میرا فیصلہ اٹل ہے!عبداللہ کو جو چیز پسند آ جائے وہ اس کی ہو کر رہتی ہے ۔۔۔
لیکن یار وہ کوئی چیز نہیں ہے ایک جیتی جاگتی انسان ہے،تو کیوں اپنے ساتھ ساتھ اسکے اوپر بھی ظلم کرنا چاہتا ہے؟ سمیر تو کب سے مولانا بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے پوچھا
مانا کہ میں نیک انسان نہیں ہوں لیکن یار سوچ لے بار بار، یہ سودا تیرے گلے بھی پڑھ سکتا ہے ۔۔۔
یہ نا ہو لینے کے دینے پڑھ جائیں ۔۔ سمیر نے آخری حربہ بھی آزما لیا آخر کرسی سے اٹھتے ہی کمرے سے نکل جانے میں عافیت جانی ۔۔۔۔
عبداللہ نے پیچھے سے ہانک لگائی عبداللہ اپنے دل کی ہی سنتا ہے سمیر! سودا چاہے گھاٹے کا ہی ہو ۔۔۔
سمیر نے پیچھے مڑ کر افسوس میں صرف گردن ہلانے پہ اکتفا کیا اور فورا نکل گیا ۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج خیریت تو ہے؟ ہمارا لاڈلا بھائی ہمارے انتظار میں گھر پہ ہی موجود ہے اور وہ بھی کھانے کی میز پر واہ اوہ کیا بات ہے ۔۔ بیگم آج سورج مشرق سے ہی نکلا تھا ہمارے عبداللہ کا ؟! جی جی ہمارا دیور سمجھ دار اور ذمہ دار ہوتا جا رہا ہے آج تو بسیلہ احمر کو پڑھائی میں بھی مدد کی ہے۔ کل سے انکی ٹیچر جو جا رہی ہے تو عبداللہ ان کی یہ ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہے ۔۔
بیگم مجھے جلدی سے چٹکی کاٹو مجھے تو نا اپنی آنکھوں پہ اور نا اپنے کانوں پہ یقین آ رہا ہے۔ بڑے بھیا شدید حیرت کا شکار تھے جبکہ عبداللہ ہلکے سے مسکرا رہا تھا۔۔۔
آج کیا تمھارے سعادت مند دوست بھی چھٹی پر ہیں؟؟ نہیں بھائی وہ تو اپنے معمول کے مطابق چل رہے ہیں ۔۔بس میں کچھ سوچ رہا تھا میں کچھ دنوں کے لئے فارم ہاوس جانا چاہتا ہوں ۔۔
فصلوں اور کسانوں کی بھی دیکھ بھال ہو جائے گی اور ساتھ ساتھ شکار کا بھی شوق پورا کر لوں گا ۔۔
عبداللہ یار اب تو تم چٹکی کاٹو، تم حقیقت میں یہ سب بول رہے ہو؟! میرا اتنا فرمانبدار بھائی اتنا ذمہ دار کب سے ہو گیاہے؟!
ایسا کرو ساتھ بسیلہ احمر کو بھی لے جاو ء انکی بھی تفریح ہو جائے گی دو چار دنوں تک ہم بھی آ جائیں گے ویسے بھی صبح شام کام ہی اعصاب پہ سوار رہتا ہے ۔۔۔
نہیں نہیں بھائی میں اپنے دوستوں کے ساتھ جانا چاہتا ہوں اور پھر شکار کے لئے بسیلہ احمر کو لے کر جانا سیف نہیں ہے ۔۔۔بس میں آپکی پجیرو 4×4 لے کر جانا چاہتا ہوں ۔۔۔
اچھا بھئی جیسے ہمارے لاڈلا چاہتا ہے بس ذرا اپنا دھیان رکھنا، اور یہ کچھ پیسے بھی رکھ لو اور چاہیئے ہوئے تو میرا کارڈ ساتھ لے لو ۔۔ تھینک یو سو مچ بھیا ۔۔۔۔عبداللہ جوش سے بولا ۔۔۔۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گیٹ سے نکلتے ہی عائشہ نے لمبی سانس کھینچی اور الحمدللہ بولا ۔۔
امی آپ زیادہ دیر سے تو انتظار تو نہیں تھیں کر رہی؟؟نہیں بس 2 منٹ پہلے ہی آئ ہوں ۔۔امی نے بتایا ۔۔۔
