امی میری عزت تو بچ گئی ہے لیکن بابا کی صحت چلی گئی ہے ٬یہ سب میری وجہ سے ہوا عائشہ کے آنسو اپنی شدت کے ساتھ رواں تھے امی میں نے بابا کی پگڑی کو زمین بوس نہیں ہونے دیا میں نے اپنی جان پر کھیل کر اپنی عزت بچائی ہے۔۔
امی دیکھیں کیسے اس نے مجھے گردن سے دبوچا ہے لیکن مجھے آپ کی دعاؤں نے بچایا ہے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی چیز مجھے اس شخص کے شر سے بچا رہی تھی۔۔۔
میری بچی تو ہماری آنکھوں کا تارہ ہے ہمیں تم پر پورا بھروسہ ہے ۔ امی نے اپنے سینے میں لپٹا لیا۔۔۔اور خوب روئیں امی محلے میں تو کسی کو نہیں پتا یا کسی رشتہ دار کو؟؟؟ نہیں ہم نے کسی کو نہیں بتایا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میری بچی واپس آ گئی ہے۔۔۔امی وہ عبداللہ تھا بسیلہ احمر کا چاچو جس نے مجھے اغواء کیا تھا ۔۔لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی ہے مجھے شک تھا کہ لیکن میں نے اپنی زبان سے کچھ نہیں نکالا میں نہیں چاہتی تھی یہ امیر لوگ الٹا ہمیں ہی بد نام کریں۔۔۔
امی اس نے مجھے نکاح کرنے کو کہا تھا لیکن میں نے صاف انکار کردیا میں کبھی بھی اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دوں گی میں تو کیپٹن مغیث کی امانت ہوں۔۔۔
کیپٹن مغیث کا سن کر امی کے رونے میں مذید تیزی آ گئی۔۔۔
کیپٹن مغیث کا نام سن کر امی کے رونے میں مزید تیزی آگئی امی مجھے معاف کر دیں میری وجہ سے آپ تکلیف سے گزر رہی ہیں میں نے تو کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہو جائے گا نہ میری بچی٬میری گڑیا تیرا کوئی قصور نہیں ہے یہ بس اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ہمیں تو ہر حال میں اس کا شکر گزار بننا ہے مصیبت کے وقت صبر میں اجر و ثواب ہے اوردرجات کی بلندی ہے میری جان۔۔۔۔
کل رات کو ہی مغیث نے سیاچین میں دشمنوں سے لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا ہے اس کے گھر والوں نے فجر کے وقت اطلاع دی ہے جب تیرے بابا فجر کی نماز کے لئے مسجد گئے تھے عائشہ کی تو جان مٹھی میں جیسے آگئی۔اپنی ماں کے ہاتھ کی گرفت کو ڈھیلا کردیا ایسے لگ رہا تھا جیسے زمین و آسمان گھوم رہے ہیں دماغ ماؤف ہو گیا٬ ماں کی آواز کہیں دور سے سنائی دے رہی تھی امی یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔
اللہ میرے لئے آسانی کر، مجھے صبر دے.!!!!
