وہ اپنے کمرے میں بستر پہ آڑھی ترچھی لیٹی کبیر شاہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔ پتا نہیں کہاں سے اچانک ہی آنسوں کا ایک ریلا آیا اور اسکی آنکھیں برسنے لگیں۔۔۔ وہ اس کے حواسوں پہ چھا گیا تھا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ زندگی کہ کسی حصئے میں کوئی بھی تاوان بھرنے کے باوجود اسکا نہیں ہو سکتا وہ اسی کے خواب دیکھ رہی تھی۔۔
دروازے پہ دستک ہوئی‘ اسنے آنکھیں صاف کی اور اٹھ کہ دروازہ کھول دیا‘ سامنے ہی گڈی باجی اپنے پورے وجود کے ساتھ ہاتھ میں پھلوں کی پلیٹ پکڑے کھڑی تھیں‘ ستارہ کے چہرے پہ کوفت طاری ہو گئے جو کہ گڈی باجی نے بھی محسوس کر لی تھی‘
وہ دروازہ کھلا چھوڑ کر واپس کمرے میں آگئی‘ اور خود کو مصروف ثابت کرنے کے لئیے الماری کھول کہ کپڑے سیٹ کرنے لگی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ گڈی باجی کی آمد کا اصل مقصد کیا ہے۔۔۔
‘ارے چھوڑو تم‘ یہ کام تمہارا نہیں ہے ۔۔میں شممو سے کہہ کر ٹھیک کروا دوں گی تمہاری الماری‘
‘ (گڈی باجی نے تمہید باندھی)
‘‘چھوڑو باجی‘تم تو رہنے ہی دو‘ ایسے بہت سے کام ہیں جو کہ میرے کرنے والے نہیں لیکن میں وہ بھی تو کر ہی رہی ہوں نہ‘ بھلے مجبوری سے ہی سہی
‘‘ (اس نے آنکھیں سکیڑیں)
ادھر آ ذرا‘ میرے کول ۔۔۔ تجھ سے ایک ضروری گل کرنی ہے میں نے۔۔۔ (
باجی نے اسے پچکارا)
آپکی ساری ضروری باتیں پیسے سے شروع ہوتی ہیں اور پیسوں پہ ہی ختم‘ بتائیں اب کتنے پیسے چاہیئں آپکو۔۔
( وہ ایویں ہٹ ہونے لگی)
دیکھ ستارا‘ میں تجھے اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھتی ہوں‘ پالا ہے میں نے تجھے‘ تو ہر وقت مجھ سے بدزن ہی رہتی ہے۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے تیرے اس رویے سے۔۔۔ آج تک میں نے تجھ پہ کوئی آنچ نہیں آنے دی‘ بچپن سے لے کہ آج تک میں نے تیری ہر مشکل آسان کی ہے‘تیرا ساتھ دیا ہے‘اور اب عمر کے اس حصئے میں آکے کہ جب میرا سارا سر سفید ہو گیا ہے اور تو ہی ایک میرا آسرا ہے تو تو ہی مجھے ذلیل کرتی ہے۔۔۔ ( جذبات سے لبریز گڈی باجی کی آواز کانپنے لگی)
ستارہ کو لگا کہ آج کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔۔۔ اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔۔
اچھا چھوڑیں نہ باجی۔۔ میری طبیعت نہیں ہے کچھ ٹھیک اس لئے اتنی بکواس کر دی۔۔۔ آپ بتائیں نہ آپ کیا کہہ رہی تھی۔۔۔
(ستارہ نے انہیں رام کیا)
گڈی باجی کی باچھیں اسے پرانی ڈگر پہ آتا دیکھ کر کھل گئیں۔۔۔۔
‘وہ ملک صاحب ہیں نہ۔۔۔ ‘‘
کون ملک صاحب؟؟؟؟؟
(ستارہ نے پوچھا)
وہی شوگر مل والے۔۔۔۔ وہ اس بار سینٹ کے الیکشن میں بھی کھڑے ہو رہے ہیں۔۔۔
(گڈی نے ٹکڑا لگایا)
ہوں۔۔۔۔۔کیا ہوا انہیںِ؟؟؟
( ستارہ نے محظوظ ہوئے بغیر پوچھا)
وہ تم سے ذرا ملنا چاہ رہے تھے‘ انہوں نے تمہارے لئیے ایک فلیٹ بھی خریدا ہے۔۔۔ (
گڈی کی آنکھیں چمک اٹھی)
کیوں؟؟ فلیٹ کیا کرنا ہے میں نے۔۔۔۔ خیر آپ اسے منع کر دیں‘ میں نہیں ملنا چاہتی اس سے‘
(ستارہ کی آنکھوں میں ملک کی تصویر گھوم گئی‘ پانچ فٹ قد‘ سیاہ رنگت‘ باڈی گاڈز کے حصار میں رہنے والا ملک تصور ‘بھاری وجود اور سر پہ بال شائد کسی زمانے میں ہوں مگر اب نہیں تھے)
گڈی باجی کو کرنٹ لگا۔۔۔۔
کیا مطلب نہیں ملنا چاہتی؟؟؟؟
میں نے کہا نہ کہ نہیں ملنا تو بس نہیں ملنا‘ مجھے گھن آتی ہے اس سے‘ اور اب تو خود سے بھی۔۔۔۔
(ستارہ نے منت کی)
دیکھ لڑکی۔۔۔!!!