امی اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں نے اپنے کہنے کے مطابق یہ مہینہ مکمل کر لیا ہے ۔۔ بسیلہ احمر کافی اداس تھے لیکن آپ تو جانتی ہیں کہ انکے چاچے نے کیا کیا تھا،مجھے اس پر کوئی اعتبار نہیں رہا کیا پتا اگر جاتی رہتی تو وہ اس سے بڑھ کر کوئی اور اوچھی حرکت کرتا تو میں نے سوچا علاج سے بہتر احتیاط ہے ۔۔۔۔
ہاں عائش میری بچی اللہ تعالی تمھارا نصیب اچھا کرے اور میری بچی کو ہر قسم کے شر سے بچائے آمین، اب تو میری بچی مغیث کی امانت ہے ہمارے پاس، جیسے ہی اسکی واپسی ہوگی فورا سادگی سے نکاح طے کرنا ہے انشااللہ ۔۔۔
عائشہ کے دل نے سرشار ہو کر ہلکی سی انگڑائی لی ۔۔۔۔۔
بڑی سڑک سے اترنے کے بعد کچے رستے کی طرف بڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ پیچھے سے گاڑی ان سے 3 فٹ کے فاصلے پہ رکی جس پہ دونوں ماں بیٹی ہڑبڑا کر مڑیں ۔اسی لمے گاڑی سے ہٹا کٹا شخص ماسک اور دستانے چڑھائے انکے اوپر بندوق تان چکا تھا اور بولا تم سے ماں کونسی ہے اور بیٹی کونسی ہے ؟؟؟ دونوں ماں بیٹی شرعی حجاب میں ملبوس تھیں ۔۔۔
کو کو کو کون ہو تم اور ہم سے کیا چاہتے ہو؟؟؟ امی نے خشک گلے سے بمشکل آواز نکالی۔۔۔
میں نے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو، ورنہ گولی تمھاری کھوپڑی اڑا دے گی۔۔۔ عائشہ نے مضبوطی سے ماں کا ہاتھ تھاما ہوا تھا جو کہ تھر تھر کانپ بھی رہی تھی ۔۔
امی نے فورا کہا میں ہوں ماں اور یہ میری بیٹی ہے ۔۔۔ ڈالو بیٹی کو گاڑی میں ورنہ میرے پاس دوسرا رستہ بھی ہے ، دیو قامت شخص دھاڑا ۔۔۔۔
اللہ کا واسطہ ہے ہمیں جانے دو تم جو بھی ہو تمھاری کیا دشمنی ہے ہمارے ساتھ؟!اور خبردار میری بیٹی کو ہاتھ بھی لگایا گھٹیا انسان ۔۔ امی چلا رہیں تھیں ۔۔
ظالم نے فورا بندوق کا بٹ مارا اور نسیم بیگم اپنے حواس کھو کر زمین بوس ہو گئی ۔۔
عائشہ شدید صدمے سے نڈھال ماں کو اٹھا رہی تھی کہ ظالم شخص نے رمال سنگھا کر بلا تاخیر گاڑی میں ڈال لیا ۔۔۔
یہ لو صاحب تمھارا کام تو ہو گیا ہے، مال نکالو میرا بھی اور اس پولیس والے کا بھی جس نے بعد کے معاملات کو سنبھالنا ہے ۔۔۔۔
ہاں ہاں ابھی دیتا ہوں گاڑی کسی محفوظ جگہ پہ پہنچنے دو ۔۔ گاڑی آبادی سے نکل کر ویرانے کی طرف رواں دواں تھی تو عبداللہ نے کرائے کے غنڈے کو بولا 50 ہزار تمھارے اور 50 ہزار پولیس والے کو پہنچا دنیا اور سنو تمھاری شکل دوبارہ نظر نا آئے اور بندوق گاڑی میں ہی چھوڑنے کا اشارہ کیا۔۔۔
غنڈہ ماسک اتارتے ہوئے بولا صاحب یہ لڑکی 2 سے 4 گھنٹے تک بے ہوش رہے گی لہذا اس سے پہلے پہلے اس کو ٹھکانے لگا لو ۔۔ صاحب دوائی ضرورت سے دو گنا زیادہ استعمال کی ہے ۔۔۔
ہاں ہاں ٹھیک ہے عبداللہ عجلت میں بولا ۔۔۔
اس کے چہرے سے نقاب اتار دوں یا ایسے ہی رہنے دوں؟؟
نہیں نہیں رہنے دو ایسے ہی اور رفو چکر ہو جاو اس علاقے سے !