""اے اللہ میری پریشانی اورغم اور عاجزی اور سستی اور کنجوسی اور بزدلی اور قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ کی طلبگار ہوں"" صحیح بخآری:2329
عائشہ نے مسنون دعا کا ورد شروع کردیا صبر کر میری بچی میری جان اللہ انکو ہی آزماتا ہے جن کو پیار کرتا ہے٬ تو ڈٹی رہ میری بچی۔۔یہ محض وقتی ہے مومن کے لیے دنیا تو ایک قید خانہ ہے٬ ہماری اصل منزل تو جنت ہے جس کے لئے ہم نے اپنا رخت سفر تیار کرنا ہے دونوں ماں بیٹی کی آنکھیں برس رہی تھیں لیکن کلمہ حق سے گریز نہ کیا ٬اپنے رب کو ہی پُکارا جو اکیلا ہی بگڑی بنانے والا ہے نرس نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔
عائشہ نے اپنے بوڑھے باپ کو نالیوں میں جکڑے پایا تو دل تڑپ اٹھا بابا کے ہاتھوں کو ہلکے سے بوسہ دیا نرس نے بات چیت نہ کرنے سے منع کردیا بابا کب آنکھیں کھولیں گے ؟؟؟
عائشہ نے نرس سے پوچھا۔۔۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا بس دعا کریں ٬نرس نے باہر آ کر جواب دیا ۔۔۔
عبداللہ ہسپتال والوں کے ساتھ رابطے میں تھا ہر ایک بات سے با خبر تھا۔۔۔فارم ہاؤس کے نوکر چاکر سب کو واپس بلا لیا اور خود شہر واپسی کی ٹھانی۔۔۔عائشہ کی ایک ایک بات کانوں میں گونج رہی تھی ٬فون نکال کر اس میں محفوظ ریکارڈنگ چلا دی۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی آنسوؤں نے اس کے گالوں پہ لڑکنا شروع کر دیا ٬عبداللہ جیسا مضبوط مرد جو دوسروں کو ناکوں چنے چبواتا تھا آج خود بے بس ہو گیا تھا
باہر ڈھلتے سورج کا نظارہ اس کو اور بھی دکھی کئے جا رہا تھا اس کے دل کا سکون اطمنان کوسوں دور چلا گیا سروس سٹیشن پر گاڑی روک کر نمازکا پوچھا ۔۔ کتنے سالوں بعد آج وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہتا تھا اپنی تمام کوتاہیوں اور برائیوں کی سچے دل کے ساتھ توبہ کرنا چاہتا تھا مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر کی راہ لی۔۔۔
ہسپتال سے فون آیا سر مریض کی حالت بہت خراب ہے ہوسکتا ہے ہمیں چھوٹا سا آپریشن کرنا پڑے جس کے لیے ہمیں مزید رقم درکار ہے .....میں دو گھنٹے میں جتنی رقم آپ کو چاہیے پہنچاتا ہوں آپ بس مریض کو بچائیں۔۔ عبداللہ پچھتاووں کی دلدل میں دھنستا جارہا تھا ظہیر سمیر کو فون کرکے اس نئی صورت حال سے آگاہ کیا ہے کہ جتنی رقم درکار ہے پہنچائیں۔۔۔میں شہر پہنچتے ہی لوٹا دوں گا۔۔ رقم تو پہنچ گئی ۔۔۔ لیکن اللہ کی رضا کچھ اور تھی عائشہ کے بابا اللہ کو پیارے ہوگئے ۔۔۔ تمام رشتہ داروں کو بیماری کی اطلاع پہنچا دی لیکن سب کو پتا تھا انکو پیسوں کی ضرورت ہے تو انہوں نے بے حسی کی تمام حدیں پار کر دیں ۔۔۔
عائشہ مرے مرے قدموں کے ساتھ پیسوں کا پوچھنے کے لیے معلوماتی ڈیسک پہ آئی تو انہوں نے کہا کہ تمام اخراجات جمع ہوچکے ہیں عائشہ کے اصرار کے باوجود بھی انہوں نے معذرت کر لی اور اسکو کچھ نا بتایا محلے والوں نے کفن دفن کا انتظام کیا٬٬٬ بابا کی موت پر رشتہ داروں نے تھوڑی بہت دنیا داری دکھا دی۔۔۔۔
عائشہ کے بابا منوں مٹی تلے دفن ہو چکے تھے چاروں ماں بیٹی تن تنہا دنیائے فانی میں آزمائش سے دوچار تھیں وہ گھر جس میں تینوں بہنوں کی کھنکھناتی ہنسی اور چٹکلے سب کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر تے تھے صفِ ماتم بچھ چکا تھا صرف ایک رات نے سب کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی۔۔۔عائشہ نے اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال کر تہیہ کر لیا تھا کے اپنی ماں اور بہنوں کو ایک کانٹا بھی چھننے نہ دے گی۔۔ سب کی ڈھارس بندھا رہی تھی لیکن خود کرچی کرچی ہو چکی تھی ۔۔۔۔
ارے عبداللہ تم اتنی جلدی آگے فام ہاوس سے ؟؟؟ جی بھیا!!!
