وقت کا کیا ہے پر لگا کر اڑ جاتا ہے دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
عائشہ آپی یاد ہے جب ہم مری گئے تھے، کتنا مزا آیا تھا، جیسے ہم آسمان کی بلندیوں کو چھو لیں گے اور اگر نیچے دیکھا تو پتھر کے ہو جائیں گے ۔۔۔
آہ کیسا وقت تھا وہ بھی آپی؟؟ زینب نے ٹھنڈی سانس لی جبکہ عائشہ کا پورا دھیان اپنی کتابوں پہ مرکوز تھا ۔۔۔
زینب پڑھنے دو مجھے! خود تو کتابیں کھولتے ہوئے تمھاری جان جاتی ہے کم از کم مجھے تو کچھ کرنے دو نالائق ۔۔
آپی آپ بھی نا اتنی باسی باتیں کرتی ہیں کہ اگلے ہی لمحے انسان کو ہیضہ اور دست شروع ہو جائیں توبہ توبہ اللہ کی پناہ ۔۔۔
زینب کی بچی میں نکالتی ہوں تیرے اندر کی ساری بھڑاس ادھر ہی ٹھہر ذرا ۔
آپی نے بھی قینچی چپل دے ماری جبکہ نشانہ خطا ہو کر اندر آتی رقیہ کے سینے میں پیوست ہوگیا جو بچاری ابھی جھاڑو سے فارغ ہو کر کمرے میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔۔
عائشہ آپی مجھے کس خوشی میں لتاڑا جا رہا ہے؟! رقیہ کی التجا اور زینب کی معنی خیز ہنسی نے اس کا پارا اور چڑھا دیا ۔۔
آج میں نے اس زینب کو نہیں چھوڑنا پیچھے ہٹو رقیہ ذرا !!
زینب نے چھلانگیں لگا کر رقیہ کے پیچھے پناہ لی اور پھر اونچی آواز میں آپی کو اور چڑانے کی ٹھانی
"میری خوبی پے رہتے ہیں یہاں اہل زباں خاموش
میرے عیبوں پہ چرچا ہو تو گونگے بول پڑتے ہیں "
عائشہ اور رقیہ بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی
چھوٹی تو بہت شرارتی ہے،سدھر جا ابھی بھی وقت ہے تیرے پاس ہے ۔
آپی آپ کی اس بات سے کھٹی ڈکاریں شروع ہو جائیں گیں بس کر دیں اور اپنی کتابوں کو سینے میں اتاریں
*************************************
عبداللہ کیا ارادہ ہے آج شام پھر ہو جائیں دو دو ہاتھ؟؟سمیر کے ہاں پارٹی کا اہتمام ہے بہت ساری تتلیاں بھی ہمارا دل لبھایں گی ۔ ظہیر پرجوش انداز میں عبداللہ کو قائل کرنے میں کوشاں تھا ۔
ظہیر تو فکر کیوں کرتا ہے یار محفل کو تو تیرے یار نے ہی لوٹنا ہے ۔عبداللہ اپنے کالر کو جھاڑ کر فخریہ انداز میں بولا ۔
چل دیکھتے ہیں پھر کون کتنے پانی میں ہے؟ ظہیر بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہ تھا ۔
عبداللہ بہت بڑے بزنس مین شبیر خان کا بیٹا دولت کی ریل پیل اوپر سے اللہ نے مردانہ وجاہت سے نوازا، بلا کا ذہین لیکن حلقہ احباب گندے تالاب کی گندی مچھلیوں کے مترادف جنکو اول درجے کے دل پھینک اور آوارہ مزاج کہنا کافی حد تک مناسب تھا ۔۔۔
محفل اپنے عروج پہ تھی مرد و زن کا کھلم کھلا اختلاط، عریاں لباس اور خوشبو میں معطر دعوت نظارہ دیتی رنگ برنگی تتلیاں جو کسی بھی لحاظ سے مسلمان گھرانوں کی باسی نہیں لگتی تھیں ۔۔۔۔
*************************************
عائش میری بچی کہاں ہو؟ تیرے بابا آگئے ہیں ان کے لئے دو روٹیاں ڈال اور دال کو تازہ بگھار بھی دے لے ۔امی نے سلائ مشین چلاتے ہوئے آواز لگائی ۔
