کبیر نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی وہ نہایت مذہبی تو نہ تھا مگر صوم و صلات کی پابندی کی جاتی تھی اور اہتمام بھی۔۔
اس کے ابا بینک میں اعلٰی عہدے پہ فائز تھے‘لہذا گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔۔۔
اسکی ماں سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ماں اور ایک اچھی بیوی بھی تھی۔۔ وہ اپنی ولیفئر ٹرسٹ بھی چلا رہی تھیں۔۔
کبیر نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور کے ہی ایک انگریزی سکول میں حاصل کی‘ وہ بہت شاندار کارکردگی دکھانے والا بچہ تھا‘ ہر امتحان میں اول پوزیشن لینا‘اور پھر مقرر تو وہ اتنا بہترین تھا کہ دور دور کے سکولوں میں منعقدہ مقابلوں میں اسکا طوطی بولتا۔۔۔
گھر کا ماحول سادہ مگر جدید دور کی ضرورتوں سے مالا مال تھا۔۔۔
اس نے کھبی اپنے والدین کو آپس میں لڑتے نہیں دیکھا‘ ایک ادب و لحاظ کے دائرے میں رہ کر پڑے سے بڑے مسائل حل کر لئے جاتے تھے بغیر کسی بحث و مباحثے کے۔۔۔۔
زندگی کی گاڑی اسی طرح سکون سے چلتی رہتی اگر کبیر کی زندگی میں وہ شام نہ آئی ہوتی۔۔۔
اس دن اسکے سکول میں دسویں جماعت کے بچوں کی الوداعی پارٹی تھی۔۔وہ بہت زیادی خؤش تھا‘
وہ دوپہر کے وقت جب گھر آیا تو آج خلاف معمول اسکی ماں گھر پہ ہی تھی۔۔۔
امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
آج بہت مزا آیا‘‘ ہم نے سب کو بہت تنگ کیا۔۔ اور آپکو پتا ہے مجھے ایک ٹائٹل بھی ملا ہے آج۔۔وہ اتنا فنی ہے کہ آپ کو بھی بہت ہنسی آئے گی۔۔۔ ‘‘
(اس نے ماں کو گھر میں دیکھتے ہی انکے گلے میں پیار سے باہیں ڈال دیں اور لاڈ سے اپنی پارٹی کی روداد سنانے لگا)
‘‘ امی آج تو میری ڈریسنگ کی بھی سب نے بہت تعریف کی‘‘ میں نے تو سارا کریڈٹ آپکو ہی دیا ہے ۔۔۔ آپ تو پرفیکٹ ڈزائنر ہیں ۔۔۔ آج سب جل رہئے تھے میرا کرتا دیکھ کر۔۔۔۔ ‘‘
مسز شاہ صرف پھیکی سی مسکرائی اور پھر اپنی گود میں رکھی ڈائری پہ جھک گئیں۔۔۔
یہ آج پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی خوشی کو یوں اگنور کر رہی تھیں‘کبیر اندر تک گھائل ہو گیا۔۔۔
‘‘ امی آپ شائید بزی ہیں ‘چلیں میں بعد میں آپکو ٹائٹل بتا دوں گا‘‘
مسز شاہ کا کلیجہ کٹ گیا۔۔۔
کبیر یہ بول کہ وہاں رکا نہیں بلکہ سیڑھاں چڑھ گیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔اس کے احتجاج کا یہی طریقہ تھا۔۔وہ جب بھی کھبی کسی بات پہ خفا ہوتا وہ یوں ہی خاموشی سی اپنے کمرے میں بند ہو جاتا۔۔۔
کبیر کو اوپر آئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔
اسکی ماں اس کے پیچھے نہیں آئی تھی۔۔ وہ اور بھی خفا ہونے لگا۔۔۔
‘‘امی کو آج کل میری کوئی فکر نہیں‘بس اپنی این جی او کے کاموں میں ہی بزی رہتی ہیں۔۔۔
اب میں بھی ان سے بات نہیں کروں گا جب تک وہ خود مجھ سے بات نہیں کریں گی۔۔۔ ‘‘
(وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح منہ پھلائے اپنے رائیٹنگ ٹیبل پہ بیٹھا تھا۔۔۔ جب اس نے نیجے لاؤئنج میں کچھ غیر معمولی آوازیں سنی۔۔۔ )