کیا ہوگیا ہے تمہارا چہرہ کتنا اترا ہوا ہے اور ناک بھی کتنی سوجھی ہوئ لگ رہی ہے جی بھیا بس ایسےہی ٹکر لگ گئی تھی۔۔۔
لیکن میں بالکل ٹھیک ہوں آج پارٹی وارٹی کا کوئی ارادہ نہیں میرے لاڈلے کا ؟؟؟؟نہیں بھائی آج میں گھر پہ ہی ہوں ۔۔۔ کیوں آپ کہیں جا رہے ہیں؟؟ ہاں بس دعوت پہ جانا ہے تم بسیلہ احمر کو زرا دیکھ لینا ۔۔۔آپ بے فکر ہو جائیں ہماری واپسی تھوڑی دیر میں ہو گئ بھابھی نے لقمہ دیا کوئی بات نہیں بھابھی آپ لوگ بے فکر ہو کر جائیں میں ادھر ہی بیٹھا ہوں ۔۔ بھیا بھابھی کے لیے یہ نیا فرمابرداری والا رویہ ہضم کرنے میں تھوڑی دقت ہو رہی تھی بھابھی سے رہا نہ گیا عبداللہ تم کتنے بدل گئے ہو ؟؟؟؟ عبد اللہ بس پھیکی ہنسی ہنسا ۔۔۔
گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی غیر معمولی شورنے اسے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔۔کیا ہوگا کیوں چلا رہی ہو؟؟؟ صاحب جی ظلم ہو گیا آخر ہو کیا گیا ؟؟؟بچے تو ٹھیک ہیں نا ؟؟؟
وہ تو سورہے ہیں صاحب جی!!! تو پھر بتاؤ؟؟؟ صاحب آپ نے فون نہیں اٹھایا تو اسپتال والوں نے گھر کے نمبر پہ فون کر کے اطلاع دی کے بڑے صاحب اور بیگم صاحبہ کار حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔۔۔
کیا کہہ رہی ہوتم ؟؟دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟؟؟
صاحب جی آپ ہسپتال والوں کو فون کر کے تصدیق کر لیں۔۔۔
آج تو بھائی بھابی کو گئے تین دن گزر گئے بسیلہ احمر کو سنبھالنا ٬ باقی کاروباری معاملات ٬ اور لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ۔۔۔۔۔۔
عبداللہ بالکل تن تنہا رہ گیا تھا والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے بھائی نےباپ بن کرپالا۔۔ اس کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ۔۔۔روز رات عائشہ کی باتیں اس کے دماغ میں گردش کرتیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔ بار بار یہ جملہ اس کے کانوں سے ٹکراتا۔۔۔۔
یا اللہ مجھے معاف کردے میں نے بہت بڑا ظلم کیا میں نے اس پاکیزہ لڑکی کو اذیت سے دوچار کیا ۔۔۔میرے مالک مجھے اپنے دین کی سمجھ اور عمل کی توفیق دے اور اس لڑکی کے لئے آسانیاں پیدا کر آمین۔۔۔۔شراب نوشی سگریٹ نوشی موسیقی کا دلدادہ عبداللہ غم کی تصویر بن گیا٬وہ اللہ کی گرفت میں آچکا تھا۔۔۔۔
دن بھر بچوں کے سوال جواب عائشہ کا رونا اور اس کی التجائیں اسے سونے نہ دیتی۔۔۔
چاچو آپ کو پتا ہے کہ ٹیچر عائشہ کیا کہتی تھی ؟ نہیں مجھے تو نہیں پتہ آپ بتاؤں ؟وہ کہتی تھی مصیبت کے وقت اللہ سے استغفار کرنا چاہئے یہ ہمارے گناہ ہوتے ہیں جو ہمیں بے چین رکھتے ہیں آپ کی ٹیچر تو ٹھیک کہتی تھی۔۔۔ چاچو آپکوپتا ہے کہ وہ آپ کی وجہ سے ہمارے گھر نہیں آتیں۔۔