صاحب پریشان نا ہوں ہم اپنا کام پوری صفائی سے کرتے ہیں آیندہ بھی کوئی ضرورت پڑی تو خادم حاضر ہے ۔۔۔
ہاں ہاں ٹھیک ہے تم جاوء ۔ ۔ عبداللہ نے اس سے جان چھڑانی چاہی ۔۔۔
جی ٹی روڈ سے گاڑی موٹر وے پر آتے ہی اس نے 120 گھنٹہ فی میل کی رفتار پہ گاڑی کو دوڑانا شروع کر دیا ۔۔۔۔
بار بار گردن موڑ کر بے ہوش و حواس پڑی عائشہ کو دیکھتا اور وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے ایک لمحہ کی تاخیر نہیں چاہتا تھا ۔۔۔
گاڑی مسلسل تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔۔۔
آسمان پہ چھوٹی چھوٹی بدلیوں نے گھنے سیاہ بادلوں کی شکل اختیار کر لی تھی ۔۔۔ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش سارے علاقے کو جل تھل کر دے گی جبکہ طوفان اور شدید ہواوں کا زور عبداللہ کی 4×4 کو بھی ہلانے جا رہا تھا ۔۔
بے ہوش عائشہ اپنے حالات سے بے خبر بے سود پڑی تھی، بالکل ناآشنا کے آنے والی گھڑیاں اسکے ساتھ کونسا کھیل کھیلنے جا رہی ہیں ۔۔۔
عبداللہ اپنے اس کارنامے پر بہت فخر محسوس کر رہا تھا اور بار بار بیک مرمر سے تنبو میں لپٹی اس حسینہ کا خیال اس کو تقویت پہنچا رہا تھا ۔۔۔
2 گھنٹے کی مسلسل ڈرائیو کے بعد گاڑی موٹر وے سے اتر کر ملحقہ چھوٹی سڑک پہ آگئی جو کہ سیدھی انکے فارم ہاوس کو جاتی تھی ۔۔ سوائے چوکیدار کے باقی سب کو چھٹی دے رکھی تھی، گاڑی کو دیکھتے ہی چوکیدار بھاگا آیا اور بولا سلام بابو جی کیسے ہیں آپ؟!
ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں تم ایسا کرو چاچا یہ ساری چابیاں مجھے دو اور خود 3 دن چھٹی مناوء میں اب ادھر ہی ہوں
لیکن بابو جی آپ اکیلے کیسے سنبھال پائیں گے یہ سب،آج کا کھانا تیار ہے آپکے پسند کے مطابق لیکن باقی دن کون کرے گا یہ سب کچھ؟
نہیں چاچا میرے پاس سب انتظامات ہیں ابھی بس تم جاوء ۔ اسی لمحے بارش کے موٹے موٹے قطروں نے خشک زمین کے سینے کو چھوا اور مٹی کی سوندی خوشبو نے فضا کو معطر کر دیا ۔۔
بابو جی بارش بہت تیز ہوگئی ہے اور اب بجلی بھی بند ہو جائے گی اور پھر جرنیٹر کو چلانا اور باقی سب چیزیں کیسے کریں گے؟! باپ کا پرانا ملازم اپنے مالک کے لئے کافی فکر مند دکھائی دے رہا تھا۔ جبکہ عبداللہ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا نہیں چاچا تم جاوء میں سب کر لوں گا ۔۔ اچھا چھوٹے بابو جی سب آپ کے حوالے ہے میں چلتا ہوں ۔اس گیٹ کو تالا لگا لیں اور پھر گاڑی اندر لے جائیں ۔
ہاں تم جاوء چاچا عبداللہ زچ ہو کر بولا۔۔ بارش اپنی شدت پکڑ چکی تھی چوکیدار کو تیز چلنے کے بجائے بھاگنا پڑ رہا اپنے گاؤں تک پہنچنے کے لئے ۔۔
عبداللہ نے نیچے اتر کر تالا لگایا اور گاڑی رہائشی کمروں کے سامنے لا کھڑی کی ۔۔
عبداللہ کے باپ دادا کا تعمیر کردہ یہ فارم ہاوس ہر لحاظ اور سہولت سے آراستہ تھا، عبداللہ بچپن سے لے کر ابھی تک چھٹیاں گزارنے آتا تھا اسکو یہاں کے چپے چپے کا علم تھا۔۔