اس دھندے میں سب چلتا ہے‘ یہاں سب پیسا پھینک کر تماشا دیکھتے ہیں‘ کتا عرصہ ہو گیا ہے تجھے‘اب تک تو نے شرافت کو گلئے لگایا ہوا ہے۔۔۔ میری جان ادھر پیسے کو ہی عزت ہے۔۔ اتار دے یہ شریفوں والا چوغہ‘ اپنی زندگی جی۔۔۔ یہ ہی زندگی ہے۔۔۔ہر چیز ہے تیرے پاس۔۔مال‘دولت‘شہرت‘ سب تجھے چاہتے ہیں‘تیرے پیچھے دم ہلا ہلا کہ پھرتے ہیں۔۔۔ اور کیا چاہئے تجھے۔۔۔
عزت چاہیئے مجھے۔۔۔!!
عزت۔۔۔۔۔۔۔۔
(وہ پھٹ پڑی اور گڈی باجی سہم کہ رہ گئی)
مجھے شوہر چاہئے گاہگ نہیں۔۔۔
مجھے گھر چاہیئے علیشان مکان نہیں۔۔۔
میں دو وقت کی روٹی گھر پہ بیٹھ کہ کھانا چاہتی ہوں یوں کسی کے سامنے ناچ کہ‘ کسی کے گلے کا ہار بن کہ جو کھانا میں کھاتی ہوں وہ اٹک جاتا ہے میرے حلق میں۔۔۔
خدا کے لئے باجی۔۔مجھے بیجنامیرا اشتہار لگانا بس کرو۔۔۔مت کرو میری تشہیر۔۔۔ مت ادھیڑو میری روح کے ٹانکے۔۔۔
میں تھک گئی ہوں خود کو بیچ بیچ کے۔۔۔
اتارو یہ ‘برائے فروخت‘ کا سٹیکر میری ذات سے۔۔۔۔
رحم کرو باجی۔۔۔
مجھ پہ رحم کرو۔۔۔
(وہ گڈی باجی کے قدموں میں بیٹھی اس کے ترلے کر رہی تھی۔۔۔ گڈی باجی کے جس نے اپنی زندگی کے ٤٨ سال اس کام میں گزار دیئے تھے وہ ستارہ کی باتوں سے دہل گئی۔۔۔ انہیں نئے خطرات لاحق ہونے لگے)
‘‘یہ تو کس کی شے پہ اتنا بول رہی ہے ستارہ؟؟؟؟
مجھے سچ سچ بتا‘ کون ہے جس نے تجھے یہ سبز باغ دیکھائے ہیں؟؟
ستارہ کی آنکھوں میں ایک شبیہ اتر آئی۔۔۔
‘بول ستارہ۔۔۔!! کس نے لارا لگایا ہے تجھے؟؟
تو طوائف ہے ۔۔ طوائف۔۔تو بیوی نہیں بن سکتی۔۔
کوئی تجھ سے اپنی اولاد کو جنم نہیں دلوائے گا‘کہ ساری زندگی کی گالی ہے یہ اور تیری اولاد یہ گالی سنے گی۔۔‘‘
(ستارہ تو گڈی باجی کی بات سن ہی نہیں رہی تھی‘اس کے کانوں میں تو ابھی تک اس ظالم کے جملے گونج رہے تھے۔۔۔ ‘‘ جا چلی جا۔۔میں تجھے کچھ نہیں دے سکتا‘‘ )
پھر بھی جس نے تجھے لارا لگایا ہے اسے کہہ کہ مجھ سے آ کے ملے‘ میں بھی تو دیکھوں اتنا جگرا کس مائی کے لال میں ہے‘ دنیا دیکھی ہے میں نے‘ مردوں کی ساری نبضیں جانتی ہوں میں۔۔۔ تو اسے کر فون ‘
بلوا اسے۔۔۔۔۔ ‘‘
تو سن رہی ہے نہ میں کیا کہہ رہی ہوں؟؟؟؟
( اس کی آنکھیں خلا میں کسی نقطے پہ مرکوز تھیں‘اور کانوں میں ایک ہی آواز‘‘ میرے پاس مال دنیا نہیں‘میں تجھے کچھ نہیں دے سکتا‘‘ )
ستارہ۔۔۔۔۔۔۔
!!! (باجی نے اسے کندھوں سے پکڑ کے ہلا ڈالا۔۔ )
وہ جیسے اچانک ہوش میں ائی۔۔۔۔
شام کو تیار رہنا۔۔ ملک صاحب آئیں گے‘‘اور یہ جو شکل پہ بارہ بجا رکھے ہیں اسے ٹھیک کرو۔۔۔ تم ایک طوائف ہو‘اور طوائف کی بھی عزت ہوتی ہے‘‘ ہر عورت نہیں بن سکتی طوائف۔۔ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔۔۔ ‘‘
گڈی باجی نے پھلوں والی ٹوکری اٹھائی اور ٹک ٹک کرتی‘ پاوں مٹکاتی سیڑھیاں اتر گئی۔۔۔
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں تھی۔۔
شائد اب کوئی فیصلہ لینے کا وقت آگیا تھا۔۔۔
وہ ایک عزم سے اٹھی‘‘ الماری سے سرخ رنگ جی خوبصورت ساڑھی نکالی اور باتھ روم میں جا گھسی۔۔
تیار ہونے میں بھی اس نے خاصا وقت لگایا۔۔۔ آج تو وہ گلاب کا کھلا ہو پھول لگ رہی تھی۔۔۔۔
جب اس نے گاڑی کے ہارن کی آواز سنی‘ کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اس نے دیکھ لیا تھا کہ ملک تصور کی سفید پراڈو جو کہ جس نے پچھلے مہینے ہی پچتھر لاکھ کی خریدی تھی اور اسے تحفتا دینا چاہی تھی ان کے گیراج میں داخل ہوئی ۔۔۔
ملک صاحب مسلح گاڈز کے جلوس میں گاڑی سے برآمد ہوئے ‘ان کے چہرے پہ وہی مکروہ ہنسی کہ جو اب انکی شخصیت کا خاصا بن چکی تھی ۔۔۔
ستارہ نے ناک سکیڑا۔۔۔اور اسکی تیوری پہ پڑے بلوں میں اضافہ ہو گیا۔۔۔
جب ملازمہ اسے اطلاح دینے آئی اس وقت وہ لپ سٹک کو مزید گہرا کر رہی تھی۔۔۔۔
ملازمہ کو بھیج کہ اس نے خود کو دیکھا‘ وہ بے پناہ حسین لگ رہی تھی مگر اسے خود سے گھن آنے لگی۔۔۔ وہ شیشئے کے سامنے سے ہٹی اور ساڑھی کا پلو سنبھالتی کمرے سے باہر نکل آئی۔۔
لاوئنج میں بیٹھے ملک تصور نے اسے دیکھا اور اسکی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں‘‘ وہ اپنی تمام تر رعنائیؤں کے ساتھ ملک کے پہلو میں آ کے بیٹھ گئی۔۔۔
گڈی نے سکون کا سانس لیا کہ اسکی عزت رہ گئی آج۔۔۔
‘‘اچھا اب آپ ہمیں اجازت دیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی ستارہ کے ساتھ گزاریں ۔۔‘‘
ملک نے ستارہ کو گھائل بظروں سے دیکھا۔۔۔ وہ کلس کہ رہ گئی۔۔۔
جی جی کیوں نہیں۔۔جیسا آپ چاہیں ملک صاحب ‘آپکا حکم سر آنکھوں پہ۔۔۔ (
گڈی باجی نے عاجزانہ جواب دیا)
وہ ملک تصور اور اسکے گاڈز کے ہمراہ باہر نکلی‘ پورے پروٹوکول کے ساتھ جیپ میں سوار ہوئی اور ڈرائیور گاڑی اڑا لے گیا۔۔
گڈی باجی دروازے پہ کھڑی دیکھتی رہی‘جب گاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تو وہ واپس اندر آئی اور قریب پڑے بیگ کو کھولا اس میں سے وہ پیسے نکالے جو اسے ابھی ابھی ملک صاحب نواز کر گئے تھے۔۔۔ پورے پانج لاکھ۔۔۔۔
اس نے ایک نئے منصونے کے تحت فون اٹھایا۔۔۔۔
اب وہ خواجہ سرور کا فون ملا رہی تھی۔۔۔۔ ساتھ ساتھ پیسوں کو ہاتھ میں پکڑتی اور انکے لمس سے محظوظ ہوتی۔۔۔
--------------------------
ملک تصور کی صحبت میں گزرتا ایک ایک لمحہ اس کے بدن میں زہر گھولتا رہا‘ اسکی روح مزید زخمی ہوتی گئی۔۔۔ اسکے ناسوروں سے خون رستا رہا۔۔۔
اس سب کے باوجود وہ ‘اسے‘ برابر سوچتی رہی تھی۔۔۔
اگر اس نے اپنی حقیقت شاہ جی کو بتا دی تو وہ کیا اسے قبول کر لیں گے؟؟؟
اور اگر وہ اپنی حقیقت نہیں بتاتی وہ ایک جھوٹ کی بنیاد پہ یہ رشتہ کیسے استوار کر سکتی ہے؟؟
ایسے ہزاروں سوال اس کے دماغ پہ ہتھوڑوں کی طرح برسنے لگے۔۔۔۔
‘‘ستارہ۔۔۔۔۔ کہاں گم ہو یار؟؟؟؟
جب سے آئی ہو بلکل ہی چپ ہو‘‘
(ملک نے اسکی خاموشی کو محسوس کر لیا)
کیا ہو گیا ہماری لیلٰی کو؟؟؟
نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ملک صاحب۔۔۔
(وہ بناوٹی ہنسی ہنسنے لگی)
دیکھو میں زمانہ دیکھ چکا ہوں‘‘ اور تمہیں تو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔
بتاو مجھے۔۔۔ اٹھوا کے لے آؤں اسے یہاں اپنی لیلٰی لے پاس؟؟؟؟
ستارہ کا دل ڈھڑکا۔۔۔۔۔
کون؟؟؟ کس کی بات کر رہے ہیں آپ ملک صاحب؟؟؟
(اس نے آنکھیں چرائی)
‘ارے وہی‘‘‘ جس میں ہماری مینا کا دل اٹکا ہے۔۔۔۔
(ملک نے سگار پھونکتے ہوئے قہقہ لگایا)
نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔ آپکو شائید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ملک صاحب۔۔۔
(اس نے ٹالا)
غلط فہمیوں میں رہنے کی میری عمر گزر گئی ہے ستارہ۔۔میں بغیر ثبوت کے بات نہیں کرتا اور بنا دلیل کہ بحث کرنا میری عادت نہیں ہے۔۔۔
میں نے چوبیس گھنٹوں کے ٥ لاکھ ادا کئے ہیں اور میں اپنا پیسہ یوں ضآئع ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں تبھی میں نے بہتر سمجھا کہ تم سے بات کر لوں۔۔۔
اب تم مجھے خود بتاؤ گی یا پھر بلواؤں تمہارے معشوق کو؟؟؟
ستارہ کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔۔
‘‘ دیکھیں ملک صاحب اس میں شاہ جی کوئی غلطی نہیں ہے آپ پلیز اس میں انہیں انوالو نہ کریں‘‘
تو کیوں جاتی ہو تم وہاں ؟؟
ملک صاحب تو گویا اسکی ایک ایک حرکت سے واقف تھے۔۔۔
‘‘میں تو صرف وہاں شاہ جی کی زیارت کرنے جاتی ہوں‘‘
(اسکی نگائیں ادب سے جھک گئی)
ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔ زیارت۔۔۔۔
ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔
(ملک کا فلک شگاف قہقہ برآمد ہوا۔۔ ۔)
بس کرو ستارہ۔۔۔
تمہارے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔
کیوں کیا ہے میرے منہ کو؟؟؟
(آس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا‘یہ جانتے ہوئے بھی کہ جواب کیا ہے)
تمہارے منہ کو تو کچھ نہیں‘ بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔
(ملک نے آنکھ دباتے ہوئے کہا)
ستارہ کے اند زہر پھیل گیا۔۔۔
چلو تمہیں سرپرائیز دیتے ہیں ایک۔۔۔۔۔ ‘‘
اس نے اٹھ کہ اپنا ہاتھ ستارہ کی طرف بڑھایا‘ جسے تھام کر ستارہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
کیا سرپرائیز ملک صاحب؟؟؟؟
ابھی پتا چل جائے گا۔۔۔۔ آو میرے ساتھ۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے باہر لے آیا‘ اور ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا۔۔۔
ستارہ کا دل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا۔۔۔
گاڑی شہر کی حدود سے نکل کر جانے پہچانے راستوں پہ دوڑ رہی تھی۔۔۔
ستارہ کی نبضیں ڈونبے لگیں۔۔۔
کیا ہوا میری مینا کو‘اتنی گھبرا کیوں رہی ہو‘ تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے اس راستے پہ پہلی کبھی نہیں ائی۔۔۔۔ (
ملک صاحب تو آج نہ جانے کون کون سے بم اس کے سر پہ پھاڑ رہے تھے)
اس کی کشادہ پیشانی پہ پسینے کے قطرے اسکی بے بسی کا تماشا دیکھنے نمودار ہو گئے ۔۔
گاڑی مانوس گلیوں سے ہوتی ہوئی ایک سیاہ دروازے کے پاس رک گئی تھی۔۔۔
جاو۔۔۔۔ !!!
جا کے زیارت کر آؤ اپنے شاہ جی کی۔۔۔
(ملک نے زہر خندہ لہجے میں کہا)
آپ یہ ٹھیک نہیں کر رہے ملک صاحب۔۔ پلیز ایسا نہ کریں۔۔۔
میں شاہ جی کی یوں تحقیر نہیں کر سکتی۔۔۔ (
وہ روہانسی ہو گئی)
تحقیر کہاں میری بلبل۔۔میں تو اسے آج عزت دینے آیا ہوں۔۔۔
چلو ہم بھی تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔۔۔۔
(ملک صاحب نے اسے ہاتھ سے پکڑا اور زبردستی اسے گاڑی سے اتارا اور جا کہ دروازے پہ دستک دی۔۔۔
ستارہ نے ایک نظر آپنے حلیئے پہ ڈالی۔۔
اس کا حلیہ نہایت غیر مناسب تھا۔۔۔
دروازہ کھل چکا تھا۔۔۔
‘‘ہم شاہ جی کی زیارت کرنے آئے ہیں‘‘
(ملک تصور نے ایک بھرپور نظر ستارہ پہ ڈالی اور اندر پیغام بھجوای
ا) اس کے چار عدد مسلح گاڈز بھی اسکے ہمراہ تھے۔۔۔
اندر سے جواب آگیا تھا‘انہیں حاضری کی اجازت مل گئی تھی۔۔
آکے پیچھے وہ سب اندر داخل ہوئے‘ آج خلاف معمول اتنے لوگ نہیں تھے بڑے کمرے میں۔۔ انہیں مہمان خانے میں بیٹھا دیا گیا‘ستارہ نے کمرے میں آگے پیچھے دیکھا کہ شاید اسے کوئی چادر وغیرہ مل جائے وہ شاہ کے سامنے اس حلئے میں جائے یہ اسکی حیا نے گوارہ نہ کیا۔۔۔
کبیر شاہ کمرے میں داخل ہوا اور بآواز بلند سلام کیا‘ ایک نظر ستارہ پہ ڈالی اور پھر واپس پلٹ گیا۔۔۔
‘‘ارے یہ تو مقابلے سے پہلے ہی میدان چھوڑ گیا۔۔۔‘‘
(ملک صاحب نے قہقہ لگایا‘اور اسکے پالتو بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگے‘ ستارہ کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے‘ لیکن خدا عذاب بھی اپنی مرضی سے ہی بھیجتا ہے؛نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔۔۔ وہ کمرے کے بیچوں بیچ بے بسی اور تمسخر کا نشان بنی کھڑی رہی‘ آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اسکی قمیض کے دامن میں جذب ہونے لگے۔۔۔ )
چند ثانیئے گزرے اور چشم فلک نے دیکھا کہ کبیر شاہ واپس پلٹا اور ایک چادر لا کر ستارہ کے برہنہ سر پر اوڑھا دی۔۔۔۔
ستارہ کا تو انگ انگ سجدہ تشکر بجا لانے لگا‘اس نے فورا سے چادر کو سر پہ لپیٹا اور خود کو چادر میں چھپا لیا؛بلکل ویسے ہی جیسے وہ پہلے شاہ جی کی خدمت میں آیا کرتی تھی۔۔۔
‘‘جی فرمایئے‘ میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپکی؟؟؟‘‘
شاہ جی اب ملک صاحب سے مخاطب تھے۔۔۔
آپ نے کیا خدمت کرنی ہے ہماری
‘‘جناب آپ شاید مجھے جانتے نہیں۔۔۔
(ملک نے غرور سے موچھوں کو گھومایا)
‘ درست فرمایا ‘ بندہ ناچیز آپ سے قطعا واقف نہیں‘اور نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ آپ کی آمد کا مقصد کیا ہے‘ اگر آپ اپنا مددعا جلد بیان کر دیں تو آپکی مہربانی ہو گی‘ دراصل مجھے ایک نکاح کی تقریب میں شرکت کرنی ہے‘
( کبیر شاہ نے مختصرا اپنی پوزیش کلئیر کی)
اس عورت کو جانتے ہو؟؟؟؟
(ملک نے ستارے کی طرف اشارہ کیا)
نہیں۔۔۔۔۔!!!
(کبیر نے مختصر جواب دیا)
ستارہ کو لگا کہ وہ پل صراط پہ کھڑی ہے۔۔۔۔
مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ میں نے اسے ہزاہا بار یہاں آتے دیکھا ہے‘ پھر تم کیوں نہیں جانتے اسے؟؟؟؟
(ملک کو تاؤ آگیا تھا)
دیکھئے بھائی صاحب۔۔!!
عورتیں جو کہ میرے بہنوں‘بیٹیوں کی حثیت سے درس سننے آجاتی ہیں‘ان کے لئیے الگ پردے کا انتظام کیا جاتا ہے‘ میں چہرے سے نہیں جانتا کسی کو بھی‘اور نہ ہی یہ مجھے زیب دیتا ہے کہ میں آنکھ کی چوری کروں‘‘ یہ خاتون اگر یہاں آتی رہی ہیں تو یہ آپکو زیادہ بہتر بتا سکتی ہیں ۔۔۔۔!!‘‘
شادی شدہ ہو؟؟؟
(پھر سوال ہوا)
نہیں۔۔۔۔۔!!!
(نہایت اختصار سے جواب آیا)
کیوں؟؟؟؟ کیوں نہیں کی شادی؟؟؟
کبیر شاہ کو جلال آگیا۔۔۔۔
‘‘ دیکھئے آپ جو کوئی بھی ہیں میں آپکو یہ حق کھی نہیں دوں گا کہ آپ میری ذاتیات میں داخل اندازی کریں۔۔۔ یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے‘اور میں اپنے ذاتی مسائل یوں اجنبی لوگوں کے سامنے ڈسکس نہیں کرتا‘‘
‘بہتر ہو گا کہ آب آپ تشریف لے جائیں۔۔۔۔ مجھے بھی دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔ الله حافظ‘‘
ملک صاحب اپنی توہین برداشت نہ کر سکے۔۔۔
‘‘ اسے تو میں بعد میں دیکھوں گا۔۔۔ پہلے تجھے دیکھ لوں۔۔۔۔ حرام کماتا ضرور ہوں مگر تجھ جیسی کے لئے نہیں جو کھائے میرا‘ اور دل کہیں اور لگائے۔۔۔۔ !!! ‘‘
ملک نے ستارا کا بازر سختی سے پکڑا اور اسے گھسیٹ کر باہر لے جانے لگے۔۔۔
ستارہ نے پیچھے مڑ کر کبیر کو دیکھا‘ ‘ پتا نہیں کیوں کبیر کا دل ڈول گیا۔۔ اسے لگا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔۔
شاہ جی۔۔۔!!!
ستارہ نے کسی امید کے تحت اسے پکارا تھا۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں اسے لگا کہ وہ اسے بچا لے گا۔۔۔