یاد ہے نا جب آپ کمرے میں آ گئے تھے تو وہ کافی غمگین ہو گئی تھی لیکن پھر بھی وہ ہمیں پڑھاتی رہی تھی لیکن ہم نے دیکھا تھا کے ان کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے لیکن وہ ہم سے چھپ کر صاف کر لیتی تھیں ۔۔۔۔
عبداللہ نے دونوں کو اپنی باہوں میں سمیٹا اور بولا میں آپ کو ٹیچر عائشہ کی طرح پڑاھوں گا۔۔نہیں چاچو آپ ٹیچر عائشہ جیسے تو نہیں ہیں۔۔۔۔
میں آپکو ٹیچر عائشہ سے بھی بہتر ٹیچر ڈھونڈ کے دوں گا۔۔۔ نہیں ہمیں وہی ٹیچر عائشہ ہی چاہیے۔۔بچوں نے زد کی ۔۔ یہ تو بہت مشکل ہے۔۔۔
ہم تو دعا کریں گے کہ ہمیں ٹیچر عائشہ ہی پڑھائیں وہ ہمیں بہت پیار کرتی تھی وہ بہت اچھی اچھی باتیں بتاتی تھی جو آپ اور ماما نے بھی کبھی نہیں بتائی۔۔۔
عبداللہ کے دل میں ایک ہوک اٹھی۔۔۔
امی اب ہم باہر نہیں جائیں گے میں آپ کے ساتھ مل کر سلائی کا کام کروں گی ساتھ ساتھ بچوں کو گھر میں ہی پڑھاؤں گی انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے کوئ بھی فکر مند نہ ہو ۔۔۔۔
سبین تم اچانک کدھر چلی گئی تھی اندر داخل ہوتے ہی عائشہ نے اسکو گلے لگا ۔۔۔۔۔بس میری باجی کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی تھی تو مجھے کراچی جانا پڑگیا تھا ۔۔۔تم سناؤ ؟ ہاں بس سب اللہ کا شکر ہے۔۔ تمھارے بابا کا سن کر کافی افسوس ہوا ہے۔ ہاں بس سبین جیسے اللہ کی رضا مندی الحمدللہ۔۔۔
بسیلہ احمر تمھیں بہت یاد کرتے ہیں۔تم نے کیوں چھوڑ دیا ان کو پڑھانا وہ ہر وقت تمہیں یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔ تمھاری سکھائی ہوئی باتیں دھراتے رہتے ہیں اور جو بھی ملتا ہے اسکو بڑے فخر سے بتاتے ہیں۔۔۔۔
میں ابھی انکی طرف سے ہی آ رہی ہوں۔۔تمہیں پتا ہے انکے پیرنٹس کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے ....کیا ؟؟؟؟؟مجھے تو نہیں پتہ چلا تم جاتی جو نہیں ہو انکی طرف سبین نے بولا
عائشہ نے شکستہ لہجے میں جواب دیا ہاں تم صحیح کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ مجھے بہت افسوس ہوا ہے انکے والدین کا سن کر ۔۔۔
انہوں نے عبداللہ کو دن رات ستایا ہوا ہے ٹیچر عائشہ کو بلاؤ یا ہمیں ان کے گھر چھوڑ کر آ ؤ ۔۔۔
ویسے تم نے انکو پڑھانا کیوں چھوڑ دیا ؟؟ وہ تم سے بہت مانوس ہو گئے ہیں۔۔۔ بس امی کو گھر میں میری مدد کی ضرورت تھی تو چھوڑ دیا ۔۔ عائشہ نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ کے بابا اور بسیلہ احمر کے والدین کو گئے چار مہینے گزر گئے عائشہ جب بھی اس رات کا سوچتی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور عبداللہ کے لیے شدید نفرت دل میں جڑ پکڑتی۔۔ کیپٹن مغیث کے چھوٹے بھائی لیفٹینٹ معاذ کا رشتہ آیا جس کا عائشہ نے انکار کر کے رقیہ کا رشتہ پکا کروا دیا کہ جب تک میری بہنیں اپنے گھروں والی نہیں ہو جاتی میں شادی نہیں کروں گی ۔۔۔۔ ہمارے گھر میں جتنا بھی طوفان آیا ہے میری وجہ سے ہوا میں نہیں چاہتی میری بہنیں اس طوفان کی زد میں آئیں۔۔۔
