مجھے ٹھکانے لگانے کے شوق میں تم اپنی بندوق گاڑی میں ہی چھوڑ گئے تھے غالبا،عائشہ نے فاتحانہ انداز میں اس کو مخاطب کیا، گاڑی سیدھے طریقے سے چلاو ورنہ تمھاری کھوپڑی شیشے سے باہر اچھل کر جائے گی سمجھے تم؟!
عبداللہ نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا ۔۔۔
بندوق رکھ دو نیچے تمھاری نازک کلائیاں اور نازک ہاتھ تھک جائیں گے ۔۔۔
تم میری تھکاوٹ کی فکر نا کرو اپنی خیر مناوء!عائشہ نے دانت پیسے ۔۔۔
تمھیں بندوق چلانی بھی آتی ہے یا مجھے صرف ڈرا رہی ہو ؟؟میرے خیال میں مجھے گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے تمھیں پریکٹس کروانی چاہیئے اسی بہانے تیتروں کا شکار بھی ہو جائے گا ۔۔۔
خبردار جو ادھر سے ہلنے کی کوشش کی تو!عائشہ سیخ پا ہو رہی تھی ، تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو ۔۔۔
اگر یہ نرمی ہے تو سختی پتا نہیں کیا ہو گی؟!عبداللہ نے مصنوعی حیرت کا مظاہرہ کیا ۔۔۔۔
منہ بند کرو اور گاڑی چلاو!!عائشہ کی برداشت جواب دے رہی تھی، اس شخص سے نفرت اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد بولا محترمہ عائشہ عبدالشکور منہ بند کرنا تو کافی مشکل ہے اس لیئے کہ میں پوری رات سو نہیں پایا اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر گاڑی چلاتے ہوئے مجھے نیند آگئی تو ایکسیڈنٹ کی ذمہ دار آپ ہونگی لہذا اگر خیرو عافیت سے گھر پہنچنا چاہتی ہو تو مجھے باتیں کرنے دو ورنہ نیند کا غلبہ لازمی بات ہے ۔۔۔۔
تم کتنے کمینے اور ڈھیٹ انسان ہو !میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تمھارا سر پھاڑ دوں ۔۔۔۔
میرے خیال میں ابھی سر پھاڑنے کیلئے وقت مناسب نہیں ہے، ناک تو تم توڑ چکی ہو لہذا سر کیلئے کوئی اور دن مقرر کر لیتے ہیں ۔۔ میں سنجیدہ ہوں تم یہ بندوق نیچے رکھ دو میں تمھیں تمھارے گھر ہی لے کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔
جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا یہ بندوق تانے رکھوں گی ۔۔
تانے رکھو اگر خود کو تھکانے کا شوق ہے اسکے اندر ایک گولی بھی نہیں ہے، یہ صرف ڈرانے کیلئے رکھی تھی پاس!!
عائشہ شدید غصے سے تلملا رہی تھی کہیں سے بھی راہ فرار نظر نہ آرہا تھا ۔۔۔
آخری حل گاڑی سے کودنے کا ہی ہے اس نے سوچا، دیکھتی ہوں گاڑی جب تھوڑی آہستہ رفتار میں ہو گی تو کود جاوں گی ۔۔۔ اس لفنگے کے جال میں کبھی بھی نہیں پھنسوں گی، اس گھٹیا انسان سے بحث سے بہتر ہے اپنے مسنون اذکار شروع کر لوں، دل ہی دل میں اپنے رب کی بارگاہ میں التجایئں شروع کر دیں ۔۔۔
عبداللہ کو اسکی خاموشی کاٹ کھا رہی تھی اس سے رہا نا گیا اچھا یہ بتاو تمھیں گرمی نہیں لگتی؟ یا سانس نہیں بند ہوتی اتنی شدید گرمی میں اس تنبو میں لپٹ کر ؟؟؟سر سے پاؤں تک تو تم ڈھکی رہتی ہو ۔۔۔
مجھے دنیا کی گرمی منظور ہے جہنم کی گرمی سے !! انتہائی سخت لہجے میں جواب دیا،گرمی مجھے لگے یا نہ لگے تمھیں کیا تکلیف ہے ؟؟؟اپنے کام سے کام رکھو !!!!
