹیکس کا نفاذ۔
۱۸-انگلستان کی طرح ہمیں بھی اموات پر وراثت ٹیکس لگانا چاہیے تاکہ صحت، فلاحی اور فراہمی روزگار جیسے شعبوں پر خرچ کیا جائے اور وارثان میں خود محنت کرکے کمانے کا جذبہ و شوق پیدا ہو۔
۱۹- بڑی اور کم تنخواہوں میں فرق کم کیا جائے۔
۲۰-مشینری ازراں ترین مارکیٹوں سے خریدی جائے۔
۲۱-بزرگان دین کی توہین کا انسداد اور باہمی مذہبی رواداری کی حوصلہ افزائی ۔
۲۲-صنعت کے لیے کارخانے اور جدید علوم کے لیے تعلیمی ادارے اور ریسرچ مراکز قائم کرکے ترقی کو فروغ دیا جائے۔
۲۳-مسلم آبادی میں تعلیمی ناانصافی اور ملازمتوں سے محرومی کا تدارک اور بہتر معاشی بنیاد کی حوصلہ افزائی وغیرہ وغیرہ۔
اس دور میں سرغلام حسین کی یونینسٹ پارٹی کا غلبہ اور اجارداری تھی۔ اورمسلم لیگ کی طرف سے اقبال صرف تنہا رکن تھے تاہم انھوں نے مسلم لیگ کے مفادات کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی اور کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ وہ یونینسٹ پارٹی کے سراسر خلاف تھے۔ جس نے شہری، دیہاتی، زمیندار اور غیر زمیندار کی بنیاد پر سوسائٹی کو تقسیم کر دیا تھا۔ جس سے مسلمانوں کو ہندوستان کی اجتاعی حیثیت اور سیاست میں بے حد نقصان پہنچ رہا تھا۔ مگر اقبال کی کوششوں سے مسلم لیگ کے اثر میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ اقبال اگر چاہتے تو بے حد و حساب فائدے کے لیے سر غلام حسین کی یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جاتے۔ مگر ان کا مطمع نظر اٹل تھا کہ:
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
رکنیت کی مدت ختم ہونے پر اقبال کو دوبارہ ممبری الیکشن کی استدعا کی گئی مگر اسمبلیوں میں بے کار شور شرابے تضیع اوقات کی بنا پر اقبال نے صوبائی اورمرکزی دونوں رکنیت کے لیے معذرت کرلی۔کیونکہ شدید اور بڑی حد تک بے فائدہ مصروفیات کے باعث اُن کی فطری شاعری کا جوہر وکالت اور دیگر نجی کام ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔اور صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور یہ ہونا ہی تھا کیونکہ وہ سیاسی عہدہ میں مالی فائدہ کے حصول کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہاں اپنی جان ضرور وقف کر دی آج کل کے سیاستدانوں سے موازنہ کریں تو اقبال کی بے لوث طمع لالچ سے پاک جگر کاوی اور عرق ریزی پر حیرت ہوتی ہے۔
اگرچہ ان کے کلام اور تحریر کے موضوعات خالصتاًسیاسی نہیں مگر مضمرات بڑی حد تک سیاسی ہیں۔ ان کا یہ حُسنِ کلام کسی حسنِ عمل سے کم نہیں۔ بلکہ بہت بڑے Dynamic Forceہے۔
اقبال کے اسلاف کشمیر سی ہجرت کرکے پنجاب میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ انھیں کشمیری قوم سے محبت اور ہمدردی تھی۔ انھیں غربت اور پسماندگی سے نکالنا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ متحدہو کر جدوجہد کریں۔ ۱۸۹۸ءمیں جب وہ گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے ، انجمن کشمیری مسلمانان کے جلسہ میں ان کے مطالبات کے حق میں نظم پڑھی۔ اس کے دوشعر ملاحظہ ہوں:
سو تدابیر کی ہے اے قوم اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
دُرِ مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثلِ حروفِ کشمیر
اس کے علاوہ جب بھی ضرورت پڑی وہ اہالیان کشمیر کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
۱۹۹۰ء میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں مظم نالۂ یتیم پڑھی جو نہایت مقبول ہوئی۔ ۱۹۰۱ء میں انجمن ہی کے جلسہ میں نظم تصویرِ درد سنائی جس نے تمام ہندوستان میں انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ نمونے کے چند شعر اس طرح ہیں:
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
محبت سے ہی پائی ہے شفاء بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
وہ ہر سال انجمن کے اجلاس میں جوش و جذبہ سے معمور اصلاحی مذہبی سیاسی نظمیں سناتے جن کا لوگ سال بھرانتظار کرتے رہتے۔
۱۹۱۱ء میں انھوں نے معرکتہ آلاراء نظم شکوہ پڑھی اور کچھ عرصہ بعد جواب شکوہ ۱۹۲۲ء میں لاجواب نظم ‘‘خضرِ راہ’’ سنائی جو ایک جامع سیاسی منشور ہے۔ جس میں زندگی، سلطنت ، طرز حکومت، سرمایہ محنت کی باہمی آویزش، مغربی جمہوریت کا کھوکھلا پن آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ اسی طرح شمع و شاعر، طلوع اسلام جیسی نظموں نے جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست سے خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر بد دل شکستہ مسلمانوں کو بہت سہارا دیااور نوجوان ترکوں کی مجاہدانہ کوششوں سے خلافت کو جمہوریت میں بدلنے اور مصطفی کمال کے ہاتھوں اتحادیوں کی شکست پر اپنے کلام میں بے پایاں مسرت اور نوید صبح کا مسرت سے اظہار کیا ہے اس طرح کی کئی نظمیں مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ، فاطمہ بنت عبداللہ، صقلیہ حضور رسالت مآب میں جنھوں نے اسلامیانِ ہند کی رگوں میں تازہ خون دوڑا دیا۔ اور وہ انگریزی سے آزادی حاصل کرنے کے جذبہ سے سرشار ہو گئے۔ اسی طرح ان کی اجتہادی کتابیں اسرار خودی، رموزِ بیخودی، بالِ جبریل، پیام مشرق،Reconstruction of Religious Thought in Islam،جاویدنامہ نے مسلمانوں کے جذبہ فکر و عمل حریت میں انقلاب پیدا کر دیا۔ اقبال کی پیغمبرانہ اورمجتہدانہ شاعری میں وہ تاثیر ہے جو کسی بھی خفتہ قوم کو راہ عمل پر گامزن کرسکتی ہے ۔ ان کے نہایت عزیز دوست مولانا گرامی فارسی کے بے بدل شاعر اقبال کو اپنے خطوط میں ہمیشہ مجدد عصر کہہ کر خطاب کرتے اقبال کے بارے میں ان کا مشہور شعر ہے:
در دیدۂ معنی نِگہاں حضرتِ اقبال
پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت
واقعی اقبال کا کلام الہامی ہونے میں کوئی شک نہیں اس بارے میں اقبال کے اپنے چند اشعار پیش ہیں ۔