شدید بارش کے ساتھ بادل زور سے گرجا، عبداللہ نے گاڑی سے نکل کر تمام تالے کھولنے کے بعد موم بتیوں کا سہارا لیا اور بعد میں جرنیٹر چالو کرنے کا سوچا ۔۔ پھر دل میں سوچا پہلے تنبو والی کو ٹھکانے لگا لوں ۔۔
سر سے پاوں تک ڈھکی یہ نازک کلی ہر چیز سے بے خبر جسکو عبداللہ نے اپنی باہوں میں اٹھا کر اندر کا رخ کیا ۔۔لیکن بارش کے تھپیڑے عائشہ کو ہوش میں لانے میں کارآمد ثابت ہوے ۔۔۔
عبداللہ نے اسکو بیڈ پر لٹانے کا سوچا ہی تھا کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں واپس لوٹ رہی تھی ایک دم چلائی
ت ت ت ت تم کون ہو ؟؟؟ اور میں کہاں ہوں؟؟
عبداللہ نہایت تحمل کے ساتھ بولا تم یہاں پہ محفوظ ہو تم پریشان نا ہو ۔۔
عائشہ نے یہ سنتے ہی دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا اور بیڈ سے نیچے اترنا چاہا ۔ عبداللہ دوڑ کر آگے بڑھا اور کہا تم تسلی رکھو تمھیں یہاں پہ کچھ نہیں ہوگا ادھر ہی آرام سے بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں ۔۔۔
عائشہ کا دماغ شدت غم سے پھٹا جا رہا تھا اور پچھلا منظر اس کے دماغ میں چل رہا تھا صرف امی کے بیہوش ہونے تک کا منظر باقی کچھ خبر نہیں تھی اسکے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیا نہیں لیکن وہ یہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اغوا ہو چکی ہے ۔۔۔
پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے عبداللہ نے نقاب اتارنے کی کوشش کی لیکن عائشہ نے اس کا ہاتھ زور سے پیچھے جھٹک دیا ۔۔
میرا نام عبداللہ ہے اور میں بسیلہ احمر کا چاچو ہوں، ہو سکتا تمھیں پہچاننے میں کوئی دشواری ہو رہی ہو ۔۔۔
ہونہہ عائشہ پھنکاری نام عبداللہ ہے اور دوستی ابلیس سے ہے ۔۔ ابلیس پہ اس نے زور دیا ۔۔
عبداللہ اس اچانک وار سے کافی حد تک حیران تھا اور بولا عائشہ نقاب اتارو اور یہ پانی پیو ۔۔۔
خبردار اپنی گندی زبان سے میرا نام لیا وہ بھوکی شیرنی کی طرح دھاڑی ۔۔کیوں لے کر آئے ہو مجھے یہاں ،کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا ؟؟مجھے ابھی اور اسی وقت جانا ہے میرے ماں باپ تڑپ رہے ہونگے میرے لیے پتا نہیں میری امی کس حال میں ہونگی تمھارے غنڈے نے جو ان پر وار کیا تھا ۔۔مسلسل رونے سےاسکی آواز رندھ رہی تھی ۔
تم آرام سے بیٹھو میں تمھیں سب بتا دوں گا ۔۔۔
نہیں مجھے نہیں بیٹھنا یہاں اور نا ہی مجھے تمھاری کوئی بات سننی ہے عائشہ باہر کی طرف لپکی ۔۔
لیکن عبداللہ کی مضبوط گرفت نے اسے ادھر سے ہلنے نہ دیا
جبکہ عائشہ کا خون کھول رہا تھا اس طوفان بدتمیزی پر۔
اپنے غلیظ ہاتھ نہ لگاوء مجھے زبان سے بولو ۔۔۔
تم آرام سے بیٹھو گی تو میں بات کر سکوں گا ۔۔دیکھو پلیز مجھے واپس چھوڑ آو میں نے کیا بگاڑا ہے تمھارا ؟ میرے اوپر کیوں یہ ظلم کر رہے ہو؟ عائشہ مسلسل بے بسی سے رو رو کر زمین پہ بیٹھ گئی۔
دیکھو میں تمھیں سچ سچ بتانا چاہتا ہوں ادھر بیڈ پہ آکر بیٹھو !
نہیں میں ادھر ہی بیٹھو گی بس تم مجھے واپس چھوڑ آو۔
اچھا چلو یہ نقاب تو اتار دو عبداللہ نے آگے بڑھنا چاہا ہی تھا تو وہ دھاڑی خبردار جو تم ایک قدم آگے بڑھے ۔۔
دیکھو لڑکی شرافت سے میری بات سنو ورنہ انجام بہت بڑا ہو گا، یہاں صرف میرے اور تمھارے علاوہ کوئی نہیں ہے جو تمھاری مدد کو آئےگا اور تمھیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا عبداللہ نے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے دھمکایا ۔۔۔
میرا رب مجھے بچائے گا(حسبي الله و نعم الوكيل )بےشک میرے لیے میرا رب ہی کافی ہے "۔۔ عائشہ مسلسل اس کا ورد کئے جا رہی تھی ۔۔۔
دیکھو لڑکی حقیقت کو تسلیم کر لو تم اپنے گھر سے 2 سے 3 گھنٹے کی مسافت جتنا دور ہو چکی ہو ، یہاں پہ پولیس کا پہنچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے، قریبی گاؤں بھی ایک آدھ میل کی مسافت پہ ہے ، میرے سارے نوکر چاکر جا چکے ہیں اب تم میرے رحم و کرم پہ ہو ۔۔۔
(أعوذ بكلمات الله التامات من شر ما خلق )صحیح مسلم،مسند احمد،للنسائ ۔۔۔""میں اللہ کےکامل کلمات کے ساتھ ایسی تمام چیزوں کے شر سے پناہ چاہتی ہوں جنہیں اس نے پیدا کیا ہے ۔""
عائشہ نے اونچا اونچا پڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔
عبداللہ چلایا میں کہہ رہا ہوں بند کرو یہ ڈرامے بازی ورنہ وہ دانت پیس رہا تھا ۔۔
ورنہ کیا بگاڑ لو گے میرا ؟؟؟(إن الحكم إلا لله )56"اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے ۔"
تم میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو عبداللہ بولا ۔۔
مجھے تم اغوا کر کے لائے ہو اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے لیے اور چاہتے ہو میں تمھاری عزت کروں، تمھارے اشاروں پہ ناچوں، تم نے میرے باپ کی پگڑی اچھالی ہے میری ماں کو اپنے غنڈے سے مروایا ہے اور میری عصمت کو تار تار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔۔
دیکھو عائشہ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو تمھاری ایک جھلک نے میرے ہوش و حواس چھین لئے تھے ، میرا خود پہ کوئی اختیار نہیں رہا ہے ۔۔
فصلی بٹیرے جہاں پہ پکی فصل نظر آئی چونچ مارنا شروع کر دی لیکن اس دفعہ تمہاری چونچ ٹوٹے گی فصل کا ایک دانہ بھی تمھارے نصیب میں نہیں ہوگا میری رگوں میں ایک غیرت مند باپ کا خون گردش کرتا ہے، میری جان جائے پر میری عصمت پر ہر میلی آنکھ حرام ہے ۔۔۔
سمجھتی کیا ہو اپنےآپ کو؟ عبداللہ نے فورا لپک کر عائشہ کو گردن سے دبوچ لیا ، اسکی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا، 2 ٹکے کی لڑکی اسکی توہین کر رہی تھی اسکے سامنے اور اسکے ہی گھر ۔۔۔
عائشہ پانی سے نکلی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اسکو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی، مزاحمت میں اپنے ہاتھوں سے عبداللہ کے چہرے کو پیٹنا شروع کیا، اسکا حال پنجرے میں قید پرندے جیسا ہو رہا تھا جو صرف پھڑ پھڑا سکتا ہے ۔۔۔ عائشہ نے اپنی طاقت سے بڑھ کر اسکی ناک پہ مکا مارا جس سے اس کی ناک سے خون پھوٹ پڑا ۔۔اس نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی ۔۔۔ اسکی ناک سے خون ٹپ ٹپ فرش پر گرنا شروع ہو گیا ۔۔
عائشہ کو چھوڑ کر وہ فورا کمرے سے نکل گیا ۔۔عائشہ نے موقع غنیمت پاکر دروازے کی طرف بجلی کی تیزی سے بڑھی اور کمرے کو اندر سے کنڈی چڑھا دی اور خود دروازے کے سامنے فرش پہ بیٹھ گئی لیکن شاید یہ اطمینان بخش نہیں تھا اس نے کمرے میں پڑے دبیز صوفے کے ساتھ کھینچا تانی شروع کر دی ساتھ ساتھ دعائیہ کلمات کا ورد کر رہی تھی ۔۔۔
(الهم لا سهل إلا ما جعلته سهلا وأنت تجعل الحزن إذا شئت سهلا )ابن حبان :1974و سندہ حسن۔۔۔"اے اللہ کوئی کام نہیں آسان ہے مگر جسے تو آسان کر دے اور تو جب چاہتا ہے مشکل کو آسان بنا دیتا ہے" ۔۔۔۔
(لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين )الانبیاء :87،88 ۔۔"تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے ، بیشک میں ہی ظالموں میں سے ہوں ۔"
اللہ کی مدد سے وہ صوفے کو دھکیل کر دروازے تک لانے میں کامیاب ہو گئی پھر میز کو بھی گھسیٹ کر صوفے کے ساتھ جوڑ دیا تاکہ اگر وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے آسانی نہ ہو ۔۔۔
عبداللہ مسلسل چلا رہا تھا اور دھمکیاں دے رہا تھا دروازہ کھول دو ورنہ مار دی جاوء گی ۔لیکن عائشہ نے ایک رب پہ توکل کر کے اسباب کی تلاش شروع کر دی، اب یہ کمرہ اس کے لئے وقتی پناہ گاہ تھا جس سے نکلنے کے لئے اس کو کوئی حل ڈھونڈنا تھا ۔۔۔
عبداللہ دروازے کے باہر پیچ وتاب کھا رہا تھا ناک کافی حد تک سوجھ گئی تھی اور وقفے وقفے سے خون بھی رس رہا تھا، خون سے رمال پورا گیلا ہو گیا تھا، غصے سے وہ اپنی مٹھیاں بینچ کے رہ گیا ۔۔۔۔
بادل پھر سے گرجا ، بجلی کا کڑکا اس کے فارم ہاوس کے درو دیوار ہلانے کےلئے کافی تھا، چھم چھم بارش کا شور اسکو اور ہی بے چین کئے جا رہا تھا ۔۔۔
کیسی ڈھیٹ لڑکی ہے لگتا ہے کمانڈوز کے ساتھ رہ چکی ہے عبداللہ کو دو ٹکے کی لڑکی سے پٹ جانے کا غم کھائے جا رہا تھا، بھلا مجھے کیا ضرورت تھی باہر آنے کی ؟ادھر ہی بستر کی چادر سے ناک صاف کر لیتا، میری عقل پہ تو پتھر پڑ گئے، عبداللہ کو شدید پچھتاوا تھا۔۔۔
فارم ہاوس میں خاموشی کا راج، سوائے بارش کی رم جھم کے، چاروں طرف دل دھلا دینے والا سناٹا ۔۔۔
دروازہ توڑنا بھی جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر تھا، 4 سے 5 مرد ہی اس کو مل کر توڑ سکتے تھے یا پھر کوئی الیکٹرانک ڈرل جسکا دستیاب ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا ۔۔۔۔۔چار و ناچار ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ گیا ۔
عائشہ نے خوب رو دھو کر کھڑکی کی طرف جانے کا سوچا ہی تھا کہ دروازہ پھر سے دھڑ دھڑ کرنے لگا، شدید خوف کی لہر پورے جسم میں سرایت کر گئی اور بھاگ کر صوفے کے اوپر ہی بیٹھ گئی ۔۔ 5 منٹ کی خاموشی کے بعد نظر کمرے کے دوسرے دروازے پہ پڑی تو چہرے کا رنگ زرد ہو گیا جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو لیکن ہمت کر کے تیزی سے آسکی بھی باہر سے کنڈی لگا دی، چھوٹے سوراخ سے اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن تاریکی میں کچھ خاص نہ دیکھ پائی ۔۔۔