میں تو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لئے پوچھ رہا تھا کہ اسلامی لحاظ سے اس کا کیا حکم ہے ؟یا صرف مولوی حضرات اپنی بیویوں بیٹیوں کو ہر وقت دبانے کےلئے حجاب پردے کے رٹے لگاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔
تم جیسے جاہلوں نے کبھی قرآن و سنت کو پڑھا ہو تو پتا ہو کہ کیا احکامات ہیں ؟!
""عورت گھر سے باہر نکلے تو سر سے پاؤں تک چھپی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، عورت پوری کی پوری عورہ(چھپانے کے لائق )ہے ""۔۔۔ ترمزی :1163
یہ کہہ کر عائشہ نے گاڑی کے لاک کو کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔۔۔۔
عبداللہ گاڑی ھارڈ چھولڈر پہ لے آیا اور سنجیدگی سے گویا ہوا ۔۔۔ گاڑی میں سینٹرل لاک لگا ہے جب تک میں نہیں چاہوں گا تم گاڑی سے نا نکل سکتی ہو اور نا اس کا شیشہ نیچے اتار سکتی ہو ، سمجھی تم اب آرام سے جدھر بیٹھی ہو ادھر ہی بیٹھی رہو میں نے تمھیں بتایا ہے کہ میں تمھیں واپس تمھارے گھر لے کر جا رہا ہوں تو پھر تم کیوں اعتبار نہیں کرتی؟!
تم ہو اعتبار کے قابل ؟!اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود تم چاہتے ہو میں تم پہ اعتبار کروں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ غصے سے چلائی ۔۔۔
اچھا نا کرو اعتبار ! اب تمھارے گھر سے ایک ڈیڈھ گھنٹے کی مسافت باقی ہے اگر تم چاہتی ہو تو میں تمھیں ادھر ہی اتار دیتا ہوں اور اگر موٹر وے پہ چلتی گاڑی تمھیں لفٹ دے دیتی ہےتو ان کے ساتھ چلی جاوء شاید تمھیں کوئی اعتباری بندہ مل جائے ۔۔۔
ہاں اتار دو مجھے ادھر ہی عائشہ چلائی ۔۔۔۔۔۔۔۔
تم پاگل تو نہیں ہو گئی، تم میری ذمہ داری ہو میں تمھیں لے کر آیا تھا اور ابھی میں ہی واپس چھوڑوں گا ۔۔۔ پلیز میرا یقین کرو! ادھر رک کر تم اپنا وقت ضائع کر رہی ہو اور اگر تم لفٹ مانگو بھی تو لوگ تمھارے حلیے سے ڈر جائیں گے۔۔۔
خبردار تم نے ایک لفظ بھی میرے حلیے کے بارے میں بولا سمجھے تم!!
اچھا نہیں بولتا، ابھی سیدھے چلتے ہیں ۔۔ 6 تو ادھر ہی بج گئے ہیں تم چاہتی ہو تمھارے بابا کے کام جانے سے پہلے تم گھر پہنچ جاوء تو پھر آرام سے بیٹھی رہو ۔۔۔۔۔
تمھیں کیسے پتا چلا میرے بابا کے کام پہ جانے کا وقت کیا ہے ؟؟
مجھے سب پتا ہے پورے 2 ہفتے تمھارا پیچھا کیا ہے تمھارے بارے میں تمام معلومات حاصل کیں ہیں، تمھاری دو اور چھوٹی بہنیں ہیں بھائی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
عائشہ نا چاہتے ہوئے بھی دھاڑیں مار کر رونا شروع ہو گئی، شدید بےبسی اور مجبوری کی کیفیت اسے اندر ہی اندر چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔
10 منٹ کے بعد عبداللہ کی برداشت جواب دے گئی اور بولا بس کرو اب یہ رونا دھونا اور میری بات غور سے سنو!!!