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں سُنا دے محفلِ مِلّت کو پیغام سروش
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیم از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
[ دِگر دانائے راز آید نہ آید
(انھوں نے واقعی دانائے راز ہونے کا حق ادا کر دیا)
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا مرے آئینہِ ادراک میں ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
[ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درُونِ میخانہ
خدا نے اُن کو دیدہ بینا دیا تھا جو عقل کی فراست سے کہیں آگے تھا عقل کو کہتے ہیں ۔
رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
غرض کہ ان کی الہامی شاعری کا وہی مقصد ہے جو پیغمبروں کو دیا جاتا ہے یعنی بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانا ان کی اخلاقی مذہبی معاشرتی طرز زندگی کو سنوارنا اور صحت مند معاشرہ پیدا کرنا یعنی:
شعر کجا و من کجا شعر و سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
اقبال کی زندگی میں شعور تک پہنچتے ہی جذبہ عشق بیدار و نمودار ہو جاتا ہے۔ اسے حصول علم سے اوائل عمری سے عشق ہو جاتا ہے اور ہندوستان سے بھی جہاں اس نے جنم لیا اور اس کے تمام باشندوں سے بھی وہ ہندوستان کو دنیا کا سب سے اچھا ملک قرار دیتا ہے اور اس کے باسیوں کو بلا تفریق مذہب و ملت باہم رشتہ محبت و خلوص میں سرشاد و شادماں دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے جذبات کو اس نے نہایت خوبصورت نظموں میں بیان کیا ہے۔ جو سیدھی دل میں اتر جاتی ہیں۔ مثلاًترانہِ ہندی ، سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، چشتی نے جس زمین میں پیغام حق سنایا، مگر جب کبھی ہندو مسلم فساد کے واقعات ہوتے ہیں تواُسے بے حد دکھ اورملال ہوتا ہے کہ سب لوگ مذہب کی تفریق بھول کر آپس میں بھائیوں کی طرح کیوں نہیں رہتے۔ وہ اس تفرقہ کا الزام تنگ نظر مذہبی رہنماؤں کو دیتا ہے۔ اس کا اظہار اُس نے اپنی مشہور نظم شوالہ میں کیا ہے۔ جو سامعین کرام کے ذوق طبع کے لیے دہرانا مناسب سمجھتا ہوں۔
نیا شوالہ
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو بُرا نہ مانے
ترے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا واعظ کو بھی سکھایا جنگ و جدل خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا چھوڑے تیرے فسانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو
اس ہر دوار دل میں لا کے جسے بٹھا دیں
سندر ہو اس کی صورت چھب اس کی موہنی ہو
اس دیوتا سے مانگیں جو دل کی ہوں مرادیں
زُنار ہو گلے میں، تسبیح ہاتھ میں ہو
یعنی صنم کدے میں شانِ حرم دکھا دیں
پہلو کو چیر ڈالیں درشن ہو عام اس کا
ہر آتما کو گویا اک آگ سی لگا دیں
آنکھوں کی ہے جو گنگا لے لے کے اس کا پانی
اس دیوتا کے آگے اک نہر سی بہا دیں
ہندوستان لکھ دیں ماتھے پہ اس صنم کے
بھولے ہوئے ترانے دنیا کو پھر سنا دیں
ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پچاریوں کو مَے پیت کی پلا دیں
مندر میں ہو بلانا جسدم پچاریوں کو
آوازۂ اذان کو ناقوس میں چھپا دیں
اگنی ہے وہ جو نِرگُن کہتے ہیں پِیت جس کو
دھرموں کے یہ بکھیڑے اس آگ میں جلا دیں
ہے ریت عاشقوں کی تن من نثار کرنا
رونا ستم اٹھانا اور ان کو پیار کرنا
آ غیرت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں
ً بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقشِ دوئی مٹا دیں
سونی پڑے ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
دُنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس مِلا دیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
آپ دیکھیں گے کہ اس میں اُردو ہندی آمیزش کتنی مٹھا اورجذبِ باہمی کی کیفیت ہے۔ ان آشتی پریم اور پیار کے گیتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ مخالفین اقبال اور ہندوں کا اقبال کو فرقہ پرست، متعصب، تنگ نظر اور جہاد پرست مسلمان کہنا کتنا غلط ہے۔ حالانکہ یہ نظم پڑھنے کے بعد اقبال پنڈت نہرو، راجگوپال اچاریہ اور ٹیگور سے زیادہ سیکولر نظر آتا ہے۔ یہاں سوال کیا جائے کہ ان کی نظموں کا سیاست سے کیا تعلق ہے تو عرض ہے کہ جو فکر کلام اور عمل کسی ملک اور اس کے باشندوں کے مذہبی ، سماجی، کاروباری، باہمی ربط و ضبط اور ثقافت میں ارتقاء کا باعث بنے وہ سیاست کے زمرے میں آتا ہے۔ اقبال معروضی حالات کے مطابق ان امور کی ترقی کے لیے باہمی ا تحاد کو بے حد اہمیت دیتا ہے جو یقینا سیاسی نکتہ نظر کے زمرے میں آتا ہے امن و آشتی کی فضا برہم ہو جائے تو وہ انتہائی دکھ درد سے اس طرح احساس ظاہر کرتا ہے۔
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قُرب فراق آمیز ہے
مگر اقبال کا ہندو مسلم امن و آشتی و اتحاد کی دلی تمنا کا یہ آبگینہ جسے اس نے ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ، تصویر درد جیسی پریم بھری نظموں سے ایک سندر موہنی مورتی کی صورت میں بڑے چاؤ اور رجھاؤ سے من مندر کے استھان پر سجھا رکھا تھا۔ بہت جلد ہندو تعصب کی مسلم نفرت کے ہاتھوں کے چکنا چور ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں اُسے ایک متحد قوم کے طورپر مل جل کر رہنے کا خیال ہمیشہ کے لیے ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اور پھر دو قومی نظریہ اورجداگانہ انتخاب اُس کی سیاسی زندگی کا جزو لاینفک بن گئے۔