نماز سے فراغت کے فورا بعد ہی عائشہ کچن کی طرف لپکی اور تازہ پھلکیوں کے ساتھ تڑکے والی دال طشتری میں سجا کر بابا کو پیش کی، سلام کے بعد پاس ہی بیٹھ گئی ۔۔۔
کام کے حال احوال کی پوچھ گیچھ اس کا روز کا معمول تھا ۔ جبکہ امی قمیض کی ترپائ میں مصروف تھیں ۔
گھر میں سب سے بڑی ہونے کا شرف اسے ہی حاصل تھا اسکے ساتھ ساتھ اپنے بابا کی آنکھوں کا تارہ، بابا بھی اکثر فرحت جذبات میں اکثر اسے بیٹے کے لقب سے نوازتے، بولتے میری بچی میرا مان اور ایک بہادر بیٹے جیسی ہے۔
دو کمروں کے اس گھر میں نسیم بیگم کی سلیقہ شعاری نے گھر کا سکون کبھی خراب نہ ہونے دیا، اپنی غربت کا کبھی رونا نہ رویا بلکہ ہر وقت اپنے ساتھ ساتھ تینوں بیٹیوں کو بھی اللہ کا شکرگزار بنایا ۔۔
سبزی فروش عبدالشکور نےرزق حلال کما کر تینوں بیٹیوں کو پالا جبکہ نسیم بیگم کو سلائ میں مہارت حاصل تھی جس نے کافی حد تک چھوٹی چھوٹی ضروریات زندگی کو پورا کیا۔ سکول کے یونیفارم سے لے کر کاپی کتابوں کا خرچا ۔۔۔
بیٹے کی کمی اللہ کی رضا سمجھ کر کبھی اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا ۔۔۔
عائشہ ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ،شرم وحیا کا پیکر،قرآن و حدیث سے بھرپور لگاؤ رکھنے والی وہ خوبصورت دوشیزہ کہ جس پہ ایک نظر ڈالنے والا آنکھ جھپکنا بھول جائے ۔
خوبصورت گول مٹول معصوم چہرہ،جھیل جیسی گہری بڑی آنکھیں اور گھنی پلکوں کی جھالر مخاطب کو متاثر کئے بنا نہ رکے ۔۔۔
بابا مجھے آپ کی اجازت درکار تھی، بابا وہ میری دوست سبین کی کزن کو اپنے بچوں کی ٹیوشن کے لئے ہوم ٹیوٹر چاہیئے،اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ گھر سے الگ ایک کمرہ ہےجہاں پہ باقی مکینوں کا داخلہ ممنوع ہو گا وہاں پہ صرف میں اور انکے 5 اور 7 سال کے دو بچے ہونگے جنکو میں نے پڑھانا ہے ۔۔۔ مودبانہ انداز میں عائشہ نے تفصیلات سے آگاہ کیا ۔۔
عبدالشکور نوالہ منہ میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہونہار بچی کی تجویز پر غورو فکر بھی کر رہے تھے ۔ اچھا چلو مجھے استخارہ کر لینے دو تو پھر دیکھتے ہیں انشاءاللہ ۔
بابا امی مجھے چھوڑ اور لے بھی آیا کریں گی کیونکہ ان کا گھر ہمارے گھر سے 3 گلیاں چھوڑ کر ہی تو ہے ۔۔۔
میں تو یہی چاہ رہی تھی بچے ادھر ہی آ جاتے تو اچھا تھا لیکن ان لوگوں کا اصرار ہے کہ ٹیوٹر گھر ہی آئے امی بولیں ۔
صبح کام جانے سے پہلے بابا نے اجازت دے دی اور ساتھ امی کو جانے کی تنبیہ بھی کی۔
عائش کے بابا ان لوگوں نے منہ مانگی رقم دینے کا اقرار کیا ہے اور ساتھ یہ بھی بولا ہے کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے بچے ان چھٹیوں میں کچھ قرآن بھی سیکھ لیں ۔
کتنے دن اور کتنے گھنٹوں کے لئے جانا ہے؟؟؟ بابا نے پوچھا
سوموار سے جمعرات روزانہ 3 گھنٹے عائشہ نے جواب دیا۔