عائشہ میری جان تمہیں کتنی دفع بولا ہے اس طرح مت سوچو مت کرو اپنے آپ کو مجرم ثابت ٬ تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں تھا تقدیر کا لکھا تھا ۔۔۔۔
امی میں چاہتی ہوں دونوں چھوٹییاں اپنے اپنے گھر سدھار جائیں۔۔ہم نے کونسا دھوم دھام سے شادی کرنی ہے سادگی سے نکاح کرنا ہے ۔۔۔ 20 سالہ رقیہ اپنی کے شادی بعد کوئٹہ سدھار گئی جبکہ 19؛سالہ زینب بھی معاذ کے خالہ زاد سے منسوب ہو گئی چند ہفتوں میں وہ بھی پیا دیس سدھار گئی٬ دونوں کے لاکھ سمجھانے پر بھی عائشہ نا مانی اور انکو رخصت کروا دیا ۔۔ میں چاہتی ہوں آپ دونوں پھولوں پھلو اور خوش رہو۔۔۔۔
سبین بھی اپنے پیا سدھارنے کے لیے اپنے پر تول رہی تھی شادی کی تیاریاں زوروشور پکڑ چکی تھی ہر وقت عائشہ کا سر کھاتی کہ ہماری طرف آؤ اور شاپنگ کے لیے چلتے ہیں لیکن عاشہ ہر مرتبہ اس کو ٹال دیتی مجھے نہیں جانا سبین پلیز۔۔۔۔
مجھے نہیں پتا اب تم نے نکاح والے دن لازمی آنا ہےتمھاری وجہ سے سارا انتظام الگ الگ رکھا۔۔۔ یہ ایک تم اور ایک وہ مولوی عبداللہ دونوں ہماری جان کو آگئے ہو .... پوچھے بغیر سبین تفصیل بتا رہی تھی۔۔
اب تو میرے ساتھ بھی بات نہیں کرتا کہتا ہے محرم اور غیرمحرم ٬اللہ کی حدیں یہ اور وہ !!!!
عائشہ نے بات بدلنا چاہی یہ دیکھو تمہارے سوٹ تیار ہیں دن رات لگا کر بڑی نفاست سے باقی سوٹوں کو سلائی کیا ہے پہن کر دکھاؤ تاکہ ان کی کمی بیشی کو دور کیا جائے ۔۔۔
عائشہ ویسے تمہیں ایک بات کہوں پلیز برا مت ماننا عبداللہ کا تم سے جوڑ بہت اچھا بنتا ہے۔۔ تم دونوں کی تعلیم٬ عمر اور سوچ بھی ایک جیسی ہے۔۔۔۔دونوں نے صرف بی۔ اے ہی پاس کیا ہے موقع اسکو بھی نہیں ملا پڑھائی کا اور تم بھی نہیں پڑھ پائی۔۔۔ نہیں سبین میں شادی نہیں کرنا چاہتی ابھی۔۔۔
تم نہ بولتی ہو تو بولو میں تمہاری امی سے بات کیے بنا نہیں جاؤں گی۔۔۔
سبین میں سنجیدہ ہوں مجھے عبداللہ سے شادی نہیں کرنی۔۔ تو پھر کس سے کروں گی ؟؟؟کونسا شہزادہ گلفام اترے گا آسمان سے ؟؟ جو تم نے عبداللہ سے نہیں کرنی شادی؟؟؟
میں نے پہلے کبھی یہ بات پوچھی تھی تم سے؟؟؟ کیونکہ مجھے پتہ تھا اس کے کرتوتوں کا ... لیکن بھائی بھابھی کی موت کے بعد وہ ایک مختلف انسان ہے۔۔۔ امی اکثر اس کی طرف جاتی ہیں اور اس کے ادب و اخلاق سے کافی متاثر ہے پچھلے ہفتے عمرہ کرکے آیا ہے بسیلہ احمد کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا۔۔۔ قرآن کی تفسیر اور حدیث کے درس و تدریس اس کا معمول ہے.... نماز پڑھتا ہے... یتیم خانہ کھول رکھا ہے اور فلاحی کاموں میں اپنا حصّہ ڈالتا ہے ۔۔۔