ہوا یوں کہ ۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن نے آبادی کی بنیاد پر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جس سے مسلم اکثریت والے حصے کو اقتصادی، معاشی اور سیاسی طورپر فائدہ پہنچتا تھا اور پسماندہ مسلمان کاشتکاروں اورمزدوروں کو ہندو سرمایہ داروں کے استحصال سے بچ کر ترقی کا راستہ ملتا تھا۔ اس منصفانہ تقسیم کے خلاف ہندوؤں نے نہایت پرتشدد احتجاج و مظاہرے شروع کر دیے۔ مسلمانوں نے اپنے حقوق کے حفاظت کی خاطر ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مگر طاقت ور ہندو لابی کے آگے حکومت جھک گئی اور ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال منسوخ کر دی۔ جس سے ہندوؤں کی بدنیتی اور اصلیت کی قلعی کھل گئی اور واضح ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کو ترقی کرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنی صدیوں کی محکومی کا بدلہ انھیں غلام بنا کر اتارنا چاہتے تھے۔ اس واقع نے ہندو مسلم تعلقات کو ہمیشہ کے لیے خراب کر دیا۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ مسلمانوں کا بیرونی حاکم سے تعاون کرنا زیادہ بہتر ہوگای۔ بہ نسبت کہ وہ ہندو سامراج کے ساتھ مل کر تحریک آزادی میں تعاون کریں جو انھیں اپنا غلام بنا لے گی۔
اس دوران ۱۹۰۵ء میں اقبال گورنمنٹ کالج سے چھٹے لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ جہاں سے وہ بار ایٹ لا اور فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر تین سال بعد واپس وطن لوٹے۔ لندن میں اقبال کی زندگی نے نیا موڑلیا۔ انھوں نے مسلمان قوم کی پسماندگی اور یورپین قوموں کی ترقی کا فرق محسوس کیا وہ یورپ کی ترقی سےمتاثر ضرور ہو گئے۔ مگر ساتھ ہی یورپین قوموں کی مادیت پرستی ،باہمی قومی نفرت کے نتیجہ میں ایک دوسرے پر بالادستی کے لیے جنگی تیاریاں تجارتی منڈیوں پر قبضہ کے لیے رقابت ، نوآبادیات کو غلام بنا کر ان کا استحصال کرنا۔ ان مشاہدات کے نتائج نے انھیں سرمایہ داری نظام سے بدظن کردیا۔ جو ان اشعار سے ظاہر ہے۔
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو اک زرِ کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
اور مسلمانوں کو مغربی تہذیب سے بچنے کے لیے کہا:
گرچہ ہے دل کشا بہت حسنِ فرنگ کی بہار
طائرکِ بلند بام دانہ و دام سے گذر
وہ لندن میں مسلمان طالبعلم کے طور پر گئے تھے۔مگر مذکورہ مشاہدات کے زیر اثر پکے مومن بن کر لوتے ان کے دل میں اسلامیان عالم کی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرنے کا جذبہ موجزن ہو گیا۔ ان کی شاعری نے نیا رخ اختیار کیا۔ جس میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور عالم انسانیت کی اصلاح کافریضہ اپنا لیا۔
لندن میں وہ سیاسی سرگرمیوں سے الگ نہیں ہوئے۔ ہندوستان میں ان دنوں سودیشی تحریک چل رہی تھی۔ اقبال نے اس میں دلچسپی لی اس کے حق میں ان کا مضمون ہندوستانی رسالہ زمانہ میں چھپا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک سیاسی طورپر آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔ جب تک اس کی اقتصادی حالت مضبوط نہ ہو انھوں نے سیاسی رہنماؤں پر واضح کیا کہ آزادی کی تحریک کی بنیادی ضرورت اقتصادی استحکام ہے۔ اس سے پیشتر وہ ۱۹۰۴ء میں نہایت اہم کتاب علم الاقتصاد لکھ چکے تھے کہ ہر فرد کو اقتصادی طورپر مضبوط ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ملک کو بھی استحکام ملتا ہے۔
لندن میں قیام کے دوران اسلام کے خلاف الزامات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ایک اسلامی سوسائٹی بنی جس میں انھوں نے سر گرمی سے حصہ لیا۔ ہندوستان میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قیام کے بعد انگلینڈ میں سید امیر علی کی سرکردگی میں مسلم لیگ کی ذیلی شاخ بنی جس میں رکنیت حاصل کرکے مسلم لیگ کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے۔حالانکہ وہ کانگریس کے کسی جلسہ میں بھی شریک نہ ہوے تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ مجبورانہ طورپر مسلم لیگ میں شامل ہوئے حقائق کو جھٹلانا ہے۔
لندن سے واپسی پر مسلمانوں کی پسماندگی اقبال کو بے چین رکھتی انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ۱۹۱۴ء میں پہلی فارسی مثنوی ، اسرار خودی شائع کی جس میں فلسفۂ خودی کی وضاحت کی کہ افراد پر لازم ہے کہ وہ خود کو پہچانیں اور ودیعت کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کردار کی بلندی اورخودی کی تکمیل کریں یہ پیغام اس شعر سے واضح ہوتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے مِلّت کے مقدّر کا ستارہ
۱۹۱۸ء میں دوسری فارسی مثنوی رموزبیخودی شائع کی کہ افراد کو اپنی نشوونما کرتے ہوئے اپنے انفرادی مفادات کو ملی مفادات کے تابع کر دینا چاہیے تاکہ افراد اور قوم دونوں کو سربلندی حاصل ہو۔ یعنی یوں کہنا چاہیے کہ :
فرد قائم ربطِ مِلّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہ دونوں کتابیں اگرچہ اصلاحی پیرایہ میں ہیں مگر ان کی روح سراسر سیاسی اور مسلمانوں کو روبہ عمل کرنے والی ہے ایک مشہور مستشرق نے کہا کہ اسرارخودی مسلمانوں کو جنگ و جدل پر ابھارنے کے لیے لکھی گئی ہے مگر ڈاکٹر نکلسن مترجم اسرار خودی نے اسے تمام انسانیت کے لیے مفید اور تعمیری قرار دیا۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کو اتحادیوں کے مقابلے میں شکست ہوی تو لیگ آف نیشن جسے اقبال کفن چوروں کی جماعت کہتے تھے۔ ان کفن چوروں میں برطانیہ، فرانس، روس باثر ممالک تھے انھوں نے مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کی ناکامیوں کا بھرپور بدلہ لیا۔ خلافت عثمانیہ کو ترکی کے سوا زیر خلافت مسلمان ممالک سے محروم کرکے آپس میں بندربانٹ کرلی اس طرح مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کا مستقبل تاری کر دیا خلافت ختم ہو گئی اور ترک خلیفہ اتحادیوں کے آلہ کار بن کر رہ گیا۔ مگر غیرت مند جوشیلے، ترقی اور انقلاب پسند ترک نو جوانوں نے اتاترک مصطفی کمال پاشا کی سرکردگی میں میں خلیفہ کو معزول کرکے جمہوریت کی داغ بیل ڈال دی۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اختتام خلافت پر صفِ ماتم بچھ گئی علی براداران محمد علی شوکت کے علاوہ ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر انصاری جیسے جوشیلے مذہبی رہنماؤں نے اختتام خلافت کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان بھیجا کہ حکومت کو خلافت کی بحالی پر آمادہ کیا جائے اقبال کے نزدیک یہ ایک نامناسب اور وقار کے خلاف طریقہ تھا جس میں سوائے ناکامی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا۔بھلا گدایانہ طریقے سے حکومتیں خیرات میں ملتی ہیں؟ اس پر اقبال نے انھیں یوں سمجھایا۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگاہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اس وقت عالم اسلام ترکی کے انقلابی رہنما اتا ترک کے اقدامات پر سخت مشتعل تھا جس نے خلافت کو ختم کردیا اور مغربی ترقی سے متاثر ہو کر ترقی میں بنیادی اصلاحات شروع کر دیں لیکن اقبال نے ان کی تبدیلیوں کی مذمت نہیں کی اس کے برعکس اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتاًدنیا کے اسلامی ممالک میں تنہا ترکی ہی خواب غفلت سے بیدار ہوا ہے اور خود آگاہی حاصل کر لی ہے یہ تبدیلی زبردست ذہنی، اخلاقی جدوجہد کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے جو ترکی کے مستقبل میں متحرک تبدیلیاں لائے گی جس سے ملک ارتقاء کی طرف بڑھے گا اور بہتر نتائج نکلیں گے اقبال نے طرز حکومت کی اس تبدیلی کو ترکوں کو اجتہاد کہہ کر مسلمانوں کی مجتہدانہ کوششوں کی حمایت کی ۔ درست مگر تاریخی طورپر خلافت بنو اُمیہ، عباسیہ، فاطمیہ ، عثمانیہ کو عظمت و شوکتِ اسلام کہا جاتا ہے۔ مگر یہ خلافت ہی دراصل ملوکیت تھی جس کا جابرانہ اور قاہرانہ نظام عالم اسلام کے زوال، پستی و غلامی کا باعث بنا ۔ جمہوریت کے نفاذ میں چونکہ مصطفی کمال کی اصلاحات میں غیر اسلامی مغربی تقلید کا عنصر آ گیا تھا جسے اقبال نے ناپسند کرکے یہ شعر کہا:
‘‘چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا کو اب کدھر لے جائیں گے؟’’
پھر خلافت کے حامیوں نے تحریکِ خلافت شروع کر دی کہ ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے یعنی دشمن کا ملک جس سے ہجرت کرکے اسلامی ملک میں جانا چاہیے اور انگریزوں کی ملازمتیں ، خطابات تعلیمی اداروں کی مراعات مالی امداد اور دیگر تمام سہولتیں واپس کر دینی چاہیں۔نافہم مسلمانوں نے گاندھی کو اس تحریک کا مرکزی لیڈر بنا دیا۔ جس نے حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کا پروگرام بنایا۔ اس طرح مسلمان خود ہی ہندوشاطروں کے جال میں پھنس گئے۔ کیونکہ اس احتجاج کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمان اپنا کاروبار ملازمتیں بچوں کی تعلیم ختم کرکے اپنی املاک کو اونے پونے ہندوؤں کے ہاتھ بیچ کر افغانستان کی طرف ہجرت کر گئے مگر اس برادر اسلامی ملک کے لوگوں کے ہاتھوں لٹ پٹ کر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان کی لاشوں کو کفن تو کیا دفن کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔اس تحریک کی غلطی کے اقبال شروع سے ہی خلاف تھے انھوں نے بر ملا مخالفت کی کہ اس سے پسماندہ مسلمانوں کا تھوڑا بہت اثاثہ بھی برباد ہو جائے گا۔ مسلمانوں کی علی گڑھ، اسلامی کالج لاہور اورپشاور کی درسگاہیں بند ہو جائیں گی جب کہ ہندوؤں کے ۱۲۰ اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود تھے۔ محمد علی جوہر وغیرہ نے جامعہ ملیہ بنانے کی سکیم بنائی گاندھی اورمولانا جوہر دونوں نے اقبال کو اس میں پرنسپل کا عہدہ پیش کیا۔ جس کا اقبال نے تحریک خلافت کے خطرات بتاتے ہوئے انکار کر دیا۔ محمد علی جناح بھی اس تحریک کے خلاف تھے ور اقبال کی حکیمانہ دانش نے واضح طورپر تحریک کے نتایج محسوس کر لیے تھے جو بری طرح ناکام ہو گئی۔ اس خلافت کی اہمیت تو اسی سے واضح ہے کہ ہندوستان جیسی مسلم سلطنت انگریز کے قبضے میں چلی گئی مگر خلیفہ ان کی امداد کو کیا پہنچتا کلمہ افسوس بھی نہ کہہ سکا۔
آپ نے دیکھا کہ ترکی خلافت کی بحالی کے لیے مولانا محمد علی جوہر اور ہمنواؤں نے اندرون ملک اور برطانیہ میں جس طرح پرزور احتجاج کیا۔اس کا نتیجہ منفی نکلا اور ہندوستان کے مسلمان معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی طورپر تباہ ہوتے ہوتے بچے انھوں نے اقبال کو بھی پُر اصرار انداز میں اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی مگر اقبال صاحبِ بصیرت و وجدان اور دانائے راز تھے۔ کس طرح غلط عمل کی حمایت کرتے اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ ہمارے عظیم رہنما علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں بیرسٹر اور اعلیٰ پایہ کے قانون دان تھےؤ دونوں نے ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے باوقار طریقے سے سیاست کی اور اپنے ذہن، قلم اورکلام سے انگریز حکو مت اور ہندو کانگرس کا مقابلہ کیا اور کامیاب رہے دونوں احتجاجی سیاست ،جیل جانا ، ہڑتالیں کرنا ، اشتعال انگیز نعرے لگانا اورجلوس نکالنا، پُر تشدد مظاہرے کرنا، گاندھی کی طرح مرن برت رکھنایا بھوک ہڑتال وغیرہ کے خلاف تھے کاش کہ ہمارے آج کل کے سیاسی اورمذہبی رہنما بھی ان کے نقش قدم پر چل سکیں تاکہ وقت ، توانائیاں اور وسائل ضائع نہ ہوں اورملک پر امن فضا میں مسلسل ترقی کر سکے۔
اقبال جمہوری نظام پسند کرتے تھے مگر وہ جمہوریت جو خود مغرب ہندوستان کو صرف برطانوی ؟؟ ؟ استحکام کے لیے دے رہا تھا اقبال اُس مغربی جمہوریت کے خلاف تھے جو سرمایہ داری نظام پر مبنی تھی جس کا اظہار انھوں نے مشہور نظم خضر راہ میں نہایت موثر انداز میں کیا ہے۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نواے قیصری
لیکن جمہوریت تو جمہوریت تھی جیسی بھی تھی تو جمہوریت جس کا ملوکیت کے ساتھ نباہ نہیں ہو سکتا اس لیے اقبال نا خوش تھے ۔
سلطانی جمہور
کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اسی طرح وہ تحریک آزادی ہند میں اصل فریق انگریز اورہندو کانگریس کو نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ ہندوستان کا اکثریتی فرقہ اور اقلیتیں ہیں جو مغربی طرز کی مخلوط انتخاب کی جمہوریت کو قبول نہیں کر کتیں۔ جب تک کہ ان کو ہندوستان کے اصل حالات زندگی کے مطابق نہ ڈھال لیا جائے۔
ترکی میں جمہوریت کے قیام کی موافقت سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اقبال ملوکیت کے بالکل حق میں نہیں تھے اور تمام نئے اسلامی ممالک میں رائج شخصی حکومت کو ناپسند کرتے تھے۔ انھیں اس بات کا بے حد ملال تھا کہ ان مسلمان ممالک میں بھی حکومتیں جغرافیائی اور علاقائی قومی بنیاد پر الگ الگ مقامی مفاد کوترجیح دیتی ہیں اور اسلامی بھائی چارے کے نظریے سے دوسرے ممالک کے مسلمان بھائیوں سے کوئی ترجیح سلوک نہیں کرتیں۔ یونکہ وہ علاقائی ، نسلی، رنگ و بو کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف سمجھتے تھے وہ تو قائل تھے کہ
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مگر یہاں وطنیت کے تعصبات نے ہر ایک کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے انھوں نے اپنی نظم وطنیت میں علاقائی وطنیت کے مضر اثرات کا بڑا واضح نقشہ کھینچا ہے وہ علاقائی وطنیت کو انسانیت کے لیے تباہی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں :
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
وہ توحید کی بنیاد پر سارے تفرقات مٹا کر چاہتے ہیں :
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویٰ ہے
اقبال دین کی بنیاد پر ہر ملک کے مسلمانوں کو ایک اسلامی قرار دینے میں اس حد تک سنجیدہ تھے کہ جب مولانا حسین احمد مدنی نے تقریر میں کہا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو اقبال کی روح تڑپ اٹھی اورانھوں نے مولانا حسین احمد مدنی کی تردید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ، چُہ بے خبر زِ مقامِ محمد عربی است، مگر افسوس اقبال کا اسلامی بھائی چارے کا خواب مسلمانوں کی بے اتفاقی اور غیر ریشہ دانیوں کی وجہ سے پورہ نہیں ہو رہا اور عالم اسلام کی موجودہ زمانے میں شکست خوردگی کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ آپس میں متحد نہیں ہیں نہ مقامی سطح پر نہ بین الاقوامی سطح پر۔
۱۹۱۹ء میں مانٹیگو چیسفورڈ اصلاحات کے نتیجہ میں مرکز اور صوبوں کے اختیارات تقسیم اور متعین ہو گئے یہ جمہوریت کی طرف پیش قدمی تھی عوام میں سیاست اور الیکشن مین حصہ لینے کا جوش و شوق پیدا ہو گیا اورمسلم لیگ جو تحریک خلافت کی وجہ سے نیم جان تھی پھر سے زندہ ہوگئی۔۱۹۲۶۔۳۰ء اقبال کا پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں بطور ممبر کارگرگی کا حال بیان ہو چکا ہے۔ اس دوران ہندوستان میں سائمن کمیشن ۱۹۲۷ء میں ہند نظام حکومت کی آئینی پوزیشن کا جائزہ لینے کے لیے آیا اس کے سب ممبر انگریز تھے جس پر محمد علی جناح ، کانگرس ، علی برادران اوران کے ہمنواؤں نے اختلاف کیا اور اسے توہین سمجھا گیا مگر سر محمد شفیع اور اقبال نے کمیشن کی موافقت کی ان کا خیال تھا کہ متحارب گروپوں کے نمائندے ایک نتیجہ پر متفق نہیں ہو سکتے۔ انھیں ہندوممبروں سے زیادہ انگریزی ی غیر جانبداری پر اعتماد تھا اس پر جناح نے پنجاب لیگ ختم کر دی تو سر شفیع اور اقبال نے الگ مسلم لیگ بنا لی۔ اقبال سیاسی قلابازیوں سے متنفر تھے مگر نااتفاقی اس بات پر تھی کہ جناح مشروط انتخاب پر رضا مند تھے مگر اقبال اور شفیع ہندو کانگریس کی متحدہ قوم پرستی کے خلاف تھے کہ اسلامی عالمگیری مساوات کے خلاف ہے اور ہندی مسلمانوں کو ایک مشترکہ قوم میں سمو کر ان کے جائز اقلیتی حقوق سے محروم کرنے کی چال ہے جس سے وہ ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے اقبال ہندو کے خلاف نہیں تھے مگر مسلمانوں کی بقاء چاہتے تھے اقبال انگریز حکومت کو ہندو کانگرس سے زیادہ بھروسے کے قابل سمجھتے تھے جو محض وعدوں کے شور سے وعدوں پر ہی ٹرخاتی تھی اور کڑک مرغی کی طرح حقوق کا ایک انڈہ بھی نہیں دیتی تھی۔ اس لیے وہ شروع سے اپنی دو شرائط پر قائم رہے۔
۱- مسلم اکثریت کے صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے نمائندگی
۲- جداگانہ انتخاب اور صوبائی خود مختاری۔
چونکہ جناح مشترکہ انتخاب پر راضی ہو گئے تھے اس لیے اقبال ان سے ناراض ہو گئے اور اقبال کے موقف کی تصدیق ہو گئی جب موتی لال نہرو اپنی نہرو رپورٹ ۱۹۲۸ء میں میثاق لکھنؤ اور دہلی تجاویز میں جداگانہ انتخاب کے طے شدہ اصولوں سے منحرف ہو گیا اور مرکز اور صوبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کر دی سندھ کو الگ صوبہ بنانے اور دیگر مطالبات کو مسترد کر دیا غرضیکہ رپورٹ سراسر اس زعم پر مبنی تھی کہ کانگرس کو سوراج حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
پھر بھی جناح نے کہا کہ نہرورپورٹ میں ضروری ترامیم کرکے مسلمان اسے قبول کر سکتے ہیں۔ لیکن ترامیم پر بھی کانگرس آمادہ نہ ہوئی غرضیکہ ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلہ جناح کی آخری کوشش بھی ناکام ہوئی اور اقبال کا موقف کہ ہندو لیڈر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے درست ثابت ہوا۔ مزید براں لندن میں تین گول میز کانفرنسوں کی شرمناک ناکامی نے بھی اقبال کے زاویۂ نظر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔
اس پر آل انڈیا مسلم کانفرنس وجود میں لائی گئی اقبال اس کے بانیوں میں تھے زیرِ صدارت سر آغا خان ۲۶؍۱۹۲۸ءدسمبر کو اس کا اجلاس ہوا اقبال نے اہم بصیرت افروز تقریر کی اس میں جناح مسلم لیگ کے علاوہ دوسری مسلم جماعتیں بھی شریک ہوئیں۔ اس میں مسلمانوں کے مطالبات مرتب کرنے میں وفاقی مرکز میں مسلمانوں ۱؍۳سیٹیں ،صوبائی خودی مختاری ، جدگانہ انتخاب وغیرہ میں اقبال نے اہم کردار ادا کیا۔
