جونی بھی رادھا کی طرح ہی لاوارث تھا۔اس کے پاس تو ماں بھی نہیں تھی۔سرکس کے بڑے بوڑھے اسے بتاتے کہ بہت سال قبل جب وہ ایک جگہ شو کر کے فارغ ہوئے اور سب تماشائی رات گئے لوٹ گئے تو سرکس سیکورٹی کے گارڈ میر بخش نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سابچہ بے خبرایک لکڑی کے پھٹے والی سیٹ پر گہری نیند سویا ہوا ہے،وہ اسے اٹھا کر اپنے خیمے میں لے گیا،صبح نئے شہر کی طرف روانگی تھی،بچہ تمام رات وہاں سویا رہا،ٹرک لد گئے اور خیمے اکھڑنے لگے۔تو میرو کو وہ بچہ یاد آیا،وہ بھاگ کر گیا اور جھنجھوڑ کر اس بچے کو جگانے لگا،بچہ گھبرا کر رو پڑا اور اپنے سامنے ایک اجنبی کو پاکر سہم گیا،بچے کی عمر دو،تین سال ہی ہو گی اور وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا،وہ دو تین ساتھیوں کے ہمراہ اسے اٹھا کر میاں جی کے روبرو لایا اور ساری کہانی سنائی کہ کوئی فیملی اہنا بچہ یہیں بھول گئی ہے،میاں جی نے کہا میر بخش ہمیں تو الصبح کوچ کرنا ہے تم اسی مقام پر رات تک قیام کرو،یقیننا اس کے والدین اسے لینے آجائیں گے۔میر بخش رک گیا اور قافلہ کوچ کر گیا،بچہ بہت خوبصورت تھا،گورا چٹا کرنجی آنکھیں سنہرے گھنگھریالے بال،میر بخش کبھی اسے بسکٹ کھلائے کبھی بوتل پلائے کبھی دودھ کا ڈبہ منہ سے لگائے بچہ اسے حیران نگاہوں سے دیکھے۔اور ہر چیز سے منہ موڑلے،شہر سے ہٹ کر اس میدان میں میرو کو دن سے رات ہو گئ۔مگر بچے کو لینے کوئی نہ آیا،قریب ہی بنے کھوکھے میں رات گزار کر بچے کو سینے سے چمٹائےمیرو بس پر چڑھ گیا لیکن دل میں ملال رہا کہ کاش یہ بچہ اپنے والدین تک پہنچ جاتا،کبھی اس کو غصہ آتا ایسے ہوتے ہیں ماں باپ۔چاند سے بیٹے کو بھول گئے اور پھر لینے بھی نہیں آئے،بچہ میاں جی کے سامنے پیش کر دیا گیا،انہوں نے کہا بس آج سے یہ سرکس کا بیٹا ہے،اس کی خوراک اور نشونما پر توجہ دی جائے اور اسے آہستہ آہستہ فن سکھایا جائے،زندگی کے کسی موڑ پر اس کے گھر والے آگئے تو ہم ان کو سونپ دیں گے،میرو کو اس ننھے سے وجود سے محبت ہو گئی تھی۔وہ اس کو جان کہہ کر پکارتا جو آہستہ آہستہ جانی اور پھر جونی ہو گیا،مختلف ہاتھوں میں رہ کر۔کئ گودوں میں پل کر۔کبھی رو کر اور کبھی ہنس کھیل کربچپن سے ہی سرکس کے ماحول میں رہ کر اور غیر ملکی ٹرینرز سے تربیت لے کر جونی ایک منجھا ہوا کھلاڑی بن کر ابھرا،ایک توخوبصورت کسرتی بدن اور گوری رنگت پر سبز آنکھیں،دراز قد جونی سرکس کی شان تھا۔جب وہ میدان میں اترتا تو تماشائيوں کو محو کر دیتا،داد اور انعام ہر شو میں اس کا مقدر بن چکا تھا۔رادھا اور وہ دونوں بچپن سے ساتھ تھے،سانولی سلونی سی پرکشش نقوش پر خوبصورت آنکھوں والی رادھا نہ جانے کب سے جونی پر دل ہی دل میں فریفتہ ہو چکی تھی مگر جونی ابھی شاید محبت کے اس سفر پر نہیں نکلا تھا،مگر رادھا کی قاتل اداوں،دلکش سراپا اور لمبے بالوں اور کاجل بھری آنکھوں کے سحر سے وہ زیادہ دیر تک محفوظ نہ رہ سکا اور ایک روز رات کے شو کے اختتام پر جب وہ لکی لکی اوئے والا گیت گنگناتا ہوا خیمے کی طرف بڑھا تو ایک قریی خیمے سے زور سے ایک نسوانی چیخ ابھری۔