وہ بجلی کی سی تیزی سے واپس پلٹی کون ہو تم اور ہمارے اصل نام کیسے جانتے ہو میں تمھارا بد نصیب بھائی عائشہ فقیر محمد ویر تو یہاں عائشہ سے پہلے آ منہ مجھ سے لپٹ گئی اور بیچ سڑک کے دونوں بچوں کی طرح مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ویر تو زندہ ہے پر شوکی تو کہتا تھا تمھارا ویر (بھائی ) مر گیا عائشہ نے بمشکل اٹک اٹک کے کہا ہاں میں زندہ یوں تم سب کی بربادی دیکھنے کے لیے زندہ ہوں مجھ سے اب اندر کا درد برداشت سے باہر ہو گیا پتہ نہیں کتنی دیر تک ہم ایک دوسرے سے لپٹ کر روتے رہے ویرے چل یہاں سے اس سے پہلے کہ شوکی کے آ دمیوں کو ہمارے فرار کی خبر مل جائے اور وہ کتوں کی طرح ہمیں ڈونڈھتے ہوئے یہاں آ جائیں صائقہ رانیہ اور سیرت کہاں ہے پتہ نہیں ہمیں تو باہر اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی ان کو ہم کیسے تلاش کرتی دونوں کو جب میں مریم کے پاس چھوڑا صبح کی اذان ہو رہی تھی ہم سب نے مل کر فجر کی نماز ادا کی اور باقی بہنوں کے لیے رو رو کے دعا کی وہ بھی مل جائیں جائے نماز پہ بیٹھے باتیں کرتے کرتے نہیں صبح ہو گئی اور پتہ نہیں کب میری آ نکھ لگ گئی جب میں جاگا تو دن کے دس بج چکے تھے اور میری بہنوں نے پتہ نہیں مجھے کب اٹھا کر بیڈ پہ لٹا کر جوتے اتار دئیے تھے میں فورا جاگا اور وہاں سے جانا چاہا پر بہنوں نے ناشتے کے بغیر ہلنے نہ دیا مریم کا گھر ایک بہت ہی محفوظ علاقے میں تھا پھر بھی بھائی حیرم نے میرے کہنے سے گھر کے لیے دو گارڈ بھی نگرانی کے لیے رکھ لیے اور خود بھی بہت چوکنا رہتے بہت سمجھدار انسان تھے مجھے پورا یقین تھا کہ میری بہنیں یہاں محفوظ رہیں گی اس کے بعد میں نے دن گیارہ بجے علاقے کے ایک پوش علاقے رائل گارڈن کا رخ کیا یہاں بھی کم و بیش وہی دھندہ ہوتا تھا جو طوائفوں کے یہاں ہوتا تھا مگر فرق صرف یہ تھا کہ یہ لوگ ذرا ماڈرن ٹائپ کے طوائف بن چکے تھے کوٹھے کی جگہ کوٹھی نے لے لی تھی جہاں ناچنے گانے کا کام بھی ہوتا تھا مگر سازوں کے ساتھ نہیں ڈیک اور سی ڈی وغیرہ پر یہ اہتمام کیا جاتا لڑکیوں کو لانے لے جانے کا سسٹم بھی بہت جدید تھا شاندار گاڑیاں باوردی ڈرائیور اور پڑھے لکھے امیر زادوں کے لیے جدید دور کی پڑھی لکھی طوائف مل جاتی تھی نام شاید بدل لیا تھا اب اسے طوائف نہیں کال گرل کہتے تھے یہاں کا ایک بندہ اسلم نام کا دو سال میرے ساتھ جیل میں رہا تھا جس سے میری کافی واقفیت ہو گی اس نے رہا ہو کے فقیرے کو اپنا اڈریس بھی دیا تھا کہ اگر زندگی میں کبھی کوئی کام ہو تو مجھے ضرور یاد کرنا اور اب میں اس کے پاس ہی جا رہا تھا خوش قسمتی سے مجھے وہ جلد ہی مل گیا بہت خوش ہوا ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے اسے اپنے یہاں آ نے کا مقصد بیان کیا کہ ہمارے ایک جاننے والوں کی بیٹیاں دس بارہ سال پہلے اغوا ہو گئیں اور آ ج تک نہیں ملیں انھیں شک ہے کہ وہ یہاں نہ بیچ دی گئی ہوں میں نے اسلم کو رانیہ صائقہ اور سیرت کی پرانی تصویریں دکھائی وہ بہت غور سے دیکھتا رہا یار مجھے لگتا ہے یہ جو لڑکی ہے اسے میں نے یہاں کہیں دیکھا ہے کہاں دیکھا ہے یاد نہیں آ رہا اس نے ذہن پہ زور ڈالا اسلم نے رانیہ کی تصویر کو ہاتھ میں لے کر کہا ہاں یاد آ یا وہ باہر بڑے قبرستان میں ایک پرانی قبر کے پاس بیٹھی نشے کے انجکشن لگاتی ہے اور وہیں رہتی ہے اور یار تجھے بتانا تو نہیں چاہیے پر یار اپنے رشتے داروں سے کہو کہ اس کی حالت اتنی خراب ہے کہ وہ ویسے ہی ایک دو سالوں میں ختم ہو جائے گی اس گندگی کی پوٹلی کو انھوں نے واپس لے جا کر کیا کرنا ہے کیا مطلب ؟۔۔۔. میں نے کہا۔۔۔۔تم سے یار کیا پردہ تو تو اپنا یار ہے وہ لڑکی اس حال میں بھی خوبصورت ہے اور جب وہ نشے کی حالت میں مدہوش ہو کر گر پڑتی ہے تو یہاں کے علاقے کے مجھ جیسے چھوٹے موٹے ملازم اس سے اپنی نفسانی خواہش کو پورا کر لیتے ہیں میں تو خود کئی بار وہاں گیا ہوں بلکہ تم بھی چلنا میرے ساتھ دونوں مل کر آ ج رات مزے کریں گے فری کے مزے اسلم نے زور دار قہقہے سے ہنستے ہوئے کہا فقیرے کا دل چاہا وہ اس کے منہ پہ اتنے زور کا تھپڑ مارے کے اس کے بتیس کے بتیس دانت باہر نکل آ ئیں میں نے ایک منٹ وہاں نہ رکا اور آ ج سے پہلے شاید ہی میں نے اتنی سپیڈ سے موٹر سائکل نہیں دوڑائی تھی جتنی تیز رفتار اس دن میری تھی قبرستان کی قبروں کو میں پاگلوں کی طرح پھلانگ کر دیوانہ وار اسے تلاش کر رہا تھا اور پھر وہ مجھے مل گئی ایک درخت کے تنے کی اوٹ میں پتہ ہے کس حالت میں فقیرے نے پھر ایک بار درد سے سسک کر کہا اور بلک بلک کر رو پڑا چل نہ بتا آگے سے شروع کر دے جیلر کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی کیا حالت ہو گی نہیں تو بھی تو بیٹیوں والا ہے سن تو کسی کی بیٹی کے سر پر جب کوئی والی وارث نہیں ہوتا تو زمانہ کیا حشر کرتا ہے تاکہ تجھے اس تکلیف کا احساس ہو جس کرب سے میں گزرا ایک دس سال کا لڑکا جس کی ابھی مونچھیں بھی نہیں اگی تھیں میری بہن کے ساتھ وہاں منہ کالا کر رہا تھا اور وہ بے سدھ زمین پر پڑی تھی مجھے دیکھ کر اس نے میری بہن کو یونہی چھوڑا اور دوڑ لگا دی ہائے میں بد قسمت بھائی نے اپنی شہزادی جیسی بہن کے ننگے جسم پر کپڑے پہنائے اور اس زندہ لاش کو کاندھے پہ اٹھایا اور گھر لے آ یا سارے راستے میں روتا رہا خدایا کسی بھائی کو اس کی بہن کی یہ حالت دیکھنے کے لیے زندہ نہ رکھنا گھر پہنچ کر میں آ پی کے گلے لگ کر پہلی بار اتنا رویا اتنا رویا کہ شاید میرے جسم کا سارا پانی آ نسو بن کر بہہ جا تا تو بھی میرے آ نسو ختم نہ ہوتے رانیہ کو ہوش آ گیا مگر وہ نیم پاگل سی تھی کسی کو نہیں پہچان رہی تھی اسے ٹھیک ہونے کے لیے ایک لمبے جسمانی اور شاید دماغی علاج کی بھی ضرورت تھی مگر میرا کام ابھی باقی تھا اور وقت کم اس لیے رانیہ کو وہیں چھوڑا اور پھر سے نکل پڑا صائقہ اور سیرت کی تلاش میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بار بار یہ دل سے دعا نکلتی یااللہ وہ ٹھیک ہوں اب مجھ میں اور صدمہ برداشت کرنے کی ہمت نہیں میں ہمت ہار چکا ہوں مگر تقدیر کے آ گے کس کی چلتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