گہری سانس لے کر بابا بولے چلو ٹھیک ہے باقی جو اللہ کو منظور ہو گا ۔
ظہر کی نماز کے بعد دونوں ماں بیٹی پیدل چلنے کے بعد مطلوبہ گھر کے باہر موجود تھیں
چوکیدار کی پوچھ گیچھ کے بعد اندر کا
نظارہ نہایت ہی قابل غور تھا، ایک طرف 2 بڑے کتے باچھیں کھولے کسی بھی لمحے حملے کے لئے تیار بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف نہایت ہی وسیع و عریض خوبصورت پھولوں سے سجا لان جہاں پہ مالی تراش خراش میں مصروف تھا ۔
مختصر انتظار کے بعد بچوں کی آیا نے انھیں اندر آنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ساتھ بتانے لگی بچے ابھی دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں میں ابھی انکو لاتی ہوں ۔
عائشہ کے سوال پہ آیا کو پلٹنا پڑا جی وہ بیگم صاحبہ رات دیر سے گھر آئیں تھیں لہذا ابھی سو رہی ہیں ۔
بچوں کی ساری ذمہ داری میرے ذمہ ہے ۔آپکو کوئی بھی مسئلہ ہو آپ مجھے پیغام دے سکتی ہیں ۔ آیا نے اپنی حیثیت کو واضح کر دیا جبکہ عائشہ کو آنے والی صورت حال کا اندازہ بخوبی ہو چکا تھا ۔
5منٹ کے بعد 7 سالہ بسیلہ اور 5 سالہ احمر اپنی شوخ چنچل حرکتوں کے ساتھ آ دھمکے ۔ساتھ ہی آیا نے 5 ہزار روپے عائشہ کو ایڈوانس میں پکڑا دیے اور باقی 15 ہزار آپ کو مہینے کے آخر میں ملیں گے ۔بیگم صاحبہ نے کل ہی مجھے دیے تھے تاکہ میں آپ تک پہنچا دوں، ہر موقعے پہ آیا اپنی حیثیت کو واضح کر رہی تھی ۔ ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے عائشہ نے نہایت ادب سے جواب دیا۔۔۔
عائشہ کی شخصیت شناس طبعیت اس بات کا بخوبی اندازہ کر سکتی تھی ان بچوں کو پڑھانا کسی چیلنج سے کم نہ تھا ۔ لیکن وہ بھی ہر چچیلنج کے سامنے ڈٹ جانے والوں میں سے تھی ۔
خیر اگلی صبح 10 بجے سے 1 بجے تک انکو دنیاوی تعلیم سے لے کر قرآن پڑھانے کا حکم نامہ جاری ہوا ۔بچوں کے اندر خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن بعض اوقات یہ چیز انھیں بدتمیزی کی طرف لے جاتی ۔
عائشہ کی سحر انگیز شخصیت سے بچے آہستہ آہستہ کافی حد تک اس سے مانوس ہو رہے تھے ۔۔۔۔
********************************
بسیلہ احمر کیسے جا رہی ہے تم دونوں کی ٹیوشن؟؟؟ عبداللہ نے صوفے کے اوپر خود کو گراتے ہوئے پوچھا ۔
دونوں نے یک زبان ہو کر ضرورت سے زیادہ اونچی آواز میں بولا "بہت ہی اچھی جا رہی ہے"۔
عبداللہ نے لمبی سانس کھینچتے ہوئے بولا تم لوگوں کی ٹیچر کو تو دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی بھی وقت بغل سے "بم "نکال کر پھاڑ دیں گی، اور جو جہازی سائز کا ٹینٹ اوڑھا ہوتا ہے دیکھ کر ہی سانس بند ہوتی ہے ۔۔۔
عبداللہ باز آ جاوء بھابھی نے مصنوعی غصہ دکھایا .
چاچو آپ کیا جانیں ہماری ٹیچر کتنی اچھی ہیں ، ہمیں تو دل و جان سے پیاری ہیں دونوں پر جوش لہجے میں بولے!
اچھا چاچو سے بھی اچھی؟؟؟جی ہاں!!!!