نسیم بیگم یہ سب باتیں سن چکی تھی کیونکہ سبین بہت جوش و خروش کے ساتھ عائشہ کو منانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ سبین اس نے تمھیں بولا ہے کہ تم میرے ساتھ رشتے کی بات کرو ؟؟؟ اس نے تو نہیں کہا لیکن مجھے یقین ہے کہ تم اس کے لیے بہترین لڑکی ہو سبین میں عبداللہ سے شادی نہیں کر سکتی۔۔۔ لیکن کیوں عائشہ ؟؟؟؟
چلو میں تمہیں وقت دیتی ہوں سوچنے کا۔۔۔۔۔
تم رہنے ہی دو سبین !!!! مجھے پیسے کی ہوس میں اندھے لوگ نہیں اچھے لگتے جو باقی مخلوق کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے پھرتے ہیں وہ اپنی ہر خواہش پیسے سے خریدنا خریدنا چاہتے ہیں۔۔۔ سبین دل پیسوں سے نہیں خریدے جا سکتے۔۔۔۔
عائشہ تم تو ایسے کہ رہی ہو جیسے تم عبداللہ کو سالوں سے جانتی ہو وہ ایسے ہی تھا لیکن اب تو تراشہ ہوا ھیرا ہے ۔۔وہ پرانے والا عبداللہ نہیں رہا کاش میں تمیں اسکا نیا روپ دکھا سکوں۔۔۔ اچھا چلو یہ دوسری قمیض پہنو! اس
کا گلا دیکھو کتنا اچھا ہے ۔۔عائشہ نے جان چھڑانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے جبکہ سبین اندھر آتی نسیم بیگم کو ساری معلومات دینے میں کوشاں تھی۔۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھاکہ آج ہی عائشہ کا نکاح کروا دے ۔۔۔۔
جبکہ عائشہ سال پہلے گزری وہ اذیت ناک رات سوچ رہی تھی جو ہر رات اس کو چھلنی کرتی تھی۔۔ امڈتے آنسو چھپاتے ہوئے وہ چاے کے بہانے سے کمرے سے نکل آئی۔۔۔امی میرا دل ہے آپ کو کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک کروا لوں تاکہ اصل بیماری کا پتہ چلے روز روز ہاتھوں کا سن ہونا اچھا تو نہیں ہے ۔۔ کیوں پریشانی کرتی ہو۔۔۔
نہیں امی میں آج تو ضرور جائیں گے انشااللہ۔۔
بلڈ ٹیسٹ کرواکے لیبارٹری سے نکل کر کوریڈور میں آئی تھی کے پیچھے سے کسی نے ٹانگوں کے ساتھ چپکنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔بڑی مشکل سے اپنی چیخ روک پائی۔۔۔ ٹیچر ٹیچر کرتے بسیلہ احمر اس کی ٹانگوں کے ساتھ لگ کر نہال ہو رہے تھے ۔ارے آپ دونوں نے مجھے حجاب اور نقاب میں کیسے پہچان لیا؟؟؟ ٹیچر ہم تو آپ کو آپ کی چال سے پہچان جاتے ہیں... دونوں شوخ چنچل معصوم بچے پھول کی طرح کملا گئے تھے... عائشہ نے اپنی ٹانگوں سے ہٹا کر دونوں کو گلے سے لگا لیا۔۔۔ اکیلے کیا کر رہے ہو ادھر ؟؟؟؟عائشہ نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ہم تو چاچو کے ساتھ آئے ہیں وہ ڈاکٹر انکل کے پاس بیٹھے ہیں کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
تو آپ کو ایسے کسی کے پاس اکیلے نہیں جانا چاہیے آپکو پتہ کچھ لوگ برے بھی ہوتے ہیں جو آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ۔۔ ہم تو چاچو کو بتا کر آئے ہیں۔۔
ہم نے آپ کو اس وقت دیکھ لیا تھا جب آپ لیباٹری جا رہی تھی سوچا ہم آپ کی واپسی کا انتظار کریں گے اس نے دونوں کو اپنے سینے سے دربارہ لگا لیا آپ کو پتا ہے ہم نے چاچو کو کتنا بولا تھا کے آپ کو واپس بلا لیں لیکن وہ ہر وقت ٹالتے رہتے ہیں ٹیچر آپکو پتہ ہے کہ ہماری مما اور ڈیڈی اللہ کے پاس چلے گئے ہیں ۔۔۔ ہاں مجھے پتا ہے ۔۔عائشہ کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔۔۔۔
آپکو پتہ ہے کہ ہمارے چاچو کتنے اچھے ہیں۔۔۔ نہیں مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔عائشہ نے جان چھڑانی چاہی ۔۔۔وہ بہت اچھے ہیں۔۔ دونوں نے ہاتھ پھیلا کر آنکھیں پھیلائییں۔۔۔بے اختیار عائشہ کی اور امی کی ہنسی نکل گئی آپ دونوں اچھے ہو اس لیے آپ کو سب اچھے لگتے ہیں دونوں اپنے چاچو کے پاس واپس جاؤ ۔ میں ادھر ہی ہو جب تک آپ اندر نہیں چلے جاتے ۔۔۔۔ٹیچر آپکو پتہ ہے ہم ہر روز آپ کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔۔۔ اچھا کون سی دعائیں؟؟؟
یہی کے آپ واپس آجائیں ہمارے گھر اور ھمیں پڑھائیں ہم روز سونے سے پہلے یہ دعا مانگتے ہیں۔۔۔ عائشہ کا دل چاہا کہ دھاڑیں مار مار کے رویے بچوں کو گلے لگاکر الوداع کیا ۔۔۔نسیم بیگم کا بھی دل دہل گیا معصوم بچوں کی باتیں سن کر۔ دونوں ماں بیٹی نے رکشہ لیا اور گھر کی راہ لی ۔۔۔
گھر پہنچ کر امی نے عائشہ کو آڑے ہاتھوں لیا عائشہ تم عبداللہ کو معاف کردو۔۔۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ۔۔۔اپنی غلطی کا خمیازہ وہ بہت بگھت چکا ہے سبین نے ساری تفصیلات دی ہیں مجھے میری زندگی کا کوئی پتا نہیں میں چاہتی ہوں تم اپنا گھر بسا لو۔۔ چھوٹی بہنوں کی پہلے شادی والی شرط بھی میں نے پوری کردی اب میں چاہتی ہوں کے تم اپنے گھر کی ہو جاؤ عائشہ نہ چاہتے ہوئے بھی دھاڑ کر روئی اور امی کے گلے لگ گئی۔۔امی بہت مشکل ہے عبداللہ کو معاف کرنا مجھے شدید نفرت ہے اس سے۔۔۔ اس کی وجہ سے میری زندگی کانٹوں سے بھر گئی ہے لیکن اب تو سارے کانٹے نکلتے جا رہے ہیں۔۔۔ وقت بہت بڑا مرہم ہے میری جان اب تو پورا سال گزر چکا ہے میرے زخم ابھی بھی تازہ ہیں ٬٬گھاؤں ہیں میرے سںینے کے اندر۔۔۔
صلہ رحمی کرو میری بچی اللہ کی خوشنودی کے لئے اسکو معاف کردو۔۔ عائشہ کو سینے سے لگا کر اس کی ڈھارس بندھائی تقدیر کا لکھا سمجھ کر بھول جاؤ اپنے اپنے گھروں کی ہوکر امید سے ہیں اور تم بیٹھی اپنا وقت ضائع کر رہی ہو ۔نکاح ایمان کو مکمل کرتا ہے انسان کو فتنوں سے بچاتا ہے۔ عائشہ خاموشی سے سن رہی تھی ۔
میں چاہتی ہوں میری زندگی میں تمھارے سر پہ سائبان ہو ایک محبت کرنے والا خاوند ہو یہ محلہ اچھا ہے کہ کسی نے ہمیں نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ورنہ دنیا میں بہت کچھ ہوتا ہے۔۔۔امی میرے سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا ہے اچھا اب بس بھی کر دوں بھول جاو سب کچھ اللہ تعالیٰ معافی مانگنے پر بڑے سے بڑے گناہ معاف کر دیتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ۔۔ کبریائی تو صرف اللہ کی ذات کے لیے ہے ۔۔۔۔
عائشہ کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے لیکن صرف جی امی یہ کہہ پائی تھی۔۔۔۔۔ دونوں ماں بیٹی سبین کے اصرار پر نکاح میں شامل ہوئیں۔۔۔
ہلکے گلابی رنگ کے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس جس کے اوپر ہلکی پھلکی کڑھائی تھی میک اپ سے بے نیاز قدرتی حسن سے مالا مال کسی حور سے کم نہ لگ رہی تھی خوبصورت گھنے بال
جن کو اس نے سبین کے اصرار پر کھول لیا تھا ہر دیکھنے والے کو دیوانہ بنا رہا تھا کاجل کی ہلکی سی دھار اسکی آنکھوں کے حسن کو اور نمایاں کر رہی تھی۔۔۔ سبین نے سرگوشی میں بتایا کہ تیرا وہ بھی آیاہے لیکن اب وہ بھی پردہ کرتا ہے۔۔۔کھلکھلا کر ہنستے ہوئے سبین نے بتایا۔۔۔ ہماری طرف تو نہیں آئے گا ۔۔۔۔اے کاش میری دوست کا حسن اس کا نصیب بنے آمین۔۔۔ توبہ ہے اپنے نکاح والے دن تو میری جان چھوڑدو ۔۔۔ نہیں چھوڑنی جب تک تم اس سے شادی کے لئے راضی نہیں ہو جاتی۔۔۔۔۔۔
ابھی دیکھنا اس کے چہیتے بھی آ تے ہوں گے باتونی ایک نمبر کے ۔۔۔عائشہ نے ماشاءاللہ کہا ۔۔۔
سبین کی باتوں پہ صرف سر جھٹک کر رہ گئی دل میں سوچا سبین تم کیا جانو اس عبداللہ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ؟؟؟؟یہ راز تو میرے سینے میں دفن ہے ٬ میں نے تو اس کا پردہ رکھا ہے تمھارے سامنے ورنہ اسکی کوڑی کی عزت نہ رہتی اپنے رشتہِ داروں میں۔۔ عائشہ دل ہی دل میں اسکو کوس رہی تھی۔۔۔۔
بسیلہ احمر اپنی شوخ و چنچل عادت کے ساتھ اندر آتے ہی اس کے ساتھ چپک گئے۔۔۔ٹیچر آج ہم بہت خوش ہیں... وہ کیوں بھئی؟؟؟؟
کیونکہ آج آپ ہمارے گھر کے قریب آئی ہیں؛ہم آپکو اپنے گھر آسانی سے لے کر جا سکتے ہیں۔۔۔نننن نہیں میں نہیں جا سکتی آپ کے گھر۔۔۔
تو پھر آپ ہمارے چاچو کے ساتھ شادی کر لیں اور آ جائیں ہمارے گھر ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔
عائشہ کے تو چھکے چھوٹ گئے اس صورتحال پر ۔۔۔
اتنے چھوٹے بچے اور اتنی بڑی بات کہہ گئے۔۔۔ساتھ بیٹھی امی کی بھی ہنسی نکل گئی۔۔آپکو اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے, عائشہ نے سمجھایا۔۔۔ہم نے تو چاچو کو بھی یہ بات بولی تھی کہ ہمیں ٹیچر عائشہ واپس لا دو تو وہ کہنے لگے دعا کرو۔۔۔
عائشہ دل ہی دل میں جل بھن رہی تھی اب اس نے بچوں کو آگے لگایا ہوا ہے ۔۔۔کمینہ کہیں کا ۔۔۔۔
نکاح سے فارغ ہوتے ہی سبین کو واپسی کا عندیہ سنا یا ۔۔۔خبردار جو تم ادھر سے ہلی کھانے کے بعد دیکھا جائے گا ٬ اتارو یہ برقعہ ورنہ میں نے ابھی عبداللہ کو بلا کر تمھارا نکاح پڑھوا دینا ہے ۔۔۔۔
سبین تم کتنی ڈھیٹ ہو اور تم کونسی نرم ہو ؟
عائشہ دل جلا رہی تھی۔۔
ایک دم سے امی بے ہوش ہو کر ایک طرف لڑھک گئیں۔۔۔