نہرو رپورٹ میں جناح کی ترامیم کی نا منظوری کے تلخ تجربہ کے بعد جناح کو احساس ہو گیا کہ ہندوؤں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں اس کے ساتھ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے جو مطالبات اپنی قرار داد میں شامل کر رکھے تھے۔ ان میں اضافہ کی گنجائش ہے جو انھوں نے اس میں شامل کیے اس کے ساتھ ہی اقبال سر شفیع اورجناح کا نکتہ نظر ایک ہو گیا آپس میں جو اختلافات تھے وہ ختم ہو گئے اور دونوں لیگوں کا اتحاد محمد علی جناح ۲۸؍جنوری ۱۹۳۰ء کے چودہ نکات پر ہو گیا اور اقبال کے آخری دم تک قائم رہا بلکہ شفیع لیگ ختم کر دی گئی اور اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے نیشنلسٹ مسلمان ڈاکٹر ذاکر انصاری ، مولانا آزاد، ڈاکٹر کچلو اورچوہدی خلیق الزمان ن لیگ سے رخصت ہو گئے۔
جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال نے چوہدری محند حسین اور عبداللہ چغتائی کے ہمراہ جنوبی ہند کا دورہ کیااور تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ Reconstruction of Religious Thought in Islamکے موضوع پر مدارس ،میسور، بنگلور،حیدرآباد اور علی گڑھ میں نہایت عالمانہ خطبات ارشاد فرمائے۔ ان میں انھوں نے اسلام کے بارے میں اپنے نظریات کی تفصیل سے وضاحت کی اور حیرت انگیز نظریات پیش کیے۔ جو مروہ نظریات کے مقابلے میں جدید دور کے حالات کے تقاضوں کے مدِ نظر ترقی پسندانہ اور اجتہاد پر مبنی تھے۔ یہ خطبات اعلیٰ پایہ کی انگریزی انشاء میں تھے۔ جنھیں انتہا پسند عناصر نے توجہ نہ دی یا سمجھ نہ سکے۔ ورنہ لاہور کی وزیر خان مسجد کے خطیب مولوی دیدار علی کی طرح ایک اور کفرکا فتویٰ لگا دیتے۔
۷ ؍ستمبر۱۹۲۹ء کو اقبال نے بیرون دہلی دروازہ برطانیہ کی یہود نواز پالیسی اور فلسطین کو ان کا وطن بنانے کی پالیسی کے خلاف زبر دست پرجوش تقریر کی اور اس کو امن عالم کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔
اقبال کی خواہش تھی کہ آنے والی گول میز کانفرنس سے پیشتر مسلمانوں کا آپس میں مکمل اتحاد ہوااور ممکن ہو سکے تو ہندو مسلم اتحاد بھی۔ تاکہ گول میز کانفرنس کے نتائج حوصلہ افزاء برآمد ہوں۔ اس بارے میں انھوں نے برکت علی محمڈن ہال لاہور میں بڑی دردمندانہ تقریر کی۔
۱۳؍جولائی ۱۹۳۰ء کو محمد علی جناح نے لیگ کونسل کا اجلاس طلب کیا تاکہ گول میز کانفرنس کے لیے پالیسی وضع کی جائے۔ اس کو آخری شکل دینے کے لیے خاص اجلاس بلایا جائے اور اس کی صدارت کے لیے جناح نے اقبال کا نام تجویز کیا جو بالاتفاق منظور ہو گیا۔ چنانچہ یہ اجلاس ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں منعقد ہو۔ا جس میں اقبال کو سیاست کے میدان میں کل ہند سطح پر بہت اہم مقام حاصل ہوگیا۔ اس صدارتی خطبے میں انھوں نے دو قومی نظریہ کے جواز، اہمیت اور اس کی تکمیل کا خاکہ پیش کیا۔ جس کا مسلمانوں میں خیر مقدم کیا گیا۔ مگر ہندوؤں نے کھل کر اس کی مذمت کی۔ اس وقت ان کے سامنے الگ ملک کا تصور شمال مغربی ہند مسلمان صوبوں تک محدود تھا۔ یعنی پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان۔ یہ ایک قدرتی طورپر مربوط خطہ تھا۔ وہ اسے ایک ملک بنانا چاہتے تھے۔ بنگال اور دوسرے اکثریت صوبوں کو آزادانہ طور پر فیصلہ کے اکتیار پر چھوڑا گیا مقصد یہ تھا جو فیصلہ شمال مغربی ہند کے لیے ہوگا خود بخود دوسرے صوبوں کے لیے بھی ہو جائے گا۔ یہ بات جناح کے نام اقبال کے خطوط سے پوری طرح واضح ہے۔
یہ الگ اسلامی مملکت کی تجویز آئندہ گول میز کانفرنس کا دیباچہ کہی جا سکتی ہےؤ جس کے تحت ہندوستان میں وفاقی حکومت ہو گی۔ جس میں مسلم اکثریت والے صوبوں میں اکثریتی حقوق اورباقی ہندوستان میں آبادی کی نسبت سے نشستیں ملیں گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ اصول کہ ہر فرقے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طورپر آزادانہ ترقی کرے۔ اس کا فرقہ پرستی اور تعصب سے کوئی تعلق نہیں۔ میں دوسرے فرقوں کے رسم و رواج ، عقائدو قوانین، مذہبی سماجی اداروں کا بے حد احترام کرتاہوں۔ اگرچہ ہندوؤں نے اقبال پر مذہبی تعصب اور ہندوؤں سے نفرت کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ مگر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اقبال ہندو مذہب کے بھی عالم تھے اور قدر دان بھی۔ ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ رومن کوڈ جو مغربی قانون اور ضوابط کی ماں ہے چاروں ویدوں اور شاستروں سے اخذ شدہ ہے۔ اعلیٰ شاعری اور نظریات میں یونانی ہندوستانیوں کے شاگرد تھے۔ جو فلسفیانہ نظریات میں نہایت اعلیٰ سطح پر پہنچ چکے تھے۔ اقبال ویدوں اور گیتا کے بہت معترف تھےؤ
ان کے فلسفہ خودی کے جوہرِ عمل اور استثناء کو سری کرشن گیتا سے کافی مماثلت ہے۔ اس ضمن میں عظیم جنگ مہا بھارت کے واقع کی مثال دی جاتی ہے۔ جب سوتیلے بھائیوں کورواور پانڈؤں کی افواج آمنے سامنے ایک دوسرے کو فنا کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔پانڈوؤں میں ارجن جو بے مثل تیر انداز تھا۔ اپنے بالمقابل اپنے ہی عزیز و اقربا کو دیکھا تو غم اور مایوسی میں تیر کمان پھینک کر جنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر بھگوان سری کرشن جو ارجن کے رتھ بان تھے۔ ارجن کو سمجھایا کہ حق و باطل کی جنگ ہے عزیزو اقارب وہ ہوتے ہیں جو دوسرے کا حق دیتے ہیں چھینتے نہیں۔ تمھارا ان سے حق کی سربلندی کے لیے استقامت سے جدوجہد کرنا انسانی کردار کی کامیابی و استحکام کے لیے ہے۔ جس میں انسان نتائج کی پرواہ کے بغیر حق کا ساتھ دیتا ہے اور یہ راستہ تکمیل خودی کی طرف جاتا ہے... اقبال کا ارادہ تھا کہ گیتا کا منظوم ترجمہ کریں جو پہلے ابوالفضل کا بھائی فیض کر چکا تھ۔ا کیونکہ اس نے گیت کے خیالات کی بلندی کی منصفانہ ترجمانی نہیں کی تھی۔جاویدنامہ میں بھی اقبال نے ملک قمر پر ہندو رشی و ستواستر جسے عارفِ ہندی اورجہاں دوست کہا گیا ہے۔ رومی اور اقبال کے ساتھ نہایت عالمانہ سوالات و جوابات میں گفتگو ہوئی۔ اس کے علاوہ ہندو عالم راجہ بھرتری ہرنی کا بھی ذکر ہے جس کے ایک شعر کا ترجمہ بطور سفرِ نامہ اقبال نے بال جبریل کے شروع میں لکھا ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے پینرے کا جگر
