دو دن بعد ایلیسا کی حالت کافی سنبھل چکی تھی،چونکہ اگلے شہر کو کوچ کا وقت آچکا تھا اس لئے رادھا اور جونی ایلیسا کو واپس لے آئے،اور اس سے اگلی صبح پھر وہ ایک نئی منزل کیطرف رواں تھے۔بیماری کے دوران جس طرح رادھا کے ساتھ مل کر جونی نے ایلیسا کو سنبھالا تھا ایلیسا کے دل میں بھی اس کی جگہ بن گئ تھی۔ویسے بھی اسے اب اپنےسانسوں کااعتبار نہ تھا۔وہ چاہتی تھی کی مرنے سے پہلے وہ رادھا کو جونی کو سونپ دے۔لیکن اس کی یہ خواہش دل میں ہی رہ گئ اور وہ ایک رات ابدی نیند سو گئ۔رادھا شو ختم کر کے آئی ریشمی بھڑکیلے لباس کو اتار کر رات کا لباس پہن کر ماں کے بستر میں آن گھسی اور ماں کی کمر سے چپک گئی،رادھا مجھے تم ساری رات ٹانگیں مارتی ہو،وہ انتظار کرنے لگی کہ ابھی ماں بولے گی،مگر ماں نہ بولی،وہ ہلنے جلنے لگی،کروٹیں بدلنے لگی،اب تو ماں اس کی موجو دگی محسوس کر کے بولے گی،مگر ماں خاموش رہی،اس نے ماں کا ہاتھ تھاما،یخ بستہ ہاتھ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور کان سے ماں کی کلائی لگائی،کوئی جواب نہ آیا،وہ اچھل کر اٹھی اور خیمے میں لٹکی لالٹین اٹھا کر بھاگ کر ماں کے پاس لے آئی۔ایلیسا کی آنکھیں کھلیں تھیں۔اور منہ سے سفید سا جھاگ نکلا ہوا تھا،رادھا کی چیخ نکلی،اور اندھیرے کی خاموشی کو چیرتی ہوئی فضا میں پھیل گئی،خیمے کہ پاس سے گزرتا ہوا جونی مسکرا دیا،لو آج پھر رادھا نے کوئی سانپ دیکھ لیا ہے،اور وہ آگے بڑھ گیا،دکھ کی رات لمبی ہو جاتی ہے،رادھا پر آج وہ رات آگئ تھی،وہ ماں کے بے جان لاشے سے لپٹ لپٹ کر روتی رہی،ماں کو جگاتی رہی،سب اسے پکڑتے،سنبھالتے رہے۔صبح ہوتے ہی میاں جی کو خبر کر دی گئ،انہوں نے غسل و جنازے کا حکم دے دیا،تیاریاں ہونے لگی۔رادھا کے سامنے اس کی ماں کو نہلا دھلا کر عورتوں نے سفید کفن پہنادیا۔پھر اعلان ہوا آسیہ بی بی المعروف ایلیسا والدہ رضیہ سلطانہ المعروف رادھا کا جنازہ تیار ہے۔رادھا کے سامنے ماں چارپائی پر لیٹی تھی۔رادھا سوچنے لگی ساری زندگی ماں زمین پر بچھی چٹائیوں پر لوٹتی رہی آج مر گئی تو نئی چارپائی آگئ،نیا کورا لباس مل گیا۔خوشبووں میں نہاگئی۔سب بڑھے اور اللہ اکبر کہہ کر چارپائی اٹھانے لگے۔وہ اچانک ہوش میں آگئ اور چیختی ہوئی ساتھ ساتھ ننگے پاوں بھا گنے لگی۔سرکس کی عورتیں اسے پکڑنے لگیں ،وہ جھول کر زمین پر گر پڑی،کسی نے اس پر ڈوپٹہ ڈالا،کسی نے پکڑا اور خیمے میں لے آئیں،کسی نے پانی کا کٹورا منہ سے لگا دیا،کوئی ہتھلیاں ملنے لگیں۔رادھا ساری شام سسکتی رہی۔رات آئی تو ماں کے وجود کو ڈھو نڈنے لگی،دو تین ایلیسا کی ہم عمر عورتیں اس کے ساتھ سوئیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہ تھی جس سے وہ ماں کی طرح چپک کر سوتی۔وہ چپکے چپکے روتی رہی۔اسے لگا آج اس کی دنیا ختم ہو گئ ہے۔مگر مرنے والے کہ ساتھ کوئی مرتا نہیں،زندگی کا سلسلہ ہر صورت چلتا ہی رہتا ہے،رادھا کے ساتھ بھی یہی ہوا،وہ
ماں کی موت کے تیسرے دن دوبارہ سرکس کے شو میں شامل تھی۔