جہاں تک چوٹی کا سوال ہے خوش دامن کی چوٹی کے سوا دنیا کی تمام چوٹیاں سرکی جاچکی ہیں۔ یعنی وہ زلف گرہ گیر بھی جس کے متعلق چچا غالب نے لکھا ہے :
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ابتدائے آفرینش سے ہی خوش دامن اپنے فولادی وجود کے لیے مشہور یا بدنام ہے۔ تمام اقوام عالم میں خوش دامن کے رنگ اور نسل میں تضاد کے باوجود روح ایک ہی ہے۔ اس کے رعب و دبدبہ کا یہ عالم ہے کہ وہ بیک وقت اپنے خاندان کی وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ ہوتی ہے جس کے تصور سے بہوؤں کے ذہن میں مٹی کے تیل کا ڈبہ اور ماچس رقص کرنے لگتے ہیں۔ اب رہے داماد تو ان کے احساسات کا اندازہ اس دلچسپ لطیفے سے لگایا جا سکتا ہے کہ :ایک خاتون نے پولس میں اپنے شوہر کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ برسبیل گفتگو تھانیدار صاحب نے دریافت کیا: ’’اگر ہماری رسائی آپ کے شوہر تک ہو جائے تو ان کے لیے آپ کا پہلا پیغام کیا ہو گا!‘‘ خاتون نے برجستہ جواب دیا: ’’بس اتنا کہیں کہ امی جان یعنی ان کی خوش دامن نے ہمارے گھر آنے کا اپنا ارادہ منسوخ کر دیا ہے۔‘‘
اگلے وقتوں کے بزرگ بقول شخصے یونانی دیو مالاؤں کی طرح کائنات کی کنجیاں اپنے پاس رکھتے تھے۔ ان کی رضا اور مرضی کے بغیر ادھر کا تنکا ادھر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خصوصاً ان کی مرضی اور پسند کے بغیر دلہن لانے کی سزا برخوردار کے کورٹ مارشل پر ختم ہوتی تھی یعنی اسے جائیداد سے عاق کر کے گھر بدر کر دیا جاتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ آج گنگا الٹی بہتی ہے۔ اگلے وقتوں کے یہ سرگشتہ خمار رسوم و قیود بزرگ خود ہی چراغ لے کر اپنی دانست میں چندے آفتاب چندے مہتاب سی بہو تلاش کرتے تھے پہلے اس کا حسب و نسب اور جغرافیہ کھنگالا جاتا تھا۔ اس سے مطمئن ہوئے تو اس کی چوٹی سے لے کر ایڑی تک ناپی جاتی تھی۔ البتہ لڑکے کے انتخاب میں کوئی خاص شرط نہیں ہوتی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ داماد یا بہو کے انتخاب میں ہونے والی خوش دامن کا اہم رول ہوتا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج کے مہذب دور میں دلہن یا داماد لانا خصوصاً دلہن کا انتخاب ایک خالص کاروباری معاملہ بن گیا ہے۔ حسب و نسب کو بھاڑ میں جھونک کر بس کمر توڑ جہیز کے مطالبہ کو اولین شرط کے طور پر رکھا جاتا ہے یعنی جہیز میں کار بنگلہ اور بھاری زیور طلب کیا جاتا ہے چنانچہ آج یہ حال ہے کہ ایک بکری بھی دام دے کر خریدی جاتی ہے مگر لڑکی دام لے کر خریدی جاتی ہے گویا آج کی عورت اس مہذب دور میں جانور سے بھی سستی ہے۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجئے کہ سات گاؤں چھان کر اور سونے چاندی میں تلوا کر لائی ہوئی یہ دلہن اپنی خوش دامن کے آگے ہر لمحہ لرزاں و پریشاں رہتی ہے اور ایک روبوٹ ہی کی طرح متحرک رہتی ہے مگر عمر کی ایک مقررہ منزل پر پہنچنے کے بعد اس لرزاں و پریشاں دلہن کے جسم میں ایک خرانٹ و سخت گیر خوش دامن کی روح حلول کر جاتی ہے۔ وہ بھول جاتی ہے کہ اس نے ایک عرصے تک اپنی خوش دامن کی جوتیاں سیدھی کی ہیں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل قیامت تک چلتا رہتا ہے۔
خوش دامن داماد کے لیے بھی کچھ کم بلائے جاں نہیں ہوتی جیسا کہ اس مذکورہ لطیفے سے ظاہر ہے ہمیں خود بھی اس کا تجربہ ذاتی طور پر اس وقت ہوا جب ہمارے اگلے وقتوں کے قدامت پسند بزرگوں نے جنہیں ہر دم اپنی ناک کا خیال دامن گیر رہتا تھا، شہر میں ہماری ملازمت اور قیام و طعام سے درپیش مسائل اور اس سے بھی زیادہ ہمارے خوشگوار اور شاندار مستقبل اور آسودہ حالی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لیے جس لڑکی کا انتخاب کیا وہ قریب کے ایک گاؤں اور دور کے رشتہ داروں میں سے تھی، غالباً انھوں نے سوچا ہو گا کہ وہ اپنے چار بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور اکلوتی ہے اس ناطے ہم بھی ان کے اکلوتے داماد اور سسرال کی آنکھوں کا تارہ بنے رہیں گے۔
شادی کے چند دن بعد ہم بیگم کے ساتھ سسرال روانہ ہونے اور تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک پرانی وضع کی حویلی کے دروازے پر پہنچے جو حویلی سے زیادہ کسی جنات کا محل معلوم ہوتی تھی کہ دفعتاً ایک بڑی گلی سنسناتی ہوئی ہمارے پیروں کے قریب آ گری۔ ہم نے جھک کر دیکھا وہ ایک بے رنگ و روغن بیلن تھا جو عموماً روٹی یا پاپڑ بیلنے کے کام آنے کے علاوہ ایک مغلوب الغضب بیوی کا ہتھیار بھی ہوتا ہے۔ اس بیلن کی اڑان کے ساتھ ہی ایک تیز اور کرخت آواز فضا میں گونجی: ’’مردوے کو صبح سے کہہ رہی ہوں گھر میں مٹی کا تیل نہیں ہے ذرا دیر سے جاؤ تو ڈپو پر قطار لگ جاتی ہے۔ دھکے کھانے اور ادھ موئے ہونے کو…ادھر تمہیں ماٹی ملے شیراں (شعروں) کی پڑی ہے گھر میں داماد آنے والا ہے کیا اسے شیراں (اشعار) کھلاؤں !سر میں عقل ہو تو کوئی بات بھی ہو کل دس بار سمجھا کر بھیجا کہ لال مرچوں پر گیہوں نہ پسوانا۔ مگر آٹا آیا تو وہی لال لال… میں اکیلی جان کہاں تک دیکھوں !بچے تو سارا دن کھیت پر رہتے ہیں۔ باپ سے گھر کا ذراک ام نہیں ہوتا۔ صبح صبح چل دیئے لنگی پھٹکارتے …منہ سے ریل کی طرح دھواں اڑاتے۔ بیوی بچے جئیں یا مریں۔ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آدھی رات کو بستر سے اٹھ بیٹھے …بیگم اٹھو تو ذرا…واللہ! دیکھو تو کیا مارکے (معرکے) کا شیر(شعر) ہوا ہے …غضب خدا کا۔ شیر(شعر) نہ ہوا دم کا شیر(شعر) ہو گیا۔
ہم نے دروازے میں گردن ڈالی۔ سامنے ایک بڑا آنگن تھا ایک طرف خسر صاحب نظر آئے جو ایک چنبیلی کے منڈوے تلے کھاٹ ڈالے کاغذ قلم ہاتھ میں لیے دنیا مافیہا سے بے خبر نیم دراز تھے جو اس بیلن کا اصل نشانہ تھے جوان کی خوش قسمتی سے چوک گیا تھا۔ انھوں نے پڑے پڑے ایک سرد آہ بھری اور بولے :
ہم کہاں کے دانا تھا کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
ان سے کچھ فاصلے پر باورچی خانہ تھا جس کی دہلیز سے لگی خوش دامن بیٹھی نظر آئیں۔ بھاری بھرکم بدن جس کے چار حصے کئے جائیں تو ایک حصہ خسر صاحب کا بنتا تھا۔ تیوری چڑھی ہوئی جبڑے کسے ہوئے اور کلے میں پان دبا ہوا ہم اس مجسم غیض و غضب کی زیارت کر ہی رہے تھے کہ انھوں نے دوسرا تیر چلایا ’’میرے گھر والے مجھے ایک ماسٹر کے پلے باندھنے کو کہاں راضی تھے۔ ان کی ماں ہی نے تو ان کی دہلیز پر دھرنا دیا تھا کہ یہاں سے خالی ہاتھ میری میت ہی جائے گی۔ میں نصیبوں جلی آخر کس کا گلہ کروں !‘‘ یہ سن کر خسر صاحب تلملا اٹھے ایک تیز نظر بیوی پر ڈالی اور ضبط کر کے بولے :
نہ لڑ ناصح سے غالب کیا ہوا جو اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
ہماری پشت سے بیگم نے کھسیانی ہو کر سرگوشی کی: ’’بابا ایک اسکول پڑھاتے ہیں۔ گھر کی کچھ فکر نہیں بس جب دیکھو غزل بنائی جا رہی ہے ہر معاملے میں غالب کے حوالے دیتے جا رہے ہیں اسی لیے تو اماں جان کڑھتی تھی۔‘‘
ہم آگے بڑھے تو گوبر اور سڑی ہوئی گھاس کی ملی جلی سٹراند کا ایک تیز بھبکا ہماری ناک سے ٹکرایا۔ ہم نے ایک ہاتھ سے ناک دبا کر جو نظر اٹھائی تو آنگن کے سرے پر ایک چھپر تلے چار پانچ بھینسوں کو بیٹھے جگالی کرتے پایا۔ ہم دونوں کو دیکھ کر دونوں میاں بیوی بڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے خوش دامن نے پچ سے پان کی پیک زمین پر ماری سر پر پلو درست کیا اور مجسم شفقت و اخلاق بنی قریب آئیں اور ہمارے سلام کا جواب دے کر سوالات کی بوچھار کر دی۔
’’اچھے تو رہے میاں …!‘‘
’’جی…آپ کی دعا ہے۔‘‘
’’گھر میں تو سب خیریت سے ہیں نا!‘‘
’’جی ہاں !سب نے آپ کو سلام کہا ہے۔‘‘
پھر وہ ایک لمحہ رک کر پریشان سی ہو کر بولیں : ’’آگ لگے دشمنوں کو…کیا بیمار پڑ گئے تھے ؟‘‘
’’جی نہیں !‘‘ …ہم نے ہنس کر کہا۔ ’’خدا کے فضل سے اچھے ہیں۔‘‘
’’کیا خاک اچھے ہیں …‘‘ وہ افسوس بھرے لہجے میں بولیں ’’ہمارے گاؤں میں تو دودھ اور گھی کی ندیاں بہتی ہیں وہاں تمہارے شہر میں پانی بھی اصلی کہاں ملتا ہو گا!‘‘
یہ سن کر خسر صاحب جھوم اٹھے۔ ’’سبحان اللہ!کیا شان تکلم ہے کیا با محاورہ زبان ہے اور کیا نازک خیالی ہے۔‘‘ بیگم! پانی تو وہاں ضرور ملتا ہو گا مگر پینے کے لائق کہاں ! کبھی کبھار نلوں میں آ جاتا ہے۔ یوں سمجھو: ؎ ’’گر جائے تو پانی ہے رک جائے تو موتی‘‘ اس پر خوش دامن جل بھن گئیں اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد بیٹی کولے کر اندر چلی گئیں تو خسر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری ’’بھائی! عورت بھی کیا چیز ہے۔ ملے نہ ملے پچھتاوے ہی پچھتاوے۔ بلاشبہ ہم اپنے دور کے غالب ثانی ہیں۔ ایک پھندا چالیس برس سے گلے میں پڑا ہے نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے۔‘‘
قصۂ مختصر:رات کو دسترخوان چنا گیا مرغ کا سالن پکا تھا ایک ٹانگ ہماری پلیٹ میں بھی پڑی تو ہوش اڑ گئے ، بلاشبہ ایک چھوٹی بکری کی ران تھی رد عمل ظاہر کرنا آداب شائستگی کے خلاف تھا مرتے کیا نہ کرتے پل پڑے انگلیوں سے ادھیڑا نہ گیا تو دانتوں سے کام لینا چاہا اس کھینچا تانی میں سارا منہ لتھڑ گیا۔ بیگم ہنسنے لگیں مگر خوش دامن کا منہ بن گیا ’’کیا تمہارے دودھ کے دانت ہیں میاں ! ایک مرغ کی ٹانگ نہ کاٹی گئی!تمہاری ماں نے آخر کیا پلا کر پوسا تھا۔ جو یوں موم کے گڈے لگتے ہو۔ مجھے دیکھو اگلے وقتوں کی کھلائی پلائی تھی جو بجلی کے کھمبے کی طرح بھی اپنی جگہ جمے کھڑے ہیں گھر میں دودھ گھی بنتا تھا۔ پچھواڑے میں سبزیاں بوتے تھے۔ گائے ، بھینس اور مرغیاں پلتی تھیں۔ پانی کی جگہ دودھ پیتے تھے۔ منہ نہار مکھن کے ڈلے نگلے جاتے تھے۔ ایک تم لوگ ہو کہ ایک چھینک بھی آئی تو کمبل لپیٹے سوں سوں کرنے لگے۔ پچاس کے بھی نہ ہوئے کہ زمین اپنی طرف بلانے لگی۔ آخر کتنا کما لیتے ہو؟‘‘
عورت کی عمر اور مرد کی آمدنی کا سوال ہر لحاظ سے بڑا بھونڈا اور غیر مہذب ہے۔ اس کا احساس بھلا ان ’’ہندوستانی بدوؤں ‘‘ کو کیا ہو سکتا تھا۔ ہم کبیدہ خاطر تو بہت ہوئے مگر چونکہ اخلاق کا تقاضہ تھا لہٰذا ضبط کیا اور مزاج کی ساری تلخی سسرال کی نام نہاد مروت و شفقت میں ڈبو کر کہا: ’’یہی کوئی پانچ ہزار…!‘‘
یہ سن کر ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے پھر فخریہ لہجے میں بولیں : ’’بس پانچ ہزار…!اتنا تو ہم اپنی بھینسوں کا دودھ بیچ کر ہر ماہ کما لیتے ہیں۔‘‘
اتنا کہا اور سنبھل کر ہو بیٹھیں جیسے کوئی اہم بات کہنے جا رہی ہوں ’’میاں !تم اپنے خسر کو دیکھو، یہ بھی اسکول میں پڑھاتے ہیں اور جتنا کماتے ہیں اس کا زیادہ تر حصہ چائے ، سگریٹ اور دوستوں پر اڑ جاتا ہے۔ جہاں نوکری نے انہیں بگاڑا وہاں ان کے ’’شیروں ‘‘ (شعروں) نے ان کی لٹیا ڈبو دی…میری مانو تو نوکری چھوڑ کر یہاں چلے آؤ آٹھ دس بھینس پال لینا روزی کی روزی اور گھر میں دودھ کی ندیاں الگ بہیں گی…ہاں !‘‘
ہمارے پاؤں تلے زمیں نکل گئی زبان سے بے اختیار نکل گیا: ’’تو کیا ہم گوالے بنیں۔!‘‘
تٹر سے بولیں : ’’وا ہ میاں !وہاں شہر میں لوگ جوتے بیچتے ہیں تو کوئی انہیں چمار نہیں کہتا، لانڈری کھول کر میلے کپڑے دھوتے ہیں تو دھوبی نہیں کہلاتے تو تمہیں گوالے کون کہے گا!ہمیں پیسوں سے مطلب ہے۔ دودھ بیچو یا جوتے …ایک ہی بات ہے۔‘‘ جب یہ ٹیڑھی کھیر حلق میں اٹکنے لگی تو ہم نے جان چھڑانے کو کہا:اچھا…ہم سوچیں گے۔‘‘
بیگم نے ان کا دفاع کرتے ہوئے سرگوشیوں کے درمیان ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا: ’’سوچنے سے کچھ نہ ہو گا، جتنا سوچیں گے اتنا ہی ڈوبیں گے۔ ذرا خیال کریں ، آپ بھینس چرائیں گے اور میں دودھ دوہوں گی۔ گھی اور چھاچھ میں بناؤں گی اور آپ بیچیں گے نہ کسی کی نوکری ہو گی نہ کسی کے جوتے گانٹھنے پڑیں گے … آہاہا…بڑا مزہ آئے گا۔‘‘ ہم سوچ رہے تھے کہ اس وقت قیامت کیوں نہ آ گئی کم از کم زمین ہی پھٹ جاتی اور ہم اس میں سما جاتے۔
دفعتاً دیر سے خاموش بیٹھے ہوئے خسر صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری اور ہماری طرف جھک کر سرگوشی کی ’’بھائی!اللہ تم پر رحم کرے۔ بھینس آدمی کی صحبت میں رہ کر آدمی بنیں یا نہ بنیں مگر بھینسوں کی صحبت میں رہ آدمی بھینس ضرور بن جاتا ہے۔ آج ثابت ہو گیا۔‘‘
پھر وہ ہمارے دفاع میں بیوی کی طرف مڑ کر بولے ’’بیگم!بھینسوں کی پرورش کے لیے بھینسوں کی سی عقل چاہئے وہ بھلا اس بے چارے کے پاس کہاں !‘‘ …اس سے پہلے کہ خوش دامن کی تیوری پربل پڑیں وہ اٹھ گئے۔
ہمارا خیال تھا کہ بات آئی گئی ہو گئی ہو گی مگر صبح تڑکے ہم چہل قدمی کو باہر نکلے تو خوش دامن چھپر میں جھاڑو دینے کے بعد بھینسوں کو نہلا رہی تھی، ہمیں دیکھ کر بولیں : ’’کہاں چلیں میاں !‘‘
ہماری جو شامت آئی تو کہا: ’’ذرا ہوا کھا آئیں گے ، گاؤں کی ہوا صاف اور صحت کے لیے مفید ہوتی ہے۔‘‘
خوش ہو کر بولیں ’’ہوا ہی نہیں سب کچھ اچھا ہوتا ہے۔ بس ذرا سمجھ چاہئے۔ مگر تمہارے خسر صاحب کی سی نہیں …چلو ذرا یہ گوبر کی بالٹی وہاں کونے میں رکھ آؤ۔ دوپہر کو مجھے اپلے بنانے ہیں …یہ لو!تمہارا منہ کیوں لٹک گیا۔ تم کیا جانو!صرف اپلوں سے ہی چار سو روپئے کی ہر ماہ آمدنی ہو جاتی ہے۔ میاں تم نے وہ کہاوت نہیں سنی، آم کے آدم اور گٹھلیوں کے دام۔
سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ قدرت ہمیں آخر کس گناہ کی سزا دینے جا رہی ہے۔ عجب عبرت کا مقام تھا۔ جی چاہتا تھا کہ اسی وقت کسی طرف کو نکل جائیں …خوش دامن سے دور…خوش دامن کی بھینسوں اور گھی دودھ کی ندیوں سے دور، مگر بمشکل ضبط کیا اور اخلاق اور فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے ناک دبائی اور قسمت کو کوستے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بالٹی اٹھا کر چلے تو پشت سے ان کی شکر میں گھلی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’تمہیں ابھی سے یہ سب کچھ سیکھ لینا چاہئے میاں ! جب کوئلے کی دلالی ہی کرنی ہے تو ہاتھ کے کالے کاکیا ڈر!‘‘
غرض!ہم چہل قدمی سے لوٹے تو ناشتہ تیار تھا۔ دسترخوان پر چاول کی روٹیوں کے علاوہ مونگ دال اور ایک طشت میں کچی سبزیاں مثلاً گاجر، مولی ، پالک کا ساگ وغیرہ ڈھیر تھے۔ ہم صورت حال سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ خوش دامن نے سبزیاں کاٹ کاٹ کر ہماری پلیٹ میں ڈال دیں۔ ہم نے بیگم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بجائے ان کے خوش دامن نے ہمیں سمجھایا: ’’کچی سبزیاں صحت کے لیے مفید ہوتی ہیں بے وقوف ہیں وہ لوگ جو انہیں پکا کر کھاتے ہیں … چلو بسم اللہ کرو۔‘‘
ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ خسر صاحب نے سرگوشی کی: ’’چپ چاپ زہر مار کر لو جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو سبزیوں سے کیوں ڈرو‘‘ مجھے دیکھو چالیس برس سے مجھ پر موسل برس رہے ہیں۔‘‘
پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا اب ہمارے لیے کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ ہم اپنا قیام مختصر کر کے سسرال کو خیرباد کہہ دیں۔ چنانچہ ضروری کام کا بہانہ کر کے اگلے ہی دن ہم شہر لوٹ آئے اور سکون کا سانس لیا۔ جان بچی لاکھوں پائے۔ مگر ایک مہینہ بھی نہ گذرا تھا کہ گاؤں سے خوش دامن کا خط بیگم کے نام آیا کہ ’’وہ جلد ہی اپنے بہت سارے منصوبوں کے ساتھ گھر آ رہی ہیں۔‘‘
اب یہ حال ہے کہ ہم نے عارضی طور پر ترک مکانی کر کے ایک ہم راز دوست کے ہاں پناہ لے رکھی ہے یعنی عرف عام میں ’’گم شدہ‘‘ ہو گئے ہیں اس امید میں کہ بیگم نے اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دے کر پولیس میں بھی رپورٹ درج کرائی ہو۔ کوئی تھانے دار صاحب ہمیں تلاش کرتے ہوئے آ جائیں اور بیگم کا پیغام بھی ساتھ لائیں کہ ’’ان کی امی جان یعنی ہماری خوش دامن نے ہمارے گھر آنے کا اپنا ارادہ منسوخ کر دیا ہے۔‘‘
٭٭٭