مرد ناداں یہ کلام نرم و نازک بے اثر
غرضیکہ اقبال ہر گز متعصب اور ہندوؤں سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ویدوں، سری رام، سری کرشن، گوتم بدھ، سوامی رام تیرتھ گرونانک وغیرہ پر تعریفی نظمیں لکھیں ہیں۔ اوران کے قریبی دوستوں میں بہت سی ہندو شخصیتیں تھیں۔ یہاں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ اسلام میں وجودی تصوف جس کی بیل کی گھنیری زلفوں میں اصل تصوف گم ہو چکا ہے۔ فلسفہ ویدانت کا ہی مرہونِ منت ہے۔ جس میں برہما یعنی ذاتِ مطلق تمام کائنات کی تخلیق کار ہے۔ اور سبھی تخلیقات ‘ہمہ ا وست ’کے نظریہ کے تحت برہما کی عظیم اپرم پارہستی کا جزو ہیں۔ اور تناسخ اور آواگان کے مراحل میں ہیں کہ اپنی ہستی کو فناء کرکے برہما کی ہستی مطلق میں سما جائیں۔ ایران میں وجودی تصوف کے پودے کو سینچنے والے حافظ شیرازی اور بیشمار شاعر مل گئے۔ مگر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
ذکر ہو رہا تھا گول میز کانفرنس کا جس میں ہندوستان کے مسلم سیاسی رہنما اپنی تجاویز لے کر گئے تھے تاکہ ان کے مطابق آئین کو وضع کیا جائے اور اقبال پہلی گول میز کا نفرنس کے وقت اجلاس ِ آلہ آباد کے تاریخی خطبے میں مصروف تھے۔ لیکن اس گول میز کا نفرنس کے وقت مسلمان مندوبین سے باقاعدہ رابطے کیے ہوئے تھے اور جداگانہ انتخاب اور الگ اسلامی ریاست کے قیام کے مطالبہ کو اولیت دینے پر زور دیتے رہے۔ تاہم دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں وہ شریک ہوئے۔ دوسری کانفرنس میں اپنے مطالبات پر مدلل تقریر کی ۔ مگر کانگریس رہنماؤں کی ہٹ دھرمی کے سبب حقوق کا تصفیہ نہ ہو سکا۔ گاندھی زبانی ہامی بھرتے تھے مگر کوئی ضمانت نہ دیتے تھے۔
تیسری گول میز کانفرنس کا نتیجہ پہلے ہی سے ناکامی نظر آ رہا تھا۔ لہٰذا اقبال نے اس میں برائے نام شرکت کی۔ الگ اسلامی ریاست کے بارے میں اقبال نے ہندوؤں کو یقین دلایا کہ اس کا مقصد مذہبی حکومت کا قیام نہیں۔ اسلام کہیں کسی مذہبی ادارے کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔ ریاست اخلاقی نظریات کی حامل ہوگی۔ جس میں اختلافی نظریات کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کا قیام ہندوستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ جس سے اندرونی توازن ہوگا۔ دونوں حصوں میں امن و سلامتی ہوگی اور ہندوستان کی مسلم ریاست عرب سامراجیت کی چھاپ سے آزاد ہوگی نیز ہندوستان کی حفاظت کے لیے سرحد کا کام دے گی۔
کانفرنس میں اقبال کے مؤقف کو پنجاب کے مسلمانوں نے بہت سراہا۔ اقبال کی مسلم ریاست کوششوں کی بدولت ان کے زیر اثر زیادہ لوگ متحد ہوگئے۔ ہر جگہ ان کا شاندار استقبال ہوا اورانھیں اتفاق رائے سے کل ہند مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کر لیا گہیا جو مسلم لیگ سے زیادہ نمائندہ تنظیم سمجھی جانے لگی۔ مارچ ۱۹۳۲ء کو اس کا نفرنس کے سالانہ اجلاس لاہور میں ہوا۔ جس کے صدارت اقبال نے کی۔ مسلم آبادی کے خطوں میں انھوں نے سارے فرقوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اقبال کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی تھی کہ ایک ہندو لیڈر مذہب کے بارے میں جو بات یا تبلیغ چاہے کرتا رہے پھر بھی قوم پرست کہلاتا ہے اور اگر مسلمان اسلام کی بات کرے تو فوراًفرقہ پرست قرار دیا جاتا ہے۔
اقبال کے کامیاب سیاست دان کہلانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انھوں نے مسلم بقاء کے لیے ایک اہم اقلیت کی صورت میں ہندوستان کی مخلوط قوم کی نفی کرتے ہوئے الگ قومی حیثیت منوائی ۔ جس کے نتیجے میں ہندو اور مسلم قوموں کے علاقوں اور آبای کے لحاظ سے اسمبلیوں میں نشستیں کی تعداد اور جداگانہ طریقۂ انتخاب تسلیم کیا گیا۔ متحدہ فیڈریشن میں صوبائی خود مختاری کا حق تسلیم کیا گیا اور شمال مغربی چار صوبے پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان قدرتی طوپر ایک مربوط مسلم اکثریت علاقہ بنے۔ اس کے لیے ہندوستان میں الگ آزاد مملکت کے مطالبے کو پاکستان کا خاکہ بنا کر پیش کیا گیا جو ۱۴ ؍اگست ۱۹۴۷ء کو جیتی جاگتی مملکت کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر جلوہ گر ہوا۔
گول میز کانفرنسوں کے بعد حکومت نے قرطاس ابیض شائع کیا۔ جس میں ہر پارٹی اور فرقے کے حقوق کا تعین کیا گیا۔ مگر سبھی نے قرطاس ابیض پر سخت تنقید کی۔ مسلمانوں کو بھی ان کے تناسب سے کم سیٹیں دی گئیں۔ اقبال کی رائے میں وائٹ پیپر میں ترمیم کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اسقام دور ہوں۔
اقبال نے ۲۲ ؍فروری ۱۹۳۳ء کو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ترکی کے مشہور مجاہد اور آزادی کے ہیرو رؤف پاشا کے لیکچروں کی صدارت کی۔ جنوری ۱۹۳۴ء کو اقبال سخت علیل ہو گئے اوران کے گلے کا صوتی نظام خراب ہو گیا۔ آواز سے تقریباًمحروم ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد بصارت بھی تقریباًجواب دے گئی اور دیگر کئی عوارض لاحق ہو گئے۔