ہاے رے میرے نصیب آج یہ بھی دن دیکھنا تھا بھابھی، عبداللہ نے شکستہ دل ہونے کی بھرپور کوشش کی ۔ بچوں سمیت بھابھی کی بھی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔
ذرا دھیان رکھنا بھابھی کہیں دہشت گرد ہی نہ بنا دے ہمارے جشم و چراغوں کو، اس کا حلیہ دیکھ کر مجھے تو خوف آتا ہے ۔
کالے برقعے میں ڈھکی دہشت گرد !!!
چاچو آپ ایسی باتیں نا ہی کریں تو بہتر ہے ورنہ ہم اپنی ٹیچر کو بتا دیں گے !!!
ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ٹیچر کو آتے ہوئے اور یہ دیکھو کیسے گن گا رہے ہیں ۔
بھابھی ذرا چیک کرنا کوئی منتر تو نہیں پڑھتی ان کے اوپر؟! عبداللہ تم اپنی ٹانگ نہ ہی اڑاو تو بہتر ہے ۔
بھابھی ابھی تو مجھے آپ پہ بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے ۔ ابھی تو اس ٹیچر کو دیکھنا پڑھے گا عبداللہ سر کھجاتے ہوا بولا ۔
خبر دار !!! عبداللہ جو اس طرف جھانکے بھی ، اس نے اسی شرط پہ آنا شروع کیا ہے کہ پردہ کی حد کو پار نا کیا جائے، ورنہ وہ نہیں پڑھاے گی ۔
بھابھی شہر بھرا پڑا ہے اس طرح کی مڈل کلاس لڑکیوں سے ۔ 1 چھوڑ سینکڑوں ٹیچرز مل جائیں گی ۔
عبداللہ تم اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے ۔
جبکہ عبداللہ کے دل میں تجسس بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
*****************************************
آپی آپی!! زینب رقیہ 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہانپتی اس کے پاس پہنچی ۔ کیا ہو گیا ہے میری ننھی چڑیلوں کو ؟؟ دیوار چین سر کرنے کی دعوت ملی ہے جو اتنا چلا رہی ہو؟؟؟
آپی اگر جان کی امان پائیں تو کچھ عرض کریں؟!
نہیں کوئی جان کی امان نہیں ہو گی، دونوں نے ایک ایک کام کرنا ۔
توبہ توبہ آپی آجکل تو نیکی کا زمانہ ہی نہیں رہا ، دونوں نے منہ بسورتے ہوا بولا۔ایک تو خوشخبریاں سناو اور اوپر سے سلواتیں بھی سنو ۔
زینب رقیہ مصنوعی غصہ دکھا رہی تھیں، جبکہ عائشہ کا موڈ انکو چھیڑنے کا ہو رہا تھا ۔
اچھا چلو ایک معاہدہ کرتے ہیں رقیہ میرے سر میں مالش کرے اور زینب پوچا لگائے گی ۔۔۔
نا بابا نا دونوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے، اس سے بہتر ہے کہ ہم اس خبر کو شام تک ہضم کر لیں اور آپ شام تک تڑپتی رہیں ۔جب تک امی آپکو اپنی عدالت میں پیشی کے لئے بلائیں ۔
اندر سے عائشہ کو بھی فکر لا حق ہو رہی تھی بولی اچھا بتا بھی دو اب، کتنی دیر میرا سر کھاوء گی ۔ دونوں بہت ہی نالائق ہو۔ دونوں نے منہ بسورتے ہوئے بولا !
