وہ ملک تصور کے شیکنجے میں پھڑپھڑا رہی تھی بلکل ایسے جیسے کوئی نھنی چڑیا کسی عقاب کی گرفت میں بے چینی سے اپنی آخری کوشش کرتی ہے آزاد ہونے کی‘ بچ نکلنے کی‘ مدد کے لیئے چیختی ہے‘ اپنی نازک چونچوں سے عقاب کو ایذا پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔
ستارہ نے خود کو چھڑانے کی پھرپور کوشش کی مگر ملک تصور کی آہنی گرفت نے اسے بے بس کر دیا۔۔۔ وہ اسے گھسیٹ کر باہر لے آیا تھا‘ اور وہ مڑ مڑ کر کسی موہوم امید کے تحت کبیر شاہ کو دیکھتی رہی۔۔۔ اسے پتا تھا کہ اس کا کوئی رشتہ نہیں اس سے‘ وہ کیوں پرائے جھگڑے میں آئے گا۔۔۔
مگر انسانیت کا بھی تو کوئی رشتہ ہوتا ہے‘ اگر کوئی کسی انسان سے محض خدا کی رضا کے لئیے بھلائی کرے تو خدا کے ہاں اسکا اجر لامحدود ہے۔۔۔
ملک اسے اڑا لے گیا ‘ کبیر اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا ۔۔۔اسے ایک عجیب سے کیفیت نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔
کہیں اس نے کچھ غلط تو نہیں کر دی؟؟؟؟
اسے آج بھی اچھی طرح یاد تھا جب وہ آج سے ٹھیک ٢ سال پہلے اپنے ایک بہت عزیز دوست کی شادی میں اسلامآباد گیا تھا‘
وہاں کا ماحؤل کافی اوپن ہونے کی وجہ سے پردے کوئی انتظام نہ تھا‘‘
عورتیں مرد سب ایک ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے‘‘ اپنی اپنی پسند کو مشروب انجوائے کرتے وہ دنیا و مافیا کی فکروں سے آزاد تھے۔۔۔
کبیر کا دل اس ماحول سے اکتا گیا۔۔
اس نے وہاں سے رخصت ہو جانے میں ہی عافیت جانی۔۔اور پچھلی نشست سے اٹھ کر وہ آگے سٹیج تک آیا تا کہ عبید کو خدا حافظ بول سکے۔۔۔
عبید اور کبیر نے ایک ساتھ ایم-بی-اے کی ڈگری لی تھی اور دونوں بہت اچھے دوست تھے‘
کبیر ابھی سٹیج کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک سے ہال کی بتییاں دلہن کی آمد کے پیش نظر گل کر دی گئی‘ صرف ایک سپاٹ لائٹ تھی ک جس کے ہالے میں عبید اپنی دلہن کا ہاتھ تھامے اسے ہال میں لا رہا تھا۔۔۔
سب لوگ استقبال کے لیئے کھڑے ہو گئے اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔۔۔
کبیر بھی ایک سائیڈ پہ کھڑے ہو کہ ہولے ہولے تالیاں بجانے لگا۔۔۔ یکایک اسے ایک سرگوشی سنائی دی اپنے انتہائی قریب سے۔۔۔
‘‘اچھا خاصا ہینڈسم ہے‘مگر یہ مولوی کیوں بنا ہوا ہے؟؟؟ ‘‘
(ایک نسوانی آواز اسکے بائیں طرف سے کان میں داخل ہوئی۔۔۔ )
‘‘ یار تم سن رہی ہو؟؟؟ ستارہ میں تم سے بات کر رہی ہوں۔۔۔۔
( آواز پھر ابھری)
کیا ہے سیم؟؟؟ کیوں تنگ کر رہی ہو مجھے؟؟ جا کے پوچھ لو نا کہ کیوں مولوی بنا ہوا ہے وہ؟؟؟ (
ایک نہایت دھیمی اور پرترنم آواز میں جواب دیا گیا)
کبیر کو اندازہ ہونے لگا کہ اسکی ذات محو گفتگو ہے۔۔ وہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔۔۔
‘‘ بس تم ایک بار میری اس سے دوستی ہونے دو‘ پھر دیکھنا میں اسے کیسے ڈیشنگ بنا دوں گی‘ ایک دم ٹام کروز۔۔۔۔ ‘‘
کبیر کے کان کھڑے ہو گئے۔۔۔ اب اسے سو فیصد یقین ہو گیا تھا کہ اسکی ہی بات ہو رہی ہے۔۔۔ مگر اس نے مڑ کہ نہیں دیکھا۔۔۔
‘‘ستارہ۔۔۔۔ !!