ان آوازوں میں اسکی ماں کے ساتھ ساتھ باپ کی آواز بھی نمایاں تھی۔۔۔
وہ کمرے سے باہر آیا اور اوپر گیلری سے اس نے نیچے لاؤنج میں جھانکا۔۔
سامنے کا منظر دیکھ کہ اسے لگا کہ کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے کہ جس میں مرکزی کردار اس کے امی اور ابا کر رہئے ہیں۔۔۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کرے۔۔وہ وہاں ہی گرل کے ساتھ چپک کے کھڑا ہو گیا۔۔۔
سامنے کا منظر اسے دہشت زدہ کرنے کے لیئے کافی تھا۔۔
اسکے ابو کے ہاتھ پس پشت بندھے ہوئے تھے اور ایک نقاب پوش بندہ ہاتھ میں لمبی سے بندوق لیئے ان کے سر پہ کھڑا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے باپ کو کھبی اس طرح بے بس و مجبور نہیں دیکھا تھا۔۔۔
وہاں ہی سامنے اسکی ماں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے اور بندوق تانے ایک چوکس نقاب پوش بھی کھڑا تھا۔۔ ۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہاں ایک موٹی اور قدرے چھوٹے قد کی عورت داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئی اس کے ساتھ دو اونچے لمبے مرد تھے‘ جن کے ہاتھ میں پستول تھے اور انکی مونچھیں دیکھ دیکھ کبیر کا دل دہل رہا تھا۔۔۔
اس عورت نے آتے ہی کبیر کی ماں پہ برسنا شروع کر دیا۔۔۔
گھونسے‘لاتیں‘تماچے۔۔۔ اسکی ماں کی چیخیں اسکے کانوں تک پہنچی۔۔۔
‘‘ یہ جو تجھے خدمت خلق کا بھوت چڑھا ہے نہ وہ میں اتارتی ہوں تیرے سر سے۔۔ تو سمجھتی کیا ہے خود کو۔۔۔ تیری اتنی جرات کیسے ہوئی کہ تو میرا دھندہ روک سکے۔۔ میرا گلشان آراء کا دھندہ۔۔۔۔
بول کہاں چھپایا ہے ان لڑکیوں کو؟؟؟
مسز شاہ لاچارگی کی تصویر بنی بیٹھی تھی‘انکی آنکھؤں نے آنسو نکل نکل کر انکی قمیض میں جذب ہونے لگے۔۔۔
‘‘ بول کہاں ہیں وہ لڑکیآں؟؟؟
تو ایسے نہیں بولے گی۔۔۔۔ ‘‘
اس عورت نے ان دو مردوں کو گھر کی تلاشی لینے کا حکم دیا اور وہ دونوں تیزی سے نچلے پورشن کے مختلف کمروں میں تلاشی لینے لگے۔۔
‘‘یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔
وہ یہاں نہیں ہیں۔۔۔۔ ‘‘
کبیر نے اپنی ماں کی کپکپاتی آواز سنی۔۔۔۔
‘‘تو پھر کہاں چھپا رکھا ہے تو نے انہیں۔۔۔ بول نہیں تو تو اور تیرا شوہر نہیں بچے گا آج۔۔ ‘‘
(وہ چھوٹے قد اور چھوٹے کردار کی عورت اسکی پاکباز ماں سے نہایت غلیظ لہجے میں بات کر رہی تھی
کبیر کو بلکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے‘‘یہ کون لوگ ہیں اور اسکے والدین کے ساتھ یہ سلوک کیوں کر رہئے ہیں۔۔۔ اور کون سے لڑکیاں ہیں جن کی تلاش میں یہ لوگ انکے گھر آئے ہیں )
مسز شاہ نے بولنے کی کوشش کی۔۔۔
‘‘انکو میں نے محفظ جگہ پہنچا دیا ہے۔۔تم ان بچیوں تک کھبی نہیں پہنچ سکتی۔۔جب تک میں زندہ ہوں میں کسی بچی کی زندگی نہیں برباد کرنے دوں گی تمہیں گلشان آرا۔۔۔۔‘‘
‘‘ تو پھر تم مر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔
گڈی اپنے کام میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتی۔۔۔۔
رہی بات ان لڑکیوں کی تو انہیں تو میں پاتال میں سے بھی نکال لاؤں گی‘انہیں اب گڈی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔ ‘‘
پھر کبیر کی آنکھوں نے دیکھا کہ اس کی بر دلعزیز ماں کے چاند ایسے روشن ماتھے پہ بندوق کی گولی نے ایک بد نما سوراخ کر دیا تھا جس میں سے اسکی ماں کا پاکیزہ خون فوارے کی صورت زمین کو رنگین کرنے لگا۔۔۔
اسکی چیخ کہیں حلق میں ہی دب گئی۔۔۔
اسکے باپ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی گولیوں کی برسات میں نہلا دیا گیا۔۔۔
اور پھر پھر سب قہقہے لگاتے یوں اخصت ہو گئے جیسے شکاری مرغابیوں کا شکار کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔
کبیر نے سہل سہل کہ وہ اٹھارہ سیڑھاں عبور کی اور ماں کا سر اپنی گود میں لے لیا۔۔۔
وہ اس بدنما سوراخ پہ کھبی اپنا ہاتھ رکھتا کھبی گال۔۔۔ وہ کسی بھی طرح اپنی ماں کے خون کو زمیں پہ گرنے سے روک رہا تھا۔۔۔
پاس ہی باپ کی میت پڑی اپنی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی تھی
کبیر نے باپ کا سر اپنی گود میں رکھا۔۔۔۔
باپ کے سینے پہ پیار کیا۔۔۔
اس کے دلخرش بین سن سن کر اس کے ماں اور باپ کے میت کانپ رہے تھے۔۔۔
اسے نہیں پتا کب‘کیسے اور کس نے اس کے والدین کی تدفین کی۔۔۔۔
ہاں اسے وہ رات یاد ہے کہ جو اس نے اکیلے گھر میں گزاری تھی۔۔۔ اسے لگتا تھا کہ گھر کی ساری دیواریں اس پہ گرنے والی ہیں۔۔۔۔
وہ رات اس نے اپنی ماں اور باپ کی تصویر کو سینے سے لگا کے گزار دی۔۔۔
اس کے ابو کے ایک دوست اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے تھے۔۔۔ اور اس کا دھیان بٹانے کے لیئے اس ے جلد ہی اسکول میں داخل بھی کروا دیا۔۔۔۔
شاکر صاحب بہت ہی بندہ پرور انسان تھے‘نفیس اور پیار کرنے والے۔۔۔
کبیر نے ٤ سال ان کے گھر میں گزارے۔۔۔ شاکر صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔۔دونوں بیٹے کبیر سے چھوٹے تھے۔۔۔ اور بیٹی کبیر کی ہم عمر ہی تھی۔۔۔
جب اس نے اپنی چودھویں جماعت پاس کی اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تو اسے لگا کہ وہ اب اس قابل ہو گیا ہے کہ اپنے لئے کچھ کر لے گا۔۔ اس نے اپنے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔
اپنے گھر میں اسے ہر وقت اپنی ناً اور باپ کی یادیں چلتی نظر آتیں۔۔۔
وہ راتوں کو ڈر جاتا۔۔۔
چیخیں مارتا اور دھاڑیں مار کے روتا۔۔۔۔
قبل اس کے کہ وہ ذہنی مریض بن جاتا شاکر صآحب پھر اسکی مدد کو آئے اور اسے اپنے ساتھ لے آئے۔۔۔انہی دنوں ان کے گھر میں انکی بیٹی کی شادی کی تقریبات بھی جاری تھیں۔۔اسکا دھیان تھوڑا بٹ گیا۔۔۔
پھر اس نے اپنے ایک دوست کے مشورے سے شہر کی مشہور یونیورسٹی میں داخلہ لے کیا تھا ایم-بی-اے میں۔۔۔ عبید کے ساتھ اس کی ملاقات وہاں ہی ہوئی اور پھر وہ بہترین دوست بن گئے۔۔۔
ابھی کبیر کا ایم-بی-اے ختم ہی ہوا تھا کہ شاکر انکل کا انتقال ہو گیا۔۔۔
وہ ایک بار پھر باپ کے سائے سے محروم ہو گیا۔۔۔ اسی دوران اسکی ملاقات ایک ایسی ہستی سے ہوئی جس نے کبیر کی زندگی کو ایک نیا ہی رخ دے دیا۔۔۔
وہ سب کچھ جوڑ کر ایک درگاہ پہ جا بیٹھا اور اسے وہاں وہ سکوں ملا کہ جس کی تلاش میں وہ نجانے کب سے بھٹک رہا تھا۔۔۔۔
پھر اس نے ایک گاوں میں ایک چھوٹا سا گھر لے لیا اور خدمت خلق کرنے لگا۔۔۔
اس نے خود کو وقف کر دیا تھا لوگوں کی مدد کے لیئے۔۔۔
اور آج تاریخ اپنے آپکو دوہرا رہی تھی۔۔۔
وہی گلشان آراء ایک بار پھر اسکی آنکھوں کے سامنے کھڑی تھی۔۔ اس نے ابھی تک ڈسنا بند نہیں کیا تھا۔۔وہ اسکے ولدین کے بعد نجنانے کتنے گھروں کو اجاڑ چکی تھی۔۔۔۔
کبیر نی ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالی اور باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
گڈی کا سانس کسی نے کھینج لیا تھا۔۔۔ اس کا یہ نام تو اب مدت ہوئی کسی کو یاد بھی نہیں تھا تو پھر یہ کل کا چھوکرا اس کا اصلی نام کیسے جان سکتا ہے۔۔۔۔
گڈی نے فورا اپنے ‘خاص‘ کارندے کو بلایا اور اسے تاکید کی۔۔
‘‘اس چھوکرے کا پیچھا کرو۔۔یہ کہاں جاتا ہے۔۔۔ کون ہے۔۔ کس کا بندہ ہے۔۔۔
اور ہاں مجھے اس معاملے میں رتی برابر بھی کوتاہی نظر آئی تو میں تیرا خون نچوڑ لوں گی۔۔ ‘‘
گڈی کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔۔۔۔
اور کبیر کی آنکھوں میں انتقام۔۔۔۔
وہ اپنے ماں باپ کی قبر پہ کھڑا ان کی روحوں سے ایک وعدہ کر رہا تھا ‘ آنسو تھے کہ اپنا حق سمجھ کہ بہہ رہے تھے۔۔۔
اسکی جیب پہ پڑا موبائل فون اچانک بجا۔۔۔۔ یہ فون اس نے آج صبح ہی خریدا تھا اور اسکا نمبر صرٍف دو ہی لوگوں کو دیا تھا۔۔ایک بابا فضل اور ایک ماسی خیراں کہ جو ستارہ کے پاس تھی۔۔۔
اس نے فون اٹھایا اور کان سے لگا لیا۔۔۔
دوسری طرف ماسی خیراں کا سانس بے ترتیب تھا۔
کبیر نے فون کان سے لگایا ۔
ماسی خیراں کی بات تحمل سے سنی اور خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی ۔فون بند کر کے ایک نظر زیرِ خاک ماں باپ پر ڈالی اور قبرستان سے نکل گیا ۔
اس نے ٹیکسی روکی اور ہسپتال چلنے کو کہا ۔
جب وہ ٹیکسی میں سوار ہونے لگا تب اس نے اپنے پیچھے ایک گاڑی دیکھ لی تھی ۔کچھ دیر میں اس کا شک یقین میں بدل گیا ۔کوئی واقعی اس کا پیچھا کر رہا تھا ۔
بھائی پہلے کسی بھی نزدیک پولیس اسٹیشن چلو۔ڑرائیور نے گاڑی پولیس اسٹیشن کے سامنے روکی۔اسکا پیچھا کرتی گاڑی بھی باہر آ کر روکی۔اس میں موجود بندے نے گھبرا کر فون گڈی کو گھڑکا دیا۔
میڈم وہ تو پولیس کے پاس آ گیا اب کیا کروں؟
تو اتنا مر کیوں رہا ہے پہلی با دیکھا ہے کیا پولیس اسٹیشن
چپ کر کے نظر رکھ اور سب رپوٹ مجھے دے۔
جی میڈم
فون بند کر کے سب سے پہلے فون گڈی نے ملک تصور کو کیا
پھر جلدی زیور سامان نکال کر مکمل اطمینان سے کسی کا انتظار کرنے لگی۔
کبیر نے سب سے پہلے اپنے والدین کے قتل کی ایف آئی ار درج کروائی ۔اور ساتھ ہی مبینہ طور پر گلستان آرا کا نام بھی درج کروا دیا۔۔تھوڑی دیر میں پولیس اور لیڈی پولیس بھی سب سوار ہو کر گڈی کے گھر کی جانب کبیر بھی اسی گاڈی میں سوار تھا ۔
کارندے نے گڈی کو فون کر کے اطلاع دی خود روپوش ہو گیا یہ ہدایت بھی اسے گلستان بیگم نے دی تھی
قبل وہاں پولیس پہنچے ملک تصور گڈی کو لے اڑا۔
ملک کے ڈیرے پر گڈی کو گھبرایا دیکھ کر کہا کیا بات ہے میرے ہوتے ہوئے ڈرنے کی ضرورت نہیں
آپ اچھی طرح جانتے ہیں گڈی کسی سے نہیں ڈرتی۔
اوے مینوں اے تے پتہ ہی اے
ویسے مجھے ایک بات پریشان کر رہی اس چوکرے کو میرا اصل نام پتہ ہے اس نے سیدھا گلستان آراکہہ کر بات کی تھی ۔
ملک کے بھی کان کھڑے ہو گئے
پتہ نہیں کون ہے کدھر سے آ، گیا ۔
تم بتاؤ آج میری دوائی کا کیا کیا ہے
گڈی تیوری چڑھا کر آ جائے گی آج رات کی فلائیٹ سے ویسے ملک صاحب آپ کو بھی ایک نویں کڑی چاہئے ہر ہفتے ۔میرا کلیجہ کٹ رہا ہے اپنی دھی کو اس دھندے میں لا کے حالات خراب ہیں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتی ۔خدا مغفرت کرے ستارا کی وہ اس کے سب خرچے کرتی تھی ۔شہزادی کی طرح پالا میری سیم کو ۔
ملک صاحب بس اسے پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ اس سب کے پیچھے میرا ہاتھ ہے نہیں تو نفرت کرنے لگے گی مجھ سے ۔ملک اسکی بات سن کہاں رہا تھا وہ تو کہیں اور ہی گم تھا ۔
گڈی نے ملک کا سگار جھپٹ کر منہ میں دنا لیا۔دھواں اس کے ہونٹوں سے نکلنے لگا۔اور آنسو بھی دھواہیں میں کے ساتھ بہا دئیے ۔
پولیس پہنچی ملازمین کو پکڑ کر لے گئ کبیر بھی اپنے دشمنوں کو ہلا رہا تھا ۔کبیر ہسپتال پہنچا تو ماسی خیراں اسے مل گئی اور دونوں کمرے میں داخل ہوئے ستارا بستر پر بیٹھی تھی کبیر نے دیکھا بہت خوبصورتی سے دوپٹہ لپیٹا ہو تھا ۔اس میں اس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا ۔کبیر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا۔
ماسی نے کہا کے اس نے مجھے تنگ کر کے رکھا کتنے پھیرے کروائے تھک گئی میں ستارا میں سن کر کمبل میں منہ کر لیا کبیر نے ماسی کو باہر آنے کو کہا خود بھی آیا اور سب ستارا کے بارے میں بتایا ماسی کی آنکھیں پھیل گئی ہائے ربا انی سوھنی بچی زہنی مریض ماسی ہاتھ ملتے ہوئے بولی۔میں ائندہ اس گل کا خیال کروں گی پتر تو فکر نہ کر۔۔۔پھر دونوں واپس کمرے میں آ گئے ۔
مس ستارا
کبیر نے ستارا کو آواز دی
ستارا نے لہاف ہٹایا مگر بولی نہیں
آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے مناسب سمجھیں تو جواب دیجیئے گا۔
دیکھیں مس مجھے آپ کے گھر والوں کو اطلاع دینی ہے کے آپ صیح سلامت زندہ ہیں کیا آپ مجھے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتا سکتی ہیں ۔اور گلستان آرا کو کب سے جانتی ہو آپ وہاں کب سے جاب کرتی تھی ۔
وہ یک ٹک کبیر کا منہ دیکھنے لگی۔
مجھے پتہ ہے آپ ابھی تک ٹھیک نہیں مگر آپ کے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے انہیں خبر کرنا ضروری ہے ۔
کچھ دیر خاموشی کے ستارا کی آنکھوں سے موٹے موٹے موتی گرنے لگے۔۔کبیر بوکھلا گیا ۔مس آپ روائیں نہیں میں جسٹ مدد کرنا چاہتا ہوں ۔۔آپ نہیں بتانا چاہتی تو میں نہیں پوچھتا ۔۔