ابھی کاٹن کا ایک ایک سوٹ جرمانہ ہے ۔چلو ٹھیک ہے ننھی چڑیلو لے دوں گی دونوں کو۔ عائشہ نے ہاتھ جوڑ دیئے ۔
آج کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ درس قرآن کے بعد امی کو ایک جاننے والی آنٹی جمیلہ ملی ہیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مغیث کے رشتے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ عائشہ کے چہرے کے رنگ بدلے لیکن اندر کی کیفیت کو چھپاتے ہوئے مصنوعی خفکی دکھائی "۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا "اور وہ بھی مرا ہوا۔
محترمہ آپی جان ہمارے ہونے والے بہنوئی جی خوبیوں سے بھرپور ہیں ۔
خوبی نمبر 1:صوم و صلاتہ کے پابند اور سنت رسول اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ ۔
خوبی نمبر 2:آرمی میں کیپٹن ہیں اور وہ کاکول سے واپسی پر ہمارے گھر آپ کو دیکھنے ہمارے گھر آ رہے ہیں ۔
انکی امی تو آپ کو منتخب کر چکی ہیں اب صرف وہ آپ کا دیدار کرنا چاہتے ہیں ۔
ہمیں تو پورا یقین ہے کہ وہ دل کی بازی ہار جائیں گے ۔ دونوں چٹخارے لے کر بول رہی تھیں جبکہ عائشہ شرم سے لال پیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔
آخر وہ دن بھی آگیا جب کیپٹن مغیث اپنے والدین کے ساتھ آرہے تھے ۔ گھر میں چہل پہل تھی، پہلے سے مرتب گھر کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا جا رہا تھا ۔اپنی حیثیت کے مطابق کھانے کا اہتمام ہوا ۔
عائشہ کو خاص ہدایات جاری کی گئیں ۔
زینب رقیہ کو تو بس موقع چاہیئے تھا اسکو چھیڑنے کا، انکے قہقہے فلک گیر ہو رہے تھے ۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہو رہی تھیں ۔
دستک نے عائشہ کے دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کر دیا ۔
چہرے کی چمک میں شرم کی لالی اسکے سراپے کو چار چاند لگا رہی تھی، برقعے اور سفید دھاری دھار چادر میں لپٹی یہ معصوم کلی کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ شرم سے جھکی سیاہ پلکوں کی جھالر اور سفید نورانی چہرہ کسی بھی نوجوان کی دھڑکنوں کو منتشر کرنے کے لیے کافی تھا ۔
امی اور آنٹی جمیلہ برآمدے میں محو گفتگو تھیں جب عائشہ کو بابا نے چائے لانے کے لئے بیٹھک میں بلا بھیجا ۔
طشتری میں چائے کے ساتھ پکوڑے اور بسکٹ سجائے اور جانے کی ٹھان لی اوپر سے رقیہ زینب کی چہ مگویاں اس کا سانس پھلا رہیں تھیں ۔ تم دونوں ادھر ہی بیٹھو اور میری واپسی تک ادھر سے نہیں ہلنا سمجھی تم دونوں !!
آپی ہماری فکر نا کریں اپنی خیر منائیں ۔
مجھے ذرا واپس آنے دو پھر دیکھنا!!!
چھوٹی سی بیٹھک میں 4 پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک پلاسٹک کی میز کے علاوہ ایک کونے میں چارپائی بچھی تھی جس پہ نہایت مہارت سے کڑھی چادر بچھی تھی، اور پھر چارپائی کے نیچے امی کی سلائ مشین کو ڈھانپا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
طشتری تھامے وہ دھیرے سے اندر داخل ہوئی اور ہلکے سے سلام بولا جسکو بمشکل بابا ہی سن پائے ۔ بابا نے چائے انڈیلنے کا حکم صادر کیا ، کانپتے ہاتھوں کے ساتھ چائے انڈیلتے نظر فوجی صاحب کے جوتوں پہ گئی، دل میں سوچا اتنے بڑے پاوں؟!!! اس بندے کا ایک جوتا پڑے تو بندہ 10 میل دور گرے ۔ عائشہ اندر ہی اندر سوالات کے جوابات خود ہی دے رہی تھی ۔۔۔