تم مجھے اس سے متعارف کروا دو نا۔۔۔۔ پلیز (
آواز پھر ابھرئی)
میں؟؟؟؟
اسے گویا کرنٹ لگا تھا۔۔۔
‘‘ میں کیوں کرواؤں متعارف‘ تم جا کہ خود مل لو نہ اگر اتنا ہی پسند آگیا ہے تمہیں تو۔۔۔۔ ‘‘ (
دھیمی آواز اب قدرے بلند اور تیز تھی)
‘‘ یار۔۔۔۔ تم بس میری ہیلو ہائے کروا دو‘باقی میں سب خود سیٹ کر لوں گی۔۔۔۔ ‘‘
بی ہیو سیم۔۔۔ بلکل بچوں کی طرح ضد کر رہی ہو تم‘ گھر چلو بتاتی ہوں میں گڈی باجی کو۔۔وہ تمہیں سیدھا کریں گی۔۔۔۔‘‘ ( پرترنم دھمکی دی گئی)
نہیں نہیں۔۔۔۔ پلیز یار اماں کو مت بتانا۔۔۔۔ وہ پھر مجھے باتیں سنائیں گی ایویں۔۔۔۔
میں تو صرف دو منٹ بات کرنے کا ہی کہہ رہی ہوں۔۔۔ اس میں اماں کو بتانے والی کیا بات ہے۔۔۔۔
‘ ( اسکی ریکوسٹ جاری تھی)
کبیر کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ہو نہ ہو اب یہ لڑکیاں اس کی طرف ہی آئیں گی۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا مشروب کا گلاس قریبی میز پہ رکھا اور کالر کا بٹن بند کرتے کرتے وہاں سے کھسک گیا۔۔۔
بتیاں روشن ہو چکی تھیں ۔۔۔
ہال مرکری روشنیوں سے چمک اٹھا۔۔۔
وہ سٹیج کے نزدیک کھڑا رش کم ہونے کا انتظار کر رہا تھا ‘ تا کہ دوست کو گلے لگا کہ شادی کی مبارک دے سکے اور پھر واپس چلا جائے لاہور۔۔۔
‘‘ ایکسکیوز می پلیز۔۔۔!!!
اس کے عقب پہ وہی سر بکھر گیا تھا۔۔۔۔
وہ نہ پلٹا۔۔۔۔
ایکسکیوز می سر۔۔۔۔
(آواز دوبارہ آئی۔۔۔۔ )
کسی نے ہولے سے اس کے کندھے کو ہلایا۔۔
کبیر اچھل پڑا۔۔۔
اور پلٹ کے دیکھا۔۔۔۔
سامنے ایک کوئی ٢٦،٢٧ سالہ لڑکی کھڑی تھی‘ بے پناہ حسین۔۔۔ سرخ اور کالے لباس میں ملبوس‘ کھلے بال جو کہ اس کی کمر سے نیجے جا رہے تھے‘ ہاتھوں میں ہم رنگ چوڑیاں۔۔۔۔
اس کے ساتھ ایک قدرے چھوٹی عمر کی لڑکی تھی جو مشکل سے ٢٠ یا پھر ٢١ سال کی ہو گی۔۔ اس نے پنک ڈریس پہن رکھا تھا اور اس کے چہرے پہ ابھی تک بچپنا موجود تھا۔۔۔
ایک نگاہ ڈال کے کبیر نے نگاہ جھکا لی۔۔۔
جی فرمائئے۔۔!!!!
