سنٹرل جیل گوجرانوالہ کا وہی پرانا منظر رات کا وقت اور نیم غنودگی کے عالم میں وڈے( بڑے)جیلر کے پاؤں دباتا کوئی معصوم سا قید ی اور جیلر کا وہی رعب دبدبہ اور قیدی کی منت خوشامد مگر آ ج کی بات کچھ الگ ہی تھی کیونکہ آ ج ایک جواں سال قیدی لڑکا فقیرا خاموشی سے اونگھ رہا تھا جب کہ بڑے جیلر صاحب چپ بیٹھے جاگ رہے تھے جونہی فقیرے نے اونگھ میں سر جیلر کی ٹانگ پر رکھا تو جیلر نے روایتی پولیس کے رعب دار لہجے میں فقیرے کو وہ دبکا مارا کہ وہ ڈر کے مارے اٹھنے کے ساتھ ہی سیدھا ہو کے کھڑا ہو گیا اوہ بہہ (بیٹھ )جا فقیرے تو بھی پتہ نہیں کیا کرتا ہے ٹانگیں تو اچھی طرح دبا دے فقیرا پھر سے اسی ادب و احترام کے ساتھ ٹانگیں دبانے لگ گیا چل فقیرے بس کر دل کا درد یوں دبانے سے تھوڑی ختم ہو تا ہے چل ایسا کر تو مجھے کوئی دکھی سی کہانی سنا اتنے قیدیوں سے تو روز ملتا ہے جس کی کہانی سب سے دکھی تجھے لگی وہ سنا اور ایسے سنانا کہ آ نکھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی رو پڑے جیلر نے آ ج پہلی بار اتنے پیار سے فقیر ے سے فرمائش کی تھی صاحب ایسا کرتے ہیں ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو دکھی کہانیاں سناتے ہیں کسی اور کی نہیں بلکہ اپنے دکھوں کی اور ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ہم سے ہو سکا تو ہم دونوں ایک دوسرے کے دکھ کم کرنے کی کوشش بھی کریں گے فقیرے نے زمین پہ آ لتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔. چل ٹھیک ہے فقیرے تو بھی کیا یاد کرے گا کس سخی سے پالا پڑا ہے پہلے تو اپنی کہانی سنا جیلر نے فقیرے کی گود میں اپنے پاؤں رکھتے ہوئے کہا نہیں صاحب آ پ مجھ سے بڑے ہیں پہلے آ پ سنائیں فقیرے نے جیلر کے پاؤں دباتے ہوئے کہا اچھا چل فیر سن فقیرے میری ماں کو بڑا چا (شوق) تھا کہ اس کا بیٹا ایک بہت وڈا (بڑا) ایماندار پولیس افیسر بنے اور لوگوں کی خدمت کرے بالکل فلموں کی پولیس کی طرح اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے میری بیوہ ماں نے دن رات لوگوں کے گھروں میں کام کر کر کے مجھے اعلی تعلیم دلوائی اور اپنی ماں کی دعاؤں سے میں پولیس میں افیسر بھی لگ گیا مگر یہاں آ کر اس کی حقیقت کھلی کہ یہاں ایمانداری سے کام کرنے والوں کے گھروں کے صرف چولہے ہی جلتے ہیں عیش نہیں ہوتی خیر اماں کی تربیت کچھ نیک بیوی کی صحبت کا اثر میں کافی حد تک حرام کمائی سے بچا رہا اور جیسی تیسی روکھی سوکھی کھا کر اپنی بیوی اور پانچ بیٹیوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا اور میری نیک بیوی نے میری اسی حق حلال کی کمائی سے بچت کر کر کے بڑی دونوں بیٹیوں کا جہیز بھی بنا لیا اور دونوں کے رشتے ایک بہت ہی اعلی فیملی مطلب کھاتے پیتے گھر کے دونوں بھائیوں سے ہو گئے ہم سب اس رشتے پر بہت خوش تھے دو سال ہو گئے ان کی منگنی کو اور دس دن کے بعد ان کی شادی ہے اور میری بیٹیاں بھی اپنے منگیتروں کو نہ صرف پسند کرتی ہیں بلکہ بہت ہی زیادہ خوش ہیں لیکن کل مجھے لڑکوں کے والد کا فون آ یا کہ جیلر صاحب ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ پہلے دن جو زیور بیٹی کو اس کے ماں باپ پہنائیں وہ اصلی سونے کا ہو دیکھنا جیلر صاحب ہماری خاندان میں لاج رکھنا سارا خاندان ہم پہ تھو تھو نہ کرے کہ بہو گلے میں بد شگونی یعنی جھوٹا دو نمبر زیور پہن کے آ گئی ہے یار تو خود اندازہ لگا کہ اگر ہم از کم پانچ تولے کا سیٹ بھی بنواؤں تو دس تولے پہ کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ستر ہزار کا تولہ تو دس تولے کتنے کا ہوا سات لاکھ کا فقیرے نے پہلی مرتبہ درمیان میں دخل دیا ہاں یار اور میرے پاس تو مر کے ایک لاکھ روپے ہیں اور ایک گھر ہے پہلے سوچا گھر بیچ دوں مگر پھر اتنی قلیل آ مدنی میں دوبارہ کبھی گھر نہ بنا سکوں گا ادھار لوں تو واپس نہیں کر سکوں گا اور ایک آ خری حل یہی بچتا ہے فقیرے کہ یہ رشتہ ہی ختم کر دوں مگر پھر دنیا والوں کو کیا جواب دوں گا چھوٹی جو تین بیٹیاں ہیں اگر ہماری غربت کا راز کھل گیا تو ان کے رشتے کبھی اچھے گھروں میں نہیں ہو سکیں گے یار فقیرے میں تو سوچ سوچ کے پاگل ہو گیا ہوں پر مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا اس مایوسی کے عالم میں بس ایک ہی خیال بار بار آ ئے جا رہا ہے کہ کاش میں نے بھی دوسروں کی طرح حرام کمائی سے جائیداد یں بنائی ہوتیں تو آ ج یہ حشر تو نہ ہوتا کیا حاصل کر لیا میں نے حلال پیسے سے سوائے مایوسی کے جیلر نے بھرائی ہوئی آ واز میں کہا پتہ ہے فقیرے ہمارے گھر میں کل سے صف ماتم بچھی ہوئی ہے میری بیٹیوں کے چھپ چھپ کر روتے چہرے جو میری نظر پڑتے ہی زبردستی مسکرا نے کی ایکٹنگ کرتی ہیں میری بیوی کا دو دن میں رنگ ایسا ہو گیا ہے جیسے کینسر کے مریض کا آ خری سٹیج پہ ہو تا ہے اتنی تکلیف ہے اسے اور میں کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ان کا باپ ان کے لیے یہ چھوٹی سی خوشی نہیں خرید سکتا کیونکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہے جیلر نے دیوانوں کی طرح چیختے ہوئے کہنے کی کوشش کی مگر درد کی شدت سے آ واز اس کے حلق میں اٹک گئی اور وہ خود پہ قابو پا نے لگا مگر اس کی آ نکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے چل فقیرے اب تو اپنی کہانی سنا جیلر نے فقیرے کی طرف دیکھا جو سر جھکائے بیٹھا تھا صاحب جیسا کہ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم سے ہو سکا تو ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کریں گے تو صاحب اس سلسلے میں میں آ پ کی مدد کر سکتا ہوں آ پ دس چھوڑیں بیس تولے لا دوں گا مگر آ پ کو بھی میری پوری کہانی سننی پڑے گی اور پھر میری مدد بھی کرنے پڑے گی پر صاحب کوئی زبردستی نہیں ہے اگر یہ سودا آ پ کو برا لگے اور دل نہ مانے تو انکار کر دینا اللہ آ پ کے لیے کوئی اور سبب بنا دے گا فقیرے نے نظریں جھکائے ہوئے کہا اچھا فقیرے چل پہلے اپنی کہانی سنا ۔۔۔۔۔۔ پھر تجھے میں بتاتا ہوں کچھ ۔۔۔۔۔صاحب یہ ان دونوں کی بات ہے جب میں آ ٹھویں کلاس میں تھا سات بہنوں کا اکلوتا بھائی چار بہنیں مجھ سے بڑی تھیں اور تین چھوٹی فقیرے نے اپنی کہانی شروع کر دی۔۔۔۔۔