مجھے نہیں سننی تمھاری کوئی بھی بات، تم کتنے بےضمیر انسان ہو، کتنی اذیت سے میں گزری ہوں اور میرےامی بابا تم تو اس بات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے، تمھارے مال و متاع نے تمھیں اندھا کر دیا ہے ، اچھائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں ہے تمھارے نذدیک، جب دل چاہا جہاں دل آگیا اس پہ جھپٹ پڑے لیکن یاد رکھو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اس نے تمھیں ڈھیل دی ہوئی ہے لیکن جب اسکی گرفت میں آگئے تو شاید توبہ کا موقع بھی نا مل سکے ۔۔۔
عبداللہ نے سب خاموشی سے سنا اور پھر لمبی سانس کھینچتے ہوئے بولا ۔۔
عائشہ نکاح کر لو میرے ساتھ!عبداللہ نے بنا گردن موڑے بغیر کسی لمبی چوڑی تمہید کے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی اس کی نگاہیں موٹروے پر اور کان جواب کے منتظر تھے ۔۔
عائشہ جو پہلے سے جلی کٹی بیٹھی تھی اسکی بات سن کر گنگ ہو گئی، غم سے کانپتی آواز میں بولی تمھیں پتا ہے کہ تم کیا بول رہے ہو؟!
ہاں مجھے پتا ہے میں نے کیا کہا ہے اور میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں اور میں تمھیں شرعی حق سے حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
تمھاری زبان سے لفظ شرعی بالکل زیب نہیں دیتا، گھٹیا انسان اپنی حوس کےلئے شریعت کو استعمال ناکرو، تم اس قابل ہو کہ تم سے میں نکاح کروں؟؟
کیوں؟ میں کوئی لولا لنگڑا ہوں بھینگا ہوں؟! عبداللہ نے ہوا میں تیر پھینکا ۔۔۔۔
سب کچھ ہے تمھارے پاس اگر نہیں ہے تو دین نہیں ہے، اپنے رب کی معرفت نہیں ہے، تمھیں تو جانوروں کی طرح چرنا اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرکے سو جانا ہی آتا ہے ، تمھیں تو اپنی زندگی کا مقصد ہی نہیں پتا کہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں تخلیق کیا ہے ؟
"بیشک اللہ نے جن وانس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے " (الذاريات:56)
ہر وہ کام جو اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا جائے وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے، چاہے وہ دعا ہی کیوں نا ہو ایک رب کو اخلاص اور سچے دل سے پکارنا بھی عبادت ہے۔
میں تم سے نکاح کبھی بھی نہیں کروں گی اور ویسے بھی وہ نکاح ہی نہیں ہے جس میں ولی کی شمولیت نا ہو ، وہ تو سراسر زنا ہے ۔۔۔
تم کیا جانو نفس پرست انسان، عائشہ کا خون کھول رہا تھا ۔۔۔۔ اور ویسے بھی اللہ سبحان تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے ۔۔
"""ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں ۔ یہ (پاکیزہ )لوگ بری ہیں ان سے جو وہ(خبیث لوگ انکی بابت ) کہتے ہیں، ان کےلئے بخشش اور رزق"۔(النور:26)
عبداللہ نہایت تحمل سے عائشہ کی باتیں سن رہا تھا
پھر بولا عائشہ محبت کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے ؟؟
ہاں ہے جرم! جب تم اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو توڑو گے تو یہ بہت بڑا جرم ہے ، یہ زنا کاری کا چور دروازہ ہے جسکو تم جیسے آوارہ مزاج لوگ اختیار کرتے ہیں ۔۔۔۔
اچھا واقعی؟عبداللہ نے عائشہ کو اور چڑانے کےلئے اس بات کو تول دیا تو پھر تمھارے نزدیک کونسی محبت حلال ہے ؟!
محبت وہ ہے جو شادی کے بعد ہوتی ہے جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور اس کی بھی تلقین فرمائی ۔۔۔
میں اس طرح کی محبتوں کی قائل نہیں ہوں اور نا ہی مجھے اس طرح کی غلیظ حرکات پسند ہیں ۔۔سب سے زیادہ محبت کے حقدار اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان سے محبت شریعت کے احکامات پہ عمل پیرا ہونا ہے ۔۔
چلو اگر محبت کی اجازت ابھی نہیں دیتی تو نکاح کے بعد تو جائز ہے نا !!عبداللہ نے محبت پہ زور دیا ۔۔
بکواس بند کرو میں نے تمھیں کہا ہے میں تم سے شادی نہیں کروں گی چاہے تم مجھے قتل کر دو۔۔
عائشہ تم بھول رہی ہو اس وقت تم میرے رحم و کرم پہ ہو !
