اگر آپ اس گمان میں ہیں کہ سیٹھ لطیف کانجی کی اس کہانی کو ابھی کچھ اور حیرت انگیز موڑ کاٹنے ہیں، کسی اور انوکھے اور ہلا ڈالنے والے کلائمکس کی طرف جانا ہے، تو سمجھ لیجئے کہ آپ بالکل غلط ہیں۔
کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کسی بھی سانچے میں ڈھل جاتی ہیں، کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔
سیٹھ لطیف کانجی کی ڈائریوں میں جو داستان بکھری ہوئی تھی، وہ یہی تھی۔ پراسرار۔ عجیب و غریب۔ تقریباً ناقابل یقین۔
مگر کیونکہ یہ اتنی زیادہ عجیب و غریب تھی اور کیونکہ برسوں کی صحافتی تربیت نے مجھے بے حد شکّی اور کسی بھی بات پر آسانی سے یقین نہ کرنے والا بنا دیا ہے اور کیونکہ کراچی کے تاریخی ریکارڈ کو چیک کرنا میرے لئے کچھ زیادہ مشکل نہ تھا لہٰذا میں نے یہ عجیب و غریب کہانی لکھنے سے پہلے واقعات کو تاریخ وار چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے معمر کاروباری لوگ بھی ڈھونڈ نکالے جو سیٹھ لطیف کانجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ اور بلدیہ کی پرانی فائلوں تک رسائی حاصل کی۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا تو میں شاید کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکوں گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں نے یہ ساری بھاگ دوڑ اس لئے کی کیونکہ میں ایسی پراسرار قسم کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ علم نجوم، اعداد، دست شناسی،یہ سب مجھے مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا تھا کہ مجھے کچھ ایسے سراغ مل جائیں جن کی وجہ سے سیٹھ لطیف کانجی کی کہانی کا سارا تانا بانا بکھر جائے۔
میری بھاگ دوڑ بے سود رہی۔ بیشتر واقعات انہی تاریخوں کو رونما ہوئے تھے جو ان بوسیدہ ڈائریوں میں درج تھیں۔ کچھ نئی باتیں ضرور معلوم ہوئیں مگر ان کا تعلق اعداد سے نہیں، خود سیٹھ لطیف کانجی کی شخصیت سے تھا۔ ہر سیٹھ کی طرح اس نے بھی بہت سے گھپلے کئے تھے۔ زمینوں کے غیر قانونی الاٹمنٹ، ٹیکس چوری، ناقص تعمیرات، سرکاری قرضے ہڑپ کر جانا۔، ڈائریوں میں اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔ دو تین عورتیں بھی اس کی زندگی میں آتی جاتی رہی تھیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان میں سے ایک عورت کو اس نے گارڈن ایسٹ کے علاقے میں مکان بھی لے کر دیا تھا۔ مگر ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے ثبوت بھی اب وقت کی گرد میں دفن ہو چکے تھے اور ان کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہی تھی۔
مجھے سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب میں نے تیس برس پرانے اخبارات کی فائلوں میں اس کی موت کی خبر تلاش کرنا شروع کی۔ پیر 9 اپریل کے تین اردو روزناموں اور شام کے ایک انگریزی اخبار میں وہ خبر موجود تھی۔ شام کے انگریزی اخبار نے خبر کے ساتھ سیٹھ لطیف کانجی کی سنگل کالم تصویر بھی شائع کی تھی۔ وہ اپنے باپ کی طرح پچاس سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ ان خبروں کو دیکھتے دیکھتے مجھے یاد آیا کہ اگر یہ خبر پیر کو شائع ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سیٹھ لطیف کانجی کا انتقال اتوار کو ہوا ہو گا۔ یعنی 8 اپریل کو۔ 8 اپریل 1984ء کو۔
لمحہ بھر کو سب خبریں دھندلا گئیں اور جیسے کسی نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ آٹھ چار آٹھ چار!
میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔ بس کبھی کبھی کوئی سیٹھ لطیف کانجی ٹکرا جاتا ہے اور لکھنے والے کے اعتماد کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:ادب سلسلہ ۲، تشکر: تبسم فاطمہ
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید