ہمیشہ سے میری خواہش رہی تھی کہ میں جادو سیکھ لوں۔
جادو سے انسان کیا کچھ نہیں کر سکتا؟
انسان اپنی خواہشات کا اسیر ہوتا ہے اور جب خواہشات بغیر کسی مشقت کے حاصل ہونے لگیں تب یہی دنیا جنت بن جاتی ہے۔
ہر نارمل انسان کی طرح میری خواہشات بھی یہی تھیں کہ پیسا، گاڑی بنگلہ نوکر چاکر ہوں اور میں شہنشاہ اعظم بن کر حکم چلاؤں۔
لیکن اس سب کے لیے طویل محنت اور لگن درکار ہوتی ہے۔
جبکہ مجھے شارٹ کٹ طریقے سے سب چاہیے تھا
اور شارٹ طریقوں میں ایک جادو ہوتا ہے اور دوسرا غیرقانونی طریقے،
اور غیر قانونی طریقوں میں کامیابی سے زیادہ موت کا یقین مستحکم ہوتا ہے
جبکہ مجھے موت کی بجائے پیسے سے غرض تھی۔
تو میرے لیے بہترین طریقہ یہی تھا کہ کہیں سے جادو سیکھ لوں۔
اس مقصد کے لیے میں نے جنگل سے بیاباں تک، مسجد سے خانقاہ تک، عامل سے تانترک تک،
میں نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی۔
لیکن ہر جگہ سے دھوکے یا ڈھکوسلے ملتے تھے اور ٹھگ بازی کے نت نئے طریقوں سے مجھے آشنا کرتے تھے۔
مجھے تین سال سے زائد ہونے والے تھے ان چکروں میں پڑے ہوئے مگر ابھی تک میرا جادو سیکھنے کا شوق وہیں تھا اور میرا اندر بھی جادو سے ویسے ہی خالی تھا جیسے تین سال پہلے مگر ہاں ان چکروں میں پڑ کر میں نے اپنی گاؤں کی زمین جس سے میرا سال بھر کا خرچہ نکل جاتا تھا اس میں سے تین ایکڑ بک چکے تھے۔
اور کچھ حد تک ان ٹھگ عاملوں کے طریقوں کو بھی، سمجھنے لگا تھا۔
آج بھی میں ایک عامل کے دعوے جاننے کی کوشش میں اس کے آستانے پر گیا تھا
مجھے ایک ہفتے سے اوپر ہونے والے تھے اس عامل کے پاس جاتے ہوئے
عجیب سا نام تھا اسکا
"شُق"
لیکن ابھی تک نہ اسنے مجھے کچھ سکھایا تھا اور نہ ہی کوئی پیسے وصول کیے۔
وہ مجھے بلاتا تھا اور ساتھ بٹھا کر آنکھیں بند کرنے کو کہتا اور خود بھی آنکھیں بند کر لیتا۔
میں کئی بار چپکے سے آنکھوں کو تھوڑا سا کھول کر دیکھ لیتا تھا مگر اسکی آنکھیں بند ہوتی تھیں۔
مگر آج جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو "شُق" کہنے لگا۔
آج تک میں نے تیرے اندر چھپی ہوئی جادو سیکھنے کی یوجنا دیکھی،
اب میں تمھیں جادو سکھاؤں گا لیکن اسکے بدلے تمھیں مجھے رقم دینی ہوگی۔
میرے اندر اسکی عظمت کے جو بت کھڑے تھے وہ فوراً ڈھے گئے
اور میں نے شدید غم اور غصے سے اسکا گریبان پکڑ کر اسکے چہرے پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔
اسکا چہرہ لال بھبوکا ہوچکا تھا اور اسکی آنکھوں میں جیسے بجلی کوندنے لگی تھی۔
اسی دوران اسکے پالتو غنڈے اندر داخل ہوئے اور مجھے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔
میرے ہوش گم ہورہے تھے جب میں نے "شُق" کی للکارتی ہوئی دھمکی سنی!
حرامزادے تو نے ایک "شُق" پر انگلی کھڑی کی ہے۔
میں تیرا جینا حرام کردونگا۔
تو پل پل موت کے دروازے پر آواز دے گا اور موت تجھے میرے پاس بھیجے گی۔
لے جاؤ اسے اور پھینک دو کہیں اب یہ خود چل کر میرے پاس آئے گا اور بھیک مانگے گا۔
اسکے غنڈوں نے مجھے ایک سڑک پر پھینک دیا۔
اپنی ساری طاقتوں کو مجتمع کر کے میں نے ایک پارک کے بینچ تک رسائی حاصل کی۔
اور بیٹھ کر اسکی دھمکیوں پر غور کرنے لگا۔
اسی دوران میری جھولی میں ایک اشتہار نما پرچہ گرا۔
میں نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا ایک فقیر مجھے گھور دہا تھا۔
اور پھر اسکی سرگوشی نما آواز سنائی دی!
"تمھاری منزل تمھاری جھولی میں ہے اور ہاں جتنی جلدی کرو گے تمھارا بھلا ہوگا "
میں نے حیران ہو کر وہ پرچہ اٹھایا،
اسکے اوپر ایک پوش علاقے کی کوٹھی کا پتا تھا۔
میں نے اس علاقے میں ایک لڑکی کے چکر میں ٹیوشن پڑھائی تھی۔
تو مجھے سارے علاقے کا علم تھا۔
میں نے اس فقیر سے پوچھنا چاہا کہ وہاں کون ہے اور تم کون ہو؟
لیکن سامنے دیکھا تو کوئی نہیں تھا
سردیوں کا موسم تھا لیکن حد نظر اتنا ضرور تھا کہ اتنی دیر میں کوئی بھی شخص دوڑ لگاتا تو بھی دور نہیں جا سکتا تھا۔
مگر وہ مدقوق نما شخص گدھے کے سر پر سینگ کی مانند غائب ہو چکا تھا۔
میں نے حیران و پریشان اس پرچے کو دوبارہ پڑھنا چاہا اور میرے اوپر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
اس فقیر نے جو اشتہار نما پرچہ پھینکا تھا اب اس پر کوٹھی کے پتے کی بجائے ایک مشہور پیزا کمپنی کا اشتہار میرا منہ چڑا رہا تھا۔
حالانکہ کوٹھی کا پتا مجھے ازبر یاد ہوچکا تھا۔
میرے دماغ میں حیرت اور خوشی کے ملے جلے گھوڑے دوڑ رہے تھے۔
یوں لگ رہا تھا جیسے میری تین سال کی محنت رنگ لا چکی ہے۔
خیالی گھوڑوں کی سواری کے دوران میرے ذہن میں اس پتے پر پہنچنے کی شدید لہر اٹھی۔
اس لہر کے سامنے "شُق" کے غنڈوں کی لگائی گئی چوٹیں بے اثر ثابت ہو رہی تھیں۔
میرے دل و دماغ جیسے کسی کے ٹرانس میں آچکے تھے۔
مجھے نہیں یاد میں پارک سے کیسے نکلا،
ٹیکسی کیسے پکڑی اور اس پتے پر کیسے پہنچے،
میں ٹرانس کی کیفیت سے اس وقت باہر نکلا جب میری انگلیاں ڈور بل کے بٹن پر تھیں۔
چاہتے ہوئے بھی میں انگلیاں ہٹا نا سکا۔
اسی دوران دروازا کھل گیا۔
اور حیرت کا ایک اور نظارہ میرے دل و دماغ میں سر کر گیا۔
دروازہ کھولنے والا وہی فقیر تھا جس نے پارک میں میری جھولی میں پرچی ڈالی تھی۔
مگر اب تو اسکا حلیہ ہی بدل چکا تھا۔
کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ, فوجی کٹ بالوں میں وہ بالکل کوئی دستانوی شہزادہ لگ رہا تھا۔
میں کوئی کم نہیں تھا۔
مگر اسکی وجاہت و حسن کے آگے میں ایسا تھا جیسے چاند کی چمک کے آگے تارے ہیچ ہوتے ہیں۔
پھر ایک اور حیرت نے میرا استقبال کیا جب وہ شخص قدیم درباری جس طرح بادشاہوں کو جھک کر سلام کرتے تھے اس طرح جھکا اور بولا
" غلام کو غلام کا غلامانہ سلام"
مجھے "کُر" کہتے ہیں۔
اور میرا نام آفتاب ہے۔
میں جانتا ہوں!
اسنے مسکرا کر کہا
میں الفاظوں پر غور کرنے کی بجائے اس کے ڈیل ڈول میں کھویا ہوا تھا۔
پھر اسنے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور ایک محل کی طرح کے مکان کی طرف بڑھنے لگا۔
پھر وہ سیدھا مجھے ڈرائنگ روم میں لے گیا۔
ڈرائنگ روم کی بناوٹ اور سب سے خاص بات سجاؤٹ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
وہاں پر ایک ایک چیز لاکھوں کی تھی۔
پھر میری نظریں ادھر ادھر گھومتی ہوئی ایک پینٹنگ پر جا کر اٹک گئیں۔
میں کھڑا ہو کر اسکے قریب پہنچ گیا۔
پینٹنگ میں ایک اپسرا تھی جو جھیل میں نہانے کے بعد باہر نکل رہی تھی۔
ایک پاؤں جھیل کے اندر اور ایک پاؤں خشکی پر تھا۔
گیلا لباس بدن پر چپکا ہوا تھا جو اسکے جسمانی نشیب و فراز کو ظاہر کر کے اسکے حسن کو دو آتشہ بنا رہا تھا۔
جھیل، تنہائی، ویرانی میں وہ لڑکی ایک پری لگ رہی تھی۔
اور پینٹنگ بنانے والے کے ہاتھ سب سے باکمال تھے۔
اسنے جس طرح اس لڑکی کی تصویر کو جھیل سے نکلتے ہوئے دکھایا تھا اور پینٹنگ بنائی تھی،
کوئی بڑا سے بڑا مصور بھی اسکے ہاتھ چوم لیتا۔
میں خود بھی چھوٹی موٹی پینٹنگ بنا لیتا تھا۔
مگر جس طرح وہ پینٹنگ بنائی گئی تھی،
وہ بہت ہی باکمال ہاتھوں کی بنائی گئی تھی۔
میری نظریں ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد دوبارہ پینٹنگ میں موجود لڑکی پر پڑیں۔
اس لڑکی میں ایک کشش تھی جو مجھے اپنی جانب بلا رہی تھی۔
اسی دوران دروازہ کھلا اور میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا تھا۔ آفتاب نام تھا اسکا۔ ان دنوں میں ایک کہانی لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں جیسے کوئی خیال نہیں آرہا تھا۔ سارا دن مختلف کہانیوں کے پلاٹ بنائے کوئی بھی پلاٹ ایسا نہیں جچا کہ میں کہانی مکمل کرتا۔ پھر تنگ آکر شام کو ایک پارک میں بیٹھا تھا میری عادت تھی جہاں بیٹھتا تھا آنکھیں بند کر کے کوئی نیا پلاٹ سوچنا شروع کر دیتا تھا۔
اس وقت بھی میں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔
جب ایک نوجوان میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور بولا
کہانی چاہیے؟
میں جو اپنے خیالوں میں مگن تھا چونک پڑا ہاں مگر تم کون ہو؟ تمھیں کیسے پتا میں کہانیاں لکھتا ہوں؟ اور کہانی کیا ہے؟
اب میں نے غور سے اسکی طرف دیکھا۔
اچھا خاصا خوبصورت نوجوان تھا۔
مجھے لگا کوئی عشقیہ کہانی ہوگی۔
وہ ہنس پڑا اتنے سوال عامر صاحب!
میرا نام آفتاب ہے۔
مجھے پتا ہے آپ لکھاری ہیں۔
کیسے پتا چلا یہ آپ میری کہانی سن کر جان لیں گے۔
اور کہانی وہ عجیب سی ہے۔
مجھے نہیں معلوم آپکے معیار کی ہوگی یا نہیں۔
لیکن میں اپنا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔
آپ کہانی سنیں گے نا۔
میں تو خود کہانی کی تلاش میں تھا
ہاں ہاں کیوں نہیں!
شکریہ عامر صاحب میری کہانی اسی بینچ سے شروع ہوئی تھی۔
یہی بینچ تھا جس پر میں "شُق" کے غنڈوں سے مار کھا کر بیٹھا تھا۔
اور "کُر" نے میری جھولی میں ایک جادوئی پرچہ ڈالا تھا۔
ایک منٹ آفتاب صاحب میں معافی چاہتا ہوں پر مجھے نہیں پتا یہ "شُق" اور "کُر" کون تھے۔
آپ کہانی کو تسلسل میں بیان کریں۔
آپ کہانی کو شروع سے کیوں نہیں بتاتے۔
اوہ اچھا میں شروع سے بتانا شروع کرتا ہوں۔
اسنے کہا اور یہاں پہنچ کر خاموش ہوگیا تھا۔
آفتاب صاحب آگے کیا ہوا تھا۔
آگے کی کہانی کل اسی وقت جس وقت آج ملے!
یہ کہہ کر وہ ایک طرف چل پڑا تھا۔
آج میں مقررہ وقت سے پہلے وہاں پہنچ گیا تھا۔
میں اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا۔
جب مجھے آفتاب کی آواز سنائی دی۔
مجھے نہیں پتا تھا وہ کب آیا۔
میں چونک کر اسکی طرف دیکھنے لگا تھا۔
وہ بول رہا تھا۔
بہت خوبصورت تھی وہ نہاتی ہوئی لڑکی۔
میں نے سوچ لیا تھا جو بھی اس پینٹنگ کا مالک ہوگا اس سے یہ پینٹنگ مانگ لونگا۔
اس لیے نہیں کہ وہ پینٹنگ مہنگی تھی
بلکہ اس لیے کہ مجھے اس تصویر والی لڑکی سے محبت ہوگئی تھی۔
ہاں پہلی نظر میں محبت کر بیٹھا تھا۔
کئی لڑکیوں کے ساتھ میں نے موج مستی کی تھی پر اس جیسی کبھی سوچی بھی نا تھی۔
دروازہ کھلا تو میری سانسیں ہی رک گئی تھیں۔
یہ وہی لڑکی میرے سامنے آچکی تھی جو نہا رہی تھی۔
میں نے تو تصویر دیکھ کر دل دے دیا تھا۔
اور میرے سامنے وہ اپسرا جیتی جاگتی آچکی تھی۔
میری تو زبان ہی گنگ ہو کر رہ گئی تھی۔
اسنے مجھے پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
اب میں اسے یک ٹک گھور رہا تھا۔
تو آفتاب صاحب کیسی لگی آپکو میری پینٹنگ،
اسکی آواز تھی کہ کوئی جادو میرے کانوں میں جلترنگ سے بج اٹھے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ پینٹنگ میں کسی مصور کا کمال ہے۔
پر آپ کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ مصور کا کمال بالکل نہیں تھا۔
آپ ہیں ہی ایسی کہ جس تصویر میں آپ ہونگی وہ تصویر خوبصورتی کا معیار بن جائے گی۔
مجھے اپنی آواز کھوکھلی محسوس ہو رہی تھی۔
ایسے لگتا تھا میرے اندر کوئی عاشق چھپا بیٹھا ہے۔
اور جب سے میں اس مکان میں داخل ہوا تھا "شُق" کے غنڈوں کی لگائی گئی چوٹیں بھول چکا تھا۔
اوہ آپکو تو کافی بڑی چوٹ لگی ہے۔
آپ کے ماتھے سے تو خون نکل رہا ہے۔
مجھے تو اب یاد آیا کہ مجھے چوٹ لگی ہے ورنہ پہلے تو مجھے سب بھول چکا تھا۔
میں نے ماتھے پر انگلیاں پھیریں تو میری انگلیاں خون سے بھر گئیں۔
آپ کچھ نہ کریں۔
اسنے "کُر" کو آواز دی۔
وہ جیسے باہر اسی آواز کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ فوراً اندر داخل ہوا،
جی میڈم
اسکے زخم ٹھیک کرو۔
جی میڈم
اسنے کہا اور میرے قریب آگیا۔
پھر کچھ منہ میں بربڑایا اور پھر میرے اوپر پھونک مار دی۔
اور مجھے ایسے لگا جیسے مجھے کبھی کوئی چوٹ لگی ہی نہیں تھی۔
میں نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا وہاں پر اب کچھ بھی نہیں تھا۔
اب وہ لڑکی دوبارہ بولی،
کھانا لاؤ ہمارا خاص مہمان آیا ہے آج!
یہ سن کر "کُر" نے مجھے گھورا اور ایک انگلی کو گول گھمایا۔
میں نے سامنے دیکھا تو میز مختلف انواع کے کھانوں سے بھر چکی تھی۔
اب تم جاؤ
اسنے "کُر" سے کہا۔
وہ چلا گیا۔
وہ میرے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔
آپ کھانا کھائیں،
اور میرے لیے اسکا یہ حکم جیسے اپنے سب کاموں سے پیارا تھا۔
میں کھانے پر ٹوٹ پڑا۔
تب وہ بولی میرا نام
ماہ نور ہے
ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی۔
"شُق" سے پنگا لے کر تم نے اچھا نہیں کیا۔
وہ بہت ہی طاقتور جادوگر ہے۔
اگر "کُر" نہ ہوتا تم مر چکے ہوتے۔
اسنے تمھیں تین خطرناک جادو کے حملوں سے بچایا ہے۔
اس حویلی میں داخل ہونے کے بعد وہ تم پر حملے نہیں کر سکتا۔
پر تم جیسے ہی باہر جاؤ گے اسکے حملے سے بچ نہیں سکو گے۔
مگر ایک صورت ہے اگر "شُق" کو مار دیا جائے تو تب تم بچ سکتے ہو۔
اور اسے مارنا تمھیں پڑے گا۔
میں کیسے مار سکتا ہوں میں تو باہر نکلوں گا اور وہ مجھے مار دے گا۔
یہ کام "کُر" کیوں نہیں کرتا؟
اسکے حسین چہرے پر برہمی کے آثار نظر آنے لگے۔
اسنے کہا تمھیں کیا پتا جادوئی دنیا کا۔
جادوئی دنیا کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔
اور جادوئی دنیا میں مختلف جادو کوتے ہیں۔
جادو چار قسم کا ہوتا ہے۔
کالا، پیلا، نیلا اور سفید جادو۔
ان میں سے سب سے خطرناک جادو سفید ہوتا ہے۔
پہلے مرحلے میں کالے جادو پر عبور حاصل کرنا پڑتا ہے۔
کالے جادو کے آٹھ مرحلے ہیں۔
ہر اگلہ مرحلہ پہلے سے بہت سخت اور بہت زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
کالے جادو کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے والا "کُر" کہلاتا ہے۔
اور دوسرا مرحلے والا "شُق" کہلاتا ہے۔
جس سے تم نے لڑائی کی ہے وہ "شُق" ہے۔
اور جو تمھیں ہمارے پاس لایا ہے وہ درجے میں "کُر" کہلاتا ہے۔
"کُر" ، "شُق" سے کافی کمزور ہوتا ہے۔
مگر ہمارے "کُر" کو اسکے استاد نے کچھ طاقتیں دان کی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ تمھیں بچانے میں کامیاب رہا ہے۔
اور جادوئی دنیا کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔
جس جگہ ایک جادوگر اپنا گھر یا ٹھکانا بنا لیتا ہے اس پر دوسرا جادوگر حملہ نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اس پر حملہ نہیں کر سکتے اور نہ وہ ہم پر۔
اس لیے اگر زندہ رہنا ہے تو تمھیں خود اسے مارنا پڑے گا۔
لیکن میں تو جیسے ہی باہر جاؤں گا۔
وہ مجھے اپنے جادو کے ڈر سے مار ڈالے گا۔
نہیں وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکا ہے۔
تمھیں اسنے ایک ہفتہ اپنے سامنے بٹھا کر پھونکیں ماریں تھیں۔
ہاں تو؟
تو اس کی اس پھونکوں نے تمھارے دماغ کا راستہ بند کر دیا ہے۔
کیا مطلب؟
مطلب اب کوئی جادوگر تمھارے دماغ میں نہیں جھانک سکتا۔
اس لیے تم "شُق" کے پاس جاؤ گے اسکے غنڈوں کو بولو گے کہ تم معافی مانگنے آئے ہو اور جتنے پیسے وہ جادو سکھانے کے لیے مانگے گا وہ دینے کو تیار ہو۔ اور اپنے پاس ایک خنجر چھپا کر جاؤ گے۔
اور جب بھی جس دن بھی تمھیں موقع ملے گا تم نے اسکی گردن کاٹ دینی ہے۔
یاد رہے وار صرف گردن پر کرنا ہے۔
پیٹ میں یا کہیں بھی وار کرو گے تو وہ منتر پڑھنے کے قابل رہے گا اور پھر وہ خود کو بھی بچا لے گا اور تمھیں بھی مار ڈالے گا۔
اور یہ سب کام آج ہی کرنے ہیں۔
میں اسکے چہرے میں کھویا ہوا تھا۔
چلو اٹھو تیاری کرو،
وہاں جا کر یہی کہنا ہے کہ تم کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہو گئے تھے۔
ہوش میں آکر سیدھا اسی کے پاس پہنچے ہو۔
اسکے بعد "کُر" نے مجھے ایک خنجر دیا اور بہت ساری چیزیں سکھائیں۔
پھر اسنے مجھے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔
میں پل پل بدلتے حالات پر حیران تو تھا ہی پر "کُر" کی آواز پر میں نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں۔
میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
کیونکہ میں "شُق" کے اڈے کے باہر موجود تھا۔
خنجر پر میری گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