سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔
کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ کوئی نام ذہن کے افق پر پل بھر کو چمکے تو وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرے، کسی سے پوچھے، پرانے ریکارڈ ٹٹولے، یہ ساری محنت کر بھی لی جائے تو اس کا کیا حاصل؟ تحقیق بھی اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے نتیجے میں چار پیسے ملنے کی توقع ہو۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں خود بھی سیٹھ لطیف کانجی کے نام سے واقف نہیں تھا۔
ایک تقریب کے دوران کسی نے میرا تعارف رفیق کانجی سے کرایا جو سیٹھ لطیف کانجی کا بیٹا تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا، گورا چٹّا آدمی تھا جس کے بال سفید ہوتے جا رہے تھے مگر ادھیڑ عمری کے باوجود اس کے چہرے پر لڑکپن تھا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کی فیملی پہلے بمبئی میں اور پھر کراچی میں رہتی تھی لیکن پھر وہ لوگ بیس پچیس سال قبل امریکہ منتقل ہو گئے۔
وہ بڑی دلچسپ گفتگو کرتا تھا۔ عجیب و غریب، تقریباً غلط اردو اور رواں انگریزی کا ملغوبہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پہلے اپنے ذہن میں جملے کا ترجمہ کرتا ہو اور پھر جملہ ادا کرتا ہو۔ بات کرتے وقت اس کی آنکھیں شرارت سے چمکتی تھیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو محفل آرائی کے ماہر ہوتے ہیں۔
تقریب ختم ہوئی تو وہ میرے پاس آیا اور بولا۔ ’’کیا ہم بات کر سکتے ہیں؟‘‘
میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’کیوں نہیں۔‘‘
وہ مجھے ہال کے ایک کونے میں لے گیا جہاں ہم دو کرسیاں گھسیٹ کر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
اس نے کہا۔ ’’بہت میری بدقسمتی ہے، آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔‘‘
میں ہکّا بکّا رہ گیا۔
اس نے میرے تاثرات دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں، نہیں۔ میرا مطلب فرق تھا… یعنی آپ سے اتنی دیر بعد ملاقات ہوئی۔ یہ ہے بدقسمتی۔ آئی ایم سوری، میں اردو میں ذرا…‘‘
میں ہنس پڑا۔ ’’اس میں بد قسمتی کہاں سے آ گئی؟‘‘
اس نے سر جھٹک کر کہا۔ ’’بدقسمتی مسٹر احمد، کہ مجھے کل واپس امریکہ روانہ ہو جانا ہے۔ ڈیوٹی کالز۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’بزنس کا خیال کرنا ہوتا ہے، ورنہ بزنس تمہارا خیال نہیں رکھتا۔‘‘
میں اخلاقاً مسکرایا۔
وہ کچھ سوچ کر بولا۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک رائٹر ہیں۔ اینڈ اے جرنلسٹ ایز ویل؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’یس۔ مگر ایک تو میں صحافت چھوڑ چکا ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ میں اردو میں لکھتا ہوں۔‘‘
’’کوئی فرق نہیں اس سے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اگر میں آپ کو ایک اسٹوری دوں۔ اے ویری ڈفرنٹ اسٹوری۔ تو کیا آپ اتنے مہربان ہوں گے کہ اسے لکھ دیں؟ اپنے اسٹائل میں، آف کورس۔‘‘ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔
مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے صاف صاف کہوں، میں فرمائشی کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا ہو، اگر آپ مجھے پوری بات بتا دیں۔ میرے لئے ممکن ہوا تو میں ضرور کوشش کروں گا۔ کیسی اسٹوری ہے آپ کے پاس؟ اور آپ یہ کہانی مجھ سے کیوں لکھوانا چاہتے ہیں؟‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی کی اسٹوری ہے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’سیٹھ لطیف کانجی کی؟‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
میں نے کہا۔ ’’آپ سوانحِ حیات لکھوانا چاہتے ہیں؟ بایوگرافی؟‘‘
’’نو، نو۔‘‘ اس نے تڑپ کر کہا۔ ’’بایو گرافی نہیں مانگتا ہوں۔ دیکھئے۔ میں کچھ اور کہہ رہا ہوں۔ یہ ان کی پوری لائف ہے جو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائریوں میں ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں؟ اور اس میں کچھ ایسا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ کچھ بہت ہی امیزنگ۔ یقین نہیں آتا اس پر۔ لیکن امی کہتی تھیں، بالکل سچ ہے۔‘‘
میں خاموش رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔
اس نے کہا۔ ’’دیکھئے۔ میں آپ سے ڈیل کرتا ہوں۔ میں آپ کو وہ ڈائریاں بھیج دیتا ہوں۔ اگر آپ کو بھی وہی لگے جو مجھے لگتا ہے تو آپ اسٹوری لکھئے گا۔ نہیں لگے تو واپس۔ سینڈ می دی ڈائریز بیک۔ او کے؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘
وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی پارٹیشن کے وقت پاکستان آئے تو تیرہ چودہ سال کے تھے۔ اور پچاس کی عمر میں، ختم۔ کراچی ان کا سب کچھ تھا۔ ایوری تھنگ۔ میں نہیں جانتا کیوں، مگر میں چاہتا ہوں، کراچی ان کی اسٹوری جان لے۔ اگر کوئی رائٹر اردو میں وہ اسٹوری لکھ سکے۔ اور تھوڑی ریسرچ بھی کر سکے جرنلسٹ کی طرح۔ دیئر از نو وَن اِن مائی سرکل، جو ایسا کر سکے۔ اس لئے میں نے اتنی بدتمیزی سے آپ سے یہ ریکوئسٹ کی ہے۔ آئی ہوپ، آپ نے برا نہیں مانا ہو گا۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں رفیق صاحب۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی ذرا بد تہذیبی سے یہ پوچھ لوں کہ آپ اپنے ڈیڈی کی ڈائریوں کی مدد سے کہانی کیوں لکھوانا چاہتے ہیں؟ کیوں چاہتے ہیں کہ کراچی ان کی کہانی جان لے؟ ایسی ڈائریاں بالکل نجی… میرا مطلب ہے، بالکل پرائیویٹ ہوتی ہیں۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ان ڈائریوں میں لکھی باتوں کو دنیا کے سامنے رکھ دیں؟‘‘
وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ ’’گڈ۔ ویری گڈ۔ اگر آپ نہ کرتے یہ سوال تو مجھے مایوسی ہوتی، تھوڑی تھوڑی۔‘‘
مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے جان بوجھ کر اپنی ذہانت پر خوش مزاجی اور کھلنڈرے پن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔
اس نے کہا۔ ’’یہ سوال میں نے خود سے بھی کیا۔ امی جب زندہ تھیں تو ان سے بھی بات کی تھی۔ میرا پرسنل خیال یہ ہے کہ جو پرانے لوگ ڈائریاں لکھتے تھے، یہ در اصل چاہتے تھے کہ جب وہ نہ رہیں تو کوئی نہ کوئی ان کی کہانی جان لے۔ آپ میرا پوائنٹ سمجھ رہے ہیں؟ یعنی کیوں لکھتا ہے کوئی ایسی باتیں؟ اتنی ڈی ٹیلز کے ساتھ؟ آئی ہوپ… بلکہ آئی ایم شیور کہ ڈیڈی بھی یہی چاہتے تھے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں محبت تھی اور اس کے لہجے میں وہ اعتماد تھا جو اپنے باپ کی کرسی پر بیٹھنے والے ذمہ دار بیٹے کے لہجے میں ہوتا ہے۔
وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔
ایک، دو دن مجھے اس کی باتیں یاد آتی رہیں۔ پھر زندگی کی بھاگ دوڑ نے سب کچھ بھلا دیا۔
دو ہفتے بعد مجھے کوریئر کے ذریعے گتّے کے تین بڑے، مضبوط بکس موصول ہوئے۔
وہ سترہ ڈائریاں تھیں۔ کچھ پتلی، کچھ موٹی۔ کچھ خاصی خستہ ہو چکی تھیں اور ان کے کاغذوں کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔
سیٹھ لطیف کانجی کے بیٹے نے سچ کہا تھا۔ ان ڈائریوں میں پوری زندگی درج تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ دو زندگیاں۔ ایک تو وہ عام سی زندگی، جو کاروباری معاملات کے گرد گھومتی تھی۔ پیسوں کا لین دین، نفع اور نقصان کا حساب کتاب، تعمیری اخراجات کے گوشوارے، عمارتوں کی تفصیل،واجب الادا قرضے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کہانی بھی چلتی تھی۔ بین السطور۔ خاموشی سے۔ جیسے سایہ، آدمی کے ساتھ چلتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ بے سر و پا لگتی تھی۔ یعنی ایسی کہانی، جسے پڑھ کر آپ ہنسیں اور سر ہلا کر کہیں، کیا بکواس ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ مشتعل کرتی تھی۔ چیلنج کرتی تھی۔ تحقیق کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور گزر جانے والے برسوں میں جا کر ریکارڈ چیک کرنے اور حقائق کی تصدیق کرنے پر اکساتی تھی۔
شاید یہ کہنا ضروری نہیں کہ مجھے اس جال میں پھنسنا ہی تھا۔
…٭٭…