آگئے ہو نا اپنے اصلی رنگوں میں، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں ۔۔۔
مت کرو میرے ساتھ اس طرح کی واہیات باتیں، یہ سب باتیں میری جوتی کی نوک پہ سمجھے تم ۔۔۔۔اور مجھے اچھی طرح پتا ہے میں کس کہ رحم و کرم پہ ہوں، تم اپنی خیر مناو یہ نا ہو منہ کی کھانی پڑے ۔۔۔
عبداللہ نے زوردار قہقہہ لگایا، میری زندگی کا سب سے بہترین سفر ہے ، مجھے میرے بھائی نے کبھی اتنا نہیں ڈانٹا جتنا تم نے میری مٹی پلید کر دی ہے ۔۔۔تم ہو ہی اس قابل ، ڈھیٹ اور آوارہ ۔۔۔۔عائشہ تنک کر بولی۔۔۔
ابھی کتنا سفر باقی ہے ؟آدھےگھنٹے میں ہم شہر میں داخل ہو جائیں گے عبداللہ نے جواب دیا ۔۔۔عائشہ نے دل میں انشاءاللہ بولا ۔۔اس کے جسم کا ایک ایک حصہ درد سے چور تھا ٬شدیدخوف کی کیفیت اس کے اعصاب کو شل کیے جا رہی تھی لیکن وہ کسی بھی لحاظ سے اپنی کمزوری اس کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔عائشہ تمہاری منزل تو بہت قریب آ رہی ہے لہذا بندوق کو اپنی بغل سے نکال کر نیچے رکھ دو مجھ سے زیادہ تو میری بندوق خوش قسمت ہے جو سارا راستہ تمھارے ہاتھوں میں رہی ہے۔۔۔
عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا٬اپنا محلہ بہت قریب تھا٬آنسوں چھم چھم برسنا شروع ہو گئے ٬گلاخشک ہو رہا تھا ٬ایک ایک منٹ کا گزرنا دشوار ہو رہا تھا۔۔۔
اپنی آواز کو قابو کرتے ہوئے عبداللہ کو بولا تم نے جہاں سے مجھے اٹھایا تھا وہیں مجھے اتار دو۔۔۔ میں نہیں چاہتی میرے والدین کی جگ ہنسائی ہو پورے محلے میں اور لوگ باتیں بنائیں کہ جوان بیٹی کسی کے ساتھ رات گزار کے آئی ہے۔۔۔۔۔جیسے تمھاری مرضی ہے عبداللہ نے ٹوٹے لہجے میں جواب دیا۔۔۔
جانے سے پہلے ایک گزارش ہے کہ نکاح والی بات پہ غور کرنا٬میں بھابھی کو تمھاری طرف بھیجوں گا۔۔۔
میں نے تمہیں ایک دفع انکار کر دیا ہے تمھیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟؟؟میں تم سے شادی نہیں کروں گی میرا رشتہ طے ہو چکا ہے اور چند مہینوں میں میری شادی ہو جائے گی انشاءاللہ۔۔۔
عبداللہ نے اپنی رکتی سانس کو باہر کھینچا۔۔اور بولا٬ آگئی ہے میری عائشہ کی گلی۔۔۔ بکواس بند کرو آیندہ اگر تم مجھے نظر آئے تو انجام کے زمہ دار تم خود ہو گے۔۔۔
دروازہ کھولو گاڑی کا آبھی اور اسی وقت ٬ عائشہ چلائی جیسے ہی عبداللہ نے بریک پہ پاؤں رکھا۔۔۔