(اس نے نیچی آنکھوں سے سوال کیا)
دونوں لڑکیاں خاموش تھیں۔۔۔
ستارا نے غصیلی نظروں سے سیم کو دیکھا اور سیم بے چاری سہم گئی
مردوں سے بات کرنے میں ستارہ کو کوئی جھجھک نہیں ہوئی تھی کھبی‘ مگر آج اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ وہ کیسے بات کرے۔۔
مقابل کی نظریں جھکی ہوئی تھیں ‘ستارہ کو اندازہ ہوا کہ اس کا سامنا کسی ‘شریف النفس‘ انسان سے ہوا ہے۔۔۔
‘‘وہ سوری۔۔۔۔ ایکچولی وہ میں نے ہی ستارہ کو کہا تھا۔۔۔ ایم سوری اگر آپکو برا لگا تو
‘‘ ( سیم نے سہمی ہوئی آواز میں کہا‘ وہ ستارہ کی نظروں کا مفہومسمجھ چکی تھی)
‘‘پوچھ سکتا ہوں کہ کس سلسلے میں آپ نے مجھے مخاطب کرنے کی کوشش کی ہے؟؟؟
(کبیر نے سیم سے سوال کیا‘ )
سیم نے کھبی اس صورت حال کا سامنا نہیں کیا تھا‘ وہ تو جب بھی کسی سے بات کرتی اسے ‘وارم ویلکم‘ کیا جاتا‘ اور خود ستارہ بھی کہاں واقف تھی ایسے شریفوں سے‘‘ پتا نہیں کتنے عرصئے سے اس نے کوئی شریف نہیں دیکھا تھا۔۔۔
کتنے افسوس کی بات ہے۔۔۔ یہ حالت ہے ہماری ماؤں بہنوں کی۔۔
میں کافی دیر سے اپکی گفتگو سنتا رہا ہوں اور مجھے نہایت افسوس ہے کہ مجھے مایوسی ہوئی اپکی باتوں سے‘‘
آپ دونوں خواتین مجھے اچھے گھرانوں کی لگتی ہیں‘ بس تربیت میں کمی رہ گئی تھوڑی۔۔۔
جب آپ لوگ بین القوامی اور لوکل جلسوں میں معاشرے کی بے حسی اور حقوق نسواں کا جو شور کرتے ہیں کھبی اپنے گریبان میں بھی جھانک کے دیکھا ہے؟؟؟
وہ عورتیں اور ہوتی ہیں کہ جن کی عزت کرتے ہیں مرد۔۔۔۔ اور یہ تمہاری جیسی بے پردہ عورتیں تو خدا کی نظر میں کوئی مقام نہیں رکھتیں تو پھر مرد انکی کیا عزت کریں گے۔۔۔۔
(ستارہ کو لگا کی وہ زمین میں گڑ جائے گی‘ جب کی سیم کو کبیر کی نصیحتوں سے چڑ ہونے لگی تھی)
‘عورت کا مطلب ہے پردہ۔۔۔ جب عورت پردے میں ہی نہیں تو وہ عورت ہی نہیں۔۔۔
خیر ۔۔۔۔ میں بھی کسے نصیحتیں کر رہا ہوں۔۔۔ جن کہ دلوں پہ مہر لگ چکی ہے‘ جن پہ مطلق کوئی اثر نہیں ہونا۔۔۔۔
کبیر غصے سے پھنکارتا ان ک پاس سے مثل آتش گزرا اور ہال کے دروازے سے باہر نکل گیا۔۔۔
سیم کی حلت دیکھنے والی تھی‘ اسے پتا تھا کہ اب اسکی شامت آئے گی۔۔
مگر خلاف توقع ستارا نے کوئی بات نہ کی۔۔۔
بس وہ بجھ سی گئی تھی۔۔۔
سیم نے بھی اسکی خاموشی کو بری طرح محسوس کر لیا تھا۔۔
واپسی پر بھی اس نے کوئی بات نہ کی‘ سیم نے اسے مخاطب کرنے کی کئی بار کوشش کی مگر بے سود۔۔اس کا موڈ سخت آف تھا۔۔
گھر آ کر بھی وہ کمرے میں بند ہو گئی‘ اور کوئی بات نہ کی۔۔۔