عائشہ کا حسین سراپہ کیپٹن مغیث کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کئے جا رہا تھا ۔ عائشہ کو تو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے ۔
ایک دفعہ نظر اٹھانے کی کوشش کی لیکن مغیث کی والہانہ نگاہوں کی تاب نہ لا سکی تو فورا نظروں کو جھکا لیا ۔۔۔
بابا نے مغیث کو مخاطب کرتے ہوئے بولا آپ نے کچھ پوچھنا ہے تو عائشہ سے پوچھ سکتے ہیں ۔۔
عائشہ کی تو جان پہ بن رہی تھی پہلے ہی اوپر کا سانس اوپر تھا اور ابھی سوال و جواب کا سلسلہ، یا اللہ تو ہی آسانی کر دل ہی دل میں ورد کئے جا رہی تھی ۔
انکل مجھے تو کچھ خاص نہیں پوچھنا ان سے بس یہی کہ انکو میرے مختلف علاقوں میں تبادلے سے کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا میرا مطلب ہے آپ لوگوں سے دوری کا؟؟؟؟؟
مغیث نے سوالیہ نظروں سے عائشہ کے چہرے کو اپنے حصار میں لے لیا، عائشہ نے فورا گردن نفی میں ہلا دی ۔
عائشہ آپکو کچھ پوچھنا ہے تو آپ پوچھ سکتی ہیں مغیث سے۔۔۔۔
جی نہیں مجھے اور کچھ نہیں پوچھنا بڑی مشکل سے گلے سے آواز نکالی ۔۔۔
شکر شکر کر کے بابا نے اس کو واپسی کا عندیہ سنا دیا ۔۔۔
باہر نکلتے ہی اس نے لمبی سانس کھینچی ۔۔
***************************************
اوئے کمینے ظہیر تجھے کتنے دنوں سے فون کر رہا ہوں تو فون کیوں نہیں اٹھاتا کدھر تھا ؟؟
نہیں یار بس ادھر ہی تھا بس اس دن پارٹی سے رات واپسی پر ڈیڈ نے دھر لیا آو دیکھا نا تاؤ، بس کچھ پوچھ نا یار صرف مارا نہیں ہے باقی کسر نہیں چھوڑی ۔
ظہیر افسردہ دل کے ساتھ عبداللہ کو اپنا دکھڑا سنا رہا تھا ۔
کوئی نہیں یار تو دل کیوں جلاتا ہے ؟!
یہ آنی جانی بات ہے ۔۔۔۔عبداللہ نے وقتی طور پر تسلی دی ۔۔۔
نہیں یار ابھی تو مجھے اپنے ساتھ آفس آنے کو کہا ہے اور پھر چار و نا چار جانا پڑھ رہا ہے اور واپسی پہ اتنی تھکاوٹ ہوتی ہے۔۔۔
اچھا تو سنا کیا ہو رہا ہے آجکل؟؟؟ کس کے ساتھ نئی دوستی چل رہی ہے ؟؟ ظہیر نے پوچھا
کوئی ایک ہو تو پوچھ ابھی تو نام بھی یاد نہیں رہتے، وہ یاد ہے پارٹی والی رات سمیرا جسکو ہم نے گھر واپسی پہ لفٹ دی تھی وہ بڑے میسجز بھیج رہی ہے ، ملنے کا بھی بہت اصرار ہے اس کا ، کسی دن چلتے ہیں اس سے ملنے، ہاں ٹھیک ہے یار ۔۔۔۔ ظہیر نے ہامی بھری ۔۔۔۔
اوئے چھٹی کب ہے تجھے؟؟ عبداللہ نے پوچھا
او یار ابھی چار دن ہی تو ہوئے ہیں جاتے ہوئے چھٹی کا پوچھا تو ڈیڈ نے میری درگت بنا دینی ہے ۔۔۔
عبداللہ یار تو بڑے بھائی کا چہیتا ہے سر پہ نا والدین ہے ہیں جو پوچھ تاچھ کریں اور بڑے بھائی نے انگلی پہ چھالے کی طرح رکھا ہوا ہے ، جتنی مرضی آوارہ گردی کر لے تجھے تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے اور ادھر میرے ابا حضور ہیں ہر وقت انکی کڑی نظریں میرا تعاقب کرتی ہیں ۔۔۔
بس اب اتنا غمگین نہ ہو جیسے تو تو کبھی باہر گیا ہی نہیں ہے عبداللہ نے کھری سنا دی ۔۔۔۔
میرے بھائی کو شکایت کا موقع ہی نہیں ملتا میرے ہر وقت ٹاپ نمبر جو ہوتے ہیں لالے ۔۔۔۔۔
جوانی میں ادھر ادھر تھوڑی بہت مستی تو چلتی ہے میرے یار ۔۔۔۔ عبداللہ بولا ۔۔۔
خیر چل تو دل نہ جلا تیرے غم کا بھی مداوہ کرتے ہیں ۔۔۔
**************************************