عائشہ آخری التجاء ہے سن لو پھر تم آزاد ہو٬ عبداللہ نے گردن موڑ کر اس کو مخاطب کیا تو عائشہ نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔۔ سنو میرا اور تمھارا رب ایک ہی ہے ٬اگر اس رب نے تمھاری دعائیں قبول کر کہ تمھاری عصمت کو محفوظ رکھا ہے تو یہی رب میری بھی دعائیں قبول کر سکتا ہے ٬ تم نے ہی کہا تھا کہ دعا کرنا بھی عبادت ہے تو میری یہ والی عبادت آج سے ہی شروع ہو جائے گی۔۔۔
اس کی باتیں سن کر عائشہ کا دل گھبرا رہا تھا میرے ساتھ اس طرح کی باتیں نہ کرو مجھے جانے دو پلیز۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی عائشہ اپنا رونا نہ روک پائی۔۔۔
عائشہ میں اپنے وعدے کے مطابق تمھیں واپس لے آیا ہوں اور اب بھی تم سے وعدہ کرتا ہوں کبھی تمھارے راستے میں نہیں آؤں گا لیکن تم مجھے میری محبت سے نہیں روک سکتی۔۔۔
میں تمہیں اپنی دعاؤں میں مانگوں گا۔۔۔
پہلے مجھے تمھارے چہرے سے محبت ہوئی تھی جو صرف میں نے چند سیکنڈ کے لیے دیکھا تھا لیکن اب مجھے تمھارے کردار سے محبت ہو گئی ہے۔ تم جب بھی مجھے پکارو گی مجھے اپنا منتظر پاؤ گی٬ خوش قسمت ہیں تمھارے والدین جنکی باکردار بیٹی جو کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہوتی۔۔ میں کبھی بھی تمھاری عزت پہ حرف نہیں آنے دوں گا ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔۔۔
میرے بھائی اور بھابھی بالکل بے قصور ہیں وہ اس سارے معاملے سے بے خبر ہیں۔۔۔ یہ سب میرا کیا دھرا ہے
میں ہار گیا ہوں اور تم جیت گئ ہو۔۔۔ کچھ تو جواب دو عائشہ تمھاری خاموشی مجھے کاٹ رہی ہے۔۔۔
اللہ کا واسطہ ہے گاڑی کا دروازہ کھولو مجھے گھر جانا ہے۔
عبداللہ نے گاڑی سے نکل کر عائشہ کا دروازہ کھولا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا۔۔ جانے سے پہلے شکریہ نہیں بولو گی؟؟؟
تمہاری بندوق میں نے پیچھلی سیٹ پہ رکھ دی ہے یہ کہہ کر اس نے
اپنی گلی کی طرف دوڑ لگا دی اور عبداللہ جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا ۔۔۔ گرمیوں کے سورج نے صبح 8بجے ہی اپنی تپشِ دکھانی شروع کردی ۔۔۔عائشہ کے پیچھے اڑتی دھول عبداللہ کے دل کو ویران کرگئی وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اس کا فون جو ریکارڈنگ پہ لگا ہوا تھا فورا یاد آیا۔۔۔جو اگلی مسافر سیٹ کے اوپر چارجر سمیت پڑا تھا دل چاہا کہ اس کو سنوں لیکن ابھی فون ہاتھ میں ہی لیا تھا کہ تھانیدار کی کال آ گئی ۔۔۔ ہاں بھئ تمھیں تمھاری رقم مل گئی تھی ؟؟؟ عبداللہ نے پوچھا۔۔۔ جی سر مل گئی تھی بڑی مہربانی آپ کی ۔۔۔
سر لڑکی کا باپ آیا تھا رپورٹ درج کروانے روائتی انداز اپنایا تو ادھر ہی ڈھ گیا۔۔۔ کیا بولا تھا تم نے ؟؟؟کہنا کیا تھا سر جی بس یہی بولا کہ تمھاری لڑکی خود بھاگ گئی ہے کسی آشنا کے ساتھ اتنا بولنا تھا کہ اس کو دل کا دورہ پڑااور تھانے میں ہی گر گیا۔۔۔ ہمیں اس کو قریبی ہسپتال پہنچانا پڑ گیا۔۔۔اب کیا حکم ہے سر جی؟؟ کون سے ہسپتال ہے لڑکی کا باپ ؟؟ عبداللہ کو مزید پریشانی نے آن گھیرا۔۔۔لڑکی کے باپ کو قریبی ہسپتال پہنچا دیا ہے سول پہنچنے تک اس کی جان بھی جا سکتی تھی ۔۔۔اب یہ نہیں پتا کہ بچ پائے گا بھی یا نہیں اس کی حالت کافی تشویش ناک تھی ۔۔نام کیا ہے ہسپتال کا؟؟؟؟
افضل اسپتال ہے جی ۔۔۔شکریہ بتانے کا آئندہ بھی کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے بتا دینا تمھارا چائےپانی پہنچا دوں گا۔۔۔
عبداللہ نے فراغ دلی کا مظاہرہ کیا ۔۔۔۔
عبداللہ نے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا کیا کر دیا ہے میں نے اس لڑکی کے ساتھ؟؟؟ اس بے قصور نے کتنا اور خمیازہ بھگتنا ہے ؟؟؟گاڑی فورا افضل ہسپتال کی طرف دوڑا دی ۔۔
ریسیپشن پہ پہنچتے ہیں عبدالشکور نامی مریض کا پوچھا اور سارےخرچے کا ذمہ خود لیا۔۔۔نرس نے بتایا حالت کافی تشویش ناک ہے کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہ بچ پائیں گے یا نہیں ۔۔۔۔آپ لوگ جتنی کوشش کر سکتے ہیں پلیز کریں۔۔۔
پیسے کی فکر نہ کریں یہ سب میں کروں گا لیکن مریض کے لواحقین کو اس بات کا علم نہ ہو پلیز۔۔میں آپ سے فون پے رابطے میں رہو ں گا اس بات کا بھی لواحقین کو علم نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔
جی سر ٹھیک ہے۔۔ عبداللہ نے اپنے بٹوے سے دس ہزار نکال کر ایڈوانس میں دے دیئے باقی مجھے بعد میں بتا دینا میں سب ادا کر دوں گا۔۔۔
********************************
عائشہ نے دروازے کو پوری قوت کے ساتھ پیٹنا شروع کردیا جیسے ابھی ہی کوئی اسے اچک لے گا٬ غم وخوف کی ملی جلی کیفیت تھی۔۔۔ اس کے آنسو سیلاب کی طرح بہہ رہے تھےاور اور اس کے نقاب کو مکمل طور پر گیلا کر چکے تھے کون ہے ؟؟؟اندر سے رقیہ کی سہمی آواز آئی ۔۔۔میں ہوں عائشہ رقیہ نے دھڑ سے دروازہ کھولااور عائشہ کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔دونوں بہنیں خوب روئیں امی بابا کدھر ہیں؟؟؟ آپی وہ دونوں تو تھانےگئے تھے٬آپکے اغوا کی رپورٹ درج کروانے لیکن بابا کو ادھر ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اب قریبی ہسپتال میں داخل ہیں امی نے ہسپتال میں موجود کسی عورت کے فون سے گھر فون کیا تھا۔زینب بھاگی ہوئی عائشہ کے ساتھ لپٹ گئی آپی آپ کہاں چلی گئی تھیں؟؟؟
امی کتنی دیر گلی میں بے ہوش پڑی رہیں تو کسی راہگیر نے ان کو ہسپتال پہنچایا پھر واپس گھر بھی چھوڑ گیا....
ان کو 10 ٹانکے لگے ہیں شدید چوٹ آئی ہے آپی ہم پوری رات نہیں سوئے بابا نے سارا علاقہ چھان مارا کہ شاید آپ کہیں مل جاؤ پھر فجر کے بعد فیصلہ کیا کے پولیس کو بتاتے ہیں لیکن شکر ہے آپ صحیح سلامت واپس آگئی ہیں آپ کے ساتھ کیا ہوا کس نے کیا یہ سب آپ کے ساتھ؟؟؟؟ بعد میں بتاؤں گی ساری تفصیل ابھی مجھے اسپتال جانا ہے تا کہ امی بابا کو تسلی ہو جائے۔۔
آپی آپ ابھی پھر باہر نکلیں گی تو یہ نہ ہو وہی لوگ دوبارہ آپ کو اٹھا لیں۔۔۔
نہیں رقیہ وہ ابھی مجھے نہیں اٹھائے گا آنکھوں میں آئی نفرت رقیہ سے چھپی نہ رہ سکی۔۔
مجھے پہلے بھی میرے رب نے بچایا ہے اور ابھی بھی وہی حفاظت کرنے والا ہے پانی لاؤ فورا مجھے ابھی جانا ہے۔۔
تم دونوں بہنوں نے دروازہ بلکل نہیں کھولنا جب تک میں واپس نہ آجاؤ کسی کے لیے بھی نہیں۔۔ٹھیک ہے آپی اپنا خاص خیال رکھنا میری ٹیوشن والے پیسے لے آؤ!!!!
ادھر سرہانے کے نیچے پڑے ہوئے ہیں آپی یہ تو صرف 5000 ہیں انہوں نے توبولا تھا 20000 دیں گے۔۔۔۔
کوئ نی دیئے ابھی تک لیکن تم لوگ پریشان نہ ہوں میں اپنی بالیاں بیچ دوں گی کانوں کو ہاتھ لگایا تو ایک بالی غائب تھی۔۔۔
لیکن رقیہ زینب کو پریشانی سے بچانے کے لیے بات گول کر گئی۔۔میں چلتی ہوں۔امی بابا سے مل کر جلد ہی آ جاؤں گی انشااللہ ۔۔۔ ٹھیک ہے دونوں بہنیں یک زبان ہوئی اسلام و علیکم۔۔۔
وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کر دونوں بہنوں نے لکڑی کا کمزور دروازہ بند کر لیا۔۔۔
ہسپتال پہنچتے ہی امی کو ویٹنگ ایریا میں پایا امی کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں تھا عائشہ واپس آگئی ہے۔۔۔ دونوں ماں بیٹی لپٹ کر خوب روئیں٬امی میں بابا کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔
وہ مجھے دیکھ کر ٹھیک ہو جائیں گے انشااللہ ۔۔نہیں عائشہ ڈاکٹر نے منع کیا ہے لیکن میں ایک دفع کوشش کرتی ہوں۔۔۔
**********************************
عبداللہ کی فام ہاوس واپسی ہو چکی تھی مسلسل سفراور نیند کی کمی اسکے سر کو بھاری کیے جا رہی تھی سوچا کمرے میں جا کر کچھ دیر سوجاوں جیسے ہی بستر پر لیٹا کوئی چیز اس کو چبھی لائٹ آن کی تو عائشہ کی سونے کی بالی تھی عبداللہ کتنی دیر محبت سے دیکھتا رہا بٹوے میں ڈالنے کے لئے اٹھا ہی تھا تو نظر نیچے پڑے کالے دستانے پہ گئی ناچاہتے ہوئے بھی اس کو چوم ڈالا عائشہ تمھاری دو خوبصورت نشانیاں میرے پاس تمہاری موجودگی کا پتہ دیتی رہیں گی ڈرائنگ روم میں آ کر وسکی اور بیئر کی بوتلوں کو لان کے ایک کونے میں لاکر توڑ دیا۔۔۔اور دل سے وعدہ کیا ان کے قریب بھی نہیں جاؤں گا 4 گھنٹےکی مسلسل نیند کے بعد فون کی بز بز نے اس کو اٹھایا دوسری طرف سمیر تھا ۔۔۔ سوئی ہوئی آواز میں ہیلو بولا۔۔
ہاں لالے کیا ہوا ؟؟؟چھوڑ ایا ہے اپنی محبوبہ کو اس کے گھر ؟؟؟؟وہ تو چلی گئی لیکن اس کی یادوں کو نکالنا بہت ہی محال ہے سمیر کو باقی روداد بھی سنا ڈالی۔۔۔
پھر بولا میں آج شام تک واپس آ جاؤں گا بھیا کو کو بولوں گا آپ لوگ نہیں آسکے تو مجھے پھر واپس آنا پڑ گیا ہے
**********************************