ادھر کبیر کو احساس شرمندگی نے گیر لیا تھا‘ بے شک اس نے کو ئی غلط بات نہیں کی تھی‘نہ ہی کوئی نازیبا الفاظ استمال کئے تھے پھر بھی اسے لگا کہ اس نے کچھ زیادہ ہی بول دیا ہے۔۔ اس نے پہلی بار کسی کے ساتھ یوں بات کی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں اتنا کچھ کہا تھا‘ وہ فطرتا کم گو تھا اور بلا وجہ کسی پہ یوں باتوں کے نشتر چلانا اسے زیب نہیں دیتا ‘سو وہ کافی افسردہ ہو گیا تھا۔۔
اگلی صبح وہ لاہور کے لئے روانہ ہو گیا۔۔
لاہور پہنچ کر اسکا دل بہت ملول تھا‘ لیکن کچھ مسائل میں الجھ کر وہ آنے والے دنوں میں یہ بات بلکل ہی بھول گیا تھا ‘
ستارہ نے اپنے طور پہ بہت سی معلومات جمع کی‘ اور مزید معلومات اسے عبید سے مل گئی تھی‘ وہی سے اسے پتا چلا کہ کبیر شاہ کون ہے‘اور کہاں رہتا ہے۔۔۔
ستارہ نے لاہور آ کر مطلوبہ پتہ اپنے ڈرائیور کو دیا اور اسے وہاں چلنے کا کہا۔۔۔
ستارہ وہاں چلی تو گئی مگر باہر سے ہی پلٹ آئی تھی‘ اس کو کبیر کے الفاظ اچھی طرح یاد تھے‘
واپسی پہ اس نے مارکیٹ پہنچ کر ایک کالی چادر خریدی اور اسے دکان میں ہی اوڑھ کر دیکھا۔۔۔
اسے اپنا وجود اچانک ہی بہت معتبر لگنے لگا تھا۔۔۔
اگلی صبح وہ شاپنگ کا بہانہ بنا کر پھر وہاں پہنچ گئی‘ اور گیٹ کے سامنے گاڑی میں انتظار کرنے لگی کے شاید ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے۔۔مگر وہ باہر نہیں ایا تھا‘ ستارہ ایک بار پھر نامراد لوٹ آئی۔۔۔
گڈی باجی نے اسے پھر سے کسی کے رخصت کر دیا تھا‘ وہ بھی پورے ہفتے کے لئے۔۔ اس نے احتجاج کیا مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔۔۔
ملائیشیا کی رنگینوں میں اپنے شب و روز کسی کی سنگت میں گزارتے ہوئے اسکا دل تو کہیں اسکی گرد آلود گلی میں موجود تھا‘ وہ چاہ کر بھی اسے بھلا نہیں پا رہی تھی‘ اور اسکے کان کسی اجنبی مانوس سی آہٹ کے منتظر رہتے۔۔۔
پاکستان کی زمین میں اترتے ہی اس نے ایک لمبی سانس لی اور ‘اسکی‘ خوشبو کو اپنے اند اتارا۔۔۔
وہ ایک بار پھر اس گلی میں موجود تھی‘فقط ایک جھلک کی منتظر۔۔۔
اس کے سامنے گاؤں کی عورتیں اس کالی دہلیز کو پار کرتیں رہیں اور وہ گاڑی میں بیٹھی خود کو ان گاؤں کی ان پڑھ عورتوں سے حقیر گردانتی وہی‘ اسکی تو اتنی بھی اوقات نہیں تھی کہ وہ اس دہلیز کو پار کر سکے۔۔۔ گاؤں کی عورتیں کتنی معتبر تھیں جن کو زیارت کا شرف مل رہا تھا۔۔۔
ایک خاص بات جو اس نے وہاں بیٹھے بیٹھے محسوس کی تھی وہ یہ کہ ہر عورت خود کو ڈھانپ کہ اور انتہائی سادہ حلیئے میں وہاں آتی‘کچھ کہ تو پاوں میں چپل بھی ٹوٹے ہوئے ہوتے تھے۔۔۔
گاؤں کے بچے اسکی لمبی گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے اور حسرت سے اسکی گاڑی کو دیکھتے‘‘ کھبی کسی نے گاڑی کو چھونے کی جسارت نہیں کی تھی۔۔۔۔
ستارہ نے ایک ارادے کے تحت ڈرائیور کو کچھ ہدایات دے کر ساتھ لایا اور گاڑی کو بستی سے کچھ دور ہی روک کر وہ پیدل گاوں میں داخل ہوئی‘ اسکے پاؤں دھول مٹی سے اٹک گئے اور کوبر کی ناگوار بو اسکے نتھنوں کو جلانے لگی‘ کہاں وہ ستارہ کہ جس کے لئے لوگ اپنی پلکیں فرش راہ کرتے اسے سر آنکھوں پہ بیٹھاتے‘ اسکے ناز نخرے اٹھانے میں فخر محسوس کرتے‘ وہ آج ایک عجیب ہی لے میں بہہ رہی تھی‘‘ کسی کی ایک چھللک دیکھنے کے لیئے وہ دھول مٹی ہو رہی تھی‘ کسی کی آواز سننے کو اس کے کان یوں بیتاب تھے جیسے اگر اس نے وہ آواز نہ سنی تو اس کے کان سننے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے‘‘ آنکھ نے اگر اس کے درشن نہ کئے تو بے کار ہو جائے گی۔۔
دروازہ سامنے ہی تھا۔۔۔ اس نے رک کہ ایک نظر خود پہ ڈالی۔۔۔ کالی چادر میں سر سے پاؤں تک چھپا وہ وجود سر-دریا کھڑا تھا‘ڈوبنے کو تیار۔۔۔
دروازہ دوسری دستک پہ کھلا۔۔۔اور اس نے کبیر شاہ کی چوکھٹ پار کر لی۔۔۔ایک لمحے کو اس کے پاؤں ڈگماگائے ضرور تھے مگر اس نے خود پہ قابو پا لیا‘اور دھیمے قدموں سے وہ اس کمرے کی جانب چل دی کہ جہاں سے وہ سکوں دیتی آواز جاری ہو رہی تھی۔۔۔ وہ ہوا کے دوش پہ سوار وہاں تک پہنچی اور کمرے میں داخل ہو کر اس نے ایک نظر دشمن ضاں پہ ڈالی۔۔۔۔
‘‘میری نیندیں اڑا کر آپ کسقدر سکون سے بیٹھے ہیں شاہ جی‘
‘ (اس نے دل ہی دل میں شکوہ کیا)
وہ عورتوں کے لیئے مخصوص کیئے گئے حصئے میں جا کر پردے سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔
‘کبیر شاہ کہ چہرے پہ بلا کا سکون تھا‘ کسی کی بات پہ ان کے لبوں سے ہنسی جو خارج ہوئی تو ستارہ کو لگا کہ جیسے قوس قضا کے رنگ ہیں جو ہوا میں بکھر گئے ہیں‘‘ اس کا دل بھی مسکرانے لگا تھا۔۔۔
وہاں گزارے وہ ٤٥ منٹ اسکی زندگی کے حسین ترین وقت میں شمار ہونے لگے۔۔۔ محفل برخاست ہو گئی تھی‘‘ سب چلے گئے‘اور وہ تو جیسے اس دنیا میں تھی ہی نہیں‘ یک ٹک کبیر شاہ کو دیکھتی اس کی آنکیں خیرہ ہو رہی تھیں۔۔۔۔ کبیر شاہ اس کی نگاؤں کی حدت سے گھبرا کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
‘‘ایک تصویر اسکی آنکھوں میں ابھر آئی تھی‘بلا شبہ ستارہ نے چہرے کو نقاب میں چھپا رکھا تھا‘مگر اسکی بڑی بڑی آنکھیں کبیر نے پہچان لیں تھی۔۔۔ اور وہ ایک سکینڈ کے ہزارویں حصئے میں کہانی کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔۔۔
کبیر کی آنکھوں نے ستارہ کی آنکھوں میں وہ سب پڑھ لیا تھا کہ جس کا اعتراف ابھی تک ستارہ نے خود اپنی ذات سے بھی نہیں کیا تھا۔۔۔
خوفزدہ ہو کر کبیر نے آنکھوں کو اس جھیل سے باہر نکالا اور چند لمحؤں کے لیئے اپنی آنکھیں موند لی۔۔۔ ایک شبیع اس کی آنکھوں میں بننے لگی‘
