راستے میں مجھے طرح طرح کے خیال آ تے رہے کبھی سوچتا ہو سکتا ہے کہ میری سب بہنیں کسی رشتے دار کے پاس محفوظ ہوں میں خواہ مخواہ ہی ان کے بارے میں برا سوچتا رہتا ہوں پھر خیال آتا کہ اگر وہ ٹھیک ہوتی تو کبھی نہ کبھی مجھے ملنے کی کوشش تو کرتیں ایسے ہی خیالوں میں گم میں اپنے بنگلے کے مین گیٹ کے باہر پہنچ گیا یہ دیکھ کر مجھے سخت مایوسی ہوئی کہ وہاں ایک بڑا سا تالا لٹک رہا تھا مین گیٹ کے فرنٹ کی جو حالت تھی اس سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ یہ گھر بہت عرصے سے ویران پڑا ہے میں شدید مایوسی کی حالت میں کچھ دیر کھڑا حسرت سے لٹکتے ہوئے تالے کو دیکھ کر ماضی کو یاد کرنے لگا کہ کیسے ہم بہن بھائی اس گھر میں ہنسی خوشی رہ رہے تھے ویسے تو کبھی ایسا کوئی موقع نہ آ یا تھا کہ گھر کو تالا لگا کر کہیں جانا پڑے کیونکہ کوئی نہ کوئی نوکر گھر میں موجود رہتا تھا ایک بار جب کہیں جا رہے تھے تو گھر کو تالا لگانا پڑا تو میری اتنی روشن خیال ماں نے کسی لڑکی کو تالا نہ لگانے دیا بلکہ فقیر محمد سے تالا لگوایا اس وہم کی وجہ سے کہ اگر گھر کا ایک بیٹا ہو تو کہیں جاتے ہوئے بہنیں تالا نہ لگائیں بلکہ بھائی لگائے اس طرح وہ گھر ہمیشہ آ بار رہتا ہے انھیں پتہ نہیں یہ بات کس نے بتا دی تھی لیکن اب انھیں کاش کوئی یہ جا کر بتائے کہ ان کی اتنی احتیاط کے باوجود ان کا آ بار گھر ویران بلکہ برباد ہو گیا تھا اور ایک عرصے سے اس کے گیٹ کے باہر تالا جھول رہا تھا جو پتہ نہیں کبھی کھلے گا بھی یا نہیں فقیر محمد کے پاس ایک ایک لمحہ قیمتی تھا اس لیے اس نے پہلے سوچا کہ کسی ہمسائے سے پوچھ لے پھر خیال آ یا کہ اگر چہ اس نے حلیہ بدل رکھا ہے اس کے باوجود کسی نے پہچان لیا تو اس کے لیے بہت بڑی مصیبت کھڑی ہو سکتی ہے دن کے نو بج چکے تھے مگر گلی میں کوئی دیکھا ئی نہ دیا وہاں سے میں قریب ہی ایک چھوٹے سے چائے کے ریسٹورنٹ میں آ کر بیٹھ گیا ابھی وہاں بیٹھے بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ ہماری گلی کی نکڑ پہ رہنے والے اختر صاحب وہاں چائے پینے آ گئے میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے پاس پہنچا اور انھیں اپنا تعارف اپنی فیملی کے دور کے رشتے دار کے طور پر کروایا جو کہ ایک طویل عرصے کے بعد ان سے ایک بہت ہی ضروری کام کے سلسلے میں ملنے آ یا ہوں اختر صاحب نے میرے لیے بھی چائے منگوا لی اور کچھ دیر کے بعد بڑے دکھ سے بولے پتر(بیٹا) وہ لوگ تو بہت ہی اچھے تھے مگر پتہ نہیں ان کے خاندان کو کس کی نظر لگ گئی پہلے ان کی دونوں بڑی بیٹیاں اغوا ہو گئیں اور پھر کوئی سال بعد وہ ان کو ملیں تو ان دنوں میاں بیوی کا اور ان کی بڑی بیٹی کا قتل ہو گیا پولیس تو یہی کہتی تھی کہ ان کی بیٹیاں بد چلن تھیں اور ان کے ماں باپ ان کے ناجائز بچے پیدا کروانے ہاسپٹل لے کر گئے تھے جب ان کے اکلوتے بیٹے کو اس کا پتہ چلا تو وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے غیرت میں آ کر اپنے ماں باپ کو اور ایک بہن کو جان سے مار دیا دوسری بہن نے وہاں سے بھاگ کے جان بچائی بیٹے کو عمر قید ہو گئی اور اس کی باقی پانچ بیٹیوں کو بھی اسی دن شام کو پولیس والے غلط چال چلن کے شبے میں گرفتار کر کے لے گئے اس کے بعد وہ پھر لوٹ کر گھر نہیں آ ئیں ایک بوڑھا ملازم ہے جو کے گھر کے پیچھے کوارٹر میں رہتا ہے اور کبھی کبھی اس گھر کو کھول کر اس کی صفائی ستھرائی کر دیتا ہے وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتا تم اس سے مل لو شاید تمھیں ان سے مل کے ان میں سے کسی کے بارے میں کچھ پتہ چل جائے اور میں نے فورا موٹر سائکل دوڑائی اور پچھلے کوارٹر میں موجود اپنے خاندانی نوکر انکل ستار کے پاس پہنچ گیا بہت بوڑھے ہو چکے تھے نظر بھی کافی کمزور تھی مجھے پہچانے نہیں میں نے انھیں بھی اپنا وہی اختر صاحب والا تعارف کروا یا مگر انھوں نے مجھے بھی وہی اختر صاحب والی سٹوری سنائی کچھ بھی میرے کام کی بات نہ تھی جس سے مجھے اپنی بہنوں کا کچھ سراغ مل سکتا مجھے فوری کوئی فیصلہ کرنا تھا پتہ نہیں کیوں میرا دل کہہ رہا تھا کہ انکل ستار کچھ چھپا رہے ہیں اور وہ مجھے اس وقت تک نہیں بتائیں گے جب تک میں انھیں اپنی اصلیت نہیں بتاتا اب میرے پاس یہ رسک لینے کے سوا دوسرا کوئی آ پشن نہ تھا اور میں نے انھیں. اپنی نقلی داڑھی اور مونچھیں اتار کر اپنا نام بتایا وہ مجھے پہچانتے ہی میرے سینے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے بڑی مشکل سے میں نے انھیں چپ کروایا ایسا لگتا تھا کہ ایک عرصے سے وہ جو آ نسؤں اپنے اندر جزب کرتے رہے وہ آ ج کسی اپنے کے کندھے سے لگ کے سب بہا دینا چاہتے تھے بولے چھوٹے صاحب اللہ کی قسمیں اپنے ان ہاتھوں سے بڑے صاحب بیگم صاحبہ اور ارم بی بی کو قبروں میں تنہا اتارا آ پ کا کوئی رشتے دار کوئی بڑے صاحب کا دوست جھوٹے منہ جنازے کو کندھا تو دور تسلی دینے بھی نہ آ ئے محلے والوں نے جنازے اٹھائے اور میں نے انھیں قبر میں اتارا انکل میری بہنیں کہاں ہیں میں نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا جیسے مجھے اب کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی کوئی جو بھی ہے جہنم میں جائے فکر تھی تو صرف ان معصوموں کی پتر(بیٹا) شام کو پولیس آ ئی اور زبردستی گھر گھس کر انھیں پکڑ کے لے گئی کوئی وجہ بھی نہ بتائی میں نے وکیل کیا اور تھا نے پہنچا تو پتہ چلا کہ یہاں کی پولیس نے اس نام کی لڑکیوں کو گرفتار ہی نہیں کیا پتر میں نے اور مریم نے ان سب کو تلاش کرنے کے لیے زمین آ سمان ایک کر دیا مگر پتہ نہیں انھیں زمین کھا گئی یا آ سمان مریم کہاں ہے کیا وہ ٹھیک ہے ؟انکل ستار کے منہ سے مریم کا نام سن کے میرے منہ سے بے اختیار نکلا جس ہاسپٹل میں صاحب جی اور بیگم صاحبہ کو قتل کیا گیا تھا اس کے ایک ڈاکٹر حیرم شاید وہ مریم بی بی کا کلاس فیلو تھا اس نے اس واقعے کے بعد مریم بی بی کو اپنے گھر چھپا لیا اور مشہور یہ کر دیا کہ وہ کہیں بھاگ گئی ہیں اور بعد میں میری اجازت سے دونوں نے شادی کر لی مریم بی بی ان کے گھر بہت سکھی ہیں پر آ پ کا اور بہنوں کا دکھ انھیں چین نہیں لینے دیتا انھوں نے کئی دفعہ آ پ سے ملنے کی خواہش کی مگر میں نے انھیں منع کر دیا کہ کہیں یہ پھر سے شوکی کی نظروں میں نہ آ جائے اور اس کی زندگی پھر سے جہنم نہ بن جائے انکل ستار نے اداسی سے کہا مجھے ان کا ایڈریس دیں میں ابھی ان کے پاس جاتا ہوں مریم کی درد بھری چیخیں مجھے ابھی بھی سنائی دے رہی تھیں جو میں نے جاتے ہوئے آ خری دفعہ سنی تھیں چھوٹے صاحب گھر چلیں میں آ پ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کے کھلاؤں آ پ کے گھر میں آ پ کے ماں باپ کی روحیں پتہ نہیں کب سے اپنے بچوں کے لوٹنے کا انتظار کر رہی ہیں میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گھر کا پچھلا دروازہ کھولا اور گھر میں داخل ہو گیا انکل ستار میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے صحن میں پہنچتے ہی مجھے اپنی امی کے بدن کی وہی محسوس خوشبو آ نے لگی جس کی وجہ سے مجھے بچپن سے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ امی اتنے بڑے گھر کے کس کونے میں بیٹھی ہیں اور میں انھیں ڈونڈھ لیتا تھا وہ اکثر کہتی کہ تجھے کیا غیب کی خبر ہو جاتی ہے کہ میں یہاں ہوں اور میں مسکرا کر ان کے گلے لگ جاتا وہی محبت بھرے لمس کی خوشبو محسوس کر کے میں اپنے جزبات پہ لاکھ چاہنے کے باوجود قابو نہ رکھ سکا اور ان کے کمرے میں بیٹھ کر امی ابو کی تصویر دیکھ کر بلک بلک کر روتا رہا انکل ستار نے پورا گھر ویسے کا ویسا پر صاف کر کے رکھا ہوا تھا کوئی چیز بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹائی تھی ہم دونوں نے ساتھ مل کر کھانا کھایا بلکہ انھوں نے نوالے بنا بنا کر مجھے اپنے ہاتھوں سے اور پھر مجھے جائداد کی تفصیل بتانے لگے پتر تمھارے با پ کا ہاسپٹل میں نے کرایے پہ دے دیا زمینیں ٹھیکے پر دے دیں شہر والی کوٹھی اور چاروں دکانیں بھی کرایے پر چڑھی ہوئی ہیں یہ دیکھو بیٹا تم لوگوں کا سارا پیسہ میں اس امید سے لا کر اس الماری میں سنبھال کے رکھتا رہتا ہوں کہ ایک دن تم سب واپس لوٹ آ ؤ گے انکل ستار نے ابو کے کمرے کی ایک خفیہ الماری کا لاک کھولا تو نوٹوں کی گڈیوں سے الماری بھر چکی تھی پاس ایک کالے رنگ کا بیگ پڑا تھا جسے میں نے کھول کے دیکھا تو میری ماں کے سونے کے زیورات سے بھرا پڑا تھا کوئی چالیس پچاس ڈبے سونے کے زیورات کے تھے پتر باقی زیور اور پیسہ بنک کے لاکر میں ہے وہ صرف تم لوگ ہی نکلوا سکتے ہو انکل ستار نے اپنا نمک حلال کر دیا تھا جب پوری دنیا نے ہمیں دھتکار دیا تھا اگر وہ تنہا پیچھے اتنا کچھ نہ سنبھالتے تو ہم آ ج فٹ ہاتھ پہ بیٹھے ہوتے پر انکل کبھی شوکی یہاں نہیں آ یا میں نے حیرانگی سے پوچھا نہیں چھوٹے صاحب بلکہ میں نے اسی کے ڈر سے تو آ پ کا خاندانی خزانہ سونے کی دس انٹیں یہاں سے اٹھا کر باہر لان میں دبا رکھی ہیں وہ جو جامن کا درخت ہے اس کے تنے کے پاس پلاسٹک کے ڈبے میں ڈال کے میں نے دبا دی ہیں میں نے انکل کے ساتھ جا کر اس جگہ کو کھودا تو کوئی کلو کلو کی سونے کی اینٹیں وہاں پڑی تھیں میں نے انھیں ویسے ہی واپس دبا دیا اور الماری سے پانچ چھ لاکھ بیگ میں ڈال لیے اور دوپہر ہونے سے پہلے مریم آ پی کے گھر پہنچ گیا آ پی تو مجھے بار بار دیکھ رہی تھی کہتی مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ میرا بھائی صیح سلامت میرے سامنے موجود ہے لوگ تو کہتے تھے کہ شوکی کے کہنے پر پولیس والوں نے اسے جیل میں ہی مار مار کر ختم کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپی باقی بہنوں کے بارے میں کچھ پتا ہے ؟ نہیں ویرے میں نے بہت کوشش کی حیرم نے بھی بہت تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی آ پی اس دن آ پ کے ہاں بیٹا ہوا تھا یا بیٹی میں نے باہر بچے کے رونے کی آ واز سنی تھی ارم کا بچہ تو مردہ تھا پر آ پ کا زندہ تھا وہ کہاں ہے ویرے ادھر ہی ہے میرا بیٹا ہادی ابھی سکول سے آ تا ہی ہو گا ماشااللہ سے کافی بڑا ہو گیا ہے آ پ سے مل کر ویرے (بھائی )بہت خوش ہو گا
اور تھوڑی دیر بعد ہادی بھی آ گیا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی شکل ہو بہو شو کی گولی مار سے ملتی جلتی تھی پر میں نے کچھ نہ کہا بھیا حیرم بھی مجھ سے مل کر بہت خوش ہوا مگر ہادی کی تو خوشی ہی دیدنی تھی وہ تو مجھے چھوڑ ہی نہیں رہا تھا لیکن میرے پاس جتنا وقت بچا تھا مجھے ہر صورت میں باقی بہنوں کو تلاش کرنا تھا اس لیے مریم کے گلے الوادع ہونے کے لیے ملا وہ رو پڑی پتا نہیں ویرے ہم پھر کبھی دوبارہ زندگی میں مل سکیں گے بھی یا نہیں آ پی انکل ستار کا خیال رکھنا اور انھوں نے جو ہمارے لیے جمع کر رکھا ہے اس میں سے اگر ضرورت پڑے تو روپیہ پیسہ لے آ یا کر ہم مر گئے تو سب کچھ ادھر ہی رہ جانا ہے تو تو چار دن عیش کر لے ہمارے تو نصیب میں دھکے ہی لکھے ہیں وہ کھا لیں گے اور ایک دن کسی کو پتہ بھی نہیں ہو گا اور امی ابو کی طرح ٹھنڈ ی مٹی کے نیچے جا کر سو جائیں گے میں نے بجھے ہوئے دل سے کہا نہ ویرے ایسے نہ سوچ میری زندگی کی ایک ہی تو امید ہے کہ ہم سب پھر سے اس گھر کو آ باد کریں گے ایسا کہہ کے میری آ س نہ توڑ وہ گھر اس کی ہر چیز ہم سب بہن بھائی کی امانت ہے جب تک سب واپس نہیں آ جاتے میں اس گھر کی کسی شے کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی جا ویرے تلاش کر انھیں میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں میرا دل کہتا ہے وہ تجھے ضرور مل جائیں گی انشا اللہ آ پی اور میں ان سے رخصت لے کر تین بجے اس شہر کے جانے مانے بازاری عورتوں کے اڈوں کی طرف اس امید سے چل پڑا کہ شوکی کے آ خری الفاظ یہی تھے کہ وہ انھیں طوائف بنائے گا ہو سکتا ہے وہ یہیں کہیں کسی کوٹھے کی زینت بنا دی گئی ہوں