۲۴ ؍اکتوبر ۱۹۳۴ءکو محمد علی جناح لندن سے واپس ہندوستان آ گئے۔ جس کے لیے اقبال اور دیگر لیگی زعمانے انھیں واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی کشتی سنبھالنے کی درخواست کی تھی۔ اگر اقبال کو جناح سے کدورت یا شکوہ ہوتا تو وہ کبھی انھیں واپس آنے کی درخواست نہ کرتے۔ تاہم وہ خود شدید بیماری کے باوجود قوم کی بہتری کے لیے جہاں تک ہو سکا سیاسی رہنمائی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ قائد اعظم اقبال کی علالت کے دوران ان کی مزاج پرسی کے لیے آئے۔ اقبلا نے کامیابی کے لیے انھیں لیگ کو عوامی بنانے کا پرزور مشورہ دیا اور عوام کے حقدلوانے کی تلقین کی۔ جب تک لیگ عوامی جماعت نہیں بنے گی کامیا بی سے دور رہے گی۔ قائداعظم نے اس بات کو تسلیم اورپسند کیا۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ء کو علالت کے باوجود نمائندہ جلسہ میں صوبائی پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کی گئی اور اقبال کو اس کا صدر منتخب کیا گیا۔
انھوں نے ہمنواؤں کی مدد سے مسلم لیگ کا حلقہ اثر عوام تک پھیلا دیا۔ چنانچہ انتخابات میں لیگ کے امیدواروں کو سوائے سرحد کے صوبے میں بے حد کامیابی ہوئی۔
نہرو کے لیے یہ بات بڑی تشویش کا باعث تھی۔ اس نے دہلی میں آل انڈیا کنونشن بلا کر مسلمان عوام کو پرکشش وعدوں سے گھیرنا چاہا جس کے جواب میں اقبال نے نہرو کنونشن کے جواب میں لیگ کو بھی ایسی کنونشن بلانے کے لیے جناح کو لکھا تاکہ کانگریس کی لن ترانیوں کا نہ صرف مؤثر جواب دیا جائے بلکہ مسلمانوں کو مزید مستحکم و منظم کیا جائے اور مسلم لیگ کو جلد از جلد عوامی بنایا جائے کیونکہ عوام کی نیابت کے بغیر کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور مسلمانوں کو افلاس سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس طرح اور اہم سیاسی امور میں خصوصاًیونیسنٹ پارٹی کا زور توڑنے اور اس سےتعلق قطع کرنے ا ور سٹوڈنٹ فیڈریشن کی تنظم کے لیے بے حد مفید مشورے دیے۔
انھی دنوں نہرو نے مسلم عوامی رابطہ کی تحریک شروع کی میاں افتخار الدین کے ہمراہ اقبال سے ملنے آئے، ملاقات کے دوران میاں افتخار الدین نے کہا :‘‘ڈاکٹر صاحب ! آپ مسلمانوں کے لیدر کیوں نہیں بن جاتے ۔ مسلمان جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں آپ کانگریس سے بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔ اقبلا سمجھ گئے کہ آپس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جواب میں اقبال نے پُر جوش انداز میں کہا کہ مسٹر جناح ہی اصل لیڈر ہیں۔ میں توان کا معمولی سپاہی ہوں۔ اقبال مسلمانان ہند سے چاہتے تھے کہ وہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ متحدہ محاذ لیگ کی سربراہی میں ہی ہوسکتا ہے۔ اگر لیگ کامیاب ہو گئی تو جناح کے سہارے اس کے سوا اورکوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اقبال کو ایک مغربی طریق زندگی گزارنے والا شخص جو ٹھیک طرح عوامی زبان میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا اس کی قیادت پر اتنا یقین اور اعتقاد تھا۔ یقینا یہ اقبال کی وجدانی بصیرت تھی۔
اسی طرح قائد اعظم نے اقبال کی وفات پر فرمایا کہ اقبال میرے لیے ایک مخلص دوست ، رفیق اور راہنما تھے۔ لیگ کو نازک ترین لمحوں میں گزرنا پڑا۔ مگر وہ چٹان کی طرح قائم رہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی متزلزل نہیں ہوئے۔ ان کی انتھک جدوجہد سے پنجاب پورے طورپر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہے۔ اقبال سے بہتر کسی نے اسلام کو نہیں سمجھا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ان کی قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کام کیا گیا ہے۔ میں نے ان سے زجادہ سچا، وفادار اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔قائد اعظم نے کہا کہ کارلائل کو کسی نے برطانیہ اور شیکسپیئر میں ایک کو چننے کے لیے کہا تو اس نے شیکسپیئر کو ترجیح دی مجھے اگر سلطنت مل جائے اور اقبال میں کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جائے تو اقبال کو منتخب کروں گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال اول آخر مسلم لیگ کی روہ تھے ان کے بارے میں یہ وہم پیدا کرنا کہ انھوں نے مسلم لیگ سے قوم پرستی کے حوالے سے مجبوراًتعاون کیا۔ سورج پر تھوکنے کے مترادف ہے۔
سامعین کرام اس تھوڑے سے وقت میں حضرت علامہ اقبال کے سیاسی کا رناموں کا احاطہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو بابغۂ عصر انسان تھے جو ہزاروں سال کے انتظار کے بعد دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا عام انسانوں کے ساتھ ان کے اوصاف کا مقابلہ کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ سیاسی میدان میں جب ہندو لیڈر شٌ کی شاونزم اورچانکیہ پن نے مسلمانوں کے جائز حقوق غصب کر نے کی ٹھان لی۔ اپنی اکثریت کے تکبر میں وہ نہ مسلمانوں کو کسی خقطر میں لاتے تھے اور نہ ان کے راہنماؤں کی پیش کر دہ تجاویز کو۔ کیونکہ وہ اکھنڈ بھارت میں ہندو راج کا خواب دیکھ رہے تھے توان کے دوغلے پن اور کہہ مکرنیوں کا انداز شروع ہی سے اقبال کو ہو گیا تھا۔ جو مسلمانوں کی بقاء کے لیے جداگانہ انتخاب اور الگ مسلم ریاست کے مطالبے پر جم گئے اور کوئی بھی انھیں اپنے موقف سے نہ ہٹا سکا۔ مگر دوسرے مسلم رہنما بار بار اپنی تجاویز ٹھکرائے جانے پر بھی کسی خوش فہمی میں ہندوؤں سے سمجھوتے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس صورتحال سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کی یادآتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے عملی زندگی میں اقبال کو حصولِ پاکستان کے لیے ‘‘خضرِ راہ’’ کا مقام دیا ۔ جس کی رہبری نے بالآخر حصول پاکستان کی منزل تک پہنچا دیا۔ اگرخدانخواستہ اکھنڈ بھارت بن جاتا تو مسلمانوں آج تک مسئلہ کشمیر کی طرح ہندو سامراج کی بھول بھلیاں میں ذلت و خواری سے ٹھوکریں کھا رہے ہوتے۔ آخر میں حضرت اقبال کے لیے غالب کے اس شعر سے معروضات ختم کرتا ہوں۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحیرِ بیکراں کے لیے