کبیر یہ کہہ کر وہاں سے نکل گیا ۔
نو دن بعد
اس نے نہا کر نیا، سوٹ پہنا۔یہ سوٹ کبیر ہی لایا تھا ۔جامنی سوٹ میں وہ قوسِ قضا کا رنگ لگ رہی تھی آج اسے ہسپتال سے ڈسچارج ہونا، تھا ۔تھوڑی دیر میں کبیر اسے اور ماسی خیراں کو لینے آ گیا ۔۔ستارا نے ڈاکٹروں کی پیشنگوئی غلط ثابت کر دی وہ زہنی جسمانی طور پر صحت مند لگ رہی تھی ۔کبھی وقتی ڈپریشن ہو جاتا مگر جلد قابو کر لیتی۔۔وہ ماسی کے ساتھ شاہ جی کا انتظار کر رہی تھی کے کب اسے دیکھیں۔وہ بار بار داخلی دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی ۔کافی دیر بعد ایک آدمی آیا اور ماسی خیراں سے کچھ کہا تو ماسی نے ستارا کو چلنے کا کہا۔بیٹا کبیر پتر کسی کام سے گیا ہوا ہے یہ بندہ ہمیں پنڈ چھوڑ آئے گا کبیر نے کہا تم اگر اپنے گھر جانا چاہتی ہو تو جا سکتی ہو۔
ستارا کی آنکھوں میں پانی آ گیا
نہیں موسی میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں گی ۔چلیں
شام کے وقت وہ لوگ گاؤں پہنچے بابا، فضل نے ان کا استقبال کیا ۔ماسی خیراں اسے کمرے میں لے آئی آرام کرنے کو بول کر چلی گئی ۔
ستارا کمرے کا جائزہ لینے لگی۔سادہ سا کمرہ دیوار پر سادہ سی فریم میں خانہ کعبہ کی تصویر
ایک طرف الماری جس میں شاید کپڑے تھے ۔دوسری طرف سٹینڈ میں موٹی موئی کتابیں جو دور سے ہی دیکھ لی اسلامی تھی اور تفسیر قرآن وغیرہ
وہ لیٹ گئ بیماری اور سفر کی وجہ سے فورا ہی سو گئ۔
کبیر نے سفید لباس پہنا ہوا تھا ۔گلی میں جا رہا تھا ایک جیب سے پانچ سات لوگ نکلے اور اسے پیٹنا شروع کر دیا ۔کبیر کے خون سے زمین رنگ گئ۔اور پھر کسی نے سات گولیاں اس کے کشادہ سینے میں اتار دی کبیر کی ہچکی سینے میں دب گئی ۔اور مدد کرنے والے ہاتھ زمین پر پڑے ہوئے تھے اس کا رنگ پیلا انکھیں بند
ستارا کو لگا اس کا سانس رک گیا ۔وہ ہانپتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔بستر سے نکل کر بھاگ کر صحن میں، آ گئی نہ سر پر دوپٹہ نہ پیروں میں جوتے۔وہ دروازہ کھول کر گلی میں کھڑی تھی ۔اس کا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا ۔بابا فضل نے اسے ایسے دیکھا بھاگ کر آئے
کی گل اے پتر خیر تے اے
اس نے بابا کو دیکھا پھر گلی میں دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا پھر خود کو دیکھا نہ دوپٹہ نہ جوتے شرمندہ ہو کے واپس آ گئی ۔چادر لے کر باہر لگے ٹیوب ویل سے وضو کیا ۔بابا قبلہ کس رخ ہے؟
پتر او اس پاسے
بابا کے اشارے پر ستارا نے جائے نماز بیچھا لی۔
یا خدا شاہ کو سلامت رکھنا میرے منحوس سائے سے محفوظ رکھنا ۔میں تو پیدا ہوتے ماں باپ کو کھا، گئی اب میرے شر سے اس پاکباز انسان کو بچا لے ۔میں وعدہ کرتی ہوں ان کی زندگی سے دور چلی جاؤں گی ۔ایک بار اپنی آنکھوں سے اسے سلامت دیکھ لوں ۔بہتی آنکھوں سے ستارا نے کبیر کو دیکھ لیا ابھی ہی لوٹا تھا ۔وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گیا۔۔اس نے تین دن لگا کر ستارا کے بارے میں معلومات اگھٹی کی تھی وہ جان گیا تھا اسے اب کمرہ بند کر کے سو گیا ۔۔ستارا کو وہ رات نیند کرنا مشکل تھا ایسے خواب کے بعد وہ ڈر گئی تھی ۔فجر کی آذان ہوئی اس نے وضو کیا اور نماز میں دعا کی اس کے مدِمقابل ایک وجود اور بھی دعا مانگ رہا تھا شاہ کا وجود۔دعا وہی قبول ہوتی جو پورے بھروسے سے مانگو۔
ستارا کی دعا قبول ہو چکی تھی ۔صبع سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ کمرے سے نکلی۔اسے باہر سے اپنے مسیحا کی آواز آئی۔ستارا کا دل خوشی سے شاد ہو گیا ۔وہ خدا کے حضور جھک گئی ۔اسے یقین تھا خدا نے اس کی دعا قبول کر لی اور وہی ہوا۔اسے اب تو خدا سے باتیں کرنے میں مزہ آنے لگا، تھا ۔اسے لگا وہ جو بھی پوچھتی ہے اسے وہ جواب دیتا ہے ۔اس نے وعدہ کیا تھا اور اب جانے کی پلاننگ مکمل کر لی ۔
شاہ جی
وہ کبیر کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی
جی؟
مجھے جانا ہو گا ۔آپ نے اتنا کچھ کیا مجھے پناہ بھی دی میں بہت مشکور ہوں اب مزید بوجھ نہیں بنتی کوئی غلطی ہو گئی تو معافی چاہتی ہوں ۔۔کبیر ساکت رہ گیا ۔۔اس کے دل کی آواز کانوں میں آنے لگی ۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اسے روکے یا جانے دے۔۔ستارا نے وعدہ تو کیا تھا کبیر سے دور کا مگر خدا نے ہامی نہیں بھری تھی ۔خدا کے فیصلے اور تھے ۔جو کبیر کے دل میں اتار دیے تھے ۔ستارا نے چادر لی اور صحن عبور کرنے لگی۔کبیر کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا رہا ۔۔ستارا نے پیچھے پلٹ کر دیکھا کبیر پرنظر پڑی تو دروازے سے نکل گئی ۔
پانچ سال بعد
علیزے تم نے سارے کپڑے مٹی مٹی کر دیئے ۔ابھی نہلایا تھا تمہیں ۔جلدی آو کپڑے بدلی کرو ۔نہیں ماما ابھی پاپا آئیں گے چار سالہ علیزہ پھر گلی میں بھاگ گئی ۔تھوڑی دیر بعد ستارا نے دیکھا اسکی بیٹی بھاگتی اندر آئی۔ پاپا آ گئے. پاپا آ گئے
اس نے گھر سر پر اٹھا لیا سن لیا مہرانی کے پاپا، آ گئے
کبیر سامنے ہواتو اسے شرم آ گئی اسے شاہ جی سے آج بھی شرم آتی تھی ۔اس شام کبیر نے ستارا کو روک لیا تھا دونوں نے خدا کے فیصلے کو قبول کر لیا اور اس نے اپنی ہر نعمت سے انہیں نواز دیا۔
گڈی کی بیٹی سیم کو ملک نے، اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا تھا ۔اور سیم نے خود کشی کر لی تھی ۔اپنی جوان بیٹی کی لاش دیکھ کر گڈی دماغی توازن کھو بیٹھی تھی ۔ملک کو الیکشن میں کامیابی ہوئی مخالف گروپ سے برداشت نہیں ہوا۔ایک جلسے میں جب وہ خطاب کر کے نکلا اسے گولیوں نے بھون ڈالا۔خدا نے انصاف کر، دیا ۔
خدا تو سب سے انصاف کرتا ہے انسان ہی جلد باز اور ناشکرا ہے ۔
ستارا نے کچن کی کھڑکی سے دیکھا شاہ جی بیٹی کو کندھے پر سوار کر کے صحن میں گھوم رہے تھے ۔
ستارا نے بہت اوپر عرش والے کو دیکھا اور مسکرا دی۔
گھر شوہر عزت اولاد سکون سب سے بڑھ کر ایمان سے اس کی جھولی خدا نے بھر دی تھی ۔اب خدا کی ذات کسی اور جھولی کی منتظر تھی کوئی مانگے وہ زات اسے عطا کرے۔۔۔
ختم شد