سرخ و سیاہ لباس‘کلائیاں چوڑیوں سے کھنکتی ہوئی‘ رنگ و بو میں سر سے پاؤں تک ڈوبا وہ وجود ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔۔۔ اور ناپ بھی تو اسکا ‘ستارہ‘ تھا نہ۔۔۔۔ ستارے کی طرح وہ چمک رہی تھی‘
ذہن کے کسی گوشے آتی کبیر کی آپنی کی آواز کبیر کو جھنجھوڑ گئی۔۔۔
‘بے پردہ عورت خدا کے نزدیک کوئی عزت نہیں رکھتی‘
اسکی سوچوں کا پندار ایک چھناک سے ٹوٹا اور دور تک پھیلتا چلا گیا۔۔۔
اس نے آنکھوں کو تیزی سے کھولا‘ اور اپنی جگہ پہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ پھر اپنی آستینیں الٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور وضو میں مشغول ہو گیا۔۔۔
ستارہ نے اسکی بے زاری کو بری طرح محسوس کیا تھا‘وہ جس جوش سے وہاں آئی تھی وہ یک دم ہی ٹھنڈا ہو گیا‘ اسے پتا نہیں کیوں ایک امید سی تھی کہ جب کبیر شاہ اسے باپردہ دیکھیں گے تو خوش ہو جائیں گے۔۔۔ مگر اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔
شکستہ دل لیئے وہ وہاں سے نکال آئی۔۔۔
اسکے لبوں پہ ایک ہی شعر رہ رہ کر مچلنے لگا۔۔
‘‘ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘
اگلے کئی دن وہ وہاں نہیں گئی‘ سیڑھیوں سے پھسل کر گرنے کی وجہ سے اسکے پاوں میں موچ آ گئی تھی اور اسے مکمل بیڈ رسٹ کا حکم مل چکا تھا
اندون و بیرون شہر کوئی بھی ایسا بندہ نہیں تھا کہ جو اس کے نام سے واقف ہو اور اسے پوچھنے نہ آیا ہو۔۔ ہر وقت اس کے گھر اس کے چاہنے والوں کا تنتا بندھا رہتا۔۔۔
اسے اب چڑ ہونے لگی تھی‘ لوگوں سے‘ان کی گندی اور لالچی نظروں سے‘‘
اس نے گڈی باجی کو بارہا کہا بھی کہ وہ اب کسی سے نہیں ملنا چاہتی‘ مگر گڈی باجی باضد رہی اور ستارہ اپنے چہرے پہ نقلی کی مسکراہٹ سجائے سب کو خوشآمدید کہتی رہی‘ ‘
اسکا پاؤں تھوڑا بہتر ہوا تھا‘اور اسے ہلکہ پھلکی واک کرنے کا مشورہ دیا تھا ڈاکٹر نے۔۔۔
ملا کی دوڑ مسجد تک کی عملی تصویر بنی وہ آج پھر اس دروازے پہ تھی۔۔۔
دروازہ کھلا اور وہ اندر جا پہنچی۔۔
اسکی چال میں آج وہ بات نہیں تھی‘ وہ اسکی ہرنی جیسی چال کہ جو ٦ انج کی ہیل میں بھی کھبی نہیں ڈگمگائی وہ آج لڑکھڑانے لگی‘ قریب اسکے کہ وہ صحن کے بیچوں بیچ گر جاتی اسے کسی کے ہاتھ نے سہارہ دے کر گرنے سے بچا لیا‘
‘‘دھیان نال میری دھی۔۔۔ تو تے ایڈھی جوان ہو کے ڈھے رہی اےے ‘تیرے نالوں تے اسی بڈھے ہی چنگے ہاں۔۔۔۔ ‘‘
ایک بزرگ عورت اسے سہارا دے رہی تھی ساتھ مسکرا کر اس سے مخاطب بھی تھی۔۔۔۔
ستارہ کو بے تحآشا ان پہ پیار آیا‘اور اس نے بڑھ کر ان بزرگ خاتوں کو گلے لگا لیا‘
‘‘اماں آپ جیسی خالص غذا ہمارے نصیب میں کہاں ہے‘ یہ اوٹ پٹانگ کھانے کھا کھا کر تو یہی حال ہونا ہے ہمارا۔۔۔۔ ‘‘ ( ستارہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا‘جب کہ موچ کی وجہ سے جو درد اٹھا تھا وہ اس کے چہرے پہ عیاں تھا‘ یہ ستارہ کی ٢٨سالہ زندگی کا پہلا چانس تھا کہ اس نے اپنا درد کسی پہ ظاہر نہیں کیا اور اسے چھپا لیا)
اماں اسے سہارہ دیے بڑے کمرے میں لا رہی تھیں‘ اسے کمرے میں یوں داخل ہوتا دیکھ کر کبیر شاہ نے اپنا واعظ روک دیا؛ وہ اسے باغور دیکھ رہا تھا‘ وہ لنگڑا کر چلتی ہوئی پردے کی اوٹ میں جا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔
‘‘دھی بہہ جا تو‘‘ ٹھر میں تیرے لئے کرسی منگوا دیتی ہوں۔۔۔۔ ؛
؛ (اماں بہت ملنسار تھیں)
‘‘نہیں نہیں اماں‘میں ٹھیک ہوں‘ ویسے بھی میں شاہ جی کے در پہ بیٹھنے کی گستاخی کھبی نہیں کر سکتی‘ میں بس کھڑی رہوں گی۔۔
( کہ جب تک میری منت پوری نہیں ہو جاتی) ‘‘
مگر یہ آخری بات اس نے دل میں ادا کی اور ایک جاندار سی مسکراہٹ اماں کی جانب اچھال کر پردے سے چپکی کھڑی رہی۔۔۔
ستارہ کا معمول بن چکا تھا وہ بلاناغہ وہاں آتی۔۔۔ ہر دن اسکی زندگی مزید نکھرتی جا رہی تھئ‘ وہ جتنی دیر چادر میں رہتی‘ اسے لگتا کہ وہ ایک مضبوط حصآر میں ہے۔۔۔ اسکی روح کے زخم چھپ گئے ہیں۔۔۔
-------------------------------------
کبیر نے آنکھیں بند کی۔۔۔ اس نے کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا کہ وہ نہیں جانتا اس عورت کو‘ جب کہ وہ اس سیارہ زمین پہ شاید وہ پہلا اور آخری مرد تھا کہ جو یہ دعوی کر سکتا تھا کہ ہاں میں ستارہ کو جانتا ہوں‘
۔۔۔۔۔ اس کے کانوں نے پھر ایک دھیمی سی بازگشت سنی۔۔۔ ‘‘شاہ جی‘‘
اور وہ آنکھیں جن میں ہزاروں بھنور تھے اور ہر بھنور میں وہ خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔
اس نے سر جھٹکا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔!!!
میں نہیں جانتا اسے۔۔۔ نہ ہی میں جاننا چاہتا ہوں۔۔
میں نے تو اپنا دل بہت پہلے ہی مار دیا تھا۔۔۔ یہ اب دوبارہ نہیں ہو سکتا۔۔۔
نہیں کبیر شاہ۔۔۔ اپنی لگامیں روک۔۔۔ (
آس نے خود کو سرزنش کی)
اپنے چوڑے شانوں پہ کالی شادر کی بکل مارے وہ دری پہ بیٹھا تھا جب بابا فضل ہانپتے کانپتے کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔
شاہ جی۔۔۔ شاہ جی ہاہر آئیں۔۔۔
کیا ہوا بابا؟؟؟ سب خیر تے ہے نا؟؟؟
(وہ متوحش ہوا)
بابا کا سانس اس قدر پھولا ہوا تھا کہ وہ بمشکل بات کر رہے تھے۔۔۔۔
سائیں جی۔۔۔
اوو جی۔۔۔ اوو خون‘‘ کڑی کو گولی مار کے سوٹ گئے اوو غنڈے۔۔۔۔۔
(بابا نے اٹک اٹک کے بات مکمل کی)
کبیر ایک سکینڈ کے ہزارویں حصئے میں اٹھا کھڑا ہوا اور دروازے کی جانب دوڑلگا دی۔