جونی چیخ سن کر رک گیا ۔چیخ ساتھ والے خیمے سے ہی ابھری تھی۔وہ دو قدم آگے بڑھا،ایکدم سے خیمے پر لگا پردہٹا اور کوئی بھاگ کر جونی سے آکر چپک گیا،وہ اس اچانک صورتحال پر ششدر رہ گیا۔اور تاریکی میں سینے سے لگے وجود کو ہٹا کر دیکھنے کی کوشش کی۔شرٹ اور گٹھنوں سے ذرا نیچے تک پاجامہ پہنے یہ رادھا ہی تھی۔اس کی گھنے لمبے بال کھل کر کمر سے نیچے تک جا رہے تھے اور چہرے پر خوف کے سائے نمایاں تھے۔کیا ہوا رادھا وہ اسے خود سے الگ کر کے بولا،سانپ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خیمے میں سانپ ہے۔وہ اٹک اٹک کربولی۔
ایک گھنٹے کی تلاش کے باوجود سانپ کاسراغ نہ ملا،جونی کے ساتھ ساتھ ڈھونڈتے دوسرے ساتھی بھی تھک گئے اور اپنے اپنے خیموں مییں جا لیٹے،جونی بھی زمین پر بچھی رِلی پر لیٹا تھا،مگر اس کے سینے اور بازوں پر لپٹے رادھا کے بال سانپ بن بن کر ڈنگ ماررہے تھے۔وہ روز ہی رادھا اور کئ اور ساتھی لڑکیوں کے ہاتھ تھا متا ان کی کمر کے گرد بانہوں کو لپیٹ کر داہرے بناتا،انہیں اٹھا لیتا،لیکن اس سے پہلے اس کے جذبات میں یہ جوار بھاٹا نہیں ابھرا تھا،دل اس انداز میں نہیں دھڑکا تھا،وہ خود ہی مسکرا رہا تھا،اور کچھ ہی فاصلے پر ماں کی کمر سے چپکی لیٹی رادھا محبت کے اس انوکھے سرور میں ڈوبی تھی جو خودبخود اس کے دل کی سزمین پر خودرو جھاڑی کی طرح پھوٹا تھا،جونی سرکس کی ہر لڑکی کا آئیڈل تھا مگر نہ جانے کیوں رادھا اس پر صرف اپنا حق سمجھتی تھی،اور آج بھی اس نے اپنا حق جان کر جونی کے سینے سے جا لگی تھی۔وہ کب سے جونی کا راہ دیکھ رہی تھی۔اس کی ماں حقے کے چلم میں کوئلے سلگانے گئ تھی اور وہ جھوٹ موٹ کا سانپ بنا کر جونی کے سینے سے سینہ لگا چکی تھی۔محبت کا کھیل شروع ہو چکا تھا،رادھا جونی سے شرمانے لگی تھی اور جونی جب بھی شو کے درمیان اس کا ہاتھ تھامتا تو ہلکا سا دبا کر چھوڑتا۔سفر کے دوران ایک ہی ٹرک میں سوار ہوتے۔گیت کے بولوں پر جونی رادھا کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا۔دونوں مل کر شو کرتے۔محبت کی کشش نے رادھا کے اعتماد کو بڑھا دیا تھا اب وہ زیادہ اچھا پر فارمنس دیتی۔اب اسے کوئی ڈر محسوس نہ ہوتا اسے یہ یقین ہوتا کی رسی کے اس کنارے پر کھڑا وہ ایک شخص اسےہر صورت تھام لے گا اور اسے کچھ نہیں ہو نے دے گا،محبت نام ہی یقین کا ہے،خود کو محبوب کو سونپ دینے کا ہے۔اور یقین کی ہی شمع رادھا کے دل میں جل چکی تھی،اور اس کی لو بھلا لوگوں تک کیوں نہ پہنچتی بہت ہی کم عرصے میں لوگوں کو دونوں کی اس پریم کہانی کی خبر ہو گئ۔ایلیسا کے کانوں تک بھنک پڑی تو وہ دل تھام کر بیٹھ گئ۔اس رات رادھا شو کر کے ہنستی گنگناتی خیمے میں آئی تو ماں کو جاگتے پایا،
رادھا کو اس سے قبل بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ماں اسے اس محبت کے جرم پر یوں سرزنش کرئے گی،ایلیسا تو رادھا ہر جان لٹاتی تھی۔مگر وہ اسے آج ڈانٹ رہی تھی،اسے انجام سے ڈرا رہی تھی،کہ بات میاں جی کے کانوں تک گئی تو ہمیں نکال باہر کریں گے،ہم کہاں جائیں گے،کس کا در کھٹکھٹائیں گے،یہ سرکس ہی ہماری روزی روٹی ہے،مگر رادھا خاموش بیٹھی سوچ رہی تھی کہ وہ اب جس راہ پر چل نکلی ہے اس راہ سے واپس اسے کوئی ڈراوہ یا نصيحت نہیں لا سکتی۔محبت کی راہ پر چلنے والوں کے لئے واپسی کے در بند